حبیب جالب ...
اسپیشل فیچر
اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ برعظیم پاک و ہند میں بیسویں صدی نے سب سے زیادہ جری اور بلند ہمت شاعر کون سا پیدا کیا، تو لبوں پر ایک ہی نام کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں اور وہ نام ہے، حبیب جالبؔ!!!حبیب جالبؔ 24مارچ 1928ء کو ہوشیار پور(بھارت) میں پیدا ہوئے ،اُن کا اصل نام حبیب احمد تھا۔تقسیم ِہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور ’’امروز‘‘ کراچی میں پروف ریڈر کے طور پر کام کرنے لگے۔وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اور کمیونسٹ نظریات کے علمبردارتھے۔وہ عمر بھر مفلوک الحال اور استحصال زدہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔پسے ہوئے طبقات کے لیے اُن کی جدوجہد کے تمام رنگ اُن کی شاعری میں ملتے ہیں۔وہ آمریت اور استحصالی قوتوں کے خلاف لڑتے رہے اور آخری دم تک اپنے اصولوں کی پاسبانی کرتے رہے۔اُنھوں نے ہمیشہ انسانی عظمت کے گیت گائے۔حبیب جالبؔ نے آغاز سے ہی اپنی مترنم آواز میں اپنا منفرد اور انقلابی کلام گا کر عوام کے دلوں میں گھر کر لیاچوں کہ اُن کی شاعری کا پس منظر سیاسی اور سماجی صورت ِحال تھی، اس لیے بہت جلد اُن کی شہرت کا آفتاب پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن تھے۔1954ء میں جب اس پارٹی پر پابندی لگا دی گئی، تو اُنھوں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) میں شمولیت اختیار کر لی۔اپنے نظریات کی وجہ سے اُنھیں متعدد بار قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، لیکن اُن کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔جالبؔ کو اصل شہرت ایوب خان دَور سے ملی۔ اُس دَور میں اُن کی نظم ’’دستور ‘‘بہت مشہور ہوئی اور اس نظم کی شہرت اب بھی قائم ہے۔اُنھوں نے دراصل ایوب خان کے 1962ء کے دستور کو ہدف ِتنقید بنایا تھا، جس میں تمام اختیارات صدر ایوب کو حاصل تھے ۔’’دستور‘‘کیا لاجواب نظم ہے، ذراچند لائنیں ملاحظہ فرمائیے:دیپ جس کا محلات میں ہی جلےچند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلےوہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلےایسے دستور کو، صبحِ بے نور کومیَں نہیں مانتا، میَں نہیں جانتااس نظم کے کہنے کے بعد جالبؔ، ایوب خان کی آمریت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن گئے۔وہ اکثر عوامی جلسوں میں ایوب خان کی آمریت کو للکارتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے اُنھیں خریدنے کی بہت سعی کی اور زمینیں دینے کی پیش کش کی، لیکن اس مردِ جری اور مردِ درویش نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا۔ جالبؔ پر سرکاری میڈیا کے دروازے بند کر دیئے گئے، لیکن اُن کا عزم جوان رہا۔وہ جذبات سے بپھرے ہوئے لوگوں کے سامنے جب اپنی شعلہ بار نظمیں پڑھتے، تو ایک عجیب و غریب سماں پیدا ہو جاتا :کہیں گیس کا دھواں ہے کبھی گولیوں کی بارش ہے حبیب جالبؔ نے ایک نظم ’’ رقص ِزنجیر‘‘ کے نام سے لکھی ، اُن کی اس نظم کا کوئی ثانی نہیں۔نظم کا ایک شعر ملاحظہ کریں:تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھیرقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہےبعد میں اس نظم کو جالبؔ کے جگری دوست ریاض شاہد نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’’زرقا ‘‘ میں شامل کرلیا ۔جالبؔ، ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے ،لیکن اُنھوں نے اپنی انا کو کبھی قربان نہیں ہونے دیا۔بھٹو صاحب نے ایک دفعہ اُنھیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی، تو اُنھوں نے بے ساختہ کہا ’’کیا سمندر بھی کبھی دریا میں گرتے ہیں‘‘اپنی صاف گوئی ا ور بیباکی کی سزا اُنھیں بھٹو دَور میں بھی ملی اور وہ اُس دَور میں بھی کچھ عرصے کے لیے پابند سلاسل رہے،لیکن جب 1979ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی، تو حبیب جالب ؔبہت ملول ہوئے اور اُنھوں نے کہا :ٹوٹا ہے کہاں اُس کا جادواک نعرہ بنا ہے اُس کا لہو…………………ثابت ہوا دھڑکن دھڑکن پر وہ شخص حکومت کرتا تھالڑتا تھا وہ اپنے جیسوں سے ہم سے تو محبت کرتا تھااس کے بعد جنرل ضیاء کے دَور میں بھی وہ سچائی کی شمع جلاتے رہے اور پابند ِسلاسل رہے۔اس زمانے میں بھی اُن کی کئی نظمیں بہت مقبول ہوئیں:ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھناپتھر کو گہر، دیوار کو در، نرگس کو ہما کیا لکھناجنرل ضیاء الحق نے 1984ء میں ریفرنڈم کرایا،جسے حبیب جالب ؔنے ایک ہی شعر میں اڑا کے رکھ دیا:ہر طرف ہو کا عالم تھاجِن تھا یا ریفرنڈم تھاجب 1986ء میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد واپس آئیں، تو شعرا کی ایک بڑی تعداد نے بھی اُن کا خیر مقدم کیا۔اس موقع پر حبیب جالب نے کہا:؎ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے جالبؔ کی اس نظم نے ہر طرف کھلبلی مچا دی۔ جب بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہوئیں، تو جالبؔ کو اُس دَور سے بھی مایوسی بڑھنے لگی۔وہ ایک انقلابی آدمی تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسی تبدیلیوں کے آرزو مند تھے، جن سے پسے ہوئے طبقات کی فلاح ہو اور زندگی اُن کے لیے بھی راحت کا سامان بن جائے، اس مایوسی کو کس خوبصورت طریقے سے بیان کیا ،جالب ؔنے،ذرا دیکھتے ہیں:حال اب تک وہی فقیروں کےدن پھرے ہیں فقط وزیروں کےحبیب جالبؔ ’’ادب برائے زندگی‘‘ پر یقین رکھتے تھے اور اُن کے نزدیک اُن کی شاعری میں عصری کرب اور معروضی صداقتوں کا اظہار اس نظریے پر یقین رکھنے کا شاخسانہ ہے۔ جالبؔ ایک عوامی شاعر تھے اور اُنھوں نے جو دیکھا اور محسوس کیا اسے اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ اُنھوں نے غزل اور نظم کے روایتی موضوعات اور مزاج کو بدل کے رکھ دیا۔کیا اُن کا یہ کارنامہ کم ہے؟کیا کوئی اور شاعر اُن جیسی شاعری تخلیق کر سکا؟اس کا جواب نفی میں ہے۔ذرا اُن کی غزل کے مندرجہ ذیل اشعار پر غور کریں:اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارےزندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے…………………فرنگی کا جو میَں دربان ہوتاتو جینا کس قدر آسان ہوتامرے بچے بھی امریکا میں پڑھتےمیَں ہر گرمی میں انگلستان ہوتایہاں اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ جالبؔ کی غزلوں میں مایوسی ،قنوطیت اور انسانی دکھوں کے علاوہ جمالیاتی طرز احساس بھی ملتا ہے:شب کو چاند اور دن کو سورج بن کر روپ دکھاتی ہوپل چھن آنکھوں کی گلیوں میں تم آنچل لہراتی ہوکتنی روشن ہے تنہائی جب سے یہ معلوم ہوامیرے لیے اپنی پلکوں پر تم بھی دیپ جلاتی ہوپھر اس کے ساتھ ساتھ وہ غزل کے روایتی موضوع کی طرف بھی آتے ہیں:یہ اور بات کہ تیری گلی نہ آئیں ہملیکن یہ کیا کہ شہر تیرا چھوڑ جائیں ہماور پھر یہ شعر بھی ایک مختلف کیفیت کو بیان کر رہا ہے:محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئےترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئےاس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ جالب ؔ،فرازؔ اور ساحرؔ کی شاعری میں ہمیں کہیں کہیں فیض ؔصاحب کے شعری فلسفے کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ذرا جالبؔ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناںکب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارےحبیب جالبؔ کی شاعری میں ہمیں جا بجا طنز و تشنیع ملتی ہے اور اس کے ساتھ مایوسیوں اور محرومیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذکر بھی:وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہےنہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں…………………اپنی تو اُجالوں کو ترستی ہیں نگاہیںسُورج کہاں نکلا ہے کہاں صبح ہوئی ہےیہ بھی مایوسی اور قنوطیت کی انتہا ہے:یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کرلیکن پھر شاعر کی ایک دعا اور تمنا بھی ہے، جو اُس کے مثبت ذہنی رجحان کا غماز ہے:آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پربگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتےاب ذرا اُن کی غزل کا ایک اور رنگ بھی غور طلب ہے:اس کے بغیر آج بہت جی اُداس ہےجالبؔ چلو کہیں سے اُسے ڈھونڈ لائیں ہمحبیب جالبؔ کے شعری مجموعوں میں :’’حرفِ سرِ دار‘‘،’’عہدِ ستم‘‘ ،’سرِ مقتل ‘‘،’’ذکر بہتے خون کا‘‘،’’گنبدِ بیدار‘‘ ،’’ا س شہر خرابی میں‘‘،’’گوشے میں قفس کے‘‘ اور’ حرفِ حق ‘‘شامل ہیں۔ اُن کی مشہور نظموں میں ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘، ’’خطرے میں اسلام نہیں‘‘،’’مولانا‘‘ اور ’’خدا ہمارا ہے‘‘ خاص طور پر قابل ِذکر ہیں۔اُن کی نظم ’’خدا ہمارا ہے‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:خدا تمھارا نہیں ہے، خدا ہمارا ہےاُسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہےفرانزفینن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ شاعری تبدیلی کا ہتھیار ہے، یعنی (Poetry is Weapan of Change)۔حبیب جالبؔ کا پورا شعری فلسفہ اس فقرے کے عملی تصویر ہے۔حبیب جالبؔ نے فلمی گیت بھی لکھے اور یہ گیت انتہائی شاندار تھے۔ اُنھوں نے اتنی زیادہ فلمی شاعری نہیں کی ،جتنی قتیلؔ شفائی یا سیف الدین سیف ؔنے کی، لیکن جتنے نغمات بھی لکھے ،اُنھیںآج بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ریاض شاہد کی فلم ’’یہ امن‘‘ کا یہ انقلابی گیت ملاحظہ کریں:ظلم رہے اور امن بھی ہوکیا ممکن ہے تم ہی ہو کہوفلم ’’شام ڈھلے‘‘ میں سلیم رضا نے حبیب جالبؔ کا کیا خوبصورت گیت گایا تھا:بھول جائو گے تم کر کے وعدہ صنم تمھیں دل دیا تو یہ جانافلم ’’ناگ منی‘‘ میں اُن کے گیتوں نے لازوال شہرت حاصل کی:میرا ایمان محبت ہے، محبت کی قسممن میں اُٹھی نئی ترنگتن تو پہ واروں، من تو پہ واروںفلم ’’زرقا‘‘ میں اُن کا مشہورِ زمانہ گیت’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ تو گویا حبیب جالبؔ کی شناخت بن گیا۔اس فلم کا ایک اور گیت اُن کی فلمی شاعری کو ایک نئے زاویے سے آشنا کرتا ہے:؎ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی، اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطیں1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم’’سماج‘‘ میں بھی اُن کے گیت بہت مقبول ہوئے:یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کاجہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے13مارچ 1993ء کو حبیب جالبؔ اس جہان رنگ بو سے رخصت ہو گئے، لیکن اُن کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ قتیلؔ شفائی نے اُن کی وفات پرکہا تھا:اپنے سارے درد بھلا کر اوروں کے دُکھ سہتا تھاہم جب غزلیں کہتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا٭…٭…٭