عہدسازشخصیت ... مولانا محمد اجمل خان
اسپیشل فیچر
بہت سے کم انسان ہو تے ہیں جو میدان خطابت کے شہسوارہوں اور سیاست کی پر خاروادی میں بھی چلتے ہوں اور ساتھ ساتھ تصنیف اور تالیف کے میدان میں بھی قلم کا بے دریغ استعمال کرتے ہوں۔اللہ کریم نے یہ کمال مولانا محمد اجمل خان کو عطا کیا۔آپ کا شمار عظیم انقلابی خطباء میں ہوتا تھا۔مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع نے آپ کی تصنیف آداب القرآن کے ابتداء میں تبصرہ کرتے ہوئے آپ کو خطیب اسلام لکھا۔مفتی صاحب کے علاوہ دیگر کئی اکابر نے بھی آپ کو خطیب اسلام اور خطیب ختم نبوت کے لقب سے یاد کیا۔احادیث کے مطابق خطیب اسلام کا لقب حضور ﷺ کے شاگرد رشید حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو ملا۔انہیں خطیب الانصار اور خطیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔متعدد بڑے خطباء کو بھی اس لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ کی تصنیفی خدمات ایک طویل مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ درجنوں کتابیں آپ نے تصنیف فرمائیں ۔ پھر عربی زبان میں قرآن مجید کی لغت پر مشتمل لغات القرآن تحریر فرمائی پھر آپ نے عربی میں قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر قرآن کی خدمات کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا یا۔مفکر اسلام مولانا مفتی محمود نور اللہ نے آپ کی تصنیف آداب القرآن کے بارے میں لکھا ہے کہ آج تک اس موضوع پر ایسی جامع کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔مولانا غلام غوث ہزاروی تحریر کرتے ہیں کہ خطیب اسلام نے قرآن کے آداب پر کتاب لکھ کر امت کی عجیب راہنمائی فرمائی ہے۔ممتاز عالم دین علامہ ڈاکٹر خالد محمود ( پی۔ایچ۔ڈی لندن) تحریر کرتے ہیں کہ مولانا اجمل خان راسخ العلم علماء میں سے ہیں جنہوں نے ملک کی تبلیغی اور سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو اپنی خدمات کا محور بنا لیا۔لاہور میں آپ کا درس قرآن بڑی شہرت کا حامل ہے۔پنجاب یونیورسٹی شعبہ عربی کے سربراہ محترم پروفیسر ظہور اظہر نے آپ کی ایک تصنیف کے ابتداء میں لکھا کہ خطابت و تصنیف یا دوسرے لفظوں میں قلم اور زبان یکساں قدرت بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ مولانا محمد اجمل خان بھی ان خوش نصیب شخصیات میں سے ایک ہیں۔ہم مولانا محمد اجمل خان کی شعلہ نوائی اور سحر بیانی کے مداح ہیں اور ان کے ذوق تحقیق اور زور قلم کے بھی قائل ہیں۔1977 ء کی تحریک نظام مصطفی ؐ میں کراچی سے خیبر تک مولانا محمد اجمل خان ؒ نے اپنی خطابت سے جان ڈالی ۔ لاہور شہر میں لوہاری میں واقع مسلم مسجد میں قومی اتحاد کے علماء مشائخ کا پر امن جلوس تھالیکن اس جلوس پر جو تشدد کیا گیا ۔اس تشدد کا نشانہ مولانا محمد اجمل خان خود بھی بنے۔اس تحریک کے دوران مسجد کی بے حرمتی کے واقعہ کے حوالہ سے آپ نے ایک کتاب’’ اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام ‘‘تحریر فرمائی۔جس پر مولانا مفتی محمود نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ نے مستند حوالہ جات کے ساتھ بڑی خوبی سے مساجد کی تکریم و تعظیم کے متعلق ایک جامع کتاب تحریر فرما دی ہے۔مولانا قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیو بند نے مولانا محمد اجمل خان کی تصنیف’’ اسلامی معاشرے میں مسجد کے مقام ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ آپ نے مساجد کے سلسلہ میں احکام اور مقامات و مراتب کے جتنے گوشے ہو سکتے ہیں وہ سب واضح کر دیئے ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی رقمطرازہیں کہ مولانا اجمل نے اس اہم موضوع پر بہت تلاش اور جستجو سے کام لیا ہے۔ مولانا سید اسعد مدنی اس کتاب پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا محمد اجمل خان نے نہایت عرق ریزی اور محنت سے کام لیتے ہوئے ایک اہم عنوان پر قلم اٹھایا جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مولانا محمد مالک کاندھلوی آپ کی اس تصنیف پر لکھتے ہیں کہ مولانا محمد اجمل خان اپنے علمی کمالات اور جذبہ تبلیغ دین میں اکابر علماء میں ایک ممتاز اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ نے مساجد کی اہمیت پر ایک بلند یا یہ کتاب تحریر فرمائی جو علوم و حقائق اور معارف و لطائف کا خزانہ ہے۔مولانا محمد اجمل خان کی دینی ،علمی،تحقیقی، تصنیفی، تبلیغی، سیاسی و سماجی خدمات پر آپ کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔آپ کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔اللہ کریم آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔آمین٭…٭…٭