چکوال میں قدیم تہذیب کے آثار
اسپیشل فیچر
ضلع چکوال، پنجاب کا 19 واں ضلع ہے۔ جولائی 1985ء کو چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا اس ضلع کا کل رقبہ چھ ہزار چھ سو مربع کلو میٹر اور آبادی 1981ء کی مردم شماری کے مطابق 8 لاکھ 60 ہزار سے زائد ہے۔1985ء سے پہلے اس علاقے کا کچھ حصہ ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان کا تھانہ، چواسیدن شاہ معہ علاقہ ونہار اور ضلع اٹک کی تحصیل تلہ کنگ کو تحصیل چکوال کے ساتھ ملا کر ضلع چکوال کی تشکیل کی گئی اور چکوال شہر کو صدر مقام قرار دیا گیا جس کے بعد یہاں پر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور بڑی سرعت کے ساتھ اسے فوجی اور عسکری لحاظ سے اہم خطے نے اپنی اہمیت منوانی شروع کر دی گزشتہ چار سال کے عرصہ میں یہاں دریافت ہونے والے کروڑوں سال پرانے فاسلز نے ضلع چکوال کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرا دیا جس کی وجہ سے اس ضلع کی اہمیت اب دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘اگر چکوال کے حدود اربعہ پر نگاہ ڈالی جائے تو کچھ یوں ہے شمال میں ضلع اٹک، جنوب میں ضلع خوشاب، مشرق میں جہلم اور راولپنڈی جبکہ مغرب میں ضلع میانوالی واقعہ ہے۔ جغرافیائی طور پر ضلع چکوال سطح مرتفع کوہستان نمک(پوٹھوار) کا حصہ ہے اس کو سطح کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔-1 پہاڑی حصہ-2 ناہموار حصہ اور-3 وادی سوان کا حصہ پہاڑی حصہ سلسلہ کوہستانی نمک کی جنوبی وسطی اور شمالی شاخوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ دلجبہ اور نیلی پہاڑ سے لے کر سیکسر کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے اس پہاڑی خطے کی سطح سمندر سے بلندی دو ہزار سے اڑھائی ہزار فٹ تک ہے مسٹر برنڈرتھ کے بقول یہ علاقہ شمالی ہند کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے اندرونی طور پر اس علاقے کو جھنگڑ کہون اور و نہار کے ناموں سے پکارا جاتا ہے تاریخی لحاظ سے یہ ضلع بڑا ثروتمند ہے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کوہستان نمک یا وادی سون کی تہذیب، دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے اس کا زمانہ تقریباً چار لاکھ سال قبل ازمسیح ہے اس کے بعد پتھر کا زمانہ آتا ہے جو پانچ ہزار قبل مسیح تک جاری رہا اسے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔قدیم پتھر کا زمانہ وسطیٰ پتھر کا زمانہ اور جدید پتھر کا زمانہ، ضلع چکوال کے مضافات میں موجود ضلع ڈھلال میں ایک ایسی بستی کا سراغ ملا ہے جس کے باشندے ایسے پتھر کے اوزار استعمال کرتے تھے جن کی عمر تقریباً سات ہزار سال قبل مسیح بنتی ہے جدید تحقیق کی روشنی میں تو یہ حقیقت بھی منکشف ہو چکی ہے کہ نظریہ علاقہ واریت (Theory of Regionalism) کے مطابق اولین انسان کا ظہور بھی اس علاقے میں ہوا تھا اور پھر اس کے بعد اس کی نسل ایشیاء اور مشرقی یورپ تک پھیلی۔ محکمہ آثار قدیمہ حکومت پنجاب کے حالیہ سروے کے مطابق اس ضلع میں 50 سے زیادہ ایسے مقامات موجود ہیں جن کی آثاریاتی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے ان میں متعدد آثار زمانہ قبل از تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلہ کوہستان نمک کے وسط میں چکوال سے 18 میل کے فاصلے پر بجانب جنوب چواسیدن شاہ سے کلرکہار جانے والی سڑک واقع ایک مقدس چشمہ ہے جس کا نام کٹاس ہے ہندو روایات کے مطابق کٹاس قدیم ایام سے ہی ایک متبرک مقام چلا آ رہا ہے۔ہندوئوں کی مشہور زمانہ رزمیہ داستان مہا بھارت جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تین سو سال پہلے کی تصنیف ہے میں اس مقام کا پانڈو بھائیوں کے حوالہ سے ذکر موجود ہے۔ بابائے آثار قدیمہ جنرل کنگھم نے آرکیالوجیکل سروے رپورپ میں یہاں کے قدیم مندروں اور دوسری مذہبی عمارتوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس علاقے میں ایک جگہ کوٹ میراتھ چک کے نام سے مشہور ہے یہ جگہ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے یہاں سے ایک ایسا سکہ ملا ہے جو مہاراجہ کنشک کے بیٹے اور جانشین مہاراجہ ہوشکا(185-162) ہے یہاں پر ایک عجیب و غریب قسم کی عمارت بھی ہے جس کا نام ہجرہ ہے۔ چکوال سے 18 کلو میٹر دور بن امیر خاتون ایک چھوٹا سا گائوں ہے جس کی آبادی بمشکل دو ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی مگر اس کے ارد گرد سالٹ رینج کی خوبصورت سمندری چٹانوں اور پہاڑوں نے اس چھوٹے سے گائوں کو بہت سحر انگیز بنا دیا ہے۔ چار سال قبل اس گائوں کے بارے میں ضلع کے لوگ بھی بے خبر تھے مگر اب یہ گائوں پوری دنیا میں مشہور ہو چکا ہے یہاں پر دریافت ہونے والے فاسلز دو کروڑ بیس لاکھ سال پرانے ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ بن امیر خاتون کے ارد گرد پہاڑوں پر اگر مزید تحقیق اور ریسرچ کی جائے تو کئی گم گشتہ خزانوں کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ پروفیسر انور بیگ اعوان اور خواجہ بابر سلیم نے بتایا کہ ضلع چکوال میں محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کو 1994ء کے اوائل میں یہاں کی مقامی آرکیالوجیکل اینڈ انواٹرمنٹل ہیرٹیج پروٹیکشن سوسائٹی آف چکوال کے ڈپٹی کمشنر چکوال سید تنویر جعفری کے ذریعے دعوت دی گئی تو اس مقامی سوسائٹی نے قلعہ ثمرقند کو دریافت کیا۔ قلعہ ثمرقند میرا ائمہ سے سالٹ رینج کے خوبصورت پہاڑوں میں دس کلو میٹر اندر واقع ہے جہاں دشوار گزار راستوں سے ہو کر گزرنا پڑھتا ہے۔ اس قلعہ کی دریافت کے بعداس وقت کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سیف الرحمن ڈار نے ڈپٹی کمشنر چکوال تنویر جعفری اور مقامی سوسائٹی کے ہمراہ اس علاقے کا دورہ شروع کیا تو ڈاکٹر ڈار نے اس وقت تجویز پیش کی تھی کہ اگر ضلع کونسل کے فنڈز سے آثار قدیمہ کی دریافت کے لیے دے دیئے جائیں تو ضلع بھر میں آثار قدیمہ کے حوالے سے سروے کرینگے اس طرح ڈپٹی کمشنر کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کے بعد آثار قدیمہ کی ٹیم جس میں ضلع چکوال کی معتبر شخصیت پروفیسر انور بیگ اعوان بھی شامل تھے۔ ضلع چکوال کے کونے کونے میں تحقیق کرنے کے بعد 60 سے زائد ایسے مقامات دریافت کر لیے جو ایک ہزار سال سے لے کر ایک کروڑ بیس لاکھ سال پرانے ہیں۔ ڈاکٹر ڈار کے مطابق ضلع چکوال، آثار قدیمہ کی جنت ہے اور اگر یہاں مزید تحقیق کی جائے تو یہاں پرانی تہذیب کے ایسے آثار سامنے آئیں گے جو اب تک پوری دنیا میں نہیں ہیں۔ پروفیسر احمد حسن دانی نے بتایا کہ چکوال میں دریافت ہونے والے فاسلز کی اتنی بڑی تعداد آج تک دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتی۔ضلع چکوال کی سرزمین پر بعض تہذیبیں ہزاروں سال پرانی ہیں جن کی ہڈیایں قبل از مسیح سے جا کر ملتی ہیں۔ کلر کلہار کے پر فضا مقام پر مغلیہ خاندان کے بانی محمد ظہیر الدین بابر (1526-1530) کا تخت اور اس کا بنایا ہوا باغ ہے جسے باغ صنعاء اور تخت بابری کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بابری ’’توزک بابری‘‘ کی رو سے بھی اس باغ کا نام وسطیٰ ایشیاء اور پاکستان کی تہذیبی مماثلت میں یہ باغ ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔(کتاب ’’ پاکستان کے آثارِ قدیمہ‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭