رُستم زماںگاماں پہلوان (تاریخ ِوفات 23ِمئی 1960ء)
اسپیشل فیچر
( دُنیا کا ناقابلِ شکست پہلوان)******مشہور ِزمانہ گاما ں پہلوان۔جنہیںرُستم زماں کا خطاب ملااور رُستم ِ ہند و پنجاب بھی کہلائے ۔اُنکا اصلی نام \"غلام محمد\" تھا۔ 1880ء کو امرتسر میں کشمیری پہلوانوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔اُنکے والد عزیز پہلوان ،جو غلام پہلوان کی پشت میں سے تھے،ہندوستان کی شاہی ریاست \"دتیا، مدھیہ پردیش\" میں درباری پہلوان تھے۔اس تعلق سے مستقبل میںریاست کے حکمرانـ\" بھوانی سنگھ\" نے گاما ںاور اُنکے بھائی امام بخش کی سرپرستی بھی کی۔گاماں پہلوان کی قدو قامت اور خوراکگاماں کا وزن 250پائونڈ،قد 5فُٹ 7انچ، چھاتی56 انچ اور ڈولا17انچ تھا۔ روزانہ 5000بیٹھکیں اور 3000ڈنڈ لگاتے تھے ۔ بیٹھکیں لگانے کیلئے 95کلو وزنی ڈسک استعمال کرتے تھے جو آج بھی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سپارٹس میوزیم پٹیالہ بھارت میں موجود ہے۔ 23 ِدسمبر 1902ء کو 22سال کی عمر میںگاماں مندوی کے نزدیک نظر باغ محل میں 1200کلو گرام وزنی پتھر اُٹھانے کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ لہذا ڈھائی فُٹ اُونچا یہ پتھر بھی ان دنوں بروڈا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اُنکی روزانہ کی خوراک میں بکرے کا گوشت،مُرغیاں ،مکھن،دودھ،پھل اور ڈیڑھ پائونڈ بادام کی سردائی لازمی تھی ۔اس خوراک اور دیگر اخراجات کا انتظام اُن مہاراجوں کی ذمہ داری تھی جن کے گاماں درباری پہلوان رہے۔ گاما ںاور رحیم بخش سلطانی والا کا مقابلہ گاماں کی پہلوانی کی تربیت کا آغاز 5سال کی عمر میں کر دیا گیا۔8 سال کے ہوئے تو والد کا انتقال ہو گیا۔ اُنکے چچا عِد پہلوان نے اس غم کے باوجود اُنکی پہلوانی کی تربیت جاری رکھی۔ اُنکی وجہ ِشہرت 19سال کی عمر میں انڈین ریسلنگ چیمپئین\" رحیم بخش سلطانی والا\" کو کُشتی کا چیلنج تھا۔اُن کا تعلق بھی کشمیری خاندان سے تھا اور گوجرانولہ میں مقیم تھے۔7 فُٹ قدکے رحیم بخش سلطانی والا کیلئے 5 فُٹ 7انچ کے قد والے گاماں پہلوان کو چیت کر دینا معمولی بات نظر آرہی تھی لیکن ایسا نہ ہوا اور مقابلہ برابری پر ختم ہوا۔ اسطرح کے دو مقابلے اور ہوئے تو وہ بھی برابر ہی رہے۔لہذا چند سال بعد جب آ لہٰ آباد میں دونوں پہلوانوں کاچوتھی دفعہ پھر آمنا سامنا ہوا تو اِس دفعہ بازی گاما ںلے ہی گئے ۔اس کامیابی کے باوجود گاما زندگی بھر رحیم بخش سلطانی کا نام عزت و احترام سے لیتے رہے۔گاما ںپہلوان کا انگلستان میں چیلنج اور کامیابیگاما ںپہلوان وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کے نامور پہلوانوں بشمول پنڈت بدونک کو شکست دے چکے تھے اور اب اُنکی اگلی منزل بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرنا تھی۔ لہذا1910ء میں 30سال کی عمر میں گاما کو اُس وقت بین الاقوامی مقابلو ں میں قدم رکھنے کا موقع میسر آگیاجب بنگال کی ایک لاکھ پتی شخصیت \"شرت کمار مسرا\" نے انکی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اُنھیں لندن بھیجنے کا بندوبست کر دیا ۔ اُس سال انگلستان میں \"جان بُل ورلڈ ریسلنگ چیمپئین\" شپ منعقد ہوئی۔جس میں دُنیا کے تمام نامور پہلوانوں کو مدعو کیا گیا۔ گاما ںنے اپنے بھائی امام بخش اور دو ساتھیوں کے ہمراہ بذریعہ بحری جہاز سفرکر کے اُس میں شرکت کی۔ اس مقابلے کے منتظمین نے شرط رکھی تھی کہ مقابلہ اُنکے درمیان ہی ہو گا جو \"ہیوی ویٹ\"ہوں گے۔ اس لیئے گاماں کا چھوٹا جسم دیکھ کر اُنھیں مقابلے میں شریک کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ بلکہ ہفتے کے 250پائونڈ سٹرلنگ پر دوسری عام سطح کی کُشتیاں لڑنے کی تجویز بھی پیش کی۔ اس پر گاماں نے چیلنج دیا کہ جو پہلوان اُن سے پانچ منٹ تک مقابلہ کر سکے گا وہ اُسکو پانچ پائونڈ انعام دیں گے۔شروع میں 3پہلوان میدان میں اُترے اور تینوں نے پانچ منٹ کے اندر شکست کھائی۔ پھر اگلے دن دنیا کے 12 مشہورپہلوانوں نے گاما ںسے زور آزمائی کی ،لیکن کوئی بھی دو منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکا۔ یہ دیکھ کر گاماں کو مقابلے میں شریک کر لیا گیا۔گاما ںاور پولینڈ کے زی بسکو کا مقابلہ اور رُستم ِزماں کا خطاباس عالمی چیمپئین شپ میں گاما کا مقابلہ پولینڈ کے \"زی بسکو\" سے ہونا قرار پایا ۔ جو دُنیا کے تین نامور پہلوانوں میں سے ایک تھا۔ اس مقابلے کو صدی کی کشتی کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ 10ستمبر1910ء کو یہ مقابلہ شام 4بجے شروع ہوا اور 2 گھنٹے34منٹ تک مسلسل جاری رہنے کے بعد ختم ہوا۔ اس دوران گاما اپنے حریف پر مکمل طور پر حاوی رہے اور زی بسکو بھی اُنکے مقابلے میں فن ِکُشتی کی کسی خاص چال کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ ان حالات میں رات پڑنے تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ کسی کو فاتح قرار دیا جاسکے۔ حالانکہ ترازو کا جھکائو گاما ںکی طرف ہی متوقع کیا جا رہا تھا ۔بہرحال منتظمین نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ اگلے ہفتے پھر شروع ہو گا۔لیکن مقررہ وقت پر زی بسکو میدان میں نہ آیااور گاما ںنے17ِ ستمبر 1910 ء کو \"جون بُل بیلٹ \" بمعہ 250پائونڈ نقد انعام جیت کر\" ورلڈ چیمپئین \" یعنی رُستم ِزماں \"کا اعزا ز حاصل کر لیا۔کہتے ہیں گاما کی جیت پر اُس وقت کے انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم نے فخریہ کہا تھا کہ \"ہے تو ہماری ہی نو آبادی کا\"۔مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر جس کے ہاں گاما ںدرباری پہلوان تھے ،نے پٹیالہ میں 1928ء میں گاماں اور زبسکو کا مقابلہ ایک بار پھر کروایا۔ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد مقابلہ دیکھنے آئی لیکن ابھی وہ اپنی جگہوں پر ترتیب سے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ ایک دفعہ پھر گاما ںنے زی بسکو کو اس زور آزمائی میں شکست دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ کشتی 3سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں ختم ہو گئی۔ہر طرف سے اُنکے حق میں نعرے بازی کی گئی۔ مہاراجہ نے اُنھیں اپنے گلے سے موتیوں کا ہار اُتار کر تحفے میںپہنا دیا۔مہاراجہ ہی کے ہاتھی پر بیٹھ کر اور کندھے پر چاندی کا گُرز اُٹھائے ہوئے وہاں ایک جلوس نکالا گیا۔ انعام کے طور پرگائوں میں زمین دی گئی اورایک مناسب سالانہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔پرنس آف ویلز اور چاندی کا گُرز1922ء میں انگلستان کے شاہ جارج پنجم کے بیٹے پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو مہاراجہ بھوپندرسے ملنے کیلئے پٹیالہ گئے۔ وہاں اُنکی آئو بھگت کے ساتھ اُنکے لیئے مختلف کھیلوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔گاماں پہلوان کا تعارف بھی ہوا اور پرنس آف ویلز نے اُنکی کامیابیوں پر\"چاندی کا گُرز\" پیش کیا۔پاکستان آمدتقسیم ِہند کے بعد گاماں اور اُنکے خاندان کے افراد پاکستان کے شہر لاہور میں ہجرت کر کے آگئے اور دریائے راوی کے نزد فرخ آباد میں رہائش اختیار کر لی۔ایک مرتبہ لاہور کے ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک دوکاندار کسی وجہ سے گاماں سے جھگڑ پڑااور گالیا ں بھی دیں۔گاماں اس پر مسکرائے تو اُس نے اُنکے سر پر ترازو دے مارا۔اُنکے سر سے خون نکل آیا ۔دوکاندار اپنے اس عمل سے خود ہی ڈر گیا تو اس پر گاماں بھی سر پر لگے زخم پر رومال باندھ کے چلے آئے۔بعدازاں اکھاڑے کے شا گردوں نے پوچھا کہ آپ نے اُس دوکاندار کے خلاف رد ِعمل ظاہر کیوں نہیں کیا؟اُنھوں نے کہا کہ جو گالیاں دیتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے۔لہذا کیا رُستم ِزماں ایک کمزور سے لڑے۔ دوسرا سر سے خون نکلنے پر غصہ آیا تھا اور دل کیا تھا کہ اُس کو اُٹھا کر بیس گز دور پھینکوں لیکن پھر اچانک خیال آیا کہ اگر غصے پر قابو نہ پایا تو رُستم ِزماں کیسا۔گاماں پہلوان کے مداحوں کا خراج ِتحسین پہلوانی کی دُنیا میں ماضی سے لیکر آج تک گاماں پہلوان کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہی ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراٹے کی دُنیا کے ہیرو اور جنکی اپنی ایک داستان ہے\" بروس لی\" اُنکے بہت بڑے مداح تھے۔وہ گاماں سے متعلق شائع ہوئے مضامین کا مطالعہ کرتے اور اپنی جسمانی تربیت میں اُنکی پیروی کرنے کی بھی کوشش کرتے ۔ بھارت کے مشہور پہلوان دارا سنگھ بھی اُن سے بہت متاثر تھے۔بلکہ آج کل تو یہ خبر بھی عام ہوچکی ہے کہ بھارت میں گاماں پہلوان کی شخصیت اور اہم واقعات پر مبنی فلم بنانے کیلئے پیش رفت کا آغاز ہو چکا ہے اور اُنکا کرداربالی وُڈ کے مشہور ہیرو\"جان ابراہم \"ادا کریں گے۔اس سے پہلے بھی مغربی سطح پر گاماں پہلوان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے \" سٹریٹ فائیٹر \"گیم میں ڈارن ماسٹر کے کردار والا پہلوان ڈالا گیا ہے۔ایک اور ویڈیو گیم میں \"شیڈو ہارٹز :کونو ِننٹ گاماں کے روپ میں دھارا گیا۔اس کے علاوہ ایک جاپانی کومک کی کتاب \"ٹائیگر ماسک\"میں گاماں کے کردار کو خراج ِتحسین پیش کیا گیا ہے۔ گاماں کی ذاتی زندگی اور تعلقاتگاماں پہلوان جہاں اپنے مداحوں کو اپنی کامیابیوں سے مسحور کر رہے تھے وہاں اُنکی زندگی میں غم کے سائے بھی رہے۔اُنکی اولاد میں 2 بیٹے اور 4بیٹیاں تھیں ۔لیکن 2بیٹوں میں سے ایک تو بالکل چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گیا اور دوسرا بیٹا جسکا نام جلال تھا وہ بھی کم وبیش 12 کی عمر میں انتقال کر گیا تھا۔لہذا اُنھوں نے اپنے بھائی امام بخش کے بڑے بیٹے \"بھولو پہلوان \" کو پہلوانی کی باقاعدہ تربیت دے کر اپنے خاندان میں ایک اور بڑا پہلوان تیار کر دیا۔جنہوں نے بھی دُنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔اُنکے تعلقات میں یہ بھی اہم ہے کہ اُنکی ایک بیٹی کی شادی ڈاکٹر حافظ بٹ صاحب سے ہوئی جنکی بیٹی (یعنی گاماں پہلوان کی نواسی) محترمہ کلثوم نواز صاحبہ ہیں جو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی بیوی ہیں۔ ناقابل ِشکست گاما ں50سال سے زائد عرصہ اکھاڑے کی دُنیا پر حاوی رہے۔اس دوران وہ بارہ سو سے زائد پہلوانوں سے لڑے اور ایک بار بھی شکست نہ کھائی۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے برصغیر کیلئے عالمی انعام جیتا۔دوسری جنگ ِعظیم کے پانچ سال بعد تک گاما نے دُنیابھرکے پہلوانوں کو چیلنج دے رکھا تھا لیکن مقابلہ کرنے والے کو پہلے اُنکے خاندان کے دوسرے پہلوانوں سے کشتی لڑنی پڑتی۔یہی وجہ ہے کہ گاما نے بین الاقوامی سطح پر زیادہ کُشتیاں نہیں لڑیں۔ 1959ء میں اُنھیں حکومت ِوقت کی طرف سے\" پرائڈ آف پرفارمنس\" کا صدارتی تمغہ اور پانچ ہزار روپے انعام ملا۔بیماری و وفات1955 ء میں گاماں پہلوان پر دل کا پہلا دورہ پڑا اور اسی سال مزید تین شدید دورے بھی پڑے۔ اُنکے خاندان کے مطابق اُنھیں راوی دریا پر معمول کی ورزش کے دوران مختلف اوقات میں 2 دفعہ سانپ نے بھی کاٹا تھا ۔بہرحال وقت گزارنے کے ساتھ اُنکی صحت بگڑتی چلی گئی۔ اس زمانے میں صدر ایوب خان نے گاماں پہلوان سے مکمل تعاون کیا۔لیکن بالاخر 23 مئی 1960 ء کو گاماں پہلوان نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔