معاشرے میں اساتذہ کا کردار
اسپیشل فیچر
سیّدعمار یاسر زید ی: سب سے پہلے معزز مہمانان گرامی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس اہم موضوع پر گفتگو کے لیے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا۔ میں محمد علی جناح یونی ورسٹی کی انتظامیہ کا مشکورہوں جن کے تعاون سے اس مذاکرے کا انعقاد ممکن ہوا ، روزنامہ دنیاکراچی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے اس مذاکرے کا موضوع ہے ’’ معاشرے میں اساتذہ کا کردار‘‘۔آج کے اس مذاکرے کی میزبانی کے فرائض میں انجام دوں گا ۔ بچے کی کردار سازی میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوتاہے ، اس کے بعد جو شخصیت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے وہ استاد کی ہے استاد صرف تعلیم ہی نہیں دیتا تربیت بھی کرتا ہے، معاشروں کے عروج و زوال میں اساتذہ کا اہم کردار ہوتا ہے ، اساتذہ کا کام صرف اسکول یا کالج میں پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ جب آپ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں توانگلی پکڑ کر عملی زندگی کے نشیب و فراز میں لڑکھڑانے سے بچانے والا بھی استاد ہوتا ہے ۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج اس آڈیٹوریم میں میرے دو اساتذہ تشریف رکھتے ہیں ایک پروفیسر ہارون رشید صاحب جنہوں نے مجھے زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور دوسر ے غلام محی الدین صاحب جنہوں نے عملی صحافت کے میدان میں مجھے چلنا سکھایا۔ اب میں جناب غلام محی الدین صاحب سے درخواست کروں گاوہ حاضرین کو اس فورم کے اغراض و مقاصد بیان کریں ۔غلام محی الدین : آج کا موضوع اپنے عنوان کے اعتبار سے نہایت اہم ہے،جب میں بچہ تھا اور راول پنڈی کے اسکول میں زیر تعلیم تھا ، گوالمنڈی میںہمارا گھر تھا اور نالا لئی کا پل قریب تھا، ایک روز والدہ نے کسی کام سے بازار بھیجا ، میں نا لہ لئی کے پل کے قریب ہی تھا کہ سامنے سے کلاس ٹیچر کو آتے دیکھا۔انہیں دیکھ کر میں نے چھپنے کے لیے جگہ تلاش کی مگرجب کوئی جگہ نہیں ملی تو میں پل کے ستون کے ساتھ بیٹھ گیا اور جب استاد چلے گئے تو پھروہاں سے نکلا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ استاد کلاس میں سختی کرتے تھے بلکہ یہ استاد کا احترام تھا ۔یہ وہ استاد تھے کہ جب امتحان کا وقتْْْ آتا، تو نہ صرف اسکول میں زیادہ وقت دیتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے جو بھی مسئلہ ہو گھر پرآجانا میں حاضر ہوں۔وقت بدلہ ،اس وقت بڑا افسوس ہواکہ جب کالج میں ایک استاد کو اپنے شاگردسے سگریٹ مانگ کر پیتے ہوئے دیکھا۔یہ دو مختلف پہلو ہیں۔ بہرحال آج ہم انہی پہلوئوں پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ کیا اساتذہ اپنے منصب کا حق ادا کررہے ہیں کیا ہمارے طالب علم استاد کا ادب و احترام کرتے ہیں ۔ روزنامہ دنیا مختلف موضوعات پر فورم منعقد کرتا رہتا ہے جس میں ہرقسم کے سیاسی ، سماجی ، معاشی مسائل کا حل تلاش کیاجاتا ہے آج کا فورم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، جتنے بھی اساتذہ موجود ہیں وہ انتہائی محترم ہیں ان اساتذہ کے بارے میں ان کے شاگردوں سے ہمیشہ تعریفی کلمات ہی سنے۔حا فظ ڈاکٹر عفان سلجوق: اساتذہ کے معاشر ے میں کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے روزنامہ دنیا نے فورم منعقد کیا ہے ان کے بہت مشکور ہیں ۔استاد ہی طالب علم کو زمین سے آسمان تک پہنچاتا ہے، کسی معاشرے کی ترقی یا تنزلی کا دارومداراس کا نظام تعلیم ہوتا ہے،خراب معاشرہ نظام تعلیم اور اساتذہ کی خرابی ظاہر کرتا ہے، استاد کی مثال ایک جوہری کی ہے جو ہیرے کو تراشتا ہے ، اسی طر ح استاد طالب علم کی تربیت کرتا ہے مگر موجودہ زمانے کا المیہ ہے کہ استاد سیاسی جانب داری کا شکار ہیں اور کسی بھی تعلیمی ادارے کا سربراہ کسی نہ کسی سیاسی تنظیم و جماعت سے وابستہ ہوئے بغیر اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ سکتا، مجھے پاکستان کی یونی ورسٹیوںمیں 45 سال سے زائد کا عرصہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا ، دس سال این ای ڈی یونی ورسٹی میں پڑھایا ، جوچیز مشاہدے میں آئی کہ اساتذہ جب عام لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو قصوروار طلبہ ہی کو ٹھہراتے ہیں جو غلط ہے ، اساتذہ کا معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے جس کو ادا کرنے میں ہم خود کوتاہیاں کرتے ہیں ، جس وقت میں یونی ورسٹی میں پڑھاکرتا تھا اس وقت میرے ایک استاد تھے ، میں جب کبھی ا ن کے کمرے میںداخل ہوتا وہ اپنی نشست سے کھڑے ہوجاتے میں نے کہامجھے آپ کے پاس آتے ہوئے شرم آتی ہے کیوں کہ میں تو آپ کا شاگردہوں اور آپ میرے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، انہوں نے کہا میں نے اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا ہے جب ہم کلاس میں داخل ہوتے تھے تو استاد ہماری تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے او رکہتے تھے یہ تمہاری شخصی تعظیم نہیںبلکہ اس علم کی ہے جو تم سیکھنے آئے ہو، اللہ کے فضل سے زندگی میں کبھی کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ مجھ پر کسی تنظیم سے تعلق ثابت کرسکے، موجودہ زمانے کا المیہ ہے کہ اساتذہ غیر جانب دار نہیں رہے۔ بقول شاعر ادھر ادھر کی نہ بات کریہ بتا قافلہ کیوں لٹاتیری رہبری کا سوال ہے مجھے رہزن سے غرض نہیں موجودہ زمانے کی صورت حال مختلف ہے لیکن اساتذہ بھی کیا کریں ، استاد جہاں ملازمت کرتے ہیں ادارے کا سربراہ شہر ت کمانے کے لیے کسی سیاسی جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہوجاتے ہیں، جب تک ہمارے ادارے غیر سیاسی نہیں ہوں گے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوگا،استاد کا کردارغیر سیاسی اور مثالی ہونا چاہیے ، ہر زمانے میں نعرے لگانے اور جان کا نذرانہ دینے والے طلبہ ہوتے ہیں ، تعلیمی اداروں میں جب سیاست آتی ہے نعرے بازیاں ہوتی ہیں اور جب والدین کومعلوم ہوتا ہے تووہ کوشش کرتے ہیں اپنے بچے کو باہر بھیج دیں۔ ہمارے زمانے میں شرارت بھی ہوا کرتی تھی ہوٹنگ بھی ہوتی تھی اساتذہ لطف اندوز بھی ہوتے تھے ، ایک مرتبہ مُلّا نصیرالدین نے طلبہ سے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے میں آج کس موضوع پر درس دوں گا؟ طلبہ نے کہا نہیں معلوم ،مُلّانے کہا تم لوگ اتنے جاہل ہو تمہیںیہ بھی معلوم نہیں آج کا موضوع کیا ہے تو تمہیں پڑھانے کا فائدہ نہیں یہ کہہ کروہ چلے گئے ، دوسرے روز پھر پوچھا معلوم ہے آج کا موضوع کیا ہے ؟ گزشتہ روز کے تجربے کی روشنی میںطلبہ نے کہا جی ہاں معلوم ہے تومُلّانصیر الدین نے کہا جب تمہیں معلوم ہے تو پڑھانے کا کیا فائدہ ،یہ کہہ کرپھر چلے گئے ۔ تیسرے روز یہی سوال دُہرایا تو آدھے طلبا نے کہا معلوم ہے آدھے طلبہ نے کہا معلوم نہیں تو مُلّا نصیرالدین نے کہا جس کو معلوم ہے وہ ان لوگوں کو بتادیں جن کو معلوم نہیں یہ کہ کر چلے گئے، کہنے کا مقصد ہے پہلے کے استادادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی طلبہ سے ہنسی مذاق کیا کرتے تھے، اس واقعے میں مذاق کے ساتھ ادب بھی موجود ہے، ہمارے اساتذہ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا کردار آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے میں اپنی گفت گو کا اختتام اس شعر پر کروں گا کہ تیری محفل بھی گئی تجھے چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے د ے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے آکے بیٹھے بھی نہ تھے اٹھائے بھی گئے پروفیسر ہارون رشید: ہمیں تعلیمی اداروںنے چھوڑ دیا لیکن ہم نے تعلیم اور تعلیمی اداروں کو نہیں چھوڑا، دنیا نے تجربات کی شکل میں جو کچھ دیا تھا لوٹا رہا ہوں ، استاد کے کردار کے بارے میں تاریخ نے بتادیا کہ دنیا میں دو ہی ہستیاں ایسی ہیںجوکسی کو اپنے سے آگے بڑھ کر ترقی کی منازل طے کرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہیں ایک والدین اور دوسرے استاد۔میں ان خوش نصیب استادوں میں سے ہوں جس کے بے شمار طالب علم ہیں جو مختلف جگہوں پر ملتے ہیں تو بڑی عزت و احترام پیش آتے ہیں، ایک مرتبہ ٹیچرز ڈے کے موقع پر کینیڈا سے ایک طالبہ کا فون آیااس نے میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیابعد میں اس نے مجھے اپنی کتاب بھیجی جس کاانتساب اس نے میرے نام کیا تھا ۔ مجھے بہت اچھا لگااور اپنے ہونے کا احساس ہوا، در حقیقت آج کے طالب علم کا رویہ اور اس کا رجحان ترقی کی ان راہوں پر ہے کہ اسے پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی حاجت نہیں یا وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ، جب ہم ا س ا ٓڈیٹوریم میںداخل ہوئے تو ہم ہی ہم تھے آہستہ آہستہ آپ لوگ آتے گئے او ر یہ قافلے کی شکل اختیار کر گیا ۔ میں نے تعلیم ، اساتذہ، نصاب، اداروں اور دیگرموضوعات پربے پناہ لکھا ہے، مجھے ہمیشہ اس با ت کا احساس رہا ہے کہ طلبہ وطالبات اچھے ہوتے ہیں اس لیے وہ اساتذہ جو انہیںاچھا پڑھاتے ہیں وہ خود انہیں پہچانتے ہیں ، اور ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔ استاد کا پڑھانا اس کا رویہ ، محبت، شفقت ایک ایسی خوش بو ہے جو ذہنوں میں سرایت کرجاتی ہے ، جب میں نے پڑھانا شروع کیا اُس وقت تنخواہ اتنی نہیں تھی ، بس میں سفر کرنا ہوتا تھا۔ ابھی چہرے پر لڑکپن کی سرخی تھی مگر پیشہ استاد کا اختیار کیا تھا تو حد ادب اختیارکرنا پڑا، ایک روز بس میںکالج سے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا بس میں دیکھا ایک بزرگ بس میںڈنڈا پکڑے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں میںاپنی نشست سے کھڑا ہوااور ان سے کہا کہ تشریف رکھیں، انہوںنے گریز کیا تومیرے منہ سے بے اختیار نکلا سر آپ تشریف رکھیں ، جب میں نے سر کہا تو وہ بیٹھ گئے اور مجھ سے پوچھا آپ کون ہیں؟ میں نے کہا میں آپ کا شاگر د ہوں میرا صرف اتنا کہنا تھا ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ، مجھ سے کہا تم نے مجھے پہچان لیا میں نے کہا جی ہاں، میں نے ان سے پوچھا کہ سر آپ نے بیٹھنے سے گریز کیوں کیا انہوں نے کہا کہ کسی کونشست سے اٹھا کر بیٹھنا مجھے گوارا نہیں لیکن جب تم نے سر کہاتو مجھے احساس ہوا یقینا میر ا کوئی شاگرد ہے، وہ عزت اور آنسو مجھے ہمیشہ یاد رہے ۔میں پوری دنیا میں جہاں بھی گیا مجھے میرے ایسے طلبہ نظر آئے جن سے مل کر ،انہیں دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ دوسرا پیشہ جس میں بہت اچھے پیسے مل سکتے تھے ، کیوں اختیار نہیں کیا ۔ اُس وقت یہ پیشہ قابل عزت تھا۔ اب یہ پیشہ زیادہ تر کاروبار کے لیے استعمال ہوتا ہے ، مجھ سے کوئی پوچھے دوبارہ زندہ ہوکر کیا بننا پسند کروگے تو کہوں گا استاد، بلاشبہ معاشرے میں استاد کا کردار اہم ہوتا ہے ، کمرشل از م کے دور میں استاد کا کردار بھی تاجرانہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے استاد اور طالب علموں کے درمیان احترام کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے ،آج کے اساتذہ کو میرا یہ مشورہ ہے کہ اگر پیسہ ہی کمانا ہے تو کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں، کئی اساتذہ کو دیکھتاہوں سمجھاتا ہوں تنبیہ بھی کرتا ہوں، آ ج کل اساتذہ جو لباس پہنتے ہیں، طالب علموں سے جس بے تکلفی کا اظہار کرتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کسی محفل میں آپ کا شاگرد آپ کودیکھ کر کھڑا ہوجائے تواپنے آپ کو ایسا بناکر رکھیں کہ جیسے انسان اپنی زندگی میں عزت حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ استاد شاگرد کار شتہ ایسا ہے جس میں انسان عزت دیتا اور لیتاہے، ایک عزت دینے والا استاد دنیا میں کبھی بھی تحقیر کا شکار نہیں ہوتا، ہمارے تعلیمی اداروںمیں تعلیم کو فروخت کیا جارہاہے جس سے تعلیمی نظام میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں یہ ناممکن ہے کہ کسی یونی ورسٹی میں طالب علم ڈگری کے لیے جائے اور حاصل نہ کرسکے ایک یونی ورسٹی کا یہ حال ہے کہ وہاں جانے والے کو ہر حال میں داخلہ مل جاتا ہے ایک طالب علم سے معلوم کیا تمہارا یہاں داخلہ لینے کا کیا مقصد ہے تو اس نے وہی جواب دیا جیسا ہمارے ایک صوبے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی ۔ایک مرتبہ کچھ طلبہ کی مشترکہ فہرست بنا کردی جنہیں داخلہ نہیں دیا گیا تھا ، حکم آیا ان کو داخلہ نہ دے کر آپ ہماری یونی ورسٹی کو نقصان پہنچارہے ہیں اتنے لاکھ کا نقصان ہورہا ہے، یہ رویہ افسوس ناک ہے، تعلیم کمرشلائز ہوگئی ہے ، پور ے ملک میں 137 یونی ورسٹیاں ہیں بیش تر یونی ورسٹیوں کے پاس اتنے فنڈز نہیںکہ اساتذہ اور طلبہ کو سہولتیں دے سکیں، آپ خوش نصیب ہیں ایک اچھی یونی ورسٹی میں آئے اور اچھی تعلیم حاصل کررہے ہیں، ہر سال پاکستان کے 65 لاکھ بچے ان پڑھ اور جاہل کی صف میں آجاتے ہیں، پیدائش کا تناسب 2.1 ہے، ہم دنیا کے کم ترین تعلیمی فنڈز مہیا کرنے والے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں ، ناخواندگی میں نائیجریا کے بعد ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں ، ہم افریقی ممالک کے بعد دوسرے کرپٹ ترین ملک ہیں ۔جن شعبوں میں کرپشن ہوتی ہے ان میںصحت ، تعلیم اور غذاہیں۔3کروڑ بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں،2015 تک ہم 85فیصد شرح خواندگی کا ہد ف پور انہیں کرسکتے ، تعلیمی اداروں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے آئیے تعلیم خریدیئے، 80,100 گز کے مکانات میں اسکولز بنے ہوئے ہیں ، 200گز کے مکان میں یونی ورسٹی کے کیمپس قائم ہیں، تعلیم کے لیے علمی ماحول بے حد ضروری ہے ، تعلیم دیناایک خدمت ہے، یہ پیغمبروں کا کام ہے جو اختیار کرتا ہے نیک کام کرتا ہے، کوچنگ سینٹر زکھولنا لوگوں کو گھروں سے لے جاکر پڑھانا ،کالجوں کو ویران کردینا کہ \"مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے، سب کو علم ہے کے دوپہر 12 بجے کے بعد کالجوں میں پڑھائی نہیں ہوتی ، سرکاری اسکولوں میں تعلیم ختم ہوچکی استاد کچھ دیر کے لیے آتے ہیں اور دوسری نو کری پرچلے جاتے ہیں تمام کوچنگ سینٹرزسرکاری اسکولوں ،کالجزکے اسا تذہ سے بھرے رہتے ہیں وہاں غیر حاضری نہیں ہوتی ان میں بچے پڑھ کر اچھے اداروں میں جاتے ہیں ان طلبہ اور اساتذہ میں جو رشتہ ہے وہ کمرشل ہے احترام کا نہیںہے لینے اور دینے کا ہے، ہمارا تو حال یہ تھا کہ استاد کا ہاتھ دینے والا اور ہمارا لینے والا تھا، موجودہ دور کے نظام نے احترامِ استاد کو ختم کردیا ہے، ایسے اداروں کے بارے میں بہت لکھا ہے، آپ ہی میں سے چند بچے ایسے ہیں جو دنیا کاریکارڈ توڑ کر اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں ، پاکستان میں ایسے طلبہ و طالبات ہیں جن کا دنیا بھر میں ایک مضمون میں سب سے زیادہ نمبر کا ریکارڈ ہے ایسے طلباء کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے، سچی لگن یہ ہوتی ہے۔ استاد کے کردار کے لیے ضروری ہے کہ اس میں استاد کی صفت ہو۔میں جانتا ہوںکہ طلبہ سے زیادہ استاد کا اچھاشناسا کوئی اور نہیں ، وہ جانتے ہیں علم کتنا گہرا ہے اور کہاں اس کی سطح ٹخنوں کو چھورہی ہیں، میںدعاگو ہوں یہ نسل اپنے اساتذہ کا احترام کرے اورآنے والے اساتذہ صرف کمائی کی خاطراس مقدس پیشے کو اختیار نہ کریں کمائی کے لیے پیشے اور بھی بہت ہیں جس میںبہت اچھا کمایا جاسکتاہے ، ان اساتذہ کی بات سنتے ہوئے آپ کو حیرانی ہو رہی ہو گی کہ طلبہ کو گھروں میں بلاکر یا خود جاکر پڑھایا کرتے تھے حقیقت میں وہ استاد تھے جو اس مقدس پیشے کی قدر کرتے تھے، میرے انگریزی کے استا د جن کا انتقال ہوگیا ہے جس کالج کا پرنسپل ہوا وہ وہاں پڑھاتے تھے وہ میرے گھر آتے تھے جب وہ صوفے پر بیٹھتے تھے تو میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھتا تھا نیچے بیٹھتا تھا اگر اتفاق سے بجلی چلی جاتی تومیرے گھر والے آکر ان کو پنکھا جَھلتے تھے ،میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کو لحد میں اتارا، خداکرے کہ ایسے لوگ ہوں جو وقت آخر ہمیں سہارا دیں تاکہ ہمارے دل سے بھی ان کے لیے دعا نکلے ۔کمانڈر ریٹائرڈ نجیب انجم : پروفیسر رشید احمد علی گڑھ یونی ورسٹی میں ایک طویل عرصے تک صدر شعبہ اردو رہے وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو عزیزان من کہ کر مخاطب کرتے تھے مجھے یہ جملہ بہت اچھا لگا یاد کرلیا،آج ایک بار پھر روزنامہ دنیا کے توسط سے محمد علی جناح یونی ورسٹی میں طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ،گزشتہ 40 برسوں سے درس و تدریس سے منسلک ہوں ، اتفاق سے میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جہاں میرے مرحوم والد اور دادا کابھی اسی پیشے سے تعلق تھا ، جب ایم اے انگریزی کیا تو کئی لوگوںنے کہا تم انگریزی اچھی بول اور لکھ لیتے ہو، سی ایس ایس کا امتحان کیوں نہیں دیتے ؟ چونکہ میں نے آنکھ علمی ماحول میں کھولی تھی تو کہا میں پڑھانا ضروری سمجھتا ہوں آبائی پیشے میں مقدر آزمائوں گا، والدہ کی خواہش تھی پری میڈیکل میں داخلہ لوں جیسا آج بھی مائوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ڈاکٹر بنیں اور زیادہ تر لڑکیاں بھی پری میڈیکل میں داخلہ لیتی ہیں ہر کوئی ڈاکٹر بننے کا خواہش مند ہوتا ہے میں نے والدہ سے کہا آپ کے شوق کے خاطر انٹر تو پری میڈیکل سے کرلوں گا لیکن اس کے بعد انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کروں اور پڑھائوں گا، میرے پاس کالج کی کتابوں کے ساتھ ناول بھی ہوتے تھے ۔بستر تہہ کرکے رکھا ہوا تھا جیسے ہی والدہ کے آنے کی آہٹ محسوس ہوتی توتہہ کیے ہوئے بستر میں ناول چُھپا دیا کرتا تھا، کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بھی یہی کام کریں، میں لاڑکانہ میں پیدا ہوا ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ، میرے والد نے پنجاب یونی ورسٹی سے انگریزی ، اردو اوراسلامک ہسٹری میں ایم اے کیا ہوا تھا، اُس زمانے میں لاڑکانہ میں گرلز کالج نہیں تھا،انہوں نے رضاکارانہ طور پر لاڑکانہ کی طالبات کو گھر پر بلا کر پڑھانا شروع کیا ۔جو طالبات پڑھنے کے لیے آتی تھیں میرے والد ان سے کسی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے تھے، آج بھی وہ لوگ میرے گھر آتے ہیں ، والد کے کچھ شاگرد وزیر بھی رہے ہیں ان کے گھروں میں کوئی تقریب ہوتی ہیں تو فون کرکے کہتے ہیں والد صاحب سے بات کرائیں حالاں کہ ان کا انتقال ہوئے عرصہ ہوچکا، وہ لوگ جب گھر میں آتے ہیں تو والدہ کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر عزت دیتے ہیں ، جو استاد اچھا پڑھا تا ہے اسے ایسی ہی عزت ملتی ہے انہوں نے اپنے شاگردوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کیا ہے توان کی عزت ہورہی ہے ، اس کا مقصد ہرگز نہیں کے ہم اپنے گُن گارہے ہیں صرف اساتذہ کی عزت و احترام کا بتایا جارہا ہے ، بتانے کا مقصد آج اور کل میںفرق بیان کرنا ہے، پاکستان کے سرکاری کالجوں میں پڑھایا ملک سے باہر بھی دوسال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے، پاکستان نیوی میں بھی انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسوں کو طویل عرصے تک پڑھانے کا فریضہ انجام دیا، شاگردوں میں ٹو اور تھری اسٹار جنرلز اور ایڈمرل ہیں، آج بھی کوئی کام درپیش ہوتا ہے وہ صرف ایک جملہ کہتے ہیں Yes Sir۔ ایک تقریب میں سینیئر شاگردوں سے ملنے کا اتفاق ہواجن کی عمریں 45,50 کی ہوں گی کوئی پلیٹ لارہا تھا ، کوئی پانی کوئی روٹی تو کوئی میٹھالارہا تھا وہ سارے میرے آگے پیچھے تھے ، ان میں ایک ڈائریکٹر جنرل میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ہے ، آج بھی معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اساتذہ کی عزت و احترام کرتے ہیں ، آج اساتذہ کی یہ حالت ہے کہ جب اساتذہ کے انٹرویوز لیتا ہوں اور اگر اردو کے لیے استاد چاہیے تو ان سے منٹو اور ترقی پسند تحریک کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ لاعلمی کااظہار کر دیتے ہیں پوچھا جاتا ہے کیا مطالعہ کرتے ہیںجواب ملتا ہے سنڈے میگزین کا مطالعہ کرتے ہیں پوچھا جائے کہ گزشتہ ہفتے کا سنڈے میگزین پڑھا تھا تو جواب ملتا ہے کہ کسی عزیز کا انتقال ہوگیا تھااس لیے نہیں پڑھ سکے۔انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر نے والے طلبہ کویہ نہیں پتا ہوتا کہ شیکسپیئرڈرامے لکھتا تھا یا ناول۔دراصل ہمارے معاشرے کی تربیت ہی ایسی ہورہی ہے ، کوئی بات سمجھائی جائے تو چھوٹی چھوٹی باتوں میںانا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ معاشرے میں اساتذہ یا کسی بھی شخصی کردار کی تربیت نہیں ہورہی ہے جب کہ استاد بھی انا کا غلام بن گیا ہے ، اسے اپنے فرائض سے محبت نہیں بلکہ تنخواہ سے غرض ہے ، کہتے ہیں یہ سار دن بولتے رہتے ہیں ان کی عادت ہوگئی ہے ، اس رویہ کو بدلنا ہوگا ۔ اپنے اندر مطالعے کا شوق پیدا کریں،کل آپ ماں اور باپ بنیں گے ، والدین بچوںکا غلط کاموں میں ساتھ دیتے ہیں اگر وہ کلاس میں غیر حاضر ہے تواس کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ بچوں کو کوچنگ سینٹر میںداخل کرادیتے ہیںایسے والدین سے کہتاہوں یہ بچے آپ کا بوجھ ہیں ان کو کسی اور پر منتقل نہ کریں آپ نہیںسنبھالیں گے تودوسراکیسے سنبھالے گا، کوچنگ سینٹرز صرف دکھاوے کے لیے چلائے جا رہے ہیں، طالب علموں سے درخواست ہے پڑھائی پر توجہ دیں ، کتاب سے رشتہ جوڑیں ،کتاب پڑھنے کو معمول بنائیں ، اساتذہ کی عزت کریں اسی میںبھلائی ہے، آپ اہل ہیں تو کوئی بھی آپ کو نوکری سے نہیںنکال سکتا ، کیا فائدہ یہاںسے ایم بی اے ،بی بی اے کرنے کے بعد بھی نوکری تلاش کررہے ہیں آپ کے والدین کی محنت کی کمائی جو آپ پرخرچ ہورہی ہے اس موقع کو غنیمت جانیں امید ہے جوباتیںکیںان پر عمل کریں گے۔پروفیسر سیما سراج : اس وقت مجھے بحیثیت استاد، طالب علم کی عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، استاد کا کردار کیا ہے اور کیا کردار اداکررہا ہے؟ طالب علم ہمارے سامنے موجود ہیں ، ہم جو کچھ کہ رہے ہیںوہ بتائیں کہ مطمئن ہیں یا نہیں،یہاں بات ہوئی کہ اردو پڑھانے کے خواہش مند وں نے منٹو کو نہیں پڑھا سنڈے میگزین پڑھتے ہیں۔میں یہ کہتی ہوںاگر منٹوکو نہیں پڑھا اور سنڈے میگزین پڑھا تو بہت اچھا کیا کیوں کہ سنڈے میگزین میں وہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں جس سے معلومات ملتی ہیں۔اگر آپ کو کوئی ایک لفظ بھی سکھاتا ہے تووہ آپ کا استاد ہے، اچھا سکھارہا ہے یا برا، دیکھنا یہ ہے کہ وہ منفی راستوں پر لے جارہا ہے یا مثبت ، جو کچھ ہم نے پڑھا ہے وہی 20سال بعد اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے ہیںاس کا ذمے دار کون ہے؟ ایک سیاست دان نے کہا ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی ،جب حکم راں ایسے ہوں گے ، جوتعلیمی ادارے چلا رہے ہوں توہم تعلیم کے مستقبل سے بہت زیادہ پُر امید نہیںہوسکتے، میں کراچی کی جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اردو کی پہلی خاتون استاد تھی، 1987 میںسندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میںپہلی پوزیشن لی اور عثمانیہ گرلز کالج میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہی ہوں ۔آج کے طالب علم جو استاد کو سن نہیںسکتے وہ کچھ نہیں سیکھ سکتے ،کلاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں ہمارے اساتذہ کچھ نہیںسکھاتے ، استاد جب کلاس میںجاتا ہے تو اس کے پاس 100 کے بجائے 4 طلبہ ہوتے ہیں وہ کیا ماحول ہو گا۔ آج کا طالب علم استادکے سامنے آنکھیں اونچی کرکے گزرتا ہے ماحول بہت بدل گیا ہے ، اب طالب علم کے قدم استاد کے سامنے نہیں ڈگمگاتے بلکہ وہ دو قدم آگے چلتا ہے ، اساتذہ سے شکایات اس لیے نہیں کرسکتے ہیں کہ وہ بھی اسی سماج کا ایک کردار ہے، پہلے تقررتعلیم اور معیار کی بنیاد پر ہوتے تھے طالب علم باقاعدگی سے مطالعہ کرتا تھے باقاعدہ محنت کے بعد ڈگری حاصل ہوتی تھی، اس کے بعد سلیکشن ہوتا تھا، اب نقل کر کے پاس ہوتے ہیں ، پیسے دے کر ڈگری ملتی ہے جب استاد کا تقرر سیاسی بنیاد پر ہوگا، اساتذہ کی سیاسی وابستگیاں ہوںگی تواستادتقسیم ہوجاتاہے۔ جس کی وجہ سے غیر جانب داری نہیں رہتی، کل او ر آج کے استاد کا موازنہ نہیںکیا جا سکتا، کل کا استاد سائیکل پر چلا آتا تھا لیکن آج کا استاد گاڑی پر آتا ہے دیر سے آتا ہے پوچھا جاتا ہے دیر سے کیوں آئے جواب ملتا ہے سی این جی کی لائن میں لگے ہوئے تھے، استاد کے لیے خوش اخلاقی ، پابند ی وقت اور خوش لباسی بھی ضروری ہے ، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لباس استری نہیں کرسکا تو خوش لباس اور خوش اخلاق کیسے رہے گا۔آج کے استاد کو طرح طرح کے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، پہلے کے اساتذہ د کو ان مسائل کا سامنا نہیںتھا، آخر استاد بھی انسان ہوتا ہے، اس کے بھی سماجی مسائل ہیں۔ تمام چیزوںکا تعلق رواج اور معاشرے سے ہوتا ہے ۔ آج ہم کہتے ہیں 50 سال پہلے یہ ہوتا وہ ہوتا تھا موازنہ کرنے سے پہلے ہمیں اس وقت کے سماج اور معاشرے کو دیکھنا چاہے کہ اس وقت کا استاد کیا تھا اور آج کے معاشرے میں کیا ہے۔آج اساتذہ کا مطالعہ ختم ہوگیا ہے تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے وہ اب مقصد کے تحت اس شعبے میں نہیں آرہے ہیں اس لیے کمرشل ہوگئے ہیں ۔کمرہ امتحان میں کوئی بچہ نقل کرتا ہےاور استاد اس کے ہاتھ سے پیپر لے لیتا ہے توطالب علم استاد کو پستول دکھاتا ہے کہ کیا تمہیں باہر نہیں جانا،دھمکی آمیز فون آنے لگتے ہیں ، ایسے حالات میں استادنقل سے کیسے روک سکتاہے ۔ اساتذہ بھی بیرونی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں وہ کیا کریںجس معاشرے میں اساتذہ عدم تحفظ کا شکارہوں تو ان سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پرسکون رہ کر دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ ایک طالب علم جو ہمارے معیار کا نہیں اسے داخلہ نہیں دینا چاہتے لیکن اوپر سے فون آتا ہے کہ اس کو داخلہ دیں ۔اس دبائو کے ساتھ اساتذہ کس طرح اپنے منصب پر قائم رہ سکتے ہیںجب اساتذہ پر تشدد کیاجاتا ہے تو کارروائی کرتے ہوئے طالب علم کو نکال دیا جاتا ہے کیا یہ سزا کافی ہے ؟ نہیں اایسے طالب علم کی سزا یہ ہونی چاہیے کہ اس کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں ہمیشہ کے لیے داخلہ نہ دیا جائے اور ایسی سخت ترین سزا دی جائے کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ رونما نہ ہو ۔سیّد عمار یاسر زیدی : تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو معاشرے اساتذہ کو عزت و احترام دیتے ہیں وہی ترقی کی راہ پر گام زن ہوتے ہیں اور جن معاشروں میںاستاد کا احترام نہیں ہوتاان کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جس صورت حال سے آج ہم گزر رہے ہیں ، حضرت علی ؓ کا فرمان ہے جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، چاہے تو وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے۔میں تمام حاضرین اور قابل احترام اساتذہ کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یہاں تشریف لائے اوراپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کیا۔