سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب

سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب

اسپیشل فیچر

تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید


جو قوم تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے اور اپنے ماضی کو یاد نہ رکھے … وہ باربار ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرتی ہے۔ ماہرین عمرانیات قوموں کے ماضی کو ان کی یادداشت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںجو قوم اپنا ماضی بھول جائے وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہے۔ پھر ایسی قوم پر ایک وقت آتا ہے جب وہ خود قصئہ ماضی بن جاتی ہے۔ اس لئے ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا چاہئے۔ ماضی کا نہ بھولنے والا ایک سبق سانحہ مشرقی پاکستان ہے۔ یہ سانحہ اچانک رونما نہ ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے برس ہا برس کے عوامل اور حادثات کارفرما تھے جو اس کے وقوع پذیر ہونے کا سبب بنے۔ یہ درست ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں المیے اور حادثات رونما ہوتے ہی رہتے ہیں ، قوموں کو فتح و شکست اور عروج و زوال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن زندہ قومیں اپنے ماضی، اپنی شکست اور اپنے دشمن کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ایسے ہی پاکستانی قوم سانحہ مشرقی پاکستان کو کبھی نہیں بھول سکتی البتہ اقتدار واختیار کے ایوانوں میں براجمان ہمارے حکمرانوں نے اس سانحہ کو قصئہ ماضی سمجھ کر ماضی کا حصہ ضرور بنا دیا ہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر ہمارے حکمرانوں نے اس سانحہ کو یاد رکھا ہوتااور اپنے دشمن کو فراموش نہ کیا ہوتا توآج ہمارا ملک ناگفتہ بہ حالات سے دوچار نہ ہوتا۔ ماضی کا یاد رکھنے والا ایک سبق یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے 9صوبے تھے۔ جب تقسیم ہند کا وقت آیا تو 9 میں سے 7 صوبے مکمل طور پر ہندوئوں کو دے دیے گئے۔ صرف دو صوبے یعنی بنگال اور پنجاب تقسیم ہوئے۔ دو آدھے صوبوں(مشرقی بنگال اور مغربی پنجاب)، سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان پر مشتمل پاکستان بھی ان کو قبول نہ تھا، بات یہ تھی کہ انگریز اور ہندو پاکستان کے قیام کے حق میں ہی نہ تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان محض جغرافیائی تقسیم کا نام نہ تھا بلکہ اسلام اور عقیدہ توحید سے موسوم ایک مملکت کا نام تھا۔ اسلام اور عقیدہ توحید …… نظریہ پاکستان کی اساس تھا اس لئے ہندو اور انگریز پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ کانگریسی رہنمائوں کے پاکستان کے خلاف وقتاً فوقتاً دیے جانے والے بیانات ان کے خبث باطن کا عملی ثبوت تھے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے 14جون 1947ء کے اجلاس میں پاکستان کے متعلق اپنے مستقبل کے عزائم کا اظہار ان الفاظ میں کر دیا تھا ’’ہمارے دلوں میں ہمیشہ متحدہ ہندوستان کا تصور قائم رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب دو قومی نظریہ باطل، مسترد اور غیر معتبر قرار پائے گا۔‘‘ واضح رہے کہ 14جون کا یہ بیان کانگریس کے کسی رہنما کا ذاتی نہیں بلکہ ایک ایسی جماعت کا پالیسی بیان تھا جو 15اگست کو بھارت کی عنان حکومت سنبھالنے والی تھی۔ کانگریس اقتدار میں آنے کے بعد 14جون کے اپنی پالیسی ساز اور سرکاری بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسلسل کوشاں رہی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کانگریس کی انہی مذموم اور ناپاک کوششوں کا نتیجہ تھا۔سرحدوں، پانی کے ذخائر اور اثاثوں کی غلط تقسیم، حیدرآباد دکن، جوناگڑھ اور جموں کشمیر پر قبضہ، مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام …… پاکستان کو غیر مستحکم کئے جانے والے اقدامات کی ابتدا تھی۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی پہلی دھمکی اس کے قیام کے صرف 40دن بعد عدم تشدد کا پرچار کرنے والے گاندھی نے 26ستمبر 1947ء کو پرارتھنا کی ایک میٹنگ میں دی تھی اور اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 27اکتوبر کی سیاہ شب بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیر میں داخل کر کے جنگ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا تھا۔ ریاست جموں کشمیر کے 41,342مربع میل علاقہ پر قبضہ کے بعد بھارت کا اگلا محاذ مشرقی پاکستان تھا۔ حقائق اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس طرح مشرقی پنجاب میں گورداسپور بھارت کو دے کر ریاست جموں کشمیر میں اس کی دراندازی کی راہ ہموار کی گئی تھی ایسے ہی بنگال میں کلکتہ بھارت کو دے کر اس کو آسانی و سہولت بہم پہنچائی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کے لیے جغرافیائی، اقتصادی، معاشی اور دفاعی مشکلات کھڑی کی گئیں۔ کشمیر کی طرح کلکتہ کو بھی پاکستان سے کاٹنے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا۔ جیسا کہ سردار پٹیل نے بعد میں کہا تھا ’’ہم بنگال کی تقسیم پر صرف اس صورت رضامند ہوئے تھے کہ ہمیں کلکتہ سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔ ہم نے واضح کر دیا تھا کہ اگر کلکتہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘27اکتوبر1947ء کو ریاست جموں کشمیر پر حملہ کے بعد یکم اپریل 1948ء کو بھارت نے ایک طرف مغربی پاکستان پر پہلا آبی حملہ کر کے پانی روک لیا جو مسلسل 34دن تک بند رہا تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں سازشوں کے دام ہمرنگ جال بچھانے اور وہاں کی فضا کو مسموم کرنے کے لیے کلکتہ میں تحقیقی مراکز قائم کئے جہاں گمراہ کن اعداد وشمار پر مبنی کتابیں، تصویریں ، پمفلٹس اور اشتہارات تیار کر کے مشرقی پاکستان بھیجے جاتے۔ یہ بات معلوم ہے کہ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ عام تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی ہندو اساتذہ کا مرکزتھی۔تعلیمی ادارے دشمن کے سپرد کرد ینا اپنی سرحدیں دشمن کے لیے کھول دینے کے مترادف تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کے تناسب کو بدلنے کی اشد ضرورت تھی۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے اس سنگین مسئلہ سے پہلو تہی کئے رکھی جو بعد میں پاکستان کے دولخت ہونے کا پیش خیمہ بنی۔ کلکتہ سے تیار ہونے والا لٹریچر مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ تک پہنچتا، وہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے، نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندہ اور زہر آلود کرتے، بنگالیوں میں احساس محرومی اجاگر کرتے، گمراہ کن اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور ایسے لیکچر دیتے جن میں کہا جاتا کہ وسائل تو ہمارے ہیں مگر ان پر عیش وعشرت مغربی پاکستان والے کر رہے ہیں۔ اس طرح بنگالی نوجوان یہ سمجھنے لگے کہ جس آزادی کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں وہ مغربی پاکستان کے ارباب اقتدار و اختیار کے ہاں گروی ہو چکی ہے۔ دونوں خطوں کا جغرافیائی محل وقوع، معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں فرق، زبان کا تنازع، صوبائی خود مختاری جیسے مسائل اندر اندر ہی چنگاری کی طرح سلگتے رہے۔ بھارتی پروپیگنڈہ اس چنگاری کو ہوا دیتا رہا اور پھر ایک وقت آیا جب یہ چنگاری شعلے کی طرح بھڑک اٹھی۔ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ ان مسائل و معاملات کو سلجھانے سدھارنے کی بجائے ان کے الجھائو اور بگاڑ کا سبب بنا۔جب یہ شعلہ بھڑکا تو سب کچھ راکھ ہو گیا، بھائی بھائی کا دشمن بن گیا، پاکستان دولخت ہو گیا، ایک جسم تھا جس کی دو آنکھیں پھوٹ گئیں، ایک دل تھا جس نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کا باعث بننے والے مسائل پیچیدہ اور لاینحل ہرگز نہ تھے۔ تاہم سب سے اہم مسئلہ جس سے پہلوتہی کی گئی ……جس سے اغماض و اعراض برتا گیااور جو حقیقتاً مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا وہ اسلام اور اللہ کے قرآن سے انحراف تھا۔ بات بہت سیدھی سی تھی کہ ہندوستان بہت وسیع و عریض خطہ تھا جس میں مسلمان دور دور تک بکھرے پڑے تھے۔وہ انتشار و اختلاف اور اضمحلال کا شکار تھے۔ راجکماری سے کراچی تک بکھرے مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے ایک لڑی میں پرو دیا تو وہ … اسلام تھا۔ یہ اسلام کے نام کی برکت تھی کہ نیپال جیسے دوردراز خطے کی سرحد پر رہنے والے سادہ لوح مسلمان بھی پاکستان کے نام پر جان قربان کرنے کیلئے آمادہ و تیار اور پاکستان کے والہ و شیدا تھے۔ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کا تعین کرنے والے دونوں خطوں میں زبان، صوبائی خودمختاری اور زمینی و جغرافیائی جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دونوں خطوں کے عوام نے مل کر وطن کے حصول کی مشترکہ جدوجہد کی تو کیا اس وقت یہ مسائل موجود نہ تھے……؟ سب کچھ ایسے ہی تھا۔ یہ مسائل اس وقت بھی تھے۔ زمینی خلیج اور زبان کی تفریق اس وقت بھی تھی لیکن اسلام کے رشتے کی وجہ سے ایک ہزار میل دور بیٹھے دونوں خطوں کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات ایک تھے اور ان کے دل بھی ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ بنگالی مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ محبت شک وشبہ سے بالاتر تھی۔ انگریز کے انخلا اور وطن کی آزادی کے لیے ان کی قربانیاں تاریخ ساز تھیں۔ جماعت مجاہدین سے وابستہ بنگال و بہار کے مسلمان ایک سو سال تک انگریز کے خلاف برسرپیکار رہے، اسے لوہے کے چنے چبواتے رہے، قیدوبند کی صعوبتوں سختیوں کو سنتِ یوسفی سمجھتے رہے، پھانسی کے پھندوں کو جنت کی معراج جانتے رہے، آہنی زنجیر و سلاسل کو لباسِ زینت سمجھ کرپہنتے رہے اور جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اسے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہیدین کی برپا کردہ مقدس جہادی تحریک کا تتمّہ اور ماحاصل سمجھ کر کامیاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بنگال و بہار سے تعلق رکھنے والے جماعت مجاہدین سے وابستہ جانبازوں اور سرفروشوں کا مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان بنانے میں اہم کردار تھا۔ لہذا جب پاکستان بن گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے قیام کے مقاصد کو بروئے کار لایا جاتا۔ لاالہ الااللہ کو محض نعرے کی بجائے اقتدار کے محلات، عدلیہ کے ایوانوں، عوام کی زندگیوں، ہر محکمے اور ہر شعبے میں عملاً نافذ کیا جاتا۔ یہاں ہوا یہ کہ اسلام کے نفاذ اور اس پر عمل کرنے کی بجائے سارا زور اسلام آباد کی تعمیر وتزئین، اسے بنانے، سجانے ، سنوارنے اور آباد کرنے پر رہا نتیجتاً…… اسلام آباد تو بن گیا……آباد ہو گیا…… اسلام نافذ نہ ہو سکا۔ سچی بات ہے کہ اگر پاکستان کا مقدر اسلام سے وابستہ کر دیا جاتا تو دونوں خطوں میں زبان ولسان کے مسائل پیدا ہوتے نہ صوبائی خودمختاری و احساس محرومی کا عفریت جنم لیتا اور نہ بھارت کی سازشیں پروان چڑھتیں وکامیاب ہوتیں۔ جب اسلام سے روگردانی اور بے وفائی کی گئی تو چھوٹے چھوٹے مسائل پہاڑ بن گئے ، نفرتوں، عداوتوں، مخالفتوں اور دشمنیوں کے بیج پھوٹنے لگے، بھارت کی بوئی ہوئی نفرت، لسانیت اور صوبائیت کی فصل پک کر تیار ہو گئی تو پھر دہشت گردی، تخریب کاری اور بغاوت کو منظم کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی نام نہاد عبوری اور جلاوطن حکومت کا ہیڈکوارٹر کلکتہ کے علاقے 58بالی گنج میں بنایا گیا۔ 3دسمبر کو جب اندرا گاندھی نے اپنی فوج کو مشرقی پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس وقت وہ کلکتہ میں تھیں حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگے ہوئے بنگالی جوان، افسر اور مکتی باہنی کے دستے اس کے علاوہ تھے۔ پاک فوج کے مقابلے میں دشمن کی طاقت سات گنازیادہ تھی۔ چنانچہ 16دسمبر کو پاک فوج کو ڈھاکہ ریس کورس میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔جن لوگوں نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور ریاست کے خلاف جنگ لڑی انہوں نے اس جنگ کو اپنی …اور اپنے وطن کی آزادی کی جنگ قرار دیا تھا۔ لیکن کیا واقعی یہ ان کی اپنی جنگ تھی …؟ اور کیا واقعی یہ ان کے اپنے خطے کی آزادی کی جنگ تھی…؟ خوش فہمی اور خوش گمانی کا شکار ان لوگوں کو 16دسمبر کے دن ہی اپنے سوالوں کے جوابات مل گئے تھے اور یہ تلخ حقیقت ان پر واضح ہو گئی تھی کہ جس جنگ کو انہوں نے مشرقی پاکستان کی آزادی کی جنگ سمجھا… وہ دراصل بھارت کی بالادستی قبول کرنے اور اس کی غلامی کا طوق پہنائے جانے کی جنگ تھی۔ پاک فوج سے بھاگنے والے بنگالی فوجی جوانوں، افسروں اور مکتی باہنی کے دستوں پر مشتمل جو فوج تشکیل دی گئی بھارتی میڈیا کے بقول اس کی تعداد 2لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگنے والا کرنل عثمانی اس فوج کا کمانڈر انچیف اور مشترکہ کمانڈ کا بھی سربراہ تھا۔ جب ڈھاکہ کے ریس کورس میں ہتھیار ڈالے جانے کی تقریب منعقد ہوئی تو بھارتی فوج نے کمانڈر انچیف کرنل عثمانی اور اس کے فوجی افسروں کو اس تقریب کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا تھا۔ حالانکہ یہ وہی کرنل عثمانی تھے جن کو بھارتی حکومت نڈر، بہادر، شہ زور، نہ ڈرنے والا، نہ جھکنے والا، نہ مفاہمت و مصالحت کرنے والا بنگا بیر (شیر بنگال) کہا کرتی تھی۔ بھارت نے اس شیر بنگال سے جو کام لینا تھا لے لیا،کام نکل جانے کے بعد اسے دھتکار دیا اور مکھن سے بال کی طرح باہر نکال پھینکا۔ اگر شیر بنگال اور بنگلہ دیش کی افواج کے کمانڈر انچیف کی بھارتی فوج کے سامنے یہ بے بسی تھی تو باقی بنگالی فوجی افسروں یا عام سویلین جنہوں نے بھارت کا ساتھ دیا تھا ان کی اوقات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اقوام عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ اپنے وطن اور اپنی دھرتی کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور دشمنوں کا ساتھ دینے والوں سے فاتح فوجیں ہمیشہ یہی سلوک کرتی ہیں۔ جنرل نیازی نے جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے، اپنا سروس ریوالور جنرل اروڑا کے سپرد کیا، ہتھیار ڈالے جانے کی دستاویز پر جنرل نیازی اور جنرل اروڑا کے دستخط تھے اور پاکستانی فوجیوں کو بھارتی سرزمین پر لے جا کر قیدی بنایا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت بھارت کی بالادستی کی جنگ تھی جو ا س نے پاکستان سے ناراض بنگالیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی۔ بھارت کا مقصد پاکستان کو دولخت کرنا تھا اور مشرقی پاکستان کو اپنے زیراثر لانا تھا۔ بعد ازاں اندرا گاندھی نے اپنے ان مذموم مقاصد کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ’’آج ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اور آج ہم نے ہزار سالہ ظلم کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘بھارت مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر 1950ء کی صریحاً خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ اسی طرح بھارت 1966ء کے ان پاک بھارت معاہدوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا جن میں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ بھارت کو پاکستان کے معاملے میں نہ UNOکے چارٹر کی پروا ہے اور نہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پاسداری ہے۔ بھارت کاآج بھی پاکستان کے ساتھ یہی رویہ، یہی برتائو اور سلوک ہے۔ ایک طرف بھارتی حکمران سرحدوں کو نرم کرنے کی بات کرتے اور دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی کر کے پاکستان میں آبی دہشت گردی کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھارتی حکمران بلوچستان کو حق خودارادیت دینے اور پاکستان کا حصہ تسلیم نہ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ بلوچستان، صوبہ خیبرپی کے اور کراچی میں بھارتی دہشت گردی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں آج بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں وہ 66سال پہلے یا 16دسمبر 1971ء کے موقع پر تھا۔ وہ مذاکرات اور دوستی کی آڑ میں اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ وہ پاکستان کو نیپال اور بھوٹان بنانا چاہتا ہے۔ اس نے دشمنی نہیں طریقہ واردات بدلا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت کا رویہ منافقانہ اور عیارانہ ہے۔ کشمیر میں دیوار برہمن کی تعمیر کا اعلان اس کے استعماری، استحصالی، توسیع پسندانہ عزائم اور پاکستان دشمنی کا کھلاثبوت اور واضح اظہار ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اور اس کے بعد سے اب تک بھارت کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور مسئلہ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی …… ہمارے حکمرانوں کی برہمن کے ساتھ مصالحت، مفاہمت اور دوستی کی بے جا توقعات وابستہ کرنے کانتیجہ ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارت کے ساتھ بے جا کشیدگی کو ہوا دی جائے، جنگ وجدل کا بازار گرم کیا جائے، مخالفت، مخاصمت اور عداوت کی فضا پیدا کی جائے لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ بے جا مصالحت، بے مقصد مفاہمت ، لایعنی مذاکرات اور کھوکھلی و یک طرفہ اعتماد سازی کی امیدیں ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے ساتھ ماضی و حال میں روا رکھے جانے والے رویہ و کردار، قول وفعل، اس کی دوستی و دشمنی اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں کے تناظر و آئینہ میں معاملات طے کئے جائیں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1971ء کے موقع پر بہت سے لوگوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کی تھیں، بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ابتداً شیخ مجیب الرحمن نے جنگی جرائم کے تحت ان پر مقدمہ چلانا چاہا لیکن بعد میں ان لوگوں کو پاک فوج کے ساتھ تعاون کرنے والا قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا گیا تھا۔ اب بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت 42سال بعد طے شدہ معاملات کو ایک بار پھر اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کو عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا پرنالہ آج بھی اسی جگہ ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہمیں بحثیت قوم اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ 42سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے اس سانحہ سے کیا سبق حاصل کیا…؟ کیا پایا…؟ کیا کیا… اب مزید کیا کرنا ہوگا … ؟ ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، ان غلطیوں کی اصلاح کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟ 1971ء میں ہم عسکری اعتبار سے کمزور تھے اس لیے بھارت کو جارحیت کی جرأت ہوئی آج ہمارا ملک ایٹمی طاقت ہے۔ یہ اہم ترین پیش رفت اور کامیابی ہے جس سے پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پروگرام شروع کیا۔ پاک فوج نے اس کی حفاظت، نگہداشت، پرداخت کی، اسے آگے بڑھایا، پروان چڑھایا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ میاں نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو باضابطہ طور پر ایٹمی طاقت بنایا۔ بحمدللہ ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے اب پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ نہیں رہا۔ جہاں تک فکری ونظریاتی سرحدوں کا معاملہ ہے اس ضمن میں ہمارے حکمران آج بھی 71ء کی طرح غفلت و مداہنت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں پر قابض ہندو اساتذہ ملک کی فکری و نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرتے رہے تو آج ہمارے تعلیمی اداروں پر غیرملکی این جی اوز قابض اور ہماری تعلیمی پالیسیاں انگریز بنا رہے ہیں ۔ یہ سنگین ترین قسم کی غفلت اور مجرمانہ خاموشی ہے جس کے ماضی میں ہم تباہ کن اثرات بھگت چکے ہیں۔ بنگالیوں نے بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور اس پر اعتماد کیا تو ہماری پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ آج پھر ہمارے حکمر ان بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے رشتے استوار کر رہے بلکہ اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے تاب و بے چین نظر آتے ہیں۔ 71ء کے موقع پر ہم اندر سے ٹوٹ گئے اور کمزور ہو گئے تھے، آج بھی دشمن ہمیں اندر سے توڑنے اور کمزور کرنے کے درپے ہے۔ یہ سارے معاملات قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں۔ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ 16دسمبر کا سانحہ پاکستانی قوم اور مسلح افواج پر قرض ہے۔ دانا آدمی مقروض ہو جائے تو وہ قرض خواہ کے پائوں نہیں پڑتا بلکہ ہمیشہ قرضہ چکانے کی فکر میں رہتا ہے۔ جو آدمی قرض کی ادائیگی سے بے پروا ہو جائے وہ قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کا گھر رہتا ہے نہ عزت و آبرو۔ لوگ اس کے جسم کے کپڑے تک نوچ لیتے ہیں۔ یہی حال قوموں کا ہے قوموں کی تقدیر کے فیصلے حقائق سے آنکھیں چرانے، گھگھیانے، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے اور شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبانے سے نہیں بلکہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے فہم و فراست، عقل ودانش، جرأت و شجاعت، دلیری و بہادری، خون کی سیاہی اور شمشیر کی نوک سے لکھے جاتے ہیں۔ یہی زندہ و خوددار قوموں کا طریقہ وتیرہ اور شیوہ ہے اور یہی 16دسمبر کا سبق ہے۔٭٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔

آج کا دن

آج کا دن

پہلی کامیاب پرواز 17 دسمبر 1903ء کو امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے مقام کِٹی ہاک پر اورول رائٹ اور ولبر رائٹ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ہوائی جہاز کامیابی سے اڑایا جو انجن سے چلتا تھا، کنٹرول کیا جاتا تھا اور انسان کو فضا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس طیارے کا نام فلائر ون تھا جس نے تقریباً 12 سیکنڈ تک پرواز کی اور 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔یہ کارنامہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا بلکہ انسانی تہذیب میں ایک انقلابی قدم تھا۔ رائٹ برادران کی اس کامیابی نے بعد میں ہوابازی، جنگی طیاروں، مسافر بردار جہازوں اور عالمی رابطوں کے پورے نظام کی بنیاد رکھی۔ سیمون بولیوار کا انتقال 17 دسمبر 1830ء کو لاطینی امریکا کے عظیم انقلابی رہنما سیمون بولیوار کا انتقال ہوا۔ بولیوار کو'' لبریٹر‘‘یعنی آزادی دلانے والا کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سپین کی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے وینزویلا، کولمبیا، ایکواڈور، پیرو اور بولیویا کو آزادی دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔بولیوار نہ صرف ایک فوجی کمانڈر تھے بلکہ ایک ویژنری سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کا خواب تھا کہ آزاد ہونے والے لاطینی امریکی ممالک ایک مضبوط وفاق کی صورت میں متحد رہیں مگر اندرونی اختلافات، علاقائی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مایوسی، بیماری اور تنہائی کا شکار رہے۔ مالمدی قتلِ عام دوسری عالمی جنگ کے دوران 17 دسمبر 1944ء کو یورپ میں ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا جسے مالمدی قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بلجیم کے علاقے مالمدی کے قریب پیش آیا جہاں نازی جرمن فوج کے ایس ایس دستوں نے امریکی فوج کے تقریباً 84 جنگی قیدیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔یہ واقعہBattle of the Bulge کے دوران پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعہ جنگی جرائم کی ایک نمایاں مثال کے طور پر سامنے آیا۔جنگ کے بعد نیورمبرگ طرز کے مقدمات میں اس قتلِ عام میں ملوث جرمن افسران پر مقدمات چلائے گئے اور کئی کو سزائیں سنائی گئیں۔عرب بہار کا آغاز17 دسمبر 2010ء کو تیونس کے ایک نوجوان پھل فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کی بدسلوکی، بے روزگاری اور حکومتی ناانصافی کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر ایک فرد کی ذاتی اذیت کا اظہار تھا مگر اس نے پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔بوعزیزی کی خودسوزی کے بعد تیونس میں عوامی احتجاج شروع ہوا جو جلد ہی ایک عوامی انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ چند ہفتوں میں صدر زین العابدین بن علی اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہو گئے۔ یہی تحریک آگے چل کر عرب بہار کہلائی جس نے مصر، لیبیا، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں سیاسی ہلچل پیدا کی۔

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

روبوٹک لیمپ:ٹیکنالوجی کا نیا شاہکار

دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اب ایک اور حیران کن ایجاد شامل ہو گئی ہے۔ پکسر کے مشہور اچھلتے لیمپ سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا ایک دلچسپ روبوٹک ڈیسک لیمپ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، جو نہ صرف حرکت کرتا ہے بلکہ دیکھنے، سننے اور بات کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ کیلیفورنیا کی کمپنی ''Interaction Labs‘‘ کی جانب سے تیار کردہ ''اونگو‘‘(Ongo) نامی یہ سمارٹ لیمپ گھروں اور دفاتر کیلئے ایک نئے طرز کی ڈیجیٹل رفاقت پیش کرتا ہے۔ پرومو ویڈیو میں یہ روبوٹ اشیاء اور انسانوں کو تجسس بھری نظروں سے دیکھتا، مدد فراہم کرتا اور ماحول سے تعامل کرتا نظر آتا ہے، جبکہ اس کی رازداری کے تحفظ کیلئے سن گلاسز تک مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شوقین افراد اس جدت کو روبوٹکس کے مستقبل کی ایک دلکش جھلک قرار دے رہے ہیں۔کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او کریم رخا چاہم (Karim Rkha Chaham) نے بتایا کہ یہ ''جذبات کا اظہارِ کرنے والا‘‘ روبوٹ صارفین کو یاد بھی رکھ سکتا ہے اور ان کی ضروریات کا اندازہ بھی لگا لیتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں جیسے کسی بلی کو ایک ڈیسک لیمپ کے جسم میں قید کر دیا گیا ہو‘‘۔سماجی پلیٹ فارم ''ایکس‘‘ پر تبصرہ کرنے والوں نے اس ڈیزائن کو ناقابلِ یقین، شاندار، بہت زبردست اور حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ''یہ یقینی طور پر وہ چیز ہے جو میں گھر میں رکھ سکتا ہوں، کسی خوفناک انسانی نما روبوٹ کے مقابلے میں‘‘۔ جبکہ ایک اور نے لکھا کہ ''یہ شاید مارکیٹ کا سب سے پیارا روبوٹ ہو سکتا ہے‘‘۔''اونگو‘‘ کی حرکات ایلیک سوکولو نے ڈیزائن کی ہیں، جو پکسر کی فلم ''ٹوائے سٹوری‘‘، ''گارفیلڈ: دی مووی‘‘ اور ''ایون المائٹی‘‘ کے آسکر کیلئے نامزد سکرین رائٹر ہیں۔ پرومو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ''اونگو‘‘ اپنے بیس پر گھومتا ہے اور اپنی محور کو خودبخود ایڈجسٹ کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے Pixar کا مشہور کردار کرتا تھا۔صارف کی ضرورت کے مطابق ''اونگو‘‘ اپنی آنکھوں سے نکلنے والی روشنی کی شدت کو کم یا زیادہ کرسکتا ہے اور انہیں قریب بھی لا سکتا ہے، مثلاً رات کے وقت کتاب پڑھنے کیلئے۔یہ خوشگوار انداز میں سلام کرتا ہے، مفید مشورے دیتا ہے اور ہدایات بھی دیتا ہے جیسے: ''ارے! اپنی چابیاں بھولنا مت‘‘۔ایک اور دلکش منظر میں دکھایا گیا ہے کہ جب گھر میں پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو ''اونگو‘‘ پاس والے کمرے میں چلنے والی موسیقی کی دھن پر جھومتا ہے۔کمپنی کے مطابق، یہ ڈیسک لیمپ آپ کے ڈیسک اور آپ کے دن کو روشن کرتا ہے اور آپ کے گھر میں ''جادو جیسی مانوس موجودگی‘‘ لے کر آتا ہے۔کمپنی اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے: ''یہ آپ کی جگہ کو حرکت، شخصیت اور جذباتی ذہانت کے ساتھ زندہ بناتا ہے۔یہ اُن باتوں کو یاد رکھتا ہے جو آپ کیلئے اہم ہیں، آپ کے احساسات کو محسوس کرتا ہے اور دن بھر چھوٹی چھوٹی، خیال رکھنے والی حرکات کے ذریعے آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ اونگو آپ کے دن کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور ماحول میں آنے والی لطیف تبدیلیوں کو خاموشی سے سمجھتے ہوئے ان کا جواب دیتا ہے۔ سمارٹ مصنوعات کی طرح جن میں کیمرے شامل ہوتے ہیں، اونگو بھی اپنے اردگرد کے ماحول کا ادراک رکھتا ہے، لیکن وہ ویژول ڈیٹا کو اپنی ڈیوائس ہی پر پروسیس کرتا ہے اور کسی بھی قسم کی ویڈیو کلپس کلاؤڈ پر نہیں بھیجتا، تاکہ کمپنی کا کوئی فرد انہیں نہ دیکھ سکے۔ جب صارفین مکمل پرائیویسی چاہتے ہوں اور نہیں چاہتے کہ اونگو ان پر نظر رکھے، تو وہ اس کی آنکھوں پر غیر شفاف چشمے لگا سکتے ہیں، جو مقناطیس کی مدد سے فوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ایکس (X) پر کئی صارفین نے کہا کہ انہیں اونگو کی آواز ''پریشان کن‘‘ اور ''چبھن بھری‘‘ لگتی ہے، لیکن چہام (Chaham) کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت بھی حسبِ ضرورت کسٹمائز کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پرومو ویڈیو کمپیوٹر جنریٹڈ ہے، لیکن یہ صارفین کو ایک واضح اندازہ دیتی ہے کہ وہ کیا توقع رکھ سکتے ہیں، کیونکہ فی الحال پروٹوٹائپ پر کام جاری ہے، یعنی یہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں۔اونگو کو کمپنی کی ویب سائٹ پر پری آرڈر کیا جا سکتا ہے، جس کیلئے 49 ڈالر یا 38.38 پاؤنڈ کی مکمل طور پر قابلِ واپسی ''پرائیویٹی ایکسس ڈپازٹ‘‘ درکار ہے۔ یہ ڈپازٹ صارف کیلئے پہلے بیچ سے ایک یونٹ محفوظ کر دیتا ہے اور یہ رقم پروڈکٹ کی آخری قیمت میں سے منہا ہوجائے گی،جس کے بارے میں چہام نے بتایا کہ یہ تقریباً 300 ڈالر (225 پاؤنڈ) ہوگی۔ جو صارفین ابھی ادائیگی کریں گے انہیں اونگو کی ترسیل اگلے سال موسمِ گرما میں شروع ہونے پر پہلے فراہم کی جائے گی۔اونگو بلاشبہ پکسر کے اصل لیمپ ''لکسو جونیئر‘‘ (Luxo.Jr) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے، جو 1995ء میں ''ٹوائے سٹوری‘‘ سے لے کر اب تک ہر پکسر فلم کے پروڈکشن لوگو میں دکھائی دیتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

پلاسٹک کی بوتلوں سے محل تعمیر

کینیڈین فنکارکا کارنامہ گنیز گیئربک میں شامل کر لیا گیاپلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے بحران کے اس دور میں، دنیا بھر میں جب ماحولیاتی ماہرین سر پکڑے بیٹھے ہیں، ایک شخص نے تخلیقی سوچ اور عزم کے ساتھ وہ کام کر دکھایا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ''پلاسٹک کنگ‘‘ کے نام سے مشہور اس باہمت فرد نے 40 ہزار استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ضائع ہونے نہیں دیا، بلکہ انہیں جوڑ کر ایک شاندار چار منزلہ محل تعمیر کر ڈالا۔ یہ منفرد منصوبہ نہ صرف ماحول دوستی کی ایک روشن مثال ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ تخلیق اور جدت انسان کو ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی طاقت عطا کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے تناظر میں یہ کارنامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو ایک پھینکی ہوئی پلاسٹک کی بوتل بھی تعمیر وطن اور خدمت انسانیت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کو بے کار کچرے سے پاک کرنے کے خواہش مند ایک کینیڈین شخص نے پاناما کے لوگوں میں حیرت انگیز جوش پیدا کر دیا۔ اس نے ساحلوں اور شاہراہوں پر بکھری ہزاروں پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کروائیں اور اسی ''کچرے‘‘ کو استعمال کر کے ایک ایسا شاندار محل تعمیر کر ڈالا جو کیریبین سورج کی روشنی میں جگمگاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے بلکہ مونٹریال سے تعلق رکھنے والے رابرٹ بیزو کی حقیقی زندگی کا وہ کارنامہ ہے جس نے انہیں درست طور پر ''پلاسٹک کنگ‘‘ کا لقب دلایا۔ 2012ء میں رابرٹ پاناما کے علاقے بوکاس ڈیل ٹورو کے ایسلا کولون میں رہائش پذیر تھے اور اپنا وقت بوکاس ری سائیکلنگ پروگرام کے ساتھ گزار رہے تھے، جو ملک کے ساحلوں اور بستیوں سے کچرا صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر کینیڈین شہری اس بات پر سخت حیران ہوا کہ صرف ڈیڑھ سال کے دوران انہوں نے دس لاکھ سے زائد پلاسٹک کی بوتلیں جمع کیں جو ری سائیکل ہونے والے کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر کی صورت جمع ہو رہی تھیں۔ اس آلودگی کو کم کرنے کیلئے رابرٹ کے ذہن میں ایک بہت ہی غیر معمولی خیال آیا۔ کیا ہو اگر ان بوتلوں کو ری سائیکل کرنے کے بجائے براہ راست استعمال کر کے کوئی بڑا ڈھانچہ بنایا جائے، ایسا جو رہائش بھی فراہم کرے اور انسانی فضلے اور ماحول دوست حل کی ایک علامت بھی بن جائے۔اسی خیال کے بیج سے دنیا کا سب سے بڑا پلاسٹک بوتلوں سے بنا قلعہ وجود میں آیا۔ چار منزلہ، 46 فٹ (14 میٹر) بلند کاسٹیلو اِن اسپیریسیون، جو تقریباً 40 ہزار بوتلوں سے تیار کیا گیا۔رابرٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں جزیرے کے رہائشیوں اور حکام کو لگا کہ میں پاگل ہوں حتیٰ کہ میری بیوی اور میرا بیٹا بھی یہی سمجھتے تھے۔ پھر انہیں تجسس ہوا اور انہوں نے مجھے یہ دیکھنے کیلئے کام جاری رکھنے دیا کہ آخر میں کیا کرنے والا ہوں۔ جیسے جیسے عمارت بڑھتی گئی، ان کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں عمارت نے واضح شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ کنکریٹ اور اسٹیل کے مضبوط ڈھانچے کے گرد بنائی گئی اس تعمیر میں رابرٹ اور ان کی ٹیم نے پلاسٹک کی بوتلوں کو ''ماحول دوست تعمیراتی مواد‘‘ یا انسولیشن کے طور پر استعمال کیا۔ بوتلوں کی ساخت نے قلعے کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھا اور اسے ایک منفرد حسن بخشا جس کی جھلک کسی پلاسٹک گلاس جیسی دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج یہ تھا کہ ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر کام میں جدت لاتے تھے۔ یہ ایک دن، ایک منزل کر کے اوپر اٹھتا گیا، یہاں تک کہ ہم چار منزلوں تک پہنچ گئے! مجموعی طور پر قلعے میں چار مہمان کمرے، ضیافت کیلئے ایک بڑا ہال اور چھت پر ایک دیدہ زیب مشاہدہ گاہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں آنے والے زائرین کیلئے متعدد تعلیمی مواد بھی رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کے کچرے کے اثرات اور رابرٹ کی اس منفرد تخلیق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔اس تمام عمل کے دوران، رابرٹ ری سائیکلنگ کے بجائے اپ سائیکلنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ اپ سائیکلنگ سے مراد یہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ان کی کیمیائی ساخت بدلے بغیر کسی نئے مقصد کیلئے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ جبکہ روایتی ری سائیکلنگ کے نتیجے میں عموماً پلاسٹک کے ذرات ماحول کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں، اپ سائیکلنگ کو کچرے کے زیادہ ماحول دوست استعمال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رابرٹ نے ایک بار کہا تھا: ''ایک شخص کا کچرا، دوسرے انسان کا محل بن سکتا ہے۔ ڈائنوسار ایک شہابِ ثاقب سے ختم ہوئے تھے، اور انسانیت پلاسٹک سے ختم ہوگی‘‘۔ چند سال بعد جب رابرٹ نے یہ محل تعمیر کیا، انہیں '' انرجی گلوب ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا، جو ان کے پائیدار منصوبوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوارڈ انہیں ''ناقابل یقین احساس‘‘ دلانے والا تھا۔مگر اس اعزاز کے باوجود، وہ یہاں رکنے والے نہیں تھے۔ 2021ء میں، انہوں نے اپنے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے پورا پلاسٹک بوتلوں کا گاؤں تعمیر کیا، جس میں کئی دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔ ان گھروں میں بوتلیں انسولیشن کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور ان کے باہر کنکریٹ کی تہہ دی گئی ہے۔

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

پومپیئی:ایک قدیم شہر جو لمحوں میں تاریخ بن گیا

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں اگر کوئی شہر عبرت، حیرت اور تاریخ کے سنگم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تو وہ پومپیئی ہے۔ اٹلی کے جنوب میں واقع یہ رومن شہر 79ء میں آتش فشاں ماؤنٹ ویسوویس کے اچانک پھٹنے سے لمحوں میں مٹ گیا۔ مگر اس شہر کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مٹی نہیں بلکہ راکھ میں محفوظ ہوگیا۔ ایسے جیسے وقت رک گیا ہو اور زندگی ایک ٹھہرے ہوئے منظر کی صورت ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئی ہو۔تاریخی پس منظرپومپیئی بحیرہ روم کے کنارے واقع ایک خوشحال رومن شہر تھا جس کی بنیاد غالباً چھٹی یا ساتویں صدی قبل مسیح میں رکھی گئی۔ یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز تھا جہاں رومی طرزِ زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری تھی۔ پتھروں کی پختہ گلیاں، شاندار گھروں کے صحن، حمام، تھیٹر، بازار اور شراب خانے سب پومپیئی کی بھرپور تہذیب اور سماجی زندگی کی عکاسی کرتے تھے۔24 اگست 79ء کی صبح اچانک ماؤنٹ ویسوویس نے زبردست دھماکے کے ساتھ آگ اگلی۔ آسمان سیاہ ہو گیا، زہریلی گیسوں اور راکھ نے فضا بھر دی۔ چند ہی گھنٹوں میں گرم لاوے کا سیلاب، راکھ اور پتھروں کی بارش اور زہریلی گیسوں کے بادل نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا۔ پومپیئی کے تقریباً 20 ہزار باشندوں میں سے بہت سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، مگر ہزاروں لوگ وہیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شہر 6 سے 7 میٹر موٹی آتش فشانی راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔پومپیئی 17 صدیوں تک زمین کے نیچے چھپا رہا۔ 1748ء میں جب کھدائی شروع ہوئی تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین ششدر رہ گئے کیونکہ شہر کے گھر، فرنیچر، برتن، دیواروں پر بنے رنگین نقش و نگار، فریسکوز، حتیٰ کہ انسانوں اور جانوروں کے آخری لمحات تک حیرت انگیز طور پر محفوظ تھے۔راکھ میں دبے جسم وقت کے ساتھ گل گئے، مگر ان کے خالی خول برقرار رہے۔ ماہرین نے ان میں پلاسٹر بھر کر انسانوں کے آخری لمحات کو شکل دے دی۔کوئی بھاگ رہا تھا،کوئی اپنے بچے کو تھامے ہوئے تھا اور کوئی گھٹنوں کے بل جھکا امداد کا منتظر تھا۔ یہ مناظر آج بھی دیکھنے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں۔پومپیئی کی گلیاں، پتھریلے فٹ پاتھ، دوکانوں کے کاؤنٹر، شہریوں کے گھر اور شاہی ولا آج بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے 79ء کی صبح تھے۔رنگین دیواری تصویریں رومی آرٹ کی بہترین مثال ہیں جن میں اساطیری مناظر، رقص، کھانے پینے کی محفلیں اور روزمرہ زندگی کی جھلکیاں شامل ہیں۔رومی تہذیب کا آئینہپومپیئی آج روم کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا کھلا میوزیم ہے۔ یہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ لوگ کیسے رہتے تھے، کیا کھاتے تھے، تفریح کیسے کرتے تھے، تجارت کیسے ہوتی تھی اور مذہبی رسومات کیا تھیں۔ گھروں میں ملنے والے فرنیچر کے نشانات، بیکریوں کے تنور، حمام کے کمرے، اسٹیڈیم، تھیٹر اور مندر سب کچھ اس قدیم شہر کے سماجی ڈھانچے کو زندہ کر دیتے ہیں۔آج کا پومپیئیآج پومپیئی دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آثارِ قدیمہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مقام نہ صرف سیاحوں کیلئے پرکشش ہے بلکہ ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے بھی ایک زریں خزانہ ہے جہاں نئی دریافتیں آج بھی جاری ہیں۔ جدید تحقیق آتش فشانی تباہی، قدیم فنون اور رومی طرزِ زندگی کے بارے میں نئی روشنی ڈال رہی ہے۔اطالوی حکومت اور یونیسکو مل کر اس تاریخی مقام کے تحفظ کیلئے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ ورثہ آئندہ نسلوں تک محفوظ رہے۔پومپیئی صرف ایک تباہ شدہ شہر نہیں، بلکہ وقت کے رُک جانے کی داستان ہے۔ یہ ہمیں انسان کی طاقت، کمزوری، فخر، خوشیوں، غموں اور قدرت کی بے رحم قوتوں کے بارے میں سبق دیتا ہے۔ یہاں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں کیسے بستی ہیں اور لمحوں میں کیسے مٹ سکتی ہیں لیکن ان کے نقوش صدیوں بعد بھی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔