جوش ملیح آبادی : الفاظ کو جاہ و جلال بخشنے والا شاعر
اسپیشل فیچر
شاعرِ انقلاب کا اعزاز پانے والے جوشؔ، 22فروری 1982ء کواس دُنیا سے کوچ کر گئے،تاہم اُنھوں نے اپنی شاعری کا جو خزانہ چھوڑا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں*************جوشؔ، کی شہرۂ آفاق خودنوشت ’’یادوں کی بارات‘‘بھی کسی انمول خزانے سے کم نہیں، ذرا اس ترکیب پر غور کیجیےیادوں کی بارات ،کس قدر رعنائی ہے، اس میں!*************جوش ؔملیح آبادی کی شاعری پر کچھ لکھنا ہو تو یقین جانیے خامے کو بھی جوش آ جاتا ہے اور پھر لکھنے والا جوش ؔکی شاعری کے سمندر میں خود بھی بہتا چلا جاتا ہے۔قدرت کا ایسا کرم ہوتا ہے کہ لفظ خود بخود ہی خیالات و افکار میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔غالبؔ نے سچ کہا ہے:؎غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہےوہ شاعر جس کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔تراکیب ایسی کہ قاری کا منہ کُھلے کا کُھلا رہ جائے اور پھر وہ جس نفاست سے اپنے اشعار کے بدن کو جاہ و جلال اور کروفر کا لباس پہناتے ہیں، اس کی نظیر نہیں ملتی ۔5دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں پیدا ہونے والے جوشؔ ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن تھا۔ اُنھوں نے 1914ء میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، پھر چھ ماہ ٹیگور یونی ورسٹی میں گزارے۔والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے جوشؔ، کالج کی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔اُن کے خاندان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں بڑے جید علماء پیدا ہوئے۔1925ء میں جوشؔ، نے عثمانیہ یونی ورسٹی میں ترجمے کا کام شروع کیا۔ اُنھوں نے نظام حیدر آباد کے خلاف ایک نظم لکھی، جس پر اُنھیں ریاست حیدر آباد سے نکال دیا گیا۔ ’’نظم حسین ؓاور انقلاب‘‘ لکھنے پر اُنھیں ’’شاعرِانقلاب‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ وہ برطانوی استعمار کے سخت مخالف تھے اور ہندوستان کی آزادی کے علمبردار تھے۔ وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے بہت قریب تھے۔1958ء میں جواہر لعل نہرو کے منع کرنے کے باوجود جوشؔ، پاکستان آ گئے۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندو اکثریت کی وجہ سے اب ہندوستان میں اُردو کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔جوشؔ کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں، جن میں :شعلہ و شبنم،جنون و حکمت،فکر ونشاط،سُنبل و سلاسل،حرف و حکایت، سرود و خروش اور عرفانیاتِ جوش ؔ،خصوصی طور پر قابل ِذکر ہیں۔نثر میں اُن کی خود نوشت ’’یادوں کی بارات‘‘ کا کوئی جواب نہیں۔جوشؔ نے پہلے غزل کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا۔غزل میں اُن کا اُسلوب سب سے جُدا تھااور پھر اُن کی قوتِ متخیلہ نے اُن کی شاعری کی وہ توانائی بخشی، جو اُن کے ہم عصر شعرا کے لیے قابلِ رشک تھی۔اُنھیں تراکیب کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ جوشؔ، کی لسانی تراکیب (Linguistic Formulations)نے شعرا کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ہمارے کچھ افسانہ نگاروں نے جوشؔ، کی طلسمی تراکیب سے متاثر ہو کر نثر میں ان کا استعمال شروع کیا اور اس حوالے سے وہ خاصے کامیاب رہے۔جوشؔ، کو جذباتی اور رومانی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔اُن کا جداگانہ اُسلوب جب ندرتِ خیال کو ساتھ لے کر چلتا ہے، تو اُس شعر کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں، جیسے:یہ دن بہار کے اب کے بھی راس آ نہ سکےکہ غنچے کِھل تو سکے، کِھل کے مسکرا نہ سکےپھر جب وہ انسانی فطرت کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں، تو اس میں وہ بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہیں۔یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:قدم انساں کا راہِ دہر میں تھّرا ہی جاتا ہےچلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہےشکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کیمصیبت میں خیالِ عیش رفتہ آ ہی جاتا ہےبے ساختگی اور برجستگی کے حوالے سے یہ اشعار دعوتِ فکر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں:سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیاجا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیامجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شایدلوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا سیف الدین سیفؔ،عبدالحمید عدمؔ،ناصر ؔکاظمی اور ساغرؔ صدیقی چھوٹی بحر میں بڑی باکمال غزل کہتے تھے اور اس حوالے سے اُن کی شاعری کو سہلِ ممتنع کی شاعری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن جوشؔ، نے بھی چھوٹی بحر میں فکر افروز غزلیں کہیں۔ذرا اُن اشعار پر غور کیجیے:خموشی کا سامان ہے اور میَں ہوںدیارِ گفتگان ہے اور میَں ہوں……………………روح کو آئینہ دکھاتے ہیںدرو دیوار مسکراتے ہیںغزل کے بعد جوشؔ، نظم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس صنف میں اُنھوں نے اپنے فن کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ اُن کی نظموں میں ایسا طمطراق اورکروفر پایا جاتا ہے کہ قاری کو لفظ کی عظمت اور حرمت کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ویسے تو اُن کی بے شمار نظمیں ایسی ہیں، جن پر پوری کتاب تحریر کی جا سکتی ہے، لیکن ہم یہاں اُن کی چند معرکتہ الآرا نظموں کا تذکرہ کریں گے۔(راجپوتانہ میں)’’برسات کی ایک شام‘‘ کے یہ اشعار فکرِ انسانی کو نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہیں:خنک ہوائوں میں اٹھتی جوانیوں کی خرامکنارِ دشت میں برسات کی گلابی شامزمیں کے چہرہ رنگیں پہ آسماں کی ترنگاسی طرح اُن کی نظم ’’برسات کی چاندنی‘‘کے مندرجہ ذیل اشعار قاری پر سحر طاری کر دیتے ہیں:چرخ سے برسے ہوئے بادل کے ٹکڑے جا بجاچاندنی، تالاب، سناٹا، پپیہے کی صدادشت پر چھائے ہوئے ذوقِ جنوں کے ولولےچاند میں معصوم بچے کے تبسّم کی اداجوشؔ، کی ایک لازوال نظم ’’زندگی اور موت‘‘ جس طرح قاری پر اپنے نقوش چھوڑتی ہے، اُسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایک طرف زندگی کے ہر سُو پھیلے ہوئے اُجالے اور دوسری طرف موت کے مہیب سائے۔ موت کے بارے میں اُن کا ایک مصرعہ ہی ایسی حقیقت منکشف کرتا ہے کہ انسان حیرت کے صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے:؎موت آہوں کی خطابت، آنسوئوں کی شاعری جوشؔ ملیح آبادی مسلمانوں کی عظمت رفتہ بھی بڑے شاندار پیرائے میں بیان کرتے ہیں اور پھر اس عظمت ِ رفتہ کو دوبارہ پانے کے لیے وہ ہمیشہ آرزو مند رہتے ہیں ۔اُن کی نظم ’’اے خدا‘‘ کے یہ اشعار دیکھیے:اے خدا سینہ مسلم کو عطا ہو وہ گدازتھا کبھی حمزہؓ و حیدرؓ کا جو سرمایہ نازپھر فضا میں تری تکبیر کی گونجے آوازپھر اس انجام کو دے گرمیِ روحِ آغازشیر کی طرح دھاڑتے ہوئے یہ الفاظ قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اتنی تاثیریت ،اتنی فکر انگیزی اور جذبات کی وہ گھن گرج کہ خود اشعار کا دِل دہل جاتا ہے۔جوشؔ کی شعری زبان غزل اور نظم تک ہی محدود نہیں۔ اُنھوں نے اتنی اثر آفریں رباعیات تخلیق کیں کہ اس میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔اُن کی ایک رباعی ملاحظہ ہو:انجام کے آغاز کو دیکھا میَں نےماضی کے ہر انداز کو دیکھا میَں نےکل نام ترا لیا جو بوئے گُل نےتادیر اُس آواز کو دیکھا میَں نےجوشؔ، کی شاعری کا ایک اور وصف مرثیہ نگاری بھی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ میر انیسؔ اور دبیرؔ کے بعد اُن کے مرثیے زبان زدِ عام ہوئے۔ اُن کا یہ شہرۂ آفاق شعر ہی اس حوالے سے اُن کی فنی عظمت کا اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے:ذرا انسان کو بیدار تو ہو لینے دوہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓجوشؔ ملیح آبادی نے ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کے کہنے پر فلمی گیت بھی لکھے۔ہمایوں مرزا کی فلم ’’آگ کا دریا‘‘میں اُن کا لکھا ہوا یہ ملّی گیت ایمان کو حرارت بخشتا ہے:اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میںزندگی ہوش میں ہے جوشؔ ہے ایمانوں میںجوشؔ، کی مشہور ِزمانہ خودنوشت ’’یادوں کی بارات‘‘بھی کسی انمول خزانے سے کم نہیں۔ پہلے ذرا اس ترکیب پر غور کیجیے یادوں کی بارات ،کس قدر رعنائی ہے، اس ترکیب میں۔ اُ ن کی پہلی نظم ’’ہلالِ محرم‘‘ ہی اس حقیقت کی غماز تھی کہ اب اُردو نظم کو نئی جہتیں اور توانائیاں دینے والا شاعر میدان میں آ گیا ہے۔جوش ؔملیح آبادی انسان دوست بھی تھے اوراُن کی انسانیت پرستی کا ایک عالم گواہ ہے۔ اُنھوں نے اپنی خودنوشت یادوں کی بارات میں لکھا تھا کہ میری زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیں:شعر گوئی ،عشق بازی،عِلم طلبی اور انسان دوستی۔یہ میلانات پڑھ کر ہر شخص جوش ؔ،کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے، جنھوں نے عمر بھر صاف گوئی ،صداقت اور جرأت کا علم بلند رکھا۔کچھ نقادوں کی رائے میں جوش ؔملیح آبادی اقبال کے بعد سب سے بڑے شاعر تھے ،لیکن اُنھیں وہ شہرت نہیں ملی، جو فیضؔ اور فرازؔ کے حصے میں آئی۔اس رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ،لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ نقاد اپنی سوچ اور تجزئیے کے مطابق نتائج اخذ کرتا ہے۔جوشؔ ملیح آبادی نے اتنا زیادہ لکھا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں اُن کے فن کا محاکمہ نہیں ہو سکتا۔بہرحال اتنا ضرور ہے کہ جوشؔ، کی شاعری کی کچھ پرچھائیاں قارئین تک پہنچ جائیں گی۔22فروری 1982ء کو شاعری کے آسمان کا یہ آفتاب غروب ہو گیا۔ اُنھوں نے اپنی شاعری کا جو خزانہ چھوڑا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ سخن وَرہمیشہ اس خزانے سے مستفید ہوتے رہیں گے۔٭…٭…٭