مسواک کے فوائد اور فضائل , احادیث مبارکہ کی روشنی میں‌

مسواک کے فوائد اور فضائل , احادیث مبارکہ کی روشنی میں‌

اسپیشل فیچر

تحریر :


علامہ طحطاوی نے العارف باللہ شیخ احمد زاہد کی کتاب تحفتہ السواک فی فضائل مسواک کے حوالے سے، مسواک کے دینی اوردُنیاوی فوائدجو حضرت ابنِ عباسؓ اور حضرت عطا سے منقول ہیں، بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسواک ضرور کیا کرو، اس سے تغافل مت اختیار کرو کہ اس کے فوائد یہ ہیں:خوش نودیٔ رحمن ، مسواک کی نماز کا ثواب99 گنا بلکہ 400 گنا تک بڑھ جاتا ہے،ہمیشہ استعمال کرنا وسعتِ رزق کا باعث ہے مال داری لاتی ہے، اسبابِ رزق کی سہولت کا باعث ہے، منہ کی صفائی کرتی ہے، مسوڑھے مضبوط کرتی ہے، دافع دردِ سر ہے، سرکی رَگوں کے لیے مفید ہے، بلغم دور کرتی ہے، دانت مضبوط کرتی ہے، نگاہ تیز کرتی ہے، معدہ درست کرتی ہے، بدن کو طاقت پہنچاتی ہے، قوتِ حافظہ بڑھاتی ہے عقل کی زیادتی کا باعث ہے، دل کو لطیف رکھتی ہے، نیکیوں کو زائد کرتی ہے، فرشتوں کو خوش رکھتی ہے، چہرہ منوّر ہوجانے سے فرشتے مصافحہ کرتے ہیں، نماز میں ساتھ چلتے ہیں،مسجد کی طرف جاتے ہوئے حاملینِ عرش بندے کے لیے استغفار کرتے ہیں،کثرت ِاولاد کا باعث ہے، پلِ صراط پر بجلی کی طرح گزارنے والی ہے، بڑھاپا دیر سے لاتی ہے، عبادتِ الٰہی پر اُبھارتی ہے، بدن کی حرارت دفع کرتی ہے، بدن کا درد دُور کرتی ہے،پیٹھ مضبوط کرتی ہے، موت کے وقت کلمۂ شہادت یاد دلاتی ہے، روح نکلنے کو آسان کرتی ہے، دانتوں کو سفید کرتی ہے، قبر میں کشادگی ہوتی ہے، جنّت کے دروازے کھلتے ہیں،بندے پر جہنم کا دروازہ بندکر دیا جاتا ہے، انسان دُنیا سے پاک صاف ہوکر جاتا ہے، فرشتے موت کے وقت اس طرح آتے ہیں، جس طرح اولیائے کرامؒ کے پاس آتے ہیں، زبان کی صفائی حاصل ہوتی ہے گندگی اور رطوبتوں کا اخراج ہوتا ہے اور تمام رگوں کی حرکت طبیعت اعتدال پر باقی اور قائم رہتی ہے،فصاحت اور قوّت ملتی ہے، بھوک لگاتی ہے، شیطانی وسوسوںکو دُور کردیتی ہے، داڑھ کا درد دُور کرتی ہے، سُنّتِ رسولﷺ پر عمل کا ثواب ملتا ہے اور بغل کی بدبوزائل کردیتی ہے۔ مسواک رکھنے سے متعلق آداب ٭مسواک بچھا کر نہ رکھے ، بلکہ کھڑا کرکے رکھے۔(اسعایہ، 119)٭مسواک ایک بالشت سے زائد نہ ہو ورنہ اُس پر شیطان سوار ہوجاتا ہے۔٭مسواک کی موٹائی چھوٹی انگلی کے برابر ہو(تاہم اگر موٹائی میںبھی ملے تو اس سے بھی کی جاسکتی ہے)۔ (اسعایہ، 118 ، عمدۃ لقاری، 815 البنایہ)مسواک کا سُنّت طریقہ یہ ہے کہ مسواک اپنے داہنے ہاتھ کی خنضر(چھنگلی) کے نیچے کرے بنصر(چھنگلی کے برابر والی اُنگلی) اور سبابہ (شہادت کی اُنگلی) مسواک کے اوپر رکھے اور اِبھامہ (انگوٹھا) مسواک کے سرے کے نیچے رکھے۔(عن ابنِ مسعود اسعایہ، 119) ٭مسواک آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت اور پاکیزہ عادات میںسے ہے، مسواک سے عبادت کا ثواب بڑھ جاتا ہے نماز کا ثواب75 اور 70 گناہوجاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق 400 گنا بڑھادیاجاتاہے۔٭نیند سے بیدار ہونے کے بعد خصوصیت سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔٭مسواک کرنا وضواور نماز ہی کے وقت سُنّت نہیں بلکہ جب بھی منہ میں گندگی محسوس کرے اسے کرنا سُنّت ہے۔٭دوسرے کی مسواک اُس کی اجازت سے کرنا جائز ہے۔ اِسے دھوکراستعمال کیاجائے۔ (الشمائل کبریٰ ،181)٭مسواک کو مٹھی سے پکڑکر نہ کرے، اس سے بواسیر ہوجاتی ہے۔(اسعایہ ،119)٭مسواک کو لیٹ کر نہ کرے، اس سے تِلّی بڑھ جاتی ہے۔ (طحطاوی ، 38)٭مسواک کو چوسنا نہیں چاہیے، اس سے اندھا پن آتا ہے۔(اگر مسواک نئی ہو تو پہلی مرتبہ چوسا جاسکتا ہے)٭پہلی مرتبہ مسواک کو چوسنا جزام اور برص کو دفع کرتا ہے۔ (اتحاف صادق، 351ج2۔ شامی، 115،ج 1)٭ مسلمانوںکے مجمع میں مسواک کرکے جانا مستحب ہے۔(الشمائل کبریٰ)٭ خُشک مسواک کو پانی سے بھگولیاجائے تاکہ اس کے ریشے نرم ہوجائیں۔ (عمدۃ القاری، ص 185،ج 3)٭مسواک اس وقت تک کی جائے جب تک دانتوں کی بدبوزائل ہونے اور میل کے ختم ہونے کا یقین نہ ہوجائے۔ (شامی ، 114)٭مسواک 3 مرتبہ 3 پانی سے کرنا مستحب ہے۔(شامی ،411)٭مسواک کرنے کے بعد دھوکر رکھیں،ورنہ شیطان اسے استعمال کرتاہے۔ (طحطاوی، 117)٭مسواک ٹیڑھی نہ ہو، اس میں گرہیں نہ ہوں، اگر ہوں تو کم ہوں۔ (شامی ، 114)٭مسجد میں مسواک کرنا مکروہ اور منع ہے۔(مرقات ص203، ابن ِعبدالرزاق ،ص 439،ج 1، شمائل کبریٰ ج 5 ۔ ص 156-153)٭مسواک تمام انبیائے کرام ؑکی پاکیزہ عادات میں سے ہے۔ (ترمذی، مجمع الزوائدج 1،ص99)٭مسواک اللہ تعالیٰ کے قریب خوشنودی کا باعث ہے۔(مجمع الزوائد)٭مسواک نصف ایمان ہے۔(بخاری، مسلم)٭مسواک نصف وضو اور وضو نصف ایما ن ہے۔(کنزالعمال، ج 9، ص370)٭مسواک کے ساتھ وضو پر نماز کا ثواب چار سوگنا تک ملتاہے۔ (شمائل کبریٰ، ج5،ص 111)٭مسواک کی نماز پر ملائکہ نمازی کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتے ہیں۔(کنزالعمال ، ص 313)٭مسواک کی نماز پر فرشتے اُس کے پیچھے صف بندی کرتے ہیں۔(ابن ابی شیبہ)٭کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں مسواک کرناچاہیے۔ (شمائل کبریٰ، ج 5، ص 122)٭عورتوں کے لیے بھی مسواک مسنون ہے ۔ (مشکوٰۃ)٭روزے میں مسواک کی اجازت ہے۔ (شمائل کبریٰ)٭جمعے کے دن مسواک کے اہتمام کا حکم اور تائید ہے۔(بخاری شریف)٭زبان پر بھی مسواک کی جائے۔ (التہایہ)٭مسواک دھوکر رکھنا سُنّت ہے۔(سنن کبریٰ)٭تلاوتِ قرآن پاک کے لیے مسواک کا حکم آیاہے۔ (شمائل کبریٰ، ج5، ص141)٭مسواک قوّت بینائی میں اضافے کا باعث ہے۔(مجمع الزوائد)مسواک فصاحت کو بڑھاتی ہے۔ (کنزالعمال) ایک تاجر نے بتایاکہ میں سوئٹزرلینڈ میں تھا ایک نومسلم سے ملاقات ہوئی،میںنے اُسے مسواک کا تحفہ دیا۔ اس نے مسواک لے کر اسے آنکھوں سے لگایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس نے جیب سے ایک رومال نکالا تو اس میں بالکل چھوٹی تقریباًدو انچ سے کم ایک مسواک لپٹی ہوئی تھی۔ کہنے لگا’’ میں جب مسلمان ہوا تھا تو مسلمانوں نے مجھے یہ تحفہ دیا تھا، میں اسے بڑی احتیاط سے استعمال کرتا رہا، اب یہی ٹکڑا باقی بچاہے آپ نے تومیرے ساتھ احسان کیا۔‘‘ پھر اس نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے کہا’’ میںدانت اور مسوڑھوں کے ایسے مرض میں مبتلاتھا ،جس کا علاج سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس بھی کم تھا ۔ میںنے یہ مسواک استعمال کرنا شروع کی۔ کچھ عرصے بعد میں ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے گیا تو وہ حیران رہ گیا۔اس نے پوچھا:’’ آپ نے کون سی دوا استعمال کی ہے؟ جس کی وجہ سے اتنی جلدشفا ہوگئی۔‘‘ میں نے کہا’’ میںنے صرف آپ کی دوا استعمال کی ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’ہرگز نہیں، میری دوا سے اتنی جلدی صحت یابی نہیں ہوسکتی ،آپ سوچیں۔‘‘ جب میںنے ذہن پر زور دیا تو خیال آیا کہ میں مسواک استعمال کررہا ہوں۔ جب میںنے اسے مسواک دکھائی تو ڈاکٹر حیران رہ گیا۔گرونانک کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں مسواک رکھتے اورعموماًدانتوں کو مسواک کرتے رہتے۔ان کا کہناتھا:’’ یا یہ لکڑی لے لو یا بیماری لے لو۔‘‘ کتنی گہری بات ہے کہ مسواک لے لو تو امراض ختم ورنہ اَمراض سے واسطہ پڑتارہے گا۔ایک صاحب منہ کی بدبو ختم کرنے کے لیے اعلیٰ قسم کے درجنوں ٹوتھ پیسٹ استعمال کرچکے تھے۔ ادویات، منجن اور طرح طرح کی دافع تعفن ادویہ استعمال کی گئیں۔ مشورہ کیا تو مسواک استعمال کرنے کے لیے کہا گیا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ تندرست ہوگئے۔ایک معروف حکیم لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک مریض آیا جس کے دل کی جھلیوں میں پیپ بھری ہوئی تھی۔ڈاکٹر دل کا علاج کرتے رہے ،افاقہ نہ ہوا تو دل کا آپریشن کرکے پیپ نکال لی گئی۔ کچھ عرصے بعد پھر پیپ بھر گئی، تھک ہارکر میرے پاس آئے۔ تشخیص سے معلوم ہواکہ اُن کے مسوڑے خراب ہیں، اُن میں پیپ بھری ہے،جو دل کو نقصان پہنچارہی ہے۔ اس تشخیص کو ڈاکٹروں نے بھی تسلیم کیا۔پہلے دانتوں اور مسوڑھوں کا علاج کرتے ہوئے کھانے کے لیے ادویہ اور مسواک دی گئی۔ مریض نے بہت جلدافاقہ محسوس کیا۔ایک صاحب منہ کے ذائقے کی لذّت سے محروم تھے۔ بہت علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ کسی نے بتایا کہ آپ زبان پر جونکیں لگوائیں۔ مجبوراًاُس نے زبان کو جونکوں سے زخمی کیا، لیکن پھر بھی فائدہ نہ ہوا۔ اسے مشورہ دیاگیا کہ آپ بالکل تازہ مسواک استعمال کریں،ایک ماہ کے بعد بتائیں۔مریض کا کہنا ہے کہ یہ دو روپے کی مسواک ہزاروں کی ادویات پر بھاری ہے یعنی اس کا ذائقہ واپس آگیا۔گلے کے ٹانسلز کے مریضوں کو جب مسواک باقاعدہ استعمال کرایا گیا تو وہ جلد صحت یاب ہوگئے۔ایک صاحب گلے کے غدود بڑھنے سے پریشان تھے۔ انہیں شربت توت اور مسواک استعمال کرائی گئی، یعنی شربت توت پینے کے لیے اوربالکل تازہ مسواک بعد میں استعمال کرنے کیلئے۔ مسواک کے ٹکڑے پانی میں اُبال کر غرارے کرائے گئے، مریض نے فوری افاقہ محسوس کیا۔منہ کے بعض چھالے گرمی اور تیزابیت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک قسم ایسی بھی ہے جس کے جراثیم پھیلتے ہیں۔ اس کے لیے تازہ مسواک منہ میں ملیںاور اس کا بننے والا لعاب بھی خوب ملیں۔ اس ترکیب سے کئی مریض تندرست ہوگئے۔اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ دانت پیلے اور زرد ہیں یا دانتوں سے سفید ی کا اَستر اُتر گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مسواک کے نئے ریشے بہت مفید ہیں ،نیز دانتوں کی زَردی ختم کرنے کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔مسواک تعفن کو دفع اور منہ کے جراثیم کاخاتمہ کرتی ہے، جس سے بندہ بے شمار امراض سے بچ جاتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ’’مسواک سے دماغ تیز ہوتا ہے‘‘۔ دراصل مسواک کے اندر فاسفورس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جس زمین میں کیلشیم اور فاسفورس کی زیادتی ہوتی ہے، وہاں پیلو کا درخت پایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبرستان کی مٹی میں انسانی ہڈیوں کے گلنے کی وجہ سے کیلشیم اور فاسفورس زیادہ ہوتا ہے اس لیے یہاں پیلو کا درخت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دانتوں کے لیے کیلشیم اور فاسفورس اہم غذا ہے یہ اجزاء پیلو کی جڑ میں پائے جاتے ہیں۔ مشاہدے سے ثابت ہے کہ اگر پیلو کی تازہ اور نئی مسواک کو چبایا جائے تو اس سے ایک تلخ اور تیز مادہ نکلتا ہے جو منہ کے اندر جراثیم کی افزائش کو روکتا ہے اور دانتوں کو امراض سے بچاتا ہے ۔اس لیے یہ بات اہم ہے کہ پیلو کی مسواک کے ریشے توڑتے یا کاٹتے رہیں تاکہ نئے ریشے استعمال ہوںاور ان کا تلخ مادہ صحت کے لیے مفید طور پر قابل استعمال رہے۔دائمی نزلے کے وہ مریض، جن کا بلغم رُکا ہوا ہوتا ہے۔ جب وہ مسواک استعمال کرتے ہیں تو بلغم اندر سے خارج ہوتا ہے، جس سے دماغ ہلکا ہوتا ہے۔ ایک پتھالوجسٹ کے مطابق’’تجربے اور تحقیق میںیہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسواک دائمی نزلے کے لیے تریاق ہے۔ اس کے مستقل استعمال سے ناک کے آپریشن اور گلے کے آپریشن کا امکان بہت کم ہوجاتاہے۔‘‘ماہرین کی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کسی بھی برش کا دوبارہ استعمال صحت اور تندرستی کے لیے مضر ہے کیونکہ پہلی بار استعمال کے بعد برش کے اندر جراثیم کی تہہ جم جاتی ہے۔پانی سے صفائی کے باوجود بھی اس میںجراثیم پرورش پاتے رہتے ہیں ۔دوسرا اہم نقصان یہ بھی ہے کہ برش دانتوں کے اوپر چمکیلی اور سفید تہہ کو اُتار دیتا ہے، جس سے دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہوجاتا ہے اور دانت آہستہ آہستہ مسوڑھوں کی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں ۔ غذا کے ذرّات ان خلا میں پھنس کر مسوڑھوں اور دانتوں کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مسواک کی قسم:ہر اس لکڑی کی مسواک دانتوں کے لیے موزوں ہے، جس کے ریشے نرم ہوں، دانتوں کے درمیان خلا کو زیادہ نہ کریں مسوڑھوں کو زخمی نہ کریں ۔مسواک کے لیے تین قسموںکی لکڑی استعمال کی جاتی ہے:پیلوکی مسواک، کنیرکی مسواک اور نیم یا کیکرکی مسواکمسواک کرناآنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بہت ہی پیاری سُنّت ہے۔ بے شک رسولؐ اللہ کی کوئی سُنّت حکمت سے خالی نہیں۔ آج سے1400 سال قبل تاکید کی گئی بات کو آج کی سائنس صدفی صددرست قرار دے چکی ہے۔ ثابت ہوچکا ہے کہ اس چھوٹی سی لکڑی میں کتنی شفا ہے اوریہ کتنی بیماریوں سے نجات دلاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسواک استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین)٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

کسی مالدار بخیل کا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا۔ دوا دارو کرنے کے باوجود بھی بخار کا زور نہ اترا تو کسی نیک دل شخص نے اسے مشورہ دیا کہ قرآن مجید ختم کراؤ یا بکرے کا صدقہ دو۔یہ سن کر مالدار بخیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا کہ قرآن مجید ختم کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ منڈی دور ہے اور آنے جانے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔اس کی یہ بات سن کر نیک آدمی نے کہا ''قرآن مجید ختم کرنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن اس کی نوک زبان پر ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہوا ہے۔حاصل کلام: بخیل وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھنے کی بجائے ہمیشہ دولت کو دیکھتا ہے۔ خواہ دولت نہ خرچ کر کے نقصان ہی اٹھانا پڑے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

٭...ساقی 2 اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔٭... وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ''بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔٭... 1955ء میں وہ لاہور میں ایک فلمی پروڈکشن یونٹ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وابستہ ہوئے۔ ٭...پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''التجا‘‘ تھی جو 1955ء میں ریلیز ہوئی۔٭... 1958ء میں ''لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد ''سسی پنوں‘‘ اور ''بمبئے والا‘‘ میں کام کیا۔٭... 1959ء میں ان کی فلم ''ناگن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔٭... 1960ء میں ''رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ''ہزار داستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔٭... ان کی یادگار فلم ''لاکھوں میں ایک‘‘ 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔٭...ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔٭... ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ ٭...ساقی نے کریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں میں بھی پذیرائی حاصل کی۔٭... انہوں نے ''پاپی‘‘ اور'' ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ٭...ان کی مشہور فلموں میں ''الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت‘‘ شامل ہیں۔ ٭...پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان سے انہوں نے شادی کی ۔٭...22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ساقی کی اہم فلمیں و کردارشہید1962ء:گونگے کا کردارلاکھوں میں ایک1967ء:پٹھان ٹرک ڈرائیورزرقا1969ء:عرب بدو کا کردارگھرانہ1973ء:وفادار گھریلو ملازمناگن1959ء:سپیرے کا کردار 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسریز کا پہلا تجربہ1895ء میں آج کے روز جرمن معالج ولہیم رونجن نے پہلا کامیاب ایکس رے لیا۔ رونجن کی دریافت نے طبی تشخیص میں انقلاب برپا کیا۔ آج، ایکس ریز مشینیں ہڈیوں کے فریکچر، دانتوں کی خرابی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی خدمات سائنس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا نام اس دریافت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑا ہوا ہے اور ایکس ریز کو اکثر ''رونجن ریز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔سنکیانگ زلزلہ1906ء میں آج کے روز چین کے شہر سنکیانگ میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے جھٹکے صبح 8 بجے محسوس کئے گئے۔ اس زلزلے کا مرکز چین کے صوبے سنکیانگ کے ماناس کاؤنٹی میں واقع تھا۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 280 سے 300 افراد ہلاک ہوئے اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے۔ یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔مسلم لیگ کا ''یوم نجات‘‘23 دسمبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ''یوم نجات‘‘ منایا۔یہ ''یومِ نجات‘‘ ایک روزہ جشن تھا جو قائد اعظمؒ کی اپیل پر ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ اس کی قیادت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناحؒ نے کی۔ اس دن کا مقصد حریف کانگریس پارٹی کے تمام اراکین کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے استعفے پر خوشی منانا تھا، جو اس بات پر احتجاجاً دیے گئے تھے کہ انہیں برطانیہ کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کے فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ویتنام کی ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تاکہ انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) پر جاپانی قبضے کی مزاحمت کی جا سکے۔ یہ فوج انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) میں جاپانی افواج کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد ویتنام کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا اور جاپانی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ اس فوج کا قیام ویتنام کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ویتنام کی خود مختاری کی جنگ میں اہم سنگ میل تھا۔کروز جہاز حادثہ1963ء میں آج کے روز مشہور کروز جہاز لاکونیا پرتگال کے علاقے مادیرا سے تقریباً 290 کلومیٹر شمال میں حادثے کا شکار ہوا۔ یہ جہاز تفریحی سفر کیلئے روانہ ہوا تھا، لیکن اچانک آگ لگنے سے جہاز میں شدید تباہی پھیلی۔ جہاز میں سوار مسافر اور عملہ شدید خطرے میں آ گئے۔ جہاز کے عملے اور قریبی کشتیاں موقع پر پہنچ کر لوگوں کی مدد کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں، مگر حادثے کی شدت بہت زیادہ تھی۔اس المناک واقعے کے نتیجے میں 128 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ آگ کی وجہ سے جہاز کا بڑا حصہ جل کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی سطح پر جہازوں میں آگ سے بچاؤ کے اقدامات اور حفاظتی قوانین کو مزید سخت کیا گیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے المیہ سے بچا جا سکے۔