سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب
اسپیشل فیچر
جو قوم تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے اور اپنے ماضی کو یاد نہ رکھے … وہ باربار ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرتی ہے۔ ماہرین عمرانیات قوموں کے ماضی کو ان کی یادداشت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںجو قوم اپنا ماضی بھول جائے وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہے۔ پھر ایسی قوم پر ایک وقت آتا ہے جب وہ خود قصئہ ماضی بن جاتی ہے۔ اس لئے ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا چاہئے۔ ماضی کا نہ بھولنے والا ایک سبق سانحہ مشرقی پاکستان ہے۔ یہ سانحہ اچانک رونما نہ ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے برس ہا برس کے عوامل اور حادثات کارفرما تھے جو اس کے وقوع پذیر ہونے کا سبب بنے۔ یہ درست ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں المیے اور حادثات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ، قوموں کو فتح و شکست اور عروج و زوال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن زندہ قومیں اپنے ماضی، اپنی شکست اور اپنے دشمن کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ایسے ہی پاکستانی قوم سانحہ مشرقی پاکستان کو کبھی نہیں بھول سکتی البتہ اقتدار واختیار کے ایوانوں میں براجمان ہمارے حکمرانوں نے اس سانحہ کو قصئہ ماضی سمجھ کر ماضی کا حصہ ضرور بنا دیا ہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر ہمارے حکمرانوں نے اس سانحہ کو یاد رکھا ہوتااور اپنے دشمن کو فراموش نہ کیا ہوتا توآج ہمارا ملک ناگفتہ بہ حالات سے دوچار نہ ہوتا۔ ماضی کا یاد رکھنے والا ایک سبق یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے 9صوبے تھے۔ جب تقسیم ہند کا وقت آیا تو 9 میں سے 7 صوبے مکمل طور پر ہندوئوں کو دے دیے گئے۔ صرف دو صوبے یعنی بنگال اور پنجاب تقسیم ہوئے۔ دو آدھے صوبوں(مشرقی بنگال اور مغربی پنجاب)، سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان پر مشتمل پاکستان بھی ان کو قبول نہ تھا، بات یہ تھی کہ انگریز اور ہندو پاکستان کے قیام کے حق میں ہی نہ تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان محض جغرافیائی تقسیم کا نام نہ تھا بلکہ اسلام اور عقیدہ توحید سے موسوم ایک مملکت کا نام تھا۔ اسلام اور عقیدہ توحید …… نظریہ پاکستان کی اساس تھا اس لئے ہندو اور انگریز پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ کانگریسی رہنمائوں کے پاکستان کے خلاف وقتاً فوقتاً دیے جانے والے بیانات ان کے خبث باطن کا عملی ثبوت تھے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے 14جون 1947ء کے اجلاس میں پاکستان کے متعلق اپنے مستقبل کے عزائم کا اظہار ان الفاظ میں کر دیا تھا ’’ہمارے دلوں میں ہمیشہ متحدہ ہندوستان کا تصور قائم رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب دو قومی نظریہ باطل، مسترد اور غیر معتبر قرار پائے گا۔‘‘ واضح رہے کہ 14جون کا یہ بیان کانگریس کے کسی رہنما کا ذاتی نہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کا پالیسی بیان تھا جو 15اگست کو بھارت کی عنان حکومت سنبھالنے والی تھی۔ کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد 14جون کے اپنی پالیسی ساز اور سرکاری بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسلسل کوشاں رہی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کانگریس کی انہی مذموم اور ناپاک کوششوں کا نتیجہ تھا۔سرحدوں، پانی کے ذخائر اور اثاثوں کی غلط تقسیم، حیدرآباد دکن، جوناگڑھ اور جموں کشمیر پر قبضہ، مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام …… پاکستان کو غیر مستحکم کئے جانے والے اقدامات کی ابتدا تھی۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی پہلی دھمکی اس کے قیام کے صرف 40دن بعد عدم تشدد کا پرچار کرنے والے گاندھی نے 26ستمبر 1947ء کو پرارتھنا کی ایک میٹنگ میں دی تھی اور اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 27اکتوبر کی سیاہ شب بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیر میں داخل کر کے جنگ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا تھا۔ ریاست جموں کشمیر کے 41,342مربع میل علاقہ پر قبضہ کے بعد بھارت کا اگلا محاذ مشرقی پاکستان تھا۔ حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس طرح مشرقی پنجاب میں گورداسپور بھارت کو دے کر ریاست جموں کشمیر میں اس کی دراندازی کی راہ ہموار کی گئی تھی ایسے ہی بنگال میں کلکتہ بھارت کو دے کر اس کو آسانی و سہولت بہم پہنچائی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کے لیے جغرافیائی، اقتصادی، معاشی اور دفاعی مشکلات کھڑی کی گئیں۔ کشمیر کی طرح کلکتہ کو بھی پاکستان سے کاٹنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ جیسا کہ سردار پٹیل نے بعد میں کہا تھا ’’ہم بنگال کی تقسیم پر صرف اس صورت رضامند ہوئے تھے کہ ہمیں کلکتہ سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔ ہم نے واضح کر دیا تھا کہ اگر کلکتہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘27اکتوبر1947ء کو ریاست جموں کشمیر پر حملہ کے بعد یکم اپریل 1948ء کو بھارت نے ایک طرف مغربی پاکستان پر پہلا آبی حملہ کر کے پانی روک لیا جو مسلسل 34دن تک بند رہا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں سازشوں کے دام ہمرنگ جال بچھانے اور وہاں کی فضا کو مسموم کرنے کے لیے کلکتہ میں تحقیقی مراکز قائم کئے جہاں گمراہ کن اعداد وشمار پر مبنی کتابیں، تصویریں ، پمفلٹس اور اشتہارات تیار کر کے مشرقی پاکستان بھیجے جاتے۔ یہ بات معلوم ہے کہ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ عام تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی ہندو اساتذہ کا مرکزتھی۔تعلیمی ادارے دشمن کے سپرد کرد ینا اپنی سرحدیں دشمن کے لیے کھول دینے کے مترادف تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کے تناسب کو بدلنے کی اشد ضرورت تھی۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے اس سنگین مسئلہ سے پہلو تہی کئے رکھی جو بعد میں پاکستان کے دولخت ہونے کا پیش خیمہ بنی۔ کلکتہ سے تیار ہونے والا لٹریچر مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ تک پہنچتا، وہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے، نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندہ اور زہر آلود کرتے، بنگالیوں میں احساس محرومی اجاگر کرتے، گمراہ کن اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور ایسے لیکچر دیتے جن میں کہا جاتا کہ وسائل تو ہمارے ہیں مگر ان پر عیش وعشرت مغربی پاکستان والے کر رہے ہیں۔ اس طرح بنگالی نوجوان یہ سمجھنے لگے کہ جس آزادی کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں وہ مغربی پاکستان کے ارباب اقتدار و اختیار کے ہاں گروی ہو چکی ہے۔ دونوں خطوں کا جغرافیائی محل وقوع، معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں فرق، زبان کا تنازع، صوبائی خود مختاری جیسے مسائل اندر اندر ہی چنگاری کی طرح سلگتے رہے۔ بھارتی پروپیگنڈہ اس چنگاری کو ہوا دیتا رہا اور پھر ایک وقت آیا جب یہ چنگاری شعلے کی طرح بھڑک اٹھی۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ ان مسائل و معاملات کو سلجھانے سدھارنے کی بجائے ان کے الجھائو اور بگاڑ کا سبب بنا۔جب یہ شعلہ بھڑکا تو سب کچھ راکھ ہو گیا، بھائی بھائی کا دشمن بن گیا، پاکستان دولخت ہو گیا، ایک جسم تھا جس کی دو آنکھیں پھوٹ گئیں، ایک دل تھا جس نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کا باعث بننے والے مسائل پیچیدہ اور لاینحل ہرگز نہ تھے۔ تاہم سب سے اہم مسئلہ جس سے پہلوتہی کی گئی ……جس سے اغماض و اعراض برتا گیااور جو حقیقتاً مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا وہ اسلام اور اللہ کے قرآن سے انحراف تھا۔ بات بہت سیدھی سی تھی کہ ہندوستان بہت وسیع و عریض خطہ تھا جس میں مسلمان دور دور تک بکھرے پڑے تھے۔وہ انتشار و اختلاف اور اضمحلال کا شکار تھے۔ راجکماری سے کراچی تک بکھرے مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے ایک لڑی میں پرو دیا تو وہ … اسلام تھا۔ یہ اسلام کے نام کی برکت تھی کہ نیپال جیسے دوردراز خطے کی سرحد پر رہنے والے سادہ لوح مسلمان بھی پاکستان کے نام پر جان قربان کرنے کیلئے آمادہ و تیار اور پاکستان کے والہ و شیدا تھے۔ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کا تعین کرنے والے دونوں خطوں میں زبان، صوبائی خودمختاری اور زمینی و جغرافیائی جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دونوں خطوں کے عوام نے مل کر وطن کے حصول کی مشترکہ جدوجہد کی تو کیا اس وقت یہ مسائل موجود نہ تھے……؟ سب کچھ ایسے ہی تھا۔ یہ مسائل اس وقت بھی تھے۔ زمینی خلیج اور زبان کی تفریق اس وقت بھی تھی لیکن اسلام کے رشتے کی وجہ سے ایک ہزار میل دور بیٹھے دونوں خطوں کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات ایک تھے اور ان کے دل بھی ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ بنگالی مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ محبت شک وشبہ سے بالاتر تھی۔ انگریز کے انخلا اور وطن کی آزادی کے لیے ان کی قربانیاں تاریخ ساز تھیں۔ جماعت مجاہدین سے وابستہ بنگال و بہار کے مسلمان ایک سو سال تک انگریز کے خلاف برسرپیکار رہے، اسے لوہے کے چنے چبواتے رہے، قیدوبند کی صعوبتوں سختیوں کو سنتِ یوسفی سمجھتے رہے، پھانسی کے پھندوں کو جنت کی معراج جانتے رہے، آہنی زنجیر و سلاسل کو لباسِ زینت سمجھ کرپہنتے رہے اور جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اسے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہیدین کی برپا کردہ مقدس جہادی تحریک کا تتمّہ اور ماحاصل سمجھ کر کامیاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بنگال و بہار سے تعلق رکھنے والے جماعت مجاہدین سے وابستہ جانبازوں اور سرفروشوں کا مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان بنانے میں اہم کردار تھا۔ لہذا جب پاکستان بن گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے قیام کے مقاصد کو بروئے کار لایا جاتا۔ لاالہ الااللہ کو محض نعرے کی بجائے اقتدار کے محلات، عدلیہ کے ایوانوں، عوام کی زندگیوں، ہر محکمے اور ہر شعبے میں عملاً نافذ کیا جاتا۔ یہاں ہوا یہ کہ اسلام کے نفاذ اور اس پر عمل کرنے کی بجائے سارا زور اسلام آباد کی تعمیر وتزئین، اسے بنانے، سجانے ، سنوارنے اور آباد کرنے پر رہا نتیجتاً…… اسلام آباد تو بن گیا……آباد ہو گیا…… اسلام نافذ نہ ہو سکا۔ سچی بات ہے کہ اگر پاکستان کا مقدر اسلام سے وابستہ کر دیا جاتا تو دونوں خطوں میں زبان ولسان کے مسائل پیدا ہوتے نہ صوبائی خودمختاری و احساس محرومی کا عفریت جنم لیتا اور نہ بھارت کی سازشیں پروان چڑھتیں وکامیاب ہوتیں۔ جب اسلام سے روگردانی اور بے وفائی کی گئی تو چھوٹے چھوٹے مسائل پہاڑ بن گئے ، نفرتوں، عداوتوں، مخالفتوں اور دشمنیوں کے بیج پھوٹنے لگے، بھارت کی بوئی ہوئی نفرت، لسانیت اور صوبائیت کی فصل پک کر تیار ہو گئی تو پھر دہشت گردی، تخریب کاری اور بغاوت کو منظم کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی نام نہاد عبوری اور جلاوطن حکومت کا ہیڈکوارٹر کلکتہ کے علاقے 58بالی گنج میں بنایا گیا۔ 3دسمبر کو جب اندرا گاندھی نے اپنی فوج کو مشرقی پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس وقت وہ کلکتہ میں تھیں حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگے ہوئے بنگالی جوان، افسر اور مکتی باہنی کے دستے اس کے علاوہ تھے۔ پاک فوج کے مقابلے میں دشمن کی طاقت سات گنازیادہ تھی۔ چنانچہ 16دسمبر کو پاک فوج کو ڈھاکہ ریس کورس میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔جن لوگوں نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور ریاست کے خلاف جنگ لڑی انہوں نے اس جنگ کو اپنی …اور اپنے وطن کی آزادی کی جنگ قرار دیا تھا۔ لیکن کیا واقعی یہ ان کی اپنی جنگ تھی …؟ اور کیا واقعی یہ ان کے اپنے خطے کی آزادی کی جنگ تھی…؟ خوش فہمی اور خوش گمانی کا شکار ان لوگوں کو 16دسمبر کے دن ہی اپنے سوالوں کے جوابات مل گئے تھے اور یہ تلخ حقیقت ان پر واضح ہو گئی تھی کہ جس جنگ کو انہوں نے مشرقی پاکستان کی آزادی کی جنگ سمجھا… وہ دراصل بھارت کی بالادستی قبول کرنے اور اس کی غلامی کا طوق پہنائے جانے کی جنگ تھی۔ پاک فوج سے بھاگنے والے بنگالی فوجی جوانوں، افسروں اور مکتی باہنی کے دستوں پر مشتمل جو فوج تشکیل دی گئی بھارتی میڈیا کے بقول اس کی تعداد 2لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگنے والا کرنل عثمانی اس فوج کا کمانڈر انچیف اور مشترکہ کمانڈ کا بھی سربراہ تھا۔ جب ڈھاکہ کے ریس کورس میں ہتھیار ڈالے جانے کی تقریب منعقد ہوئی تو بھارتی فوج نے کمانڈر انچیف کرنل عثمانی اور اس کے فوجی افسروں کو اس تقریب کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا تھا۔ حالانکہ یہ وہی کرنل عثمانی تھے جن کو بھارتی حکومت نڈر، بہادر، شہ زور، نہ ڈرنے والا، نہ جھکنے والا، نہ مفاہمت و مصالحت کرنے والا بنگا بیر (شیر بنگال) کہا کرتی تھی۔ بھارت نے اس شیر بنگال سے جو کام لینا تھا لے لیا،کام نکل جانے کے بعد اسے دھتکار دیا اور مکھن سے بال کی طرح باہر نکال پھینکا۔ اگر شیر بنگال اور بنگلہ دیش کی افواج کے کمانڈر انچیف کی بھارتی فوج کے سامنے یہ بے بسی تھی تو باقی بنگالی فوجی افسروں یا عام سویلین جنہوں نے بھارت کا ساتھ دیا تھا ان کی اوقات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اقوام عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ اپنے وطن اور اپنی دھرتی کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور دشمنوں کا ساتھ دینے والوں سے فاتح فوجیں ہمیشہ یہی سلوک کرتی ہیں۔ جنرل نیازی نے جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے، اپنا سروس ریوالور جنرل اروڑا کے سپرد کیا، ہتھیار ڈالے جانے کی دستاویز پر جنرل نیازی اور جنرل اروڑا کے دستخط تھے اور پاکستانی فوجیوں کو بھارتی سرزمین پر لے جا کر قیدی بنایا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت بھارت کی بالادستی کی جنگ تھی جو ا س نے پاکستان سے ناراض بنگالیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی۔ بھارت کا مقصد پاکستان کو دولخت کرنا تھا اور مشرقی پاکستان کو اپنے زیراثر لانا تھا۔ بعد ازاں اندرا گاندھی نے اپنے ان مذموم مقاصد کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ’’آج ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اور آج ہم نے ہزار سالہ ظلم کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘بھارت مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر 1950ء کی صریحاً خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ اسی طرح بھارت 1966ء کے ان پاک بھارت معاہدوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا جن میں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ بھارت کو پاکستان کے معاملے میں نہ UNOکے چارٹر کی پروا ہے اور نہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پاسداری ہے۔ بھارت کاآج بھی پاکستان کے ساتھ یہی رویہ، یہی برتائو اور سلوک ہے۔ ایک طرف بھارتی حکمران سرحدوں کو نرم کرنے کی بات کرتے اور دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی کر کے پاکستان میں آبی دہشت گردی کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھارتی حکمران بلوچستان کو حق خودارادیت دینے اور پاکستان کا حصہ تسلیم نہ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ بلوچستان، صوبہ خیبرپی کے اور کراچی میں بھارتی دہشت گردی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں آج بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں وہ 66سال پہلے یا 16دسمبر 1971ء کے موقع پر تھا۔ وہ مذاکرات اور دوستی کی آڑ میں اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ وہ پاکستان کو نیپال اور بھوٹان بنانا چاہتا ہے۔ اس نے دشمنی نہیں طریقہ واردات بدلا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت کا رویہ منافقانہ اور عیارانہ ہے۔ کشمیر میں دیوار برہمن کی تعمیر کا اعلان اس کے استعماری، استحصالی، توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان دشمنی کا کھلاثبوت اور واضح اظہار ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اور اس کے بعد سے اب تک بھارت کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور مسئلہ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی …… ہمارے حکمرانوں کی برہمن کے ساتھ مصالحت، مفاہمت اور دوستی کی بے جا توقعات وابستہ کرنے کانتیجہ ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارت کے ساتھ بے جا کشیدگی کو ہوا دی جائے، جنگ وجدل کا بازار گرم کیا جائے، مخالفت، مخاصمت اور عداوت کی فضا پیدا کی جائے لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ بے جا مصالحت، بے مقصد مفاہمت ، لایعنی مذاکرات اور کھوکھلی و یک طرفہ اعتماد سازی کی امیدیں ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے ساتھ ماضی و حال میں روا رکھے جانے والے رویہ و کردار، قول وفعل، اس کی دوستی و دشمنی اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں کے تناظر و آئینہ میں معاملات طے کئے جائیں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1971ء کے موقع پر بہت سے لوگوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کی تھیں، بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ابتداً شیخ مجیب الرحمن نے جنگی جرائم کے تحت ان پر مقدمہ چلانا چاہا لیکن بعد میں ان لوگوں کو پاک فوج کے ساتھ تعاون کرنے والا قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا گیا تھا۔ اب بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت 42سال بعد طے شدہ معاملات کو ایک بار پھر اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کو عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا پرنالہ آج بھی اسی جگہ ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہمیں بحثیت قوم اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ 42سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے اس سانحہ سے کیا سبق حاصل کیا…؟ کیا پایا…؟ کیا کیا… اب مزید کیا کرنا ہوگا … ؟ ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، ان غلطیوں کی اصلاح کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟ 1971ء میں ہم عسکری اعتبار سے کمزور تھے اس لیے بھارت کو جارحیت کی جرأت ہوئی آج ہمارا ملک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ اہم ترین پیش رفت اور کامیابی ہے جس سے پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پروگرام شروع کیا۔ پاک فوج نے اس کی حفاظت، نگہداشت، پرداخت کی، اسے آگے بڑھایا، پروان چڑھایا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو باضابطہ طور پر ایٹمی طاقت بنایا۔ بحمدللہ ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے اب پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ نہیں رہا۔ جہاں تک فکری ونظریاتی سرحدوں کا معاملہ ہے اس ضمن میں ہمارے حکمران آج بھی 71ء کی طرح غفلت و مداہنت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں پر قابض ہندو اساتذہ ملک کی فکری و نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرتے رہے تو آج ہمارے تعلیمی اداروں پر غیرملکی این جی اوز قابض اور ہماری تعلیمی پالیسیاں انگریز بنا رہے ہیں ۔ یہ سنگین ترین قسم کی غفلت اور مجرمانہ خاموشی ہے جس کے ماضی میں ہم تباہ کن اثرات بھگت چکے ہیں۔ بنگالیوں نے بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور اس پر اعتماد کیا تو ہماری پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ آج پھر ہمارے حکمر ان بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے رشتے استوار کر رہے بلکہ اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے تاب و بے چین نظر آتے ہیں۔ 71ء کے موقع پر ہم اندر سے ٹوٹ گئے اور کمزور ہو گئے تھے، آج بھی دشمن ہمیں اندر سے توڑنے اور کمزور کرنے کے درپے ہے۔ یہ سارے معاملات قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں۔ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ 16دسمبر کا سانحہ پاکستانی قوم اور مسلح افواج پر قرض ہے۔ دانا آدمی مقروض ہو جائے تو وہ قرض خواہ کے پائوں نہیں پڑتا بلکہ ہمیشہ قرضہ چکانے کی فکر میں رہتا ہے۔ جو آدمی قرض کی ادائیگی سے بے پروا ہو جائے وہ قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کا گھر رہتا ہے نہ عزت و آبرو۔ لوگ اس کے جسم کے کپڑے تک نوچ لیتے ہیں۔ یہی حال قوموں کا ہے قوموں کی تقدیر کے فیصلے حقائق سے آنکھیں چرانے، گھگھیانے، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے اور شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبانے سے نہیں بلکہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے فہم و فراست، عقل ودانش، جرأت و شجاعت، دلیری و بہادری، خون کی سیاہی اور شمشیر کی نوک سے لکھے جاتے ہیں۔ یہی زندہ و خوددار قوموں کا طریقہ وتیرہ اور شیوہ ہے اور یہی 16دسمبر کا سبق ہے۔٭٭٭٭