دنیا کی زندگی ایک دھوکہ ہے
اسپیشل فیچر
’’موت اور قبر قیامت کا پہلا مرحلہ ہیں ، اس میں ناکام ہوئے تو قیامت میں کامیابی کی کوئی سبیل نہیں ، موت کے بعد قبر کے امتحان میں کامیاب ہو گئے تو قیامت میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں ، فیصلہ قیامت کا قبر میں ہو جانا ہے‘‘حضرت عثمان غنی ؓ***********کا ش کہ میں دنیا میں پیدا نہ ہوا ہوتاقبر و حشر کا سب غم ختم ہو گیا ہوتاارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور تمہارا آپس میں بڑائی مارنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا‘‘۔ (سورۃ الحدید20)تمام تعریفیں خالق کائنات ، مالک عرض و سماوات اللہ رب العالمین کیلئے جس نے آسمان کو ہمارے لئے چھت اور زمین کو بچھونا بنایا اور ہمیں ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا جن کا ہم شمار بھی نہیں کر سکتے۔ تمام جہانوں کی نعمتوں سے بڑھ کر سب سے بڑی نعمت اپنا پیارا محبوب جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ ہمیں عطا فرمایا۔ اللہ نے نسل انسانی کی رشدو ہدایت کیلئے کم بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علہیم السلام مبعوث فرمائے ۔ جنہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق نسل ِانسانی کو ہدایت و رہنمائی کی راہ دکھلائی۔ حضرت آمنہؓ کے لال فخرمو جودات ، سرور کائنات ، محمد مصطفیﷺ نے اپنی امت کو ایسے وقت میں گمراہی اور ضلالت کے گڑھے سے نکالا جبکہ ہم اپنے معبودِ حقیقی کو چھوڑ بت پرستی، قتل وغارت،شراب اور جوئے کی طرف راغب تھے ۔ ہر کسی پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ دنیا فانی ہے جس نے ایک دن فنا ہو جانا ہے۔دنیا کی لذتیں فانی ہیں جن پر قیامت کے دن ہم پچھتائیں گے اس لئے ہمیں چاہیے کہ اللہ اور اس کے محبوبؐ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کریں تا کہ اس عارضی زندگی اور قبرو حشر میں راحت نصیب ہو ۔ دنیا کی مثال اس ہرے بھرے کھیت کی طرح ہے جو پہلے خوشنما اور بھلامعلوم ہو پھر تھوڑی ناموافق ہوا یا دھوپ یا بارش سے برباد ہو جائے۔ جیسے کھیتی کے لئے بہت سی آفات ہیں ایسے ہی دنیا کے لئے بھی۔ خیال رہے کہ کفر کے معنی ہیں چھپانا ظاہری رونق پر کافر اِتراتا ہے، مومن رب پر توکل کرتا ہے ۔ ایسے ہی دنیا دار بہت مشقت سے کسی درجہ پر پہنچتا ہے اور موت کی ایک ہچکی آتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چل دیتا ہے ۔ ایمانی زندگی وہ ہے جو آخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابہ کرام علہیم الرضوان نے اپنی زندگیاں گزاریں۔ مومن اپنی زندگی اللہ اور اس کے محبوبؐ کے حکم کے مطابق گزارتا ہے مگر کافر زندگی اپنی مرضی سے گزارتا ہے ۔اسی لئے دنیا کا سامان کافر کے لئے موت کے بعد کام نہیں آتا لیکن مومن کو اس کی دنیا موت کے بعد بلکہ قیامت کے دن بھی کام آئے گی ۔ کافر کی زندگی خودی کے لئے ہے اور مومن کی زندگی خدا کے لئے ہے۔بشکل رنگ وُگل اور حقیقت میں خار ہے دنیاایک پل میں اِدھر سے ہے اُدھر چار دن کی بہار ہے دنیازندگی نام رکھ دیا کس نےموت کا انتظار ہے دنیاارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’دنیا کی زندگی کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں سب گھنی ہو کر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگار لے لیا اور خوب آراستہ ہو گئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آ گئی۔ ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کر دیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں۔ ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لئے‘‘۔ (سورہ یونس پارہ 11 آیت نمبر24)اس آیت کریمہ میں دنیاوی زندگی کو بارش کے پانی سے تشبیہ چند وجہ سے دی گئی ہے۔ پہلی وجہ تویہ ہے کہ کنوئیں ،تالاب کا پانی قبضہ میں ہوتا ہے مگر بارش کا پانی قبضہ میں نہیں ہوتا ایسے ہی دنیا کے حالات ہمارے قبضہ سے باہر ہیں ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش کبھی ضرورت سے زیادہ آ جاتی ہے کبھی ضرورت سے کم، کبھی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بالکل نہیں ہوتی ایسے ہی دنیا کا حال ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے آنے کا وقت معلوم نہیں ہوتا ایسے ہی دنیا ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر بارش نہ ہو تو مصیبت، زیادہ ہو تو آفت ہے۔ اسی طرح دنیا نہ ہو، تو تکلیف زیادہ ،ہو تو آفت ہے۔ اسی طرح کافر جب مشقت سے دنیا جمع کرتا ہے جب جمع ہو جاتی ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ میری ہو چکی ہے۔ ہر طرف اس پر تصرف کرونگا اچانک یا تو مر جاتا ہے یا دنیا اس سے رخصت ہو جاتی ہے پھر اس وقت افسوس کرتا ہے۔قابل تو جہ بات یہ ہے کہ بارش کا پانی باغ میں پڑ کر پھول اُگاتا ہے خار میں پہنچ کر کانٹے۔ دنیا کافر کے پاس پہنچ کر کفربڑھاتی ہے اور مومن کے پاس جا کر ایمان میں برکت دیتی ہے۔ ابو جہل نے مال سے دوزخ کو خرید لیا، حضرت عثمان غنی ؓنے اس مال سے جنت بلکہ وہاں کا کوثر۔ اللہ والے دنیا کو اپنے پاس رکھتے بھی نہیں ہیں حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ یہ تینوں خلفائے کرام ایسے ہیں جنہوں نے عملی طور پر کبھی زکوٰۃ نہیں نکالی۔ جب ان خلفائے کرام کی حالات زندگی کا مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان کے پاس جو کچھ بھی آتا تھا وہ اللہ کے نام پر دے دیتے تھے۔ زکوٰۃ دینے کیلئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ دنیا کی نا پائیداری اور یہاں مصیبتوں کا اچانک ا ٓجانا بھی عقلمند کو درس عبرت دیتا ہے۔ بہت سے غافل دنیا کھو کر آنکھیں کھولتے ہیں اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہےیہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے آپؐ کی خدمت ِاقدس میں ایک شخص شام کی سر زمین سے حاضر ہوا۔ حضور نبی کریمؐ نے اس سے اس کی زمینوں کی بابت پوچھا تو اس شخص نے شام کی زمین کی کشادگی اور اس کی قسم قسم کی پیداوار کا تذکرہ کیا۔ آقاؐ نے پوچھا ’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘ اس شخص نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! ہم مختلف قسم کے اناج کاشت کرتے ہیں اور پھر رنگارنگ کی ڈشیں تیار کر کے کھاتے ہیں۔آقاؐ نے پوچھا ’’پھر کیا ہوتا ہے ؟‘‘ اس شخص نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ! آپؐ بخوبی جانتے ہیں کہ رفع حاجت اور کیا؟ ‘‘سرکارؐ مدینہ نے ارشاد فرمایا ’’یہی مثال دنیا کی ہے ‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہ ہیں جو دنیا (کی محبت) کو سب سے زیادہ چھوڑنے والے ہیں‘‘۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی تو وہ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (پارہ 30 سورۃ النٰزعٰت آیت 35-39) یہاں پر تو ہم عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ، دنیا کو اپنا پکا ٹھکا نہ سمجھ رکھا ہے ۔ایک دن وہ بھی آئے گا کہ انسان کے سامنے اس کی پوری زندگی گھومنے لگے گی وہ اعمال جن کو ہم بھول گئے ہیں وہ ایک ایک کر کے اُبھر نے لگیں گے ۔دنیا کی زندگی ہم نے اچھے کاموں میں گزاری تو قیامت کے دن خوشی کی انتہا نہ ہو گی، اگر دنیا کی زندگی بد اعمالیوں میں گزاری تو اس روز افسوس ہو گا قیامت کے دن ہمارے اعضاء گواہی دیں گے ۔ قیامت کے دن اولاد آدمؑ دو گروہوں میں ہو گی ایک گر وہ ان افراد کا ہو گا جنہوں نے سرکشی اختیار کی حدود اللہ کو توڑا ہو گا، دنیاوی زندگی کے آرام وآسائش کو ابدی زندگی کے آرام وآسائش پر ترجیح دی ہو گی۔آج ہمیں نماز یاد ہے نہ زکوٰۃ، صدقات نہ روزہ وحج ۔ کل بروز قیامت ہم پچھتائیں گے کہ افسوس صد افسوس !ہم نے زندگی گناہوں میں نہ گزاری ہوتی کاش کہ ہم نے اپنی زندگی میں حقوق اللہ وحقوق العباد کا خیال رکھا ہوتا۔ پر اس دن صرف پچھتاوا ہی ہوگا۔ دوسرا گر وہ اُن افراد کا ہو گا جو پوری زندگی یہ تصور کر کے ڈرتے رہے کہ ہم نے ایک دن اللہ کے روبرو پیش ہونا ہے۔ اپنی ساری زندگی شریعت کے حکم کے مطابق گزاری ہو گی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھا ہو گا۔ ایسے افراد کیلئے جنت کی بہاریں ان کی چشم براہ ہونگی۔حضرت امام حسن ؓ فرماتے ہیں کہ’’ ملک الموت ہر گھر میں تین مرتبہ روزانہ چکر لگا کر دیکھتے ہیںکہ کس کا رزق پورا ہو گیا، کس کی مدت عُمر پوری ہو گئی جس کا رزق پورا ہو جاتا ہے اس کی رُوح قبض کر لیتے ہیں اور جب اس کے گھر والے اس کی موت پر روتے ہیں تو ملک الموت دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں ۔ میرا کوئی گناہ نہیں مجھے تو اسی کا حکم دیا گیا تھا۔ واللہ میں نے نہ تو اس کا رزق کھایا ، اس کی عُمر گھٹائی نہ اسکی عمر سے کچھ حصہ کم کیا۔ میں تمہارے گھروں میں بار بار آتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ تم میں سے کسی کو بھی باقی نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ حضرت امام حسنؓ نے فرمایا ’’اگر میت کے گھر والے ملک الموت کا کھڑا ہونا دیکھ لیں اور ان کا کلام سن لیں تو اپنی میت سے غافل ہو جائیں اوراپنے اُوپر روئیں۔ (ابن ابی الدنیا)حضرت عثمان غنی ؓجب کسی قبر کے قریب سے گزرتے یا قبرستان میں جاتے تو قبرکو دیکھتے ہی زارو قطار رونا شروع ہو جاتے ۔آپؓ اتنا روتے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہو جاتی، ہچکی بندھ جاتی۔ آپؓ کے ساتھ موجود احباب عرض کرتے کہ جنت اور دوزخ کا ذکر کے وقت آپؓ کبھی اتنا نہیں روئے جتنا قبر کو دیکھ کر روتے ہیں اسکی وجہ کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا ’’موت اور قبر قیامت کا پہلا مرحلہ ہے ‘‘ اگر اس میں ناکام ہوئے تو قیامت میں کامیابی کی کوئی سبیل نہیں ہے اور اگر موت کے بعد قبر کے اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تو قیامت میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں ۔ فیصلہ قیامت کا اس قبر میں ہو جانا ہے‘‘۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے حضورﷺسے عذابِ قبر کے بارے میں پوچھا؟ آقاؐ نے فرمایا’’ہاں عذابِ قبر حق ہے‘‘۔ اس دن کے بعدعذاب قبرکے بارے میں (لوگوں کے شکوک و شبہات کو پوچھے بغیر رفع کرنے کی خاطر) حضور نبی کریم ؐنے ایک نماز بھی ایسی نہیں پڑھی جس نمازکے اختتام پر آپؐ نے عذاب ِ قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (السنن الکبریٰ جلد1)حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ صحابہ کرام ؓکو یہ دعا اس طرح سکھاتے اور پڑھاتے جیسے قرآن کی سورۃ کی تعلیم دیتے تھے ’’اے اللہ میں عذاب جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کی آزمائش وامتحان سے پناہ مانگتا ہوں ۔ (مسند احمد جلد 1 صفحہ 113)اللہ رب العزت اپنی بندگی اور مخلوق ِخدا کی خدمت کی توفیق عطا فرما کر ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بروز محشر آقاؐ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ وطن عزیز پاکستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے۔ مسلمانوں کو آپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العالمین آقائے دو جہاں سرور کون ومکاںؐ کی سچی اور پکی غلامی نصیب فرمائے۔ آمین٭٭٭