پہیہ
اسپیشل فیچر
آئیے ہم آپ کو ایسی دنیا دکھائیں جہاں سواری کے لیے کاریں تھیں نہ ہوائی جہاز ،ریلیں تھیں نہ بسیں،تانگے تھے نہ بگھیاں،باربرداری کے لیے لاریاں تھیں نہ بیل گاڑی ،چھکڑے تھے نہ ٹھیلے۔لوگوں کو اگر کہیں آنا جانا ہوتا تو پیدل ہی آتے جاتے یا جانوروں کی سواری کرتے۔اور اگر کہیں مال اسباب لے جانا ہوتا تو اپنے سر یا چوپایوں کی پیٹھ پر لاد کر لے جایا کرتے تھے۔اگر آپ کو اس دنیا میں لے جاکر کھڑا کر دیا جاتا تو یقیناً آپ کو وحشت ہوجاتی اور آپ تنگ آکر پکار اٹھتے کہ ایسی دنیا سے توبہ ہی بھلی!آج سے ان گنت سال پہلے اس دنیا کی یہی حالت تھی۔یہ سب اس گول پہیے کے ہی کرشمے ہیں جس کو آپ چکر کھاتے اور دوڑتے دیکھتے ہیں۔اس کی بدولت آج مہینوں کے سفر پلوں میں کٹتے ہیں۔گزرے ہوئے زمانے کی حالت کا آج کے زمانے سے مقابلہ کرنے سے پہیے کی حیرت انگیز ایجاد کا راز کھلتا ہے۔جب پہلے پہل انسان نے لکڑی کا پہیہ بنایا تووہ یقیناً اس زمانے کے لوگوں کے لیے حیران کر دینے والی ایسی ایجاد تھی جیسے اب ریڈیو ،ٹی وی اور آج کل کی جدید ایجادات۔لوگ شروع شروع میں بوجھ کو اپنے سر پیٹھ پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا کرتے تھے۔جب انہوں نے عقل سے کام لے کر جانوروں پر قابو پالیا تو ان پر بوجھ لاد کر ڈھونے لگے لیکن کئی ایسی بھاری اور بوجھل چیزیں بھی تھیں جنہیں نہ تو وہ خود اٹھاسکتے تھے اور نہ ہی وہ جانوروں پر لادی جاسکتی تھیں۔وہ ان کو دھکیلتے ،کھینچتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ہوتے ہوتے بھاری بھرکم چیزوں کے نیچے درختوں کے گول گول تنے کاٹ کر رکھ دئیے جاتے اور لوگ بھاری چیزوں کو لڑھکاتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے۔لکڑی کے گول تنوں کو آسانی سے زمین پر لڑھکتے دیکھ کر موٹے موٹے گول ٹکڑوں سے پہیے بنالینا انسانی عقل کے لیے کچھ مشکل کام نہ تھا۔چناچہ درختوں کے تنوں سے موٹے موٹے ٹکڑوں کے دو پہیے کاٹ کر ان کے درمیان ایک مضبوط لاٹھی یا سلاخ گاڑ دی جاتی اور اس کے اوپر بوجھ لاد کر اسے کھینچا یا دھکیلا جانے لگا۔پرانے زمانے کے پہیے آج کل کی موٹر کاروں ،ریل گاڑیوں اور طرح طرح کی پہیے دار چیزوں کی صحیح معنوں میں ابتداء ہیں۔جوں جوں زمانہ گزرتا گیا،ان پہیوں کی شکل و صورت زمانے کی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی چلی گئی اور ان سے رتھیں،بگھیاں،تانگے،اور بوجھ ڈھونے کے لیے بیل گاڑیاں تیار ہونے لگیں۔قدیم زمانے کے مصری ،شامی،ایرانی،یونانی اور رومن رتھ قسم کی گاڑیوں میں سوار ہوتے،اور انہی پر چڑھ کر جنگ لڑتے تھے۔رتھ اتنی چھوٹی ہوتی تھی کہ اس میں ایک دو آدمی بیٹھ سکتے تھے اور جب رتھ کے گھوڑوں کو تیز ہانک دیا جاتا تو مارے ہچکولوں کے اس میں بیٹھے ہوئے آدمیوں کی آنتیں تک ہل جاتی تھیں۔ایک سے زیادہ سواریوں کے لیے رفتہ رفتہ بگھیاں،بیل گاڑیاں اور اسی قسم کی دو اور چار چار پہیے والی گاڑیاں بننے لگیں جن میں رتھوں کی نسبت تکلیف بھی کم ہوتی اور سفر بھی جلدی کٹتا تھا۔لیکن اتنی بڑی گاڑیوں کو سوائے امیروں کے کون رکھ سکتا تھا۔آخر ہلکے پھلکے پہیوں والی کم خرچ والی گاڑیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔بائیسکل کی ایجاد ایسے ہی زمانے کی یادگارہے۔اب گھوڑا گاڑیاں،تانگے اور یکے کرائے پربھی چلنے لگے اور انسان ضروریات زندگی کی تلاش کے علاوہ سیروتفریح کے لیے بھی سواریوں کو کام میں لانے لگا۔اس کے بعد اس نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ ایسی پہیے دار سواریاںایجاد کرے جو نہ صرف ہلکی پھلکی ہوں بلکہ اسے ہچکولوں سے بھی نجات دلادیں اور اس کے ساتھ سفر بھی تیزی سے کٹ جائے۔سوچتے سوچتے انسان نے ربڑ والے پہیے ایجاد کیے اور بیل یا گھوڑے کے بجائے ان میں طاقت ور انجن لگا کر ایسی گاڑیاں ایجاد کیں جن میں کئی کئی آدمی بیٹھ سکتے تھے۔اور بڑے آرام سے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔موٹر سائیکلیں،موٹرکار،بسیں اور لاریاں اسی ایجاد کی مختلف صورتیں ہیں۔جہاں ربڑ والی پہیے دار سواریوں کے لیے انسان نے صاف اور ہموار سڑک تیار کی۔وہاں اس نے سیکڑوں اور ہزاروں انسانوں کو ایک ہی وقت میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے اور منوں بوجھ آسانی اور تیز رفتاری سے ڈھونے کے لیے لوہے کے پہیوں کی ریل گاڑیاں بھی ایجاد کیں اور ان کے چلنے کے لیے زمین پر لوہے کی پٹری کا ایک جال بچھا دیا،جس سے آج دنیا کی مختلف اقوام کو ایک دوسرے سے میل ملاپ اور کاروبار میں بہت آسانیاں ہوگئی ہیں۔