شیر شاہ سوری
اسپیشل فیچر
گزشتہ سے پیوستہ , بابر نے شیر شاہ کی کڑی نگرانی کا حکم دیا اور اپنے جاسوس اس کے پیچھے لگادیے۔ شیر شاہ کو معلوم ہوا تو وہ بھاگ کر اپنی جاگیر پر آگیالیکن کچھ عرصے بعدہی اس کا دل یہاں سے اُکتا گیااور وہ دوبارہ سلطان محمد کے پاس چلاگیا۔ سلطان محمداس وقت تک ملک دشمن اور حاسدوں کی چالیں سمجھ چکا تھا۔ اس لیے اُس نے شیر شاہ کی خوب آئو بھگت کی اور اُسے عہدے پر بحال کردیا۔تاہم کچھ عرصے بعد ہی سلطان محمد حاکم بہار کاانتقال ہوگیا۔سلطان محمد کے بعد اس کے بیٹے جلال خان کو،جو ابھی چھوٹا تھا، تخت پر بٹھادیا گیا۔ دوسری طرف ابراہیم لودھی کے بھائی محمود لودھی نے بنگال میں اپنی حکومت بنا رکھی تھی۔ محمود لودھی نے بعض اختلافات کے باعث بہار پر فوج کشی کا حکم صادر فرمایا، مگر اسے شیر شاہ نے شکست فاش دی۔ محمود لودھی نے شیر شاہ کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا اور جلال خان کے ساتھ مل کر شیر شاہ کے خلاف سازش شروع کردیں۔ شیر شاہ نے ان کی سازشوں کو اپنے پیروں تلے روند کر بہار پر قبضہ کرلیا۔ شیر شاہ سوری نے رفتہ رفتہ اپنی مملکت میں اضافہ شروع کردیا۔ جلد ہی ہندو اور نام نہاد حکمرانوں کا قلع قمع کرکے ہندوستان میں ایک مضبوط اور مربوط اسلامی حکومت کا نظام قائم کردیا گیا۔شیر شاہ سوری کا دور حکومت صرف پانچ سال(1539ء سے 1545ء)تک رہا،لیکن اُس نے مختصر سے دورِ اقتدار میں ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں کیں اورعوامی بہبود کے لیے موثر کام سرانجام دیے ۔ سیکڑوں برس گزرنے کے باجود آج بھی عوام اُن سے استفادہ کررہی ہے۔شیر شاہ سوری نے قیام امن، رعایا کی بھلائی، جرائم کا خاتمہ، سلطنت کا استحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ اور نظام مالیہ کا اجراء کیا اورچار عظیم سڑکیں تعمیر کرائیں، جن سے آج تک استفادہ حاصل کیا جارہا ہے، پہلی سڑک سنار گائوں جو موجودہ بنگلہ دیش سے شروع ہو کر آگرہ، دہلی اور لاہور سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ تک پہنچتی تھی، اسے جرنیلی سڑک کہتے ہیں، اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس تھی، دوسری سڑک آگرہ سے بنارس تک جاتی تھی، تیسری سڑک آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھیں جب کہ چوتھی سڑک لاہور اور ملتان کو ملاتی ہے۔اس کے علاوہ شیر شاہ نے ان سڑکوں پر ایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔ ہر سرائے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام الگ الگ تھا۔ ہر سرائے کے ساتھ مسجد اور کنواں تھا، مسجد کے لیے امام کا تقرر کیاجاتا، سامان کی حفاظت کے لیے چوکیدار متعین تھے اور دروازے پرٹھنڈے پانی کے مٹکے رکھے جاتے تھے۔شیر شاہ سوری بے تعصب حکمران تھا، ہندوئوں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں، انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے دیوانی مقدمے ان کی اپنی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا:’’انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔‘‘کالنجر کی مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی۔ اُس نے نومبر پندرہ سو چوالیس میں کالنجر کا محاصرہ کیا، اس نے فوج کو گولہ بارودکی تیاری کا حکم دیا اور خود نگرانی کرنے لگا۔اس دوران ایک بارودی بھٹی اور بارود خانہ جل گیا۔ جس سے شیر شاہ سوری شدید زخمی ہوا لیکن یہ مردِ مجاہد اس وقت تک زندہ رہا، جب تک اسے قلعہ کالنجر کی فتح کی خبر نہ مل گئی۔ یہ بائیس مئی پندرہ سو پینتالیس کا دن تھا۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی سہسرام میں فن تعمیر کا ایک عظیم شاہ کار ہے۔شیر شاہ کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا لیکن نہایت ظالم اور سخت گیر ہونے کی وجہ سے وہ حکومت برقرار نہ رکھ سکا، اس کے بعد کئی بادشاہ آئے لیکن کوئی بھی مستحکم حکومت نہ کرسکا اور بالآخر صرف دس سال میں سوری حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔