پشتو زبان و ادب کی مختصر تاریخ
اسپیشل فیچر
ڈاکٹر عبداللہ جان عابدپشتو زبان و ادب کی تحقیق ، تنقید اور تدریس کے تناظر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ اب تو وہ پاکستانی زبانوں کے حوالے سے بھی \'\'اتھارٹی\'\' مانے جاتے ہیں۔ تحقیق، تنقید اور دیگر علمی وادبی نگارشات ان کا بنیادی تعارف ہیں مگر ان کو پشتو زبان و ادب کی دنیا میں جو کتاب ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے گی وہ ان کی کتاب \'\'پشتو زبان و ادب کی مختصر تاریخ\'\' ہے۔ اس سلسلے میں عابد خود کہتے ہیں کہ \'\' اس کتاب پر مجھے دو ایوارڈ بھی ملے، جن میں اباسین آرٹس کونسل کی طرف سے جسٹس کیانی ایوارڈ اور ادارہ مصنفین لاہور کی طرف سے قومی سطح پر رائٹرز گلڈ ایوارڈ شامل ہیں۔ اسی طرح پشاور یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ہائے پشتو، پشتو اکیڈمی، شعبہ پاکستانی زبانیں اور مطالعہ پاکستان نے اسے اپنے نصابات (ایم۔اے، ایم۔ایس سی۔ ایم فل۔ پی ایچ ڈی) کے لازم اور مجوزہ کتابی سرمائے میں شامل کیا\'\'۔ زیر نظر کتاب کے اس اعتراف کی روشنی میں اجمل خٹک نے کہا کہ \'\'یہ کتاب پشتونوں کی نئی ادبی زندگی کی بنیاد بھی ہے اور آنے والے کل کی ترجمان بھی۔\'\' پشتو زبان و ادب کی مختصر تاریخ ایک ایسی تحقیقی کاوش ہے جس میں پشتون قوم کی قدامت اور تاریخی پس منظر میں پشتو زبان و ادب کی قدیم تاریخ، لسانی رشتوں اور ارتقائی منازل کی نشاندہی کرتے ہوئے مختلف ادوار کی تخلیقی روایات اور فنی تجربات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے اپنی اس تاریخی کاوش کے بارے میں ان الفاظ کو استعمال کیا ہے۔ پشتو زبان و ادب کی مختصر تاریخ لکھتے وقت میں نے بھی پشتو ادب کے آغاز سے لے کر لمحہ موجود تک، تمام ارتقائی مدارج کی نشان دہی کی ہے اور نظم و نثر میں عہد بہ عہد بدلتے ہوئے رجحانات، اسالیب اور میلانات کا مطالعہ، ان ادوار کے مطابق پیش کیا ہے، جن کی حدود کا تعین ہمارے اکابر ادب نے کیا ہے۔کہنے کو تو یہ پشتو زبان و ادب کی مختصر کتاب ہے مگر یہ ۵۱۸ صفحات کو محیط ہے اور اس میں متنوع شعری، نثری اور لسانی ادوار کو اٹھارہ عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے اور پشتو زبان و ادب کی دیگر تاریخوں کے مقابلے میں متنوع، نئے اور مستند پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان پہلوئوں میں مختلف فکری، نظریاتی اور ادبی روایات کو انتقادی پیرائے میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور مضبوط اور توانا نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اس تاریخ میں پشتو زبان و ادب اور پختون سماج اور مختلف سماجی ، فکری اور فنی رویوں کو بھی ساتھ ساتھ لیا گیا ہے اور کتاب کا یہی انداز قاری کو نہ صرف پشتو زبان و ادب سے متعارف کراتا ہے بلکہ پشتو زبان، اس کی شعریات اور ادبیات کے تناظر میں پورے پختون مزاج سے قاری کو بھی ہم آہنگ کرتا ہے۔