مالدیپ
اسپیشل فیچر
مالدیپ 1200جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے جو بحر ہند میں واقع ہے۔ ان میں کچھ جزیروں کی کل آبادی چند سو نفوس پر مشتمل ہے۔ملک کی 80فیصد آبادی مالے میں ہی مقیم ہے۔ مجموعی اعتبار سے 1200میں سے صرف 200جزیرے ایسے ہیں جہاں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی آبادی موجود ہے۔یہ دنیا کا سب سے چھوٹا مسلم اکثریتی ملک ہے اور تقریباً ساری آبادی کا باقاعدہ مذہب اسلام ہے۔ باضابطہ نام جمہوریہ مالدیپ، جزائر پر مشتمل ایک ریاست ہے جو بحر ہند میں واقع ہے۔ یہ بھارت کے جزائر لکادیپ کے جنوب میں،جبکہ سری لنکا سے تقریباً سات سو کلومیٹر (435 میل) جنوب مغرب میں واقع ہے۔ 26 مرجانی چٹانیں ایک ایسے خطے کو تشکیل دیتی ہیں جو 1192 چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے تقریباً 200 ہی ایسے ہیں جن پر انسانی آبادی موجود ہے۔ مالدیپ کا دار الحکومت مالے ہے جہاںپورے ملک کی 80فیصد آبادی قیام پذیر ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں۔ ناممالدیپ کا مطلب غالباً ’’پہاڑی جزیرے‘‘ ہے (تامل میں ملائی کا مطلب پہاڑ اور تیوو کا مطلب ’’جزیرہ‘‘ہوتا ہے) یا پھر اس کا مطلب ’’ہزاروں جزائر‘‘ ہے۔ چند ماہرین کا ماننا ہے کہ مالدیپ کا لفظ سنسکرت کے لفظ مالادیپوا سے نکلا جس کا مطلب ’’جزائر کا گجرا‘‘ یا ’’جزائر کا ہار‘‘ ہے یا پھر’’مہیلا دیپوا‘‘ یعنی ’’عورتوں کا جزیرہ‘‘ سے نکلا ہے۔ چند ماہرین اسے عربی کے لفظ محل سے نکلا ہوا لفظ قرار دیتے ہیں۔تاریخ1153ء میں اسلام سے آشنا ہونے کے بعد یہ جزائر پرتگیزیوں (1558ء)، ولندیزیوں (1654ء ) اور برطانویوں(1887ء) کی نو آبادی بنے۔ 1965ء میں مالدیپ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور 1968ء میں اسے جمہوریہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ 40 سالوں میں محض چند افراد ہی صدور قرار پائے۔ مالدیپ آبادی کے لحاظ سے ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یہ سب سے چھوٹا مسلم اکثریتی ملک بھی ہے۔ اسلام تقریباً تمام آبادی کا باضابطہ مذہب ہے جبکہ قومی و عام زبان دیویہی ہے، جو ہند یورپی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے اور سری لنکا کی زبان سنہالی سے میل کھاتی ہے۔نظام حکومتملک میں صدارتی نظام حکومت موجود ہے۔ پارلیمنٹ صدر کو نامزد کرتی ہے اور عام شہری ووٹ دے کر اس کی توثیق کرتے ہیں۔ صدر چار سالوںکے لئے منتخب ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مجلس کہا جاتا ہے جس کے کل 54 ممبران ہوتے ہیں جن میںسے 8 کو صدر نامزد کرتا ہے باقی کو ووٹرز منتخب کرتے ہیں ہیں۔ 8 ممبران مالے سے منتخب ہوتے ہیں۔ دیگر 38 کو 19 اضلاع سے منتخب کیا جاتا ہے۔سیاحتسیاحت کے حوالے سے مالدیپ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ملکی معیشت سیاحت کے علاوہ ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ جہاز سازی، بنکاری اور ساخت گری کے شعبہ جات بھی اچھی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں مالدیپ دوسرے درجے پر سب سے زیادہ جی ڈی پی کا حامل ہے (3900 امریکی ڈالرز بمطابق 2002ء)۔ اس کے اہم تجارتی شراکت داروں میں بھارت، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔جغرافیہمالدیپ دنیا کا سب سے سپاٹ ترین ملک ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ زمینی سطح صرف 2.3 میٹر (ساڑھے 7 فٹ) ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں سمندروں کی سطح میں 20 سینٹی میٹر (8 انچ) اضافہ ہوا ہے۔ سمندر کی سطح میں بڑھتا ہوئے اس اضافے نے مالدیپ کی بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ 2004ء میں بحر ہند میں آنے والے سونامی نے مالدیپ کو بھی لپیٹ میں لیا تھا اور ملک کے کئی علاقے سمندری پانی میں ڈوب گئے اور کئی افراد بے گھر ہو گئے اور 6 غیر ملکیوں سمیت 75 افراد ہلاک ہوئے۔