میرا لان
اسپیشل فیچر
انشائیہہر صبح اور شام میں اپنے گھر کے لان میں نرم گھاس پر بیٹھ جاتا ہوں اس سمے خیالات کے نئے در وا ہوتے ہیں کسی اعلٰی مسند پر بیٹھنے سے یہاں بیٹھنا مجھے اس لیے بھی عزیز ہے کہ بڑی بڑی مسندوں سے اٹھائے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے جب کہ اس گھاس نشینی (جو ایک حد تک خاک نشینی بھی ہے ) میں ایسے کسی نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔جب صبح کے وقت میں اس لان میں سیر کرتا ہوں تو گھاس پر پتوں پر اور پھولوں پر جھلملاتے شبنمی قطروں کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتا ہوں با دِ صبا کے جھونکوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے یہ ننھے نو مولود قطرے اپنے مختصر زندگی سے کس قدر بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ ابھی تیز نوکیلی کرنوں والی دھوپ نکلے گی اور یہ ننھے قطرے بخارات بن کر اڑ جائیں گے ۔ان کی موت کا پیغام لانے والی دھوپ پر لطف باد صبا کے پیچھے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ انسان بھی تو اپنے شب و روز میں انہی بے خبر اور بھولے بھالے قطروں کی طرح ہنستا کھیلتا رہتا ہے اجل سے بالکل بے نیاز۔ باغ اور چمن بنانا اک طرح سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے مغل حکمران باغوں اور بیگمات میں مصروف تھے کہ اسی اثناء میں انگریز تاجر کے روپ میں وارد ہوئے اور تاجور بن گئے لیکن اس میں باغوں کا کیا قصور پودے اور پھل پھول حیاتیات کی رو سے زندہ ہوتے ہیں اور احساس کے حامل بھی ہوتے ہیں جبھی تو اگر کلی سے پوچھیں کے گل کو کتنا ثبات ہے تو وہ جواباً تبسم کرتی ہے یہ گل بوٹے بعض خصوصیات میں انسانوں سے بڑی حد تک مماثلت رکھتے ہیں انسان اور پودے دونوں ہی زندہ ہیں چھوٹے سے بڑے ہوتے ہیں ، حسیت رکھتے ہیں ، سانس لیتے ہیں ، اس مماثلت کے ساتھ ساتھ پودوں میں کئی خوبیا ں ایسی بھی ہیں جو انسانوں میں عموماًنہیں ہوتی مثلاً میرے اکثر دوست احباب میری باتیں تحمل سے نہیں سنتے بس اپنی کہی جاتے ہیں مگر جب میں اپنے لان میں موجود درختوں اور پتوں سے دل کی باتیں کرتا ہوں تو وہ ناصرف میرے بات توجہ سے سنتے ہیں بلکہ اکثر لہلہا کر جواب بھی دیتے ہیں ۔ نازک احساسات ہر ذی روح میں ہوتے ہیں مگر کسی میں کم کسی میں زیادہ انسانوں میں یہ احساسات کبھی بدرجہ اتم ہوتے ہیں اوار کبھی نہ ہونے کے برابر کوئی چپ کو بھی سمجھ جاتا ہے اور کسی پر واویلہ بھی بے اثر ہوتا ہے۔ کوئی کلام ِ نرم و نازک پر پھڑک اٹھتا ہے اور کہیں عمر بھر کا رونا بھی بے کار جاتاہے میرے لان میں موجود چھوئی موئی کا پودا مجھے اس لیے بھی بہت حسین اور نازک اندام لگتا ہے کہ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اگر کبھی بھولے سے بھی میرا ہاتھ اسے مس ہوجائے تو وہ پہلی رات کی دلہن کی طرح شرم حجاب اور معنی خیز خجالت سے سمٹ سمٹ جاتا ہے ۔ پہلے پہل تو میں اس کی اس ادا کو انجوئے کیا کرتا تھا مگر اب اسے چھوتے ہوئے ڈر جاتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اس کا نازک سا آبگینہ کہیں ٹوٹ جائے۔ میرے لان کے ایک طرف پرانا برگد بھی ہے ، بوڑھا جہاندیدہ، زمانے کے گرم سردچشیدہ بزرگ برگد ۔ غور سے دیکھوں تو لگتا ہے پنچایت میں سر پنچ بیٹھا ہوا ہے۔ ہر پودے ،ہر پھول ، ہر کلی کی بات سنتا ہے ،ہنکارے بھرتا ہے گھاس کی پتی سے لیکر ایرو کیریا کے پودے تک اور گل ِ اشرفی سے لیکر گلاب تک سب پر دست شفقت رکھتا ہوا نظر آتا ہے ۔ چمن کے سارے باسیوں کو بتاتا ہے کہ ہر پھول کی قسمت ہیں نازِ عروساں ، سہرے کی زینت بننا، گجروں میں ہنسنا، نازک کانوں اور خوشبودار بالوں کے جوڑے میں چھپ کر مسکرانا نہیںلکھا ہوتا ۔ کچھ پھول مسلے بھی جاتے ہیں کچھ مزاروں کی زینت بھی بنتے ہیں پھر اپنی بزرگی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ کہ میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں۔ میری جڑیں بہت گہری ہیں مجھے نا تو کوئی دستار میں رکھ سکتا ہے نہ زیب گلو کر سکتا ہے۔پھولوں کو تو کبھی کسی گملے میں اور کبھی ادھر ادھر اکھاڑ کر لگایا جا سکتا ہے مگر برگد کو نہیںانسانوں میں بھی ایسا ہوتا ہے عظیم انسانوں کو اپنے مقصد کی جڑوں سے اکھاڑ کر کسی ابن الوقت اور مفاد پرست گملے میں نہیں لگایا جا سکتا ۔ بعض اوقات مجھے اپنے لان کے زمینی حقائق ، وطن ِ عزیز کے حالات اور اسلامی دنیا کی صورت حال سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ میرے لان میں پانی ساتھ والی سرکاری کوٹھی سے آتا ہے وہ لوگ اکثر پانی بند کر دیتے ہیں تو خشک سالی میرے لان پر چھا جاتی ہے (خشک سالی کے اندر موجود لفظ سالی کا بیوی سے ہر گز کوئی تعلق نہیں ہے) ساتھ والی کوٹھی سے پانی زیادہ آجائے تو سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے یہ نہیں میرے لان کے غربی حصے میں موجود بوتل بام کا درخت ساتھ والے برگد کے آشیر باد سے اپنی لمبی شاخوں سے ساتھ والی کوٹھی کے لان میں مجرمانہ دست درازی کرتا رہتا ہے انہی بد عادات و اتوار کی وجہ سے مجھے یہ بوتل پام کا درخت پودوں کی دنیا کا اسرائیل لگتا ہے ۔اپنے لان میں موجود کیاریوں کی گوڈی کرنے پر میں نے ایک مالی بھی معمور کر رکھا ہے اور اسے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ تمہارا کام فقط پودوں کو پانی دینا اور گوڈی کرنا ہے ۔ پھل پھول لگانا مالک کا کام ہے ۔ یہ مالی جب کیاریوں سے ضرر رساں بوٹیاں اور جھاڑ جھنکار اکھاڑ کر باہر پھینکتا ہے تو میرے دل میں نجانے کیوں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کے کاش ہمارے معاشرے کی کیاری سے بھی کوئی مالی آکر کرپشن ، اقرباء پروری، بدعنوانی ، دہشت گردی اور بھتہ خوری کی خار دار جھاڑیا ں اکھاڑ پھینکے ۔مجھے اپنے لان میں لگا ایروکیریا کا پودا سب سے زیادہ پسند ہے اس کے معصوم نرم ملایم پتے پھیلتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی اپنا کھلی بانہوں سے استقبال کرنے کو ہے گرمیوں میں یہ نازک پتے بالکل سوکھ گئے اور ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ رہی میں بالکل نا امید ہو چکا تھا کہ اب ایروکیریا کا یہ پودا کبھی ہرا نہ ہوسکے گا مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب سردیا ں آتے ہی یہ مرجھایا ہوا پودا دوبارہ ہرا ہو کر مسکرانے لگا جیسے کہہ رہا ہو تم انسان ہو کراللہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہو ہمیں دیکھو ہم پودے ہو کر بھی ہریالیوں کی آس لگائے رکھتے ہیں میں نے اس ایروکیریا سے سیکھا کہ تلاش ،جستجواور کوشش ہر حال میں جاری رکھی جائے تو بدترین خزاں کی جگہ پر بھی بہاریں آسکتی ہیں ۔ میں عموماً سفر میں رہتا ہوں دوسری قوموں کے تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھنے کے لیے اور سیر و فی الارض کی چاہ میں ۔ ملکوں ملکوں پھرنے کے بعد میں پھر اسی لان میں واپس آجاتا ہوں ۔ میری یہ مراجعت مجھے از حد عزیز ہے رنگ رنگ کے شہر فلک بوس عمارتیں ، سہانے ساحل ‘ دو ایک روز کے لیے تو خوبصورت لگتے ہیں لیکن یہ لان تو ہمیشہ سہانالگتا ہے کیونکہ یہ میرا اپنا ہے یہی میرا مرکز ہے میں اس سے جدا کیسے رہ سکتا ہوں! کیوں کہ افراد ہوں یا قومیں ‘مرکز سے جدائی ان کے لیے موت ہوا کرتی ہے ۔لان کی انہی خوبیوں کی پیش ِ نظر‘ میرا دل چاہتا ہے کہ کوٹھی کے اند ر لان نہیں ہونا چاہیے.......بلکہ لان کے اند ر کو ٹھی ہونی چاہیے۔!!٭٭٭