معاشرے میں اساتذہ کا کردار

معاشرے میں اساتذہ کا کردار

اسپیشل فیچر

تحریر :


سیّدعمار یاسر زید ی: سب سے پہلے معزز مہمانان گرامی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس اہم موضوع پر گفتگو کے لیے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا۔ میں محمد علی جناح یونی ورسٹی کی انتظامیہ کا مشکورہوں جن کے تعاون سے اس مذاکرے کا انعقاد ممکن ہوا ، روزنامہ دنیاکراچی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے اس مذاکرے کا موضوع ہے ’’ معاشرے میں اساتذہ کا کردار‘‘۔آج کے اس مذاکرے کی میزبانی کے فرائض میں انجام دوں گا ۔ بچے کی کردار سازی میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتاہے ، اس کے بعد جو شخصیت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے وہ استاد کی ہے استاد صرف تعلیم ہی نہیں دیتا تربیت بھی کرتا ہے، معاشروں کے عروج و زوال میں اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے ، اساتذہ کا کام صرف اسکول یا کالج میں پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں توانگلی پکڑ کر عملی زندگی کے نشیب و فراز میں لڑکھڑانے سے بچانے والا بھی استاد ہوتا ہے ۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج اس آڈیٹوریم میں میرے دو اساتذہ تشریف رکھتے ہیں ایک پروفیسر ہارون رشید صاحب جنہوں نے مجھے زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور دوسر ے غلام محی الدین صاحب جنہوں نے عملی صحافت کے میدان میں مجھے چلنا سکھایا۔ اب میں جناب غلام محی الدین صاحب سے درخواست کروں گاوہ حاضرین کو اس فورم کے اغراض و مقاصد بیان کریں ۔غلام محی الدین : آج کا موضوع اپنے عنوان کے اعتبار سے نہایت اہم ہے،جب میں بچہ تھا اور راول پنڈی کے اسکول میں زیر تعلیم تھا ، گوالمنڈی میںہمارا گھر تھا اور نالا لئی کا پل قریب تھا، ایک روز والدہ نے کسی کام سے بازار بھیجا ، میں نا لہ لئی کے پل کے قریب ہی تھا کہ سامنے سے کلاس ٹیچر کو آتے دیکھا۔انہیں دیکھ کر میں نے چھپنے کے لیے جگہ تلاش کی مگرجب کوئی جگہ نہیں ملی تو میں پل کے ستون کے ساتھ بیٹھ گیا اور جب استاد چلے گئے تو پھروہاں سے نکلا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ استاد کلاس میں سختی کرتے تھے بلکہ یہ استاد کا احترام تھا ۔یہ وہ استاد تھے کہ جب امتحان کا وقتْْْ آتا، تو نہ صرف اسکول میں زیادہ وقت دیتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے جو بھی مسئلہ ہو گھر پرآجانا میں حاضر ہوں۔وقت بدلہ ،اس وقت بڑا افسوس ہواکہ جب کالج میں ایک استاد کو اپنے شاگردسے سگریٹ مانگ کر پیتے ہوئے دیکھا۔یہ دو مختلف پہلو ہیں۔ بہرحال آج ہم انہی پہلوئوں پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ کیا اساتذہ اپنے منصب کا حق ادا کررہے ہیں کیا ہمارے طالب علم استاد کا ادب و احترام کرتے ہیں ۔ روزنامہ دنیا مختلف موضوعات پر فورم منعقد کرتا رہتا ہے جس میں ہرقسم کے سیاسی ، سماجی ، معاشی مسائل کا حل تلاش کیاجاتا ہے آج کا فورم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، جتنے بھی اساتذہ موجود ہیں وہ انتہائی محترم ہیں ان اساتذہ کے بارے میں ان کے شاگردوں سے ہمیشہ تعریفی کلمات ہی سنے۔حا فظ ڈاکٹر عفان سلجوق: اساتذہ کے معاشر ے میں کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے روزنامہ دنیا نے فورم منعقد کیا ہے ان کے بہت مشکور ہیں ۔استاد ہی طالب علم کو زمین سے آسمان تک پہنچاتا ہے، کسی معاشرے کی ترقی یا تنزلی کا دارومداراس کا نظام تعلیم ہوتا ہے،خراب معاشرہ نظام تعلیم اور اساتذہ کی خرابی ظاہر کرتا ہے، استاد کی مثال ایک جوہری کی ہے جو ہیرے کو تراشتا ہے ، اسی طر ح استاد طالب علم کی تربیت کرتا ہے مگر موجودہ زمانے کا المیہ ہے کہ استاد سیاسی جانب داری کا شکار ہیں اور کسی بھی تعلیمی ادارے کا سربراہ کسی نہ کسی سیاسی تنظیم و جماعت سے وابستہ ہوئے بغیر اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ سکتا، مجھے پاکستان کی یونی ورسٹیوںمیں 45 سال سے زائد کا عرصہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا ، دس سال این ای ڈی یونی ورسٹی میں پڑھایا ، جوچیز مشاہدے میں آئی کہ اساتذہ جب عام لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو قصوروار طلبہ ہی کو ٹھہراتے ہیں جو غلط ہے ، اساتذہ کا معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے جس کو ادا کرنے میں ہم خود کوتاہیاں کرتے ہیں ، جس وقت میں یونی ورسٹی میں پڑھاکرتا تھا اس وقت میرے ایک استاد تھے ، میں جب کبھی ا ن کے کمرے میںداخل ہوتا وہ اپنی نشست سے کھڑے ہوجاتے میں نے کہامجھے آپ کے پاس آتے ہوئے شرم آتی ہے کیوں کہ میں تو آپ کا شاگردہوں اور آپ میرے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، انہوں نے کہا میں نے اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا ہے جب ہم کلاس میں داخل ہوتے تھے تو استاد ہماری تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے او رکہتے تھے یہ تمہاری شخصی تعظیم نہیںبلکہ اس علم کی ہے جو تم سیکھنے آئے ہو، اللہ کے فضل سے زندگی میں کبھی کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ مجھ پر کسی تنظیم سے تعلق ثابت کرسکے، موجودہ زمانے کا المیہ ہے کہ اساتذہ غیر جانب دار نہیں رہے۔ بقول شاعر ادھر ادھر کی نہ بات کریہ بتا قافلہ کیوں لٹاتیری رہبری کا سوال ہے مجھے رہزن سے غرض نہیں موجودہ زمانے کی صورت حال مختلف ہے لیکن اساتذہ بھی کیا کریں ، استاد جہاں ملازمت کرتے ہیں ادارے کا سربراہ شہر ت کمانے کے لیے کسی سیاسی جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہوجاتے ہیں، جب تک ہمارے ادارے غیر سیاسی نہیں ہوں گے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوگا،استاد کا کردارغیر سیاسی اور مثالی ہونا چاہیے ، ہر زمانے میں نعرے لگانے اور جان کا نذرانہ دینے والے طلبہ ہوتے ہیں ، تعلیمی اداروں میں جب سیاست آتی ہے نعرے بازیاں ہوتی ہیں اور جب والدین کومعلوم ہوتا ہے تووہ کوشش کرتے ہیں اپنے بچے کو باہر بھیج دیں۔ ہمارے زمانے میں شرارت بھی ہوا کرتی تھی ہوٹنگ بھی ہوتی تھی اساتذہ لطف اندوز بھی ہوتے تھے ، ایک مرتبہ مُلّا نصیرالدین نے طلبہ سے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے میں آج کس موضوع پر درس دوں گا؟ طلبہ نے کہا نہیں معلوم ،مُلّانے کہا تم لوگ اتنے جاہل ہو تمہیںیہ بھی معلوم نہیں آج کا موضوع کیا ہے تو تمہیں پڑھانے کا فائدہ نہیں یہ کہہ کروہ چلے گئے ، دوسرے روز پھر پوچھا معلوم ہے آج کا موضوع کیا ہے ؟ گزشتہ روز کے تجربے کی روشنی میںطلبہ نے کہا جی ہاں معلوم ہے تومُلّانصیر الدین نے کہا جب تمہیں معلوم ہے تو پڑھانے کا کیا فائدہ ،یہ کہہ کرپھر چلے گئے ۔ تیسرے روز یہی سوال دُہرایا تو آدھے طلبا نے کہا معلوم ہے آدھے طلبہ نے کہا معلوم نہیں تو مُلّا نصیرالدین نے کہا جس کو معلوم ہے وہ ان لوگوں کو بتادیں جن کو معلوم نہیں یہ کہ کر چلے گئے، کہنے کا مقصد ہے پہلے کے استادادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی طلبہ سے ہنسی مذاق کیا کرتے تھے، اس واقعے میں مذاق کے ساتھ ادب بھی موجود ہے، ہمارے اساتذہ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا کردار آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے میں اپنی گفت گو کا اختتام اس شعر پر کروں گا کہ تیری محفل بھی گئی تجھے چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے د ے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے آکے بیٹھے بھی نہ تھے اٹھائے بھی گئے پروفیسر ہارون رشید: ہمیں تعلیمی اداروںنے چھوڑ دیا لیکن ہم نے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو نہیں چھوڑا، دنیا نے تجربات کی شکل میں جو کچھ دیا تھا لوٹا رہا ہوں ، استاد کے کردار کے بارے میں تاریخ نے بتادیا کہ دنیا میں دو ہی ہستیاں ایسی ہیںجوکسی کو اپنے سے آگے بڑھ کر ترقی کی منازل طے کرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہیں ایک والدین اور دوسرے استاد۔میں ان خوش نصیب استادوں میں سے ہوں جس کے بے شمار طالب علم ہیں جو مختلف جگہوں پر ملتے ہیں تو بڑی عزت و احترام پیش آتے ہیں، ایک مرتبہ ٹیچرز ڈے کے موقع پر کینیڈا سے ایک طالبہ کا فون آیااس نے میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیابعد میں اس نے مجھے اپنی کتاب بھیجی جس کاانتساب اس نے میرے نام کیا تھا ۔ مجھے بہت اچھا لگااور اپنے ہونے کا احساس ہوا، در حقیقت آج کے طالب علم کا رویہ اور اس کا رجحان ترقی کی ان راہوں پر ہے کہ اسے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی حاجت نہیں یا وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ، جب ہم ا س ا ٓڈیٹوریم میںداخل ہوئے تو ہم ہی ہم تھے آہستہ آہستہ آپ لوگ آتے گئے او ر یہ قافلے کی شکل اختیار کر گیا ۔ میں نے تعلیم ، اساتذہ، نصاب، اداروں اور دیگرموضوعات پربے پناہ لکھا ہے، مجھے ہمیشہ اس با ت کا احساس رہا ہے کہ طلبہ وطالبات اچھے ہوتے ہیں اس لیے وہ اساتذہ جو انہیںاچھا پڑھاتے ہیں وہ خود انہیں پہچانتے ہیں ، اور ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔ استاد کا پڑھانا اس کا رویہ ، محبت، شفقت ایک ایسی خوش بو ہے جو ذہنوں میں سرایت کرجاتی ہے ، جب میں نے پڑھانا شروع کیا اُس وقت تنخواہ اتنی نہیں تھی ، بس میں سفر کرنا ہوتا تھا۔ ابھی چہرے پر لڑکپن کی سرخی تھی مگر پیشہ استاد کا اختیار کیا تھا تو حد ادب اختیارکرنا پڑا، ایک روز بس میںکالج سے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا بس میں دیکھا ایک بزرگ بس میںڈنڈا پکڑے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں میںاپنی نشست سے کھڑا ہوااور ان سے کہا کہ تشریف رکھیں، انہوںنے گریز کیا تومیرے منہ سے بے اختیار نکلا سر آپ تشریف رکھیں ، جب میں نے سر کہا تو وہ بیٹھ گئے اور مجھ سے پوچھا آپ کون ہیں؟ میں نے کہا میں آپ کا شاگر د ہوں میرا صرف اتنا کہنا تھا ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، مجھ سے کہا تم نے مجھے پہچان لیا میں نے کہا جی ہاں، میں نے ان سے پوچھا کہ سر آپ نے بیٹھنے سے گریز کیوں کیا انہوں نے کہا کہ کسی کونشست سے اٹھا کر بیٹھنا مجھے گوارا نہیں لیکن جب تم نے سر کہاتو مجھے احساس ہوا یقینا میر ا کوئی شاگرد ہے، وہ عزت اور آنسو مجھے ہمیشہ یاد رہے ۔میں پوری دنیا میں جہاں بھی گیا مجھے میرے ایسے طلبہ نظر آئے جن سے مل کر ،انہیں دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ دوسرا پیشہ جس میں بہت اچھے پیسے مل سکتے تھے ، کیوں اختیار نہیں کیا ۔ اُس وقت یہ پیشہ قابل عزت تھا۔ اب یہ پیشہ زیادہ تر کاروبار کے لیے استعمال ہوتا ہے ، مجھ سے کوئی پوچھے دوبارہ زندہ ہوکر کیا بننا پسند کروگے تو کہوں گا استاد، بلاشبہ معاشرے میں استاد کا کردار اہم ہوتا ہے ، کمرشل از م کے دور میں استاد کا کردار بھی تاجرانہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے استاد اور طالب علموں کے درمیان احترام کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے ،آج کے اساتذہ کو میرا یہ مشورہ ہے کہ اگر پیسہ ہی کمانا ہے تو کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں، کئی اساتذہ کو دیکھتاہوں سمجھاتا ہوں تنبیہ بھی کرتا ہوں، آ ج کل اساتذہ جو لباس پہنتے ہیں، طالب علموں سے جس بے تکلفی کا اظہار کرتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کسی محفل میں آپ کا شاگرد آپ کودیکھ کر کھڑا ہوجائے تواپنے آپ کو ایسا بناکر رکھیں کہ جیسے انسان اپنی زندگی میں عزت حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ استاد شاگرد کار شتہ ایسا ہے جس میں انسان عزت دیتا اور لیتاہے، ایک عزت دینے والا استاد دنیا میں کبھی بھی تحقیر کا شکار نہیں ہوتا، ہمارے تعلیمی اداروںمیں تعلیم کو فروخت کیا جارہاہے جس سے تعلیمی نظام میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں یہ ناممکن ہے کہ کسی یونی ورسٹی میں طالب علم ڈگری کے لیے جائے اور حاصل نہ کرسکے ایک یونی ورسٹی کا یہ حال ہے کہ وہاں جانے والے کو ہر حال میں داخلہ مل جاتا ہے ایک طالب علم سے معلوم کیا تمہارا یہاں داخلہ لینے کا کیا مقصد ہے تو اس نے وہی جواب دیا جیسا ہمارے ایک صوبے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی ۔ایک مرتبہ کچھ طلبہ کی مشترکہ فہرست بنا کردی جنہیں داخلہ نہیں دیا گیا تھا ، حکم آیا ان کو داخلہ نہ دے کر آپ ہماری یونی ورسٹی کو نقصان پہنچارہے ہیں اتنے لاکھ کا نقصان ہورہا ہے، یہ رویہ افسوس ناک ہے، تعلیم کمرشلائز ہوگئی ہے ، پور ے ملک میں 137 یونی ورسٹیاں ہیں بیش تر یونی ورسٹیوں کے پاس اتنے فنڈز نہیںکہ اساتذہ اور طلبہ کو سہولتیں دے سکیں، آپ خوش نصیب ہیں ایک اچھی یونی ورسٹی میں آئے اور اچھی تعلیم حاصل کررہے ہیں، ہر سال پاکستان کے 65 لاکھ بچے ان پڑھ اور جاہل کی صف میں آجاتے ہیں، پیدائش کا تناسب 2.1 ہے، ہم دنیا کے کم ترین تعلیمی فنڈز مہیا کرنے والے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں ، ناخواندگی میں نائیجریا کے بعد ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں ، ہم افریقی ممالک کے بعد دوسرے کرپٹ ترین ملک ہیں ۔جن شعبوں میں کرپشن ہوتی ہے ان میںصحت ، تعلیم اور غذاہیں۔3کروڑ بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں،2015 تک ہم 85فیصد شرح خواندگی کا ہد ف پور انہیں کرسکتے ، تعلیمی اداروں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے آئیے تعلیم خریدیئے، 80,100 گز کے مکانات میں اسکولز بنے ہوئے ہیں ، 200گز کے مکان میں یونی ورسٹی کے کیمپس قائم ہیں، تعلیم کے لیے علمی ماحول بے حد ضروری ہے ، تعلیم دیناایک خدمت ہے، یہ پیغمبروں کا کام ہے جو اختیار کرتا ہے نیک کام کرتا ہے، کوچنگ سینٹر زکھولنا لوگوں کو گھروں سے لے جاکر پڑھانا ،کالجوں کو ویران کردینا کہ \"مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے، سب کو علم ہے کے دوپہر 12 بجے کے بعد کالجوں میں پڑھائی نہیں ہوتی ، سرکاری اسکولوں میں تعلیم ختم ہوچکی استاد کچھ دیر کے لیے آتے ہیں اور دوسری نو کری پرچلے جاتے ہیں تمام کوچنگ سینٹرزسرکاری اسکولوں ،کالجزکے اسا تذہ سے بھرے رہتے ہیں وہاں غیر حاضری نہیں ہوتی ان میں بچے پڑھ کر اچھے اداروں میں جاتے ہیں ان طلبہ اور اساتذہ میں جو رشتہ ہے وہ کمرشل ہے احترام کا نہیںہے لینے اور دینے کا ہے، ہمارا تو حال یہ تھا کہ استاد کا ہاتھ دینے والا اور ہمارا لینے والا تھا، موجودہ دور کے نظام نے احترامِ استاد کو ختم کردیا ہے، ایسے اداروں کے بارے میں بہت لکھا ہے، آپ ہی میں سے چند بچے ایسے ہیں جو دنیا کاریکارڈ توڑ کر اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں ، پاکستان میں ایسے طلبہ و طالبات ہیں جن کا دنیا بھر میں ایک مضمون میں سب سے زیادہ نمبر کا ریکارڈ ہے ایسے طلباء کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے، سچی لگن یہ ہوتی ہے۔ استاد کے کردار کے لیے ضروری ہے کہ اس میں استاد کی صفت ہو۔میں جانتا ہوںکہ طلبہ سے زیادہ استاد کا اچھاشناسا کوئی اور نہیں ، وہ جانتے ہیں علم کتنا گہرا ہے اور کہاں اس کی سطح ٹخنوں کو چھورہی ہیں، میںدعاگو ہوں یہ نسل اپنے اساتذہ کا احترام کرے اورآنے والے اساتذہ صرف کمائی کی خاطراس مقدس پیشے کو اختیار نہ کریں کمائی کے لیے پیشے اور بھی بہت ہیں جس میںبہت اچھا کمایا جاسکتاہے ، ان اساتذہ کی بات سنتے ہوئے آپ کو حیرانی ہو رہی ہو گی کہ طلبہ کو گھروں میں بلاکر یا خود جاکر پڑھایا کرتے تھے حقیقت میں وہ استاد تھے جو اس مقدس پیشے کی قدر کرتے تھے، میرے انگریزی کے استا د جن کا انتقال ہوگیا ہے جس کالج کا پرنسپل ہوا وہ وہاں پڑھاتے تھے وہ میرے گھر آتے تھے جب وہ صوفے پر بیٹھتے تھے تو میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھتا تھا نیچے بیٹھتا تھا اگر اتفاق سے بجلی چلی جاتی تومیرے گھر والے آکر ان کو پنکھا جَھلتے تھے ،میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کو لحد میں اتارا، خداکرے کہ ایسے لوگ ہوں جو وقت آخر ہمیں سہارا دیں تاکہ ہمارے دل سے بھی ان کے لیے دعا نکلے ۔کمانڈر ریٹائرڈ نجیب انجم : پروفیسر رشید احمد علی گڑھ یونی ورسٹی میں ایک طویل عرصے تک صدر شعبہ اردو رہے وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو عزیزان من کہ کر مخاطب کرتے تھے مجھے یہ جملہ بہت اچھا لگا یاد کرلیا،آج ایک بار پھر روزنامہ دنیا کے توسط سے محمد علی جناح یونی ورسٹی میں طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ،گزشتہ 40 برسوں سے درس و تدریس سے منسلک ہوں ، اتفاق سے میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جہاں میرے مرحوم والد اور دادا کابھی اسی پیشے سے تعلق تھا ، جب ایم اے انگریزی کیا تو کئی لوگوںنے کہا تم انگریزی اچھی بول اور لکھ لیتے ہو، سی ایس ایس کا امتحان کیوں نہیں دیتے ؟ چونکہ میں نے آنکھ علمی ماحول میں کھولی تھی تو کہا میں پڑھانا ضروری سمجھتا ہوں آبائی پیشے میں مقدر آزمائوں گا، والدہ کی خواہش تھی پری میڈیکل میں داخلہ لوں جیسا آج بھی مائوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ڈاکٹر بنیں اور زیادہ تر لڑکیاں بھی پری میڈیکل میں داخلہ لیتی ہیں ہر کوئی ڈاکٹر بننے کا خواہش مند ہوتا ہے میں نے والدہ سے کہا آپ کے شوق کے خاطر انٹر تو پری میڈیکل سے کرلوں گا لیکن اس کے بعد انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کروں اور پڑھائوں گا، میرے پاس کالج کی کتابوں کے ساتھ ناول بھی ہوتے تھے ۔بستر تہہ کرکے رکھا ہوا تھا جیسے ہی والدہ کے آنے کی آہٹ محسوس ہوتی توتہہ کیے ہوئے بستر میں ناول چُھپا دیا کرتا تھا، کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بھی یہی کام کریں، میں لاڑکانہ میں پیدا ہوا ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ، میرے والد نے پنجاب یونی ورسٹی سے انگریزی ، اردو اوراسلامک ہسٹری میں ایم اے کیا ہوا تھا، اُس زمانے میں لاڑکانہ میں گرلز کالج نہیں تھا،انہوں نے رضاکارانہ طور پر لاڑکانہ کی طالبات کو گھر پر بلا کر پڑھانا شروع کیا ۔جو طالبات پڑھنے کے لیے آتی تھیں میرے والد ان سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے تھے، آج بھی وہ لوگ میرے گھر آتے ہیں ، والد کے کچھ شاگرد وزیر بھی رہے ہیں ان کے گھروں میں کوئی تقریب ہوتی ہیں تو فون کرکے کہتے ہیں والد صاحب سے بات کرائیں حالاں کہ ان کا انتقال ہوئے عرصہ ہوچکا، وہ لوگ جب گھر میں آتے ہیں تو والدہ کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر عزت دیتے ہیں ، جو استاد اچھا پڑھا تا ہے اسے ایسی ہی عزت ملتی ہے انہوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کیا ہے توان کی عزت ہورہی ہے ، اس کا مقصد ہرگز نہیں کے ہم اپنے گُن گارہے ہیں صرف اساتذہ کی عزت و احترام کا بتایا جارہا ہے ، بتانے کا مقصد آج اور کل میںفرق بیان کرنا ہے، پاکستان کے سرکاری کالجوں میں پڑھایا ملک سے باہر بھی دوسال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے، پاکستان نیوی میں بھی انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسوں کو طویل عرصے تک پڑھانے کا فریضہ انجام دیا، شاگردوں میں ٹو اور تھری اسٹار جنرلز اور ایڈمرل ہیں، آج بھی کوئی کام درپیش ہوتا ہے وہ صرف ایک جملہ کہتے ہیں Yes Sir۔ ایک تقریب میں سینیئر شاگردوں سے ملنے کا اتفاق ہواجن کی عمریں 45,50 کی ہوں گی کوئی پلیٹ لارہا تھا ، کوئی پانی کوئی روٹی تو کوئی میٹھالارہا تھا وہ سارے میرے آگے پیچھے تھے ، ان میں ایک ڈائریکٹر جنرل میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ہے ، آج بھی معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اساتذہ کی عزت و احترام کرتے ہیں ، آج اساتذہ کی یہ حالت ہے کہ جب اساتذہ کے انٹرویوز لیتا ہوں اور اگر اردو کے لیے استاد چاہیے تو ان سے منٹو اور ترقی پسند تحریک کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ لاعلمی کااظہار کر دیتے ہیں پوچھا جاتا ہے کیا مطالعہ کرتے ہیںجواب ملتا ہے سنڈے میگزین کا مطالعہ کرتے ہیں پوچھا جائے کہ گزشتہ ہفتے کا سنڈے میگزین پڑھا تھا تو جواب ملتا ہے کہ کسی عزیز کا انتقال ہوگیا تھااس لیے نہیں پڑھ سکے۔انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر نے والے طلبہ کویہ نہیں پتا ہوتا کہ شیکسپیئرڈرامے لکھتا تھا یا ناول۔دراصل ہمارے معاشرے کی تربیت ہی ایسی ہورہی ہے ، کوئی بات سمجھائی جائے تو چھوٹی چھوٹی باتوں میںانا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ معاشرے میں اساتذہ یا کسی بھی شخصی کردار کی تربیت نہیں ہورہی ہے جب کہ استاد بھی انا کا غلام بن گیا ہے ، اسے اپنے فرائض سے محبت نہیں بلکہ تنخواہ سے غرض ہے ، کہتے ہیں یہ سار دن بولتے رہتے ہیں ان کی عادت ہوگئی ہے ، اس رویہ کو بدلنا ہوگا ۔ اپنے اندر مطالعے کا شوق پیدا کریں،کل آپ ماں اور باپ بنیں گے ، والدین بچوںکا غلط کاموں میں ساتھ دیتے ہیں اگر وہ کلاس میں غیر حاضر ہے تواس کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ بچوں کو کوچنگ سینٹر میںداخل کرادیتے ہیںایسے والدین سے کہتاہوں یہ بچے آپ کا بوجھ ہیں ان کو کسی اور پر منتقل نہ کریں آپ نہیںسنبھالیں گے تودوسراکیسے سنبھالے گا، کوچنگ سینٹرز صرف دکھاوے کے لیے چلائے جا رہے ہیں، طالب علموں سے درخواست ہے پڑھائی پر توجہ دیں ، کتاب سے رشتہ جوڑیں ،کتاب پڑھنے کو معمول بنائیں ، اساتذہ کی عزت کریں اسی میںبھلائی ہے، آپ اہل ہیں تو کوئی بھی آپ کو نوکری سے نہیںنکال سکتا ، کیا فائدہ یہاںسے ایم بی اے ،بی بی اے کرنے کے بعد بھی نوکری تلاش کررہے ہیں آپ کے والدین کی محنت کی کمائی جو آپ پرخرچ ہورہی ہے اس موقع کو غنیمت جانیں امید ہے جوباتیںکیںان پر عمل کریں گے۔پروفیسر سیما سراج : اس وقت مجھے بحیثیت استاد، طالب علم کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، استاد کا کردار کیا ہے اور کیا کردار اداکررہا ہے؟ طالب علم ہمارے سامنے موجود ہیں ، ہم جو کچھ کہ رہے ہیںوہ بتائیں کہ مطمئن ہیں یا نہیں،یہاں بات ہوئی کہ اردو پڑھانے کے خواہش مند وں نے منٹو کو نہیں پڑھا سنڈے میگزین پڑھتے ہیں۔میں یہ کہتی ہوںاگر منٹوکو نہیں پڑھا اور سنڈے میگزین پڑھا تو بہت اچھا کیا کیوں کہ سنڈے میگزین میں وہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں جس سے معلومات ملتی ہیں۔اگر آپ کو کوئی ایک لفظ بھی سکھاتا ہے تووہ آپ کا استاد ہے، اچھا سکھارہا ہے یا برا، دیکھنا یہ ہے کہ وہ منفی راستوں پر لے جارہا ہے یا مثبت ، جو کچھ ہم نے پڑھا ہے وہی 20سال بعد اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے ہیںاس کا ذمے دار کون ہے؟ ایک سیاست دان نے کہا ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی ،جب حکم راں ایسے ہوں گے ، جوتعلیمی ادارے چلا رہے ہوں توہم تعلیم کے مستقبل سے بہت زیادہ پُر امید نہیںہوسکتے، میں کراچی کی جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اردو کی پہلی خاتون استاد تھی، 1987 میںسندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میںپہلی پوزیشن لی اور عثمانیہ گرلز کالج میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہی ہوں ۔آج کے طالب علم جو استاد کو سن نہیںسکتے وہ کچھ نہیں سیکھ سکتے ،کلاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں ہمارے اساتذہ کچھ نہیںسکھاتے ، استاد جب کلاس میںجاتا ہے تو اس کے پاس 100 کے بجائے 4 طلبہ ہوتے ہیں وہ کیا ماحول ہو گا۔ آج کا طالب علم استادکے سامنے آنکھیں اونچی کرکے گزرتا ہے ماحول بہت بدل گیا ہے ، اب طالب علم کے قدم استاد کے سامنے نہیں ڈگمگاتے بلکہ وہ دو قدم آگے چلتا ہے ، اساتذہ سے شکایات اس لیے نہیں کرسکتے ہیں کہ وہ بھی اسی سماج کا ایک کردار ہے، پہلے تقررتعلیم اور معیار کی بنیاد پر ہوتے تھے طالب علم باقاعدگی سے مطالعہ کرتا تھے باقاعدہ محنت کے بعد ڈگری حاصل ہوتی تھی، اس کے بعد سلیکشن ہوتا تھا، اب نقل کر کے پاس ہوتے ہیں ، پیسے دے کر ڈگری ملتی ہے جب استاد کا تقرر سیاسی بنیاد پر ہوگا، اساتذہ کی سیاسی وابستگیاں ہوںگی تواستادتقسیم ہوجاتاہے۔ جس کی وجہ سے غیر جانب داری نہیں رہتی، کل او ر آج کے استاد کا موازنہ نہیںکیا جا سکتا، کل کا استاد سائیکل پر چلا آتا تھا لیکن آج کا استاد گاڑی پر آتا ہے دیر سے آتا ہے پوچھا جاتا ہے دیر سے کیوں آئے جواب ملتا ہے سی این جی کی لائن میں لگے ہوئے تھے، استاد کے لیے خوش اخلاقی ، پابند ی وقت اور خوش لباسی بھی ضروری ہے ، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لباس استری نہیں کرسکا تو خوش لباس اور خوش اخلاق کیسے رہے گا۔آج کے استاد کو طرح طرح کے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، پہلے کے اساتذہ د کو ان مسائل کا سامنا نہیںتھا، آخر استاد بھی انسان ہوتا ہے، اس کے بھی سماجی مسائل ہیں۔ تمام چیزوںکا تعلق رواج اور معاشرے سے ہوتا ہے ۔ آج ہم کہتے ہیں 50 سال پہلے یہ ہوتا وہ ہوتا تھا موازنہ کرنے سے پہلے ہمیں اس وقت کے سماج اور معاشرے کو دیکھنا چاہے کہ اس وقت کا استاد کیا تھا اور آج کے معاشرے میں کیا ہے۔آج اساتذہ کا مطالعہ ختم ہوگیا ہے تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے وہ اب مقصد کے تحت اس شعبے میں نہیں آرہے ہیں اس لیے کمرشل ہوگئے ہیں ۔کمرہ امتحان میں کوئی بچہ نقل کرتا ہےاور استاد اس کے ہاتھ سے پیپر لے لیتا ہے توطالب علم استاد کو پستول دکھاتا ہے کہ کیا تمہیں باہر نہیں جانا،دھمکی آمیز فون آنے لگتے ہیں ، ایسے حالات میں استادنقل سے کیسے روک سکتاہے ۔ اساتذہ بھی بیرونی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں وہ کیا کریںجس معاشرے میں اساتذہ عدم تحفظ کا شکارہوں تو ان سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پرسکون رہ کر دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ ایک طالب علم جو ہمارے معیار کا نہیں اسے داخلہ نہیں دینا چاہتے لیکن اوپر سے فون آتا ہے کہ اس کو داخلہ دیں ۔اس دبائو کے ساتھ اساتذہ کس طرح اپنے منصب پر قائم رہ سکتے ہیںجب اساتذہ پر تشدد کیاجاتا ہے تو کارروائی کرتے ہوئے طالب علم کو نکال دیا جاتا ہے کیا یہ سزا کافی ہے ؟ نہیں اایسے طالب علم کی سزا یہ ہونی چاہیے کہ اس کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں ہمیشہ کے لیے داخلہ نہ دیا جائے اور ایسی سخت ترین سزا دی جائے کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ رونما نہ ہو ۔سیّد عمار یاسر زیدی : تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو معاشرے اساتذہ کو عزت و احترام دیتے ہیں وہی ترقی کی راہ پر گام زن ہوتے ہیں اور جن معاشروں میںاستاد کا احترام نہیں ہوتاان کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جس صورت حال سے آج ہم گزر رہے ہیں ، حضرت علی ؓ کا فرمان ہے جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، چاہے تو وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے۔میں تمام حاضرین اور قابل احترام اساتذہ کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یہاں تشریف لائے اوراپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔