عمر حیات محل(چنیوٹ)
اسپیشل فیچر
چنیوٹ میں فن تعمیر کا بنا اعلیٰ نمونہ عمر حیات محل اندرون ملک اور بیرون ملک کے سیاحوں کے لیے انتہائی پرکشش ہے یہ محل عمر حیات ویرہ نے 1922ء سے 1930ء تک آٹھ سال کے عرصہ میں چار لاکھ روپے کی خطیر رقم سے بنوایا تھا۔ شیخ عمر حیات چنیوٹ کی معروف شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے وہ اپنے والد کا چھوڑا اثاثہ سمیٹ کر کاروبار کی غرض سے کلکتہ چلے گئے وہاں تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا مقدر چمک اٹھا۔ وہاں کے بہت بڑے ٹرانسپورٹر، شپ بروکر اور پراپرٹی ڈیلر بن گئے۔ انہوں نے کاروبار کی دنیا میں ڈھیروں دولت بنائی اور بہت بڑا نام کمایا۔ انہوں نے پنڈی بھٹیاں میں شادی کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے اور بیٹی کی صورت میں اولاد کی نعمت سے سرفراز کیا۔ انہی خوشیوں کو پائیدار بنانے کے لیے انہوں نے محل بنوایا۔ جس نے مالک کے نام کی نسبت سے ’’عمر حیات محل‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔ محل مکمل ہونے کے پانچ برس بعد 1935ء میں عمر حیات اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی بیٹی حسینہ تپدق کی مریض ہو کر فوت ہوگئی۔ ایک بیٹا گلزار تھا جس کی ماں فاطمہ نے چاہا کہ محل میں خوشیاں لا کے آباد کروں چنانچہ انہوں نے بیٹے کی شادی کی۔ شادی کے اگلے دن ولیمہ تھا۔ یہ بیٹا صبح محل میں بنے حمام میں نہانے گیا جہاں پانی گرم کرنے کے نظام میں بگاڑ پیدا ہوا سردیوں کے دن تھے۔ حمام میںگرم پانی کی بہم رسائی کے لیے کوئلہ کی انگیٹھی جل رہی تھی جس سے حمام کوئلہ کے دھواں(کاربن مونو آکسائیڈ) سے بھر گیا جس سے نہانے کے دوران دم گھٹنے سے گلزار کی موت واقع ہوگئی گلزار اس گھر کا پہلا اور آخری چراغ تھا۔ گل ہوا تو ویرانیوں نے ڈیرے جما لیے۔ بیٹا مرا تو ماں بھی ایک سال بعد اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں گھل مری اور خالق حقیقی سے جاملی۔ ماں نے اپنے بیٹے کو محل کے اندرونی صحن میں دفن کروایا جب ماں مری تو اسے بھی اسی کی وصیت کے مطابق محل کے اندرون میں بیٹے کے پہلو میں دفن کر دیا۔ یوں جب محل کے مکین نہ رہے تو محل اپنے مکینوں کا مزار بن گیا۔ مالک جس محل میں زندہ نہ رہ سکے وہاں آج ابدی نیند سو رہے ہیں۔ آخرت کی زندگی ہی ابدی زندگی ہے۔ محل ہوں یا کٹائیں بالآخر تماشا گاہ دہر بن جاتی ہیں کسی صاحب عقل و دانش نے کہا تھا کہ محل سو دن محل ہوتے ہیں ہزارویں دن عبرت گاہ بن جاتے ہیں کسی نے محل دیکھے یہ بات کی کہ ایسے محل کوئی بھی نہ بنوائے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کی پوری خوشیاں نہ دیکھ سکیں۔ عمر حیات محل، اپنے مالکوں کے بچھڑ جانے کا دکھ سمیٹے اپنی جگہ اپنے اندر بہت سی خوبصورتیاں لیے قائم ہے۔ عمر حیات محل کے مالک جب چل بسے تو اس عمارت میں ایک ٹرسٹ کے زیر انتظام یتیم خانہ بنایا گیا گرائونڈ فلور پر ماچھی برادری کے خاندان بستے رہے عمر حیات محل پر مالکوں کی جدائی کے بعد آیا ہر دور بھاری رہا۔ عمر حیات محل کبھی اپنے تہہ خانوں سمیت چھ منزلہ تھا 1974ء میں اس کی دو خوبصورت ترین اوپر کی دو منزلیں گرا دی گئیں۔ عمر حیات کے بھلے دن آئے جب جون1990ء میں جناب محمداطہر طاہر، ڈپٹی کمشنر جھنگ نے محل کو حکومت کی تحویل میں لے کر وہاں لائبریری اور میوزیم قائم کرنے کے احکامات جاری کیے یہ تمام تر کام ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کے سپرد کیا ان کے زیر انتظام عمر حیات محل میں پبلک لائبریری اور میوزیم بنا۔1998ء میں اس محل کو اپنے اثاثوں سمیت یعنی بشمول پبلک لائبریری اور میوزیم کے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لے لیاگیا۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ)٭…٭…٭