مسواک کے فوائد اور فضائل , احادیث مبارکہ کی روشنی میں
اسپیشل فیچر
علامہ طحطاوی نے العارف باللہ شیخ احمد زاہد کی کتاب تحفتہ السواک فی فضائل مسواک کے حوالے سے، مسواک کے دینی اوردُنیاوی فوائدجو حضرت ابنِ عباسؓ اور حضرت عطا سے منقول ہیں، بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسواک ضرور کیا کرو، اس سے تغافل مت اختیار کرو کہ اس کے فوائد یہ ہیں:خوش نودیٔ رحمن ، مسواک کی نماز کا ثواب99 گنا بلکہ 400 گنا تک بڑھ جاتا ہے،ہمیشہ استعمال کرنا وسعتِ رزق کا باعث ہے مال داری لاتی ہے، اسبابِ رزق کی سہولت کا باعث ہے، منہ کی صفائی کرتی ہے، مسوڑھے مضبوط کرتی ہے، دافع دردِ سر ہے، سرکی رَگوں کے لیے مفید ہے، بلغم دور کرتی ہے، دانت مضبوط کرتی ہے، نگاہ تیز کرتی ہے، معدہ درست کرتی ہے، بدن کو طاقت پہنچاتی ہے، قوتِ حافظہ بڑھاتی ہے عقل کی زیادتی کا باعث ہے، دل کو لطیف رکھتی ہے، نیکیوں کو زائد کرتی ہے، فرشتوں کو خوش رکھتی ہے، چہرہ منوّر ہوجانے سے فرشتے مصافحہ کرتے ہیں، نماز میں ساتھ چلتے ہیں،مسجد کی طرف جاتے ہوئے حاملینِ عرش بندے کے لیے استغفار کرتے ہیں،کثرت ِاولاد کا باعث ہے، پلِ صراط پر بجلی کی طرح گزارنے والی ہے، بڑھاپا دیر سے لاتی ہے، عبادتِ الٰہی پر اُبھارتی ہے، بدن کی حرارت دفع کرتی ہے، بدن کا درد دُور کرتی ہے،پیٹھ مضبوط کرتی ہے، موت کے وقت کلمۂ شہادت یاد دلاتی ہے، روح نکلنے کو آسان کرتی ہے، دانتوں کو سفید کرتی ہے، قبر میں کشادگی ہوتی ہے، جنّت کے دروازے کھلتے ہیں،بندے پر جہنم کا دروازہ بندکر دیا جاتا ہے، انسان دُنیا سے پاک صاف ہوکر جاتا ہے، فرشتے موت کے وقت اس طرح آتے ہیں، جس طرح اولیائے کرامؒ کے پاس آتے ہیں، زبان کی صفائی حاصل ہوتی ہے گندگی اور رطوبتوں کا اخراج ہوتا ہے اور تمام رگوں کی حرکت طبیعت اعتدال پر باقی اور قائم رہتی ہے،فصاحت اور قوّت ملتی ہے، بھوک لگاتی ہے، شیطانی وسوسوںکو دُور کردیتی ہے، داڑھ کا درد دُور کرتی ہے، سُنّتِ رسولﷺ پر عمل کا ثواب ملتا ہے اور بغل کی بدبوزائل کردیتی ہے۔ مسواک رکھنے سے متعلق آداب ٭مسواک بچھا کر نہ رکھے ، بلکہ کھڑا کرکے رکھے۔(اسعایہ، 119)٭مسواک ایک بالشت سے زائد نہ ہو ورنہ اُس پر شیطان سوار ہوجاتا ہے۔٭مسواک کی موٹائی چھوٹی انگلی کے برابر ہو(تاہم اگر موٹائی میںبھی ملے تو اس سے بھی کی جاسکتی ہے)۔ (اسعایہ، 118 ، عمدۃ لقاری، 815 البنایہ)مسواک کا سُنّت طریقہ یہ ہے کہ مسواک اپنے داہنے ہاتھ کی خنضر(چھنگلی) کے نیچے کرے بنصر(چھنگلی کے برابر والی اُنگلی) اور سبابہ (شہادت کی اُنگلی) مسواک کے اوپر رکھے اور اِبھامہ (انگوٹھا) مسواک کے سرے کے نیچے رکھے۔(عن ابنِ مسعود اسعایہ، 119) ٭مسواک آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت اور پاکیزہ عادات میںسے ہے، مسواک سے عبادت کا ثواب بڑھ جاتا ہے نماز کا ثواب75 اور 70 گناہوجاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق 400 گنا بڑھادیاجاتاہے۔٭نیند سے بیدار ہونے کے بعد خصوصیت سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔٭مسواک کرنا وضواور نماز ہی کے وقت سُنّت نہیں بلکہ جب بھی منہ میں گندگی محسوس کرے اسے کرنا سُنّت ہے۔٭دوسرے کی مسواک اُس کی اجازت سے کرنا جائز ہے۔ اِسے دھوکراستعمال کیاجائے۔ (الشمائل کبریٰ ،181)٭مسواک کو مٹھی سے پکڑکر نہ کرے، اس سے بواسیر ہوجاتی ہے۔(اسعایہ ،119)٭مسواک کو لیٹ کر نہ کرے، اس سے تِلّی بڑھ جاتی ہے۔ (طحطاوی ، 38)٭مسواک کو چوسنا نہیں چاہیے، اس سے اندھا پن آتا ہے۔(اگر مسواک نئی ہو تو پہلی مرتبہ چوسا جاسکتا ہے)٭پہلی مرتبہ مسواک کو چوسنا جزام اور برص کو دفع کرتا ہے۔ (اتحاف صادق، 351ج2۔ شامی، 115،ج 1)٭ مسلمانوںکے مجمع میں مسواک کرکے جانا مستحب ہے۔(الشمائل کبریٰ)٭ خُشک مسواک کو پانی سے بھگولیاجائے تاکہ اس کے ریشے نرم ہوجائیں۔ (عمدۃ القاری، ص 185،ج 3)٭مسواک اس وقت تک کی جائے جب تک دانتوں کی بدبوزائل ہونے اور میل کے ختم ہونے کا یقین نہ ہوجائے۔ (شامی ، 114)٭مسواک 3 مرتبہ 3 پانی سے کرنا مستحب ہے۔(شامی ،411)٭مسواک کرنے کے بعد دھوکر رکھیں،ورنہ شیطان اسے استعمال کرتاہے۔ (طحطاوی، 117)٭مسواک ٹیڑھی نہ ہو، اس میں گرہیں نہ ہوں، اگر ہوں تو کم ہوں۔ (شامی ، 114)٭مسجد میں مسواک کرنا مکروہ اور منع ہے۔(مرقات ص203، ابن ِعبدالرزاق ،ص 439،ج 1، شمائل کبریٰ ج 5 ۔ ص 156-153)٭مسواک تمام انبیائے کرام ؑکی پاکیزہ عادات میں سے ہے۔ (ترمذی، مجمع الزوائدج 1،ص99)٭مسواک اللہ تعالیٰ کے قریب خوشنودی کا باعث ہے۔(مجمع الزوائد)٭مسواک نصف ایمان ہے۔(بخاری، مسلم)٭مسواک نصف وضو اور وضو نصف ایما ن ہے۔(کنزالعمال، ج 9، ص370)٭مسواک کے ساتھ وضو پر نماز کا ثواب چار سوگنا تک ملتاہے۔ (شمائل کبریٰ، ج5،ص 111)٭مسواک کی نماز پر ملائکہ نمازی کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتے ہیں۔(کنزالعمال ، ص 313)٭مسواک کی نماز پر فرشتے اُس کے پیچھے صف بندی کرتے ہیں۔(ابن ابی شیبہ)٭کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں مسواک کرناچاہیے۔ (شمائل کبریٰ، ج 5، ص 122)٭عورتوں کے لیے بھی مسواک مسنون ہے ۔ (مشکوٰۃ)٭روزے میں مسواک کی اجازت ہے۔ (شمائل کبریٰ)٭جمعے کے دن مسواک کے اہتمام کا حکم اور تائید ہے۔(بخاری شریف)٭زبان پر بھی مسواک کی جائے۔ (التہایہ)٭مسواک دھوکر رکھنا سُنّت ہے۔(سنن کبریٰ)٭تلاوتِ قرآن پاک کے لیے مسواک کا حکم آیاہے۔ (شمائل کبریٰ، ج5، ص141)٭مسواک قوّت بینائی میں اضافے کا باعث ہے۔(مجمع الزوائد)مسواک فصاحت کو بڑھاتی ہے۔ (کنزالعمال) ایک تاجر نے بتایاکہ میں سوئٹزرلینڈ میں تھا ایک نومسلم سے ملاقات ہوئی،میںنے اُسے مسواک کا تحفہ دیا۔ اس نے مسواک لے کر اسے آنکھوں سے لگایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس نے جیب سے ایک رومال نکالا تو اس میں بالکل چھوٹی تقریباًدو انچ سے کم ایک مسواک لپٹی ہوئی تھی۔ کہنے لگا’’ میں جب مسلمان ہوا تھا تو مسلمانوں نے مجھے یہ تحفہ دیا تھا، میں اسے بڑی احتیاط سے استعمال کرتا رہا، اب یہی ٹکڑا باقی بچاہے آپ نے تومیرے ساتھ احسان کیا۔‘‘ پھر اس نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے کہا’’ میںدانت اور مسوڑھوں کے ایسے مرض میں مبتلاتھا ،جس کا علاج سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس بھی کم تھا ۔ میںنے یہ مسواک استعمال کرنا شروع کی۔ کچھ عرصے بعد میں ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے گیا تو وہ حیران رہ گیا۔اس نے پوچھا:’’ آپ نے کون سی دوا استعمال کی ہے؟ جس کی وجہ سے اتنی جلدشفا ہوگئی۔‘‘ میں نے کہا’’ میںنے صرف آپ کی دوا استعمال کی ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’ہرگز نہیں، میری دوا سے اتنی جلدی صحت یابی نہیں ہوسکتی ،آپ سوچیں۔‘‘ جب میںنے ذہن پر زور دیا تو خیال آیا کہ میں مسواک استعمال کررہا ہوں۔ جب میںنے اسے مسواک دکھائی تو ڈاکٹر حیران رہ گیا۔گرونانک کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں مسواک رکھتے اورعموماًدانتوں کو مسواک کرتے رہتے۔ان کا کہناتھا:’’ یا یہ لکڑی لے لو یا بیماری لے لو۔‘‘ کتنی گہری بات ہے کہ مسواک لے لو تو امراض ختم ورنہ اَمراض سے واسطہ پڑتارہے گا۔ایک صاحب منہ کی بدبو ختم کرنے کے لیے اعلیٰ قسم کے درجنوں ٹوتھ پیسٹ استعمال کرچکے تھے۔ ادویات، منجن اور طرح طرح کی دافع تعفن ادویہ استعمال کی گئیں۔ مشورہ کیا تو مسواک استعمال کرنے کے لیے کہا گیا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ تندرست ہوگئے۔ایک معروف حکیم لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک مریض آیا جس کے دل کی جھلیوں میں پیپ بھری ہوئی تھی۔ڈاکٹر دل کا علاج کرتے رہے ،افاقہ نہ ہوا تو دل کا آپریشن کرکے پیپ نکال لی گئی۔ کچھ عرصے بعد پھر پیپ بھر گئی، تھک ہارکر میرے پاس آئے۔ تشخیص سے معلوم ہواکہ اُن کے مسوڑے خراب ہیں، اُن میں پیپ بھری ہے،جو دل کو نقصان پہنچارہی ہے۔ اس تشخیص کو ڈاکٹروں نے بھی تسلیم کیا۔پہلے دانتوں اور مسوڑھوں کا علاج کرتے ہوئے کھانے کے لیے ادویہ اور مسواک دی گئی۔ مریض نے بہت جلدافاقہ محسوس کیا۔ایک صاحب منہ کے ذائقے کی لذّت سے محروم تھے۔ بہت علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ کسی نے بتایا کہ آپ زبان پر جونکیں لگوائیں۔ مجبوراًاُس نے زبان کو جونکوں سے زخمی کیا، لیکن پھر بھی فائدہ نہ ہوا۔ اسے مشورہ دیاگیا کہ آپ بالکل تازہ مسواک استعمال کریں،ایک ماہ کے بعد بتائیں۔مریض کا کہنا ہے کہ یہ دو روپے کی مسواک ہزاروں کی ادویات پر بھاری ہے یعنی اس کا ذائقہ واپس آگیا۔گلے کے ٹانسلز کے مریضوں کو جب مسواک باقاعدہ استعمال کرایا گیا تو وہ جلد صحت یاب ہوگئے۔ایک صاحب گلے کے غدود بڑھنے سے پریشان تھے۔ انہیں شربت توت اور مسواک استعمال کرائی گئی، یعنی شربت توت پینے کے لیے اوربالکل تازہ مسواک بعد میں استعمال کرنے کیلئے۔ مسواک کے ٹکڑے پانی میں اُبال کر غرارے کرائے گئے، مریض نے فوری افاقہ محسوس کیا۔منہ کے بعض چھالے گرمی اور تیزابیت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک قسم ایسی بھی ہے جس کے جراثیم پھیلتے ہیں۔ اس کے لیے تازہ مسواک منہ میں ملیںاور اس کا بننے والا لعاب بھی خوب ملیں۔ اس ترکیب سے کئی مریض تندرست ہوگئے۔اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ دانت پیلے اور زرد ہیں یا دانتوں سے سفید ی کا اَستر اُتر گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مسواک کے نئے ریشے بہت مفید ہیں ،نیز دانتوں کی زَردی ختم کرنے کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔مسواک تعفن کو دفع اور منہ کے جراثیم کاخاتمہ کرتی ہے، جس سے بندہ بے شمار امراض سے بچ جاتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ’’مسواک سے دماغ تیز ہوتا ہے‘‘۔ دراصل مسواک کے اندر فاسفورس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جس زمین میں کیلشیم اور فاسفورس کی زیادتی ہوتی ہے، وہاں پیلو کا درخت پایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبرستان کی مٹی میں انسانی ہڈیوں کے گلنے کی وجہ سے کیلشیم اور فاسفورس زیادہ ہوتا ہے اس لیے یہاں پیلو کا درخت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دانتوں کے لیے کیلشیم اور فاسفورس اہم غذا ہے یہ اجزاء پیلو کی جڑ میں پائے جاتے ہیں۔ مشاہدے سے ثابت ہے کہ اگر پیلو کی تازہ اور نئی مسواک کو چبایا جائے تو اس سے ایک تلخ اور تیز مادہ نکلتا ہے جو منہ کے اندر جراثیم کی افزائش کو روکتا ہے اور دانتوں کو امراض سے بچاتا ہے ۔اس لیے یہ بات اہم ہے کہ پیلو کی مسواک کے ریشے توڑتے یا کاٹتے رہیں تاکہ نئے ریشے استعمال ہوںاور ان کا تلخ مادہ صحت کے لیے مفید طور پر قابل استعمال رہے۔دائمی نزلے کے وہ مریض، جن کا بلغم رُکا ہوا ہوتا ہے۔ جب وہ مسواک استعمال کرتے ہیں تو بلغم اندر سے خارج ہوتا ہے، جس سے دماغ ہلکا ہوتا ہے۔ ایک پتھالوجسٹ کے مطابق’’تجربے اور تحقیق میںیہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسواک دائمی نزلے کے لیے تریاق ہے۔ اس کے مستقل استعمال سے ناک کے آپریشن اور گلے کے آپریشن کا امکان بہت کم ہوجاتاہے۔‘‘ماہرین کی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کسی بھی برش کا دوبارہ استعمال صحت اور تندرستی کے لیے مضر ہے کیونکہ پہلی بار استعمال کے بعد برش کے اندر جراثیم کی تہہ جم جاتی ہے۔پانی سے صفائی کے باوجود بھی اس میںجراثیم پرورش پاتے رہتے ہیں ۔دوسرا اہم نقصان یہ بھی ہے کہ برش دانتوں کے اوپر چمکیلی اور سفید تہہ کو اُتار دیتا ہے، جس سے دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہوجاتا ہے اور دانت آہستہ آہستہ مسوڑھوں کی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں ۔ غذا کے ذرّات ان خلا میں پھنس کر مسوڑھوں اور دانتوں کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مسواک کی قسم:ہر اس لکڑی کی مسواک دانتوں کے لیے موزوں ہے، جس کے ریشے نرم ہوں، دانتوں کے درمیان خلا کو زیادہ نہ کریں مسوڑھوں کو زخمی نہ کریں ۔مسواک کے لیے تین قسموںکی لکڑی استعمال کی جاتی ہے:پیلوکی مسواک، کنیرکی مسواک اور نیم یا کیکرکی مسواکمسواک کرناآنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بہت ہی پیاری سُنّت ہے۔ بے شک رسولؐ اللہ کی کوئی سُنّت حکمت سے خالی نہیں۔ آج سے1400 سال قبل تاکید کی گئی بات کو آج کی سائنس صدفی صددرست قرار دے چکی ہے۔ ثابت ہوچکا ہے کہ اس چھوٹی سی لکڑی میں کتنی شفا ہے اوریہ کتنی بیماریوں سے نجات دلاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسواک استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین)٭…٭…٭