حضرت ابوبکر صدیق ؓ : مصائب میں عزم و استقلال کا پیکر
اسپیشل فیچر
صدیق اکبر ؓ نے حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر دعوت اسلام دی تو کفار نے حملہ کر دیا ، اس حملے میں آپؓ اور آپؓ کے ساتھی شدید زخمی ہو گئے ٭…٭…٭ ٭…٭…٭ دشمنان اسلام آپؓ پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے مگر آپؓ نے بڑی جرأت اور استقلال سے تمام مصائب کا سامنا کیا٭…٭…٭ ٭…٭…٭حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت ؐ کے ساتھ جو سب سے زیادہ معاملہ کیا(ظلم و تشدد) وہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا سب سے زیادہ خوفناک نظارہ جو میں نے دیکھا وہ یہ تھاکہ عقبہ بن معیط نبی اکرم ؐ کے پاس آیا اور اس نے آپؐ کی چادر آپؐ کے گلے میں لپیٹ کر گلا گھونٹنا شروع کیا ۔اسی دوران آپؐ کے رفیق اور جانثار ساتھی ابو بکر صدیقؓ کو خبر ہوگئی۔ انہوں نے آکر عقبہ کو اس اذیت سے روکا اور فرمایا کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو اس بات پر جو کہتا ہے کہ میرا پالنہار اللہ ہے حالانکہ وہ اپنے رب کی طرف سے بڑی واضح نشانیاں لایا ہے ۔(صحیح بخاری)حضور اکرم ؐ جب منصب رسالت پر فائز ہوئے تو قریش مکہ اور مشرکین عرب جن میں اپنے اور بیگانے سبھی نے رسول اکرمؐ کے خلاف ایک محاذ قائم کرلیا۔ ہر ایک شخص آپؐ کو ایذارسانی کی خاطر نئی نئی تراکیب اور منصوبے بناتا۔ جن کے نقوش آج تاریخ اسلام میں ثبت ہیں ۔یہ ماضی میں انبیائے کرام کے ادوار میں بھی ہوتا رہا ہے۔ محسن انسانیتؐ پر اس کا اعادہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تمام مذہبی کتب اورتاریخ اسلام کے اوراق اس کے شاہد ہیں ۔حاکمؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ کفار نے ایک بار رسول ؐخدا پر اس قدر تشدد کیا کہ آپؐ بے ہوش ہوگئے ۔یہ ایک جملہ پورے عرب معاشرے کی تاریخ بیان کررہا ہے کہ اسلام کی تبلیغ کی خاطر پیغمبر انسانیت ؐکو کتنی تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہی نہیں کہ آپ ؐکی ذات گرامی تک یہ جو روستم محدود رہے ہوں بلکہ آپؐ کے ساتھیوں کے ساتھ بھی ان کفار کا رویہ متشدد انہ رہا۔ جس کی مثال آپؐ کے جاںنثار ساتھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ بھی ہیں۔ آپؓ کے ساتھ ان مشرکین مکہ کا برتاؤ یا رویہ کس قسم کا رہا اور رفیق نبوت نے میدان تبلیغ میں کس طرح حق رفاقت ادا کیا ہے وہ محولہ بالا بخاری کی حدیث اور ذیل میں لکھے گئے واقعات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ایک روز رسول اللہ ؐ کے ساتھی یکجا ہوئے جو تعداد میں 39 تھے۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے آنحضرت ؐ سے اصرار فرمایا کہ اسلام کا اعلان کردیا جائے۔ جواب میں آنحضرت ؐ نے فرمایا ’’ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں‘‘ مگر ابو بکر ؓاعلان پر اصرار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپؐ نے اسلام ظاہر فرمادیا۔ آپؐ اپنے رفقاء سمیت حرم کعبہ میں تشریف لے گئے تمام صحابہؓ ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کھڑے ہو کر خطاب شروع کیا ۔انہوں نے لوگوں کو خد ااور اس کے رسولؐ کی طرف بلایا لیکن مشرکین ان کی بات پر کان دھرنے کی بجائے الٹا ان پر ٹوٹ پڑے اور کعبۃ اللہ میں آئے ہوئے تمام مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ تمام مسلمان زخمی ہوگئے، حضرت ابو بکر ؓ کو ان دشمنان اسلام نے تشدد کا نشانہ بنایاجس سے آپؓ بے ہوش ہو گئے ۔ حضورؐ کی ذات مبارک بھی ان کے تشدد سے محفوظ نہ رہ سکی ۔مکہ میں پیش آنے والے اس واقعہ کی خبر حضرت ابو بکر صدیق ؓکے قبیلے کو ہوئی تو وہ وہاں آپہنچے وہ آپؓ کو اٹھا کر لے گئے۔ آپؓ اتنے زخمی تھے کہ موت یقینی نظرآتی تھی ۔ آپ ؓپورے دن بے ہوش رہے اور جب شام کو ہوش آیا تو زبان پر آنے والے پہلے الفاظ یہ تھے ۔ مجھے بتاؤ کہ آنحضورؐ پر کیا گزری؟ آپؓ کی والدہ ماجدہ برابر یہ اصرار کرتی رہیں کہ نقاہت بہت ہوگئی ہے۔ کچھ کھا پی لو تاکہ توانائی لوٹ آئے ۔ لیکن وہ برابر یہی فرماتے رہے کہ پہلے آنحضورؐ کی جانب توجہ دو اور مجھے بھی آپؐ کی حالت سے مطلع کرو۔ آپؓ کی والدہ ام الخیر نے فرمایا مجھے نہیں معلوم کہ آنحضور ؐ کس حال میں ہیں تو آپؓ نے فرمایا آپ ام جمیل ؓ بنت خطاب کے پاس جائیں اور ان سے معلومات حاصل کریں ۔ وہ ام جمیل ؓ کے پاس پہنچیں اور ابو بکر صدیق ؓکے بارے میں بتایا جو مزاج پرسی کی خاطر ام الخیر کے ساتھ ہی چلی آئیں ۔ وہ آپؓ کی یہ حالت دیکھ کر چیخ اٹھیں مگر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان سے بھی پہلا سوال یہی کیا مجھے پہلے رسول اللہؐ کی حالت کے بارے میں بتایا جائے۔ ام جمیلؓ نے کہا کہ حضور نبی کریم ؐ بخیر وعافیت دارارقم میں موجود ہیں۔ آپؓ نے فرمایا مجھے بھی وہیں لے چلو۔ دونوں خواتین نے اصرار فرمایا کہ پہلے کچھ کھا پی لیں پھر وہاں چلیں گے لیکن صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ جب تک حضور ؐ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں کچھ کھاؤں گا پیوں گا نہیں کیونکہ میں نے قسم کھا رکھی ہے۔دونوں خواتین نے قدرے توقف کیا جب تک لوگ رات کو سو نہیں گئے پھر دونوںنے آپؓ کو سہارا دیا اور دارارقم لے گئیں ۔ جونہی آپؓ دارارقم میں داخل ہوئے ۔آپؓ کی نظر آنحضور ؐ پر پڑی اپنے زخموں کا خیال کئے بغیر دیوانہ وار آگے بڑھے اور رسالت مآب ؐپر جھک گئے اور پھر تمام مسلمان جو اس وقت وہاں موجود تھے ابو بکر ؓ پر جھک گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ روتے ہوئے آنحضور ؐکا چہرہ اور سر مبارک چومتے رہے اور پھر فرمانے لگے ۔میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں ان لوگوں کی مار کا اب مجھ پر کوئی اثر نہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی یہ حالت دیکھ کر آپؐ پر رقت طاری ہوگئی۔اسلام لانے کی پاداش میں دشمنان اسلام آپؓ پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے مگر آپؓ نے بڑی جرأت اور استقلال سے ان مصائب کا سامنا کیا ۔یہاں تک کہ آپؓ کو عبادات تک سے روکا جانے لگا تو آپؓ نے اسلام کے عین مطابق آزادی سے عبادات بجالانے کیلئے یمن کی جانب ہجرت فرمائی جو اس وقت حبشہ کاعلاقہ کہلاتا تھا۔ صحیح بخاری کتاب المنازل میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اس ہجرت میں جب آپؓ 5منازل طے کر چکے تو راستہ میں برک الغماد کے مقام پر القادۃ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا کہاں کا قصد ہے ۔فرمایا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ارادہ ہے کہ کہیں الگ جاکر عبادات کروں ۔ اس پر ابن الدغنہ نے کہاتم جیسا شخص نہ نکل سکتا ہے اورنہ ہی نکالا جا سکتا ہے ۔ یہ کہہ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو واپس مکہ لے آیا۔٭…٭…٭