دنیائے مرثیہ نگاری کا بے تاج بادشاہ میر انیس ؔ
اسپیشل فیچر
دنیائے مرثیہ نگاری کے بے تاج بادشاہ میر انیسؔ نے شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی تھی تاہم اپنے والدِ گرامی میر خلیق ؔکے کہنے پرکہ غزل کو سلام کرؤ اُنھوں نے مولانا محمد حسین آزادؔ کے بقول ایک سعادت مند بیٹے کی طرح غزل کو سلام کیا اور پھر ساری عمر مرثیہ نگاری میں بسر کی۔انیس ؔنے جس خاندان میں آنکھ کھولی، اُس میں شعر وشاعری کا چرچا تھا اور وہ کئی پشت سے اُردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔ میر ضاحکؔ ، میر حسنؔ اور میر خلیقؔ اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔اسی لیے توانیسؔ نے بڑے فخرسے کہا ہے:عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میںپانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میںآج دو صدیاں گزر جانے کے باوجود مرثیے میں میرانیسؔ کا کوئی ثانی نہیں ہو سکا اور اُن کی اسی عظمت نے اُن کے دیگر فنی اور ہیتی محاسن کو منظر عام پر نہیں آنے دیا اور پھر ناقدین نے اُن کی تخلیقات کا اس طرح ناقدانہ جائزہ نہیں لیا جیسے غالبؔ، میرؔ ،سوداؔ اوردیگر کلاسیک شعرا کے کلام کا۔اس کی ایک وجہ مرثیے کو فقط عزائی شاعری تک محدود کر دینا بھی تھا۔اُن کی مکمل شاعری پر آج تک سوائے حالیؔ کے ’’موازنہ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ کے کوئی ایسا تنقیدی کام نہیں ہوا ،جسے واقعی ادبی معیار کا کام قرار دیا جا سکے۔ انیس ؔکو اپنی حیات میں بھی شاید اس امر کا اندازہ تھا،جو اُنھوں نے کہا :حاسد سے نہ کچھ خوف نہ دشمن سے ہے کچھ باکنا فہم ہے وہ چاند پہ ڈالے جو کوئی خاکپروفیسر آل احمد سرور کا کہنا ہے کہ انیسؔ کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے ،تو معلوم ہوگا کہ انیسؔ نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے، جن میں بقول حالیؔ حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے، جن میں زبان پرفتح ہے، جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے، جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اُتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے۔ اُن کا یہ دعویٰ کسی طرح بیجا نہیں ،بقول انیسؔتعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوںقطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوںذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوںکانٹوں کو نزاکت میَں گلِ تر سے ملا دوںگلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوںاک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوںالغرض جس طرح سودا ؔقصیدہ گوئی میں، میرتقی میرؔ غزل گوئی میں اور میر حسنؔ مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں، اسی طرح میر انیس ؔمرثیہ نگاری میں یکتا ہیں۔ اوّل تو میر انیس ؔنے اپنی مرثیوں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ دوسرا اُنھوں نے شاعری کو عقیدت سے وابستہ کرکے اس کو ارفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اُردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو ِخرام ہو گئی ہے۔اُردو کے دکنی دَور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ شمالی ہند میں بھی اُردو شاعری کے فروغ کے ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا، سوداؔ پہلے شاعر ہیں، جنھوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لیے مسدس کو مخصوص کر دیا، جس کو بعد کے شعرا نے بھی قائم رکھا۔ سوداؔ کے بعد میر خلیقؔ ، میر ضمیرؔ ، فصیحؔ وغیرہ نے مرثیہ کو ترقی دی، لیکن فنی بلندی ، امتیازی خصوصیات کو نکھارنے اور جاذب دل و دماغ بنانے کے لیے اس صنف کو میرانیسؔ کی ضرورت تھی، جنھوں نے مرثیہ کو معراج ِکمال پر پہنچایا ۔رام بابو سکسینہ نے ’’تاریخ ِادب ِاُردو ‘‘ میں لکھا ہے کہ انیسؔ کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالیؔ اور آزادؔ کے زمانے سے ہوا، اُس کی داغ بیل انیسؔ نے ڈالی تھی۔ انیسؔ نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا ،جس کا استعمال حالی ؔنے نہایت کامیابی سے کیا۔اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ انیسؔ کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معراجِ کمال کے زمرے میں آتے ہیں۔اُن کے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائی ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ میر انیسؔ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔اُنھوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات،سلام،نوحے ،میلاداور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق اُن کی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہیـ:رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہےوہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہےکرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنیجو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہےانیسؔ کی شاعری کا منبع و مرکز کربلا کا واقعہ اور شجاعت و قربانی ہے اور انیسؔ کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائی نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف ایپیک کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے، جو درست نہیں۔ انیس ؔاُردو کے واحد شاعر ہیں، جن کے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔تاریخ ِ مرثیہ نگاری میں یہ حقیقت بھی تحریر ہے کہ انیسؔ کا معروف مرثیہ ’’ آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے’’ جب لکھنؤ سے دہلی پہنچا، تو نواب مصطفی شیفتہ نے صرف اس کا مطلع سن کر اس طرح داد دی کہ میر صاحب نے مکمل مرثیہ کہنے کی کیوں زحمت کی مصرع تو خود ہی ایک مکمل مرثیہ ہے:خورشید چھپا گرد اُڑی زلزلہ آیااک ابرِ سیاہ دشت پر آشوب میں چھایاپھیلی تھی جہاں دھوپ وہاں ہو گیا سایہبجلی کو سیاہی میں چمکتا ہوا پایاجو حشر کے آثار ہیں سارے نظر آئےگرتے ہوئے مقتل میں ستارے نظر آئےانیس کے بیٹے میر نفیس کے نواسے میر عارف کی ایک تحریری یاداشت سے پتا چلتا ہے کہ 1857ء کے بعد انیس ؔنے محلہ سبزی منڈی چوک لکھنؤ کے عقب میں واقع رہائش گاہ میںایک سو ستانوے بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ مرثیہ ’’ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘‘ ایک ہی رات میں تحریر کیا اور گھر کے عشرے میں پڑھا ،جو انیسؔ کے شاہکار مراثی میں سے ایک ہے۔انیسؔ کی مرثیہ نگاری کے معجزات میں سے ایک بغیر نقطوں کے مرثیے بھی ہیں۔اُن طویل مراثی میں کہیں بھی ایک نقطہ نہیں اور اسی مناسبت سے اُنھیں بے نقط کے مرثیے کہا جاتا ہے۔ 1874 ء میں 24 رمضان کو میرانیس ؔبیمار ہوئے اور ابتدا میں ہونے والا بخار مرض الموت بن گیا اور یوں یکم دسمبر 1874ء کو بوقت ِ مغرب یہ آفتاب ِشاعری غروب ہو گیا۔انیسؔ نے زندگی کے آخری ایام میں ایک رباعی یوں کہی:وہ موج حوادث کا تھپیڑا نہ رہاکشتی وہ ہوئی غرق وہ بیڑا نہ رہاسارے جھگڑے تھے زندگی کے انیسؔجب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ رہا٭…٭…٭