پاگل کبھی ایک نہیں ہو سکتے
اسپیشل فیچر
یہ ان دنوں کی بات ہے، جب دماغی ہسپتالوں کوجدید نہیں بنایا گیاتھا۔ یعنی ان میں اصلاحات نہیں کی گئی تھیں۔ انہی دنوں ایک شخص پاگل خانے کے معائنے کے لیے وہاں پہنچا۔ سپرنٹنڈنٹ اس کے ساتھ تھا۔ ملاقاتی ایک بالکونی میں کھڑا ایک وارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا جس میں کم سے کم ایک سو پاگل بند تھے۔ اس وارڈ میں بند سبھی پاگل انتہائی ’’خطرناک‘‘ نوعیت کے تھے اوران خطرناک پاگلوں کی نگرانی صرف تین گارڈز کر رہے تھے۔ملاقاتی یہ دیکھ کر چونک اٹھا کہ ایک سو پاگلوں کی نگرانی پر صرف تین گارڈ متعین ہیں، اس نے حیرت سے پوچھا: ’’ایک سو خطرناک پاگلوں کی نگرانی صرف تین گارڈز کے سپرد ہے، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کسی دن یہ پاگل گارڈز پر پِل پڑے تو کیا ہو گا؟ یہ سبھی مل کر گارڈز کا ملیدہ بنا دیں گے۔‘‘متعلقہ افسر نے اطمینان سے جواب دیا: ’’اس میں خطرے کی کیا بات ہے؟ میرے بھائی آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ ’’پاگل کبھی متحد نہیں ہو سکتے۔‘‘ (ایک نہیں ہو سکتے)ملاقاتی اور بھی حیران ہوا اورافسر سے بولا: ’’میں آپ کی بات نہیں سمجھا…!‘‘ افسر نے کہا: ’’یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ پاگل کبھی ایک نہیں ہو سکتے، یہ کبھی متحد نہیں ہو سکتے۔‘‘پاگل خانے کے افسر کا یہ بیان نہایت سبق آموز ہے۔ ہم سب کے لیے، میرے لیے اورآپ کے لیے۔ ہر ایک کے لیے اورسب کے لیے۔ اوردنیا کی ہر قوم کے لیے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ، اکثر قومیں اس حکیمانہ قول کواہمیت نہیں دیتیں اور صدیوں سے گونج رہی اس گھنٹی کی آواز پر کان نہیںدھرتیں کہ: ’’اتفاق میں برکت ہے۔‘‘ ’’ہم ایک ہیں تو محفوظ ہیں، بکھر گئے تو غیر محفوظ۔‘‘ ’’نااتفاقی قوموں کو برباد کردیتی ہے!‘‘اوریہ ایک نفسیاتی سچائی ہے: ’’پاگل کبھی متحد نہیں ہو سکتے!‘‘ لہٰذا ان قوموں کے پاگل پن میں کوئی شبہ نہیں جن کے اندر اتفاق نہیں ہے، جن کے عوام و خواص میں اتحاد نہیں ہے، جو ایک نہیں ہیں، جنہیں ایک دوسرے کا احساس نہیں ہے۔ہر قوم اور ہر قبیلے اور ہر گروہ کی کامیابی، اس کی آزادی اوراس کا قومی وقار ’’اتفاق‘‘ سے مشروط ہے، ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ: ہم مل جُل کر رہیں، ہمارے خیالات میں ہم آہنگی ہو، ہمارے نظریات ایک ہوں، بحیثیت قوم ہمارا نصب العین ایک ہو، ہم میں طبقاتی تفریق نہ ہو، معاشی تفاوت نہ ہو، احساسات میں تفریق نہ ہو، محسوسات میں تفریق نہ ہو، ہمارے جذبات ایک ہوں، نظریات ایک ہوں، احساسات ایک ہوں، ہرایک فرد دوسرے سے جڑا ہوا ہو، ایک ہی دھاگے میں پرویا ہوا ہو، سب نے اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہو۔ایک دوسرے کا احترام مدِّنظر ہو، ایک دوسرے سے محبت ہمارا ایمان ہو۔ ذات پات، اونچ نیچ، رنگ و نسل کے تعصب سے بالا تر ہوں۔ ہر قوم کے سبھی افراد اپنے آپ کو ایک اکائی تصور کریں۔ طبقاتی اورمعاشرتی تفریق سے بالاتر ہوں، ایک کا دکھ سب کا دکھ ہو، ایک کا سکھ سب کا سکھ ہو، ایک کی ضرورت سب کی ضرورت اور ایک کی تکلیف سب کی تکلیف۔ ایک کو کانٹا چبھے تو پوری قوم اس کی چبھن محسوس کرے، اس قول پر متفق ہو۔ اتفاق میں برکت ہے، تفریق میں موت ہے اور پاگل کبھی متحد نہیں ہو سکتے!طاقت کا رازکوئی راز نہیں ہے، اس میں صرف ایک ہی شرط ہے کہ مل جل کر رہو، متحد رہو، متفق رہو، جس قوم کے افراد میں اتفاق نہیں ہوتا، ایک دوسرے سے محبت نہیں ہوتی ایک دوسرے کا احترام نہیں ہوتا، ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا، اپنے وطن سے محبت نہیں ہوتی، ہر کوئی اپنا کعبہ الگ بنا لیتا ہے۔ وہ قوم جلد یا بدیر تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ایسی قوم کے لیے کہا گیا ہے:پاگلوں میں اتحاد نہیں ہوتا، کیا آپ اس بات سے متفق نہیں ہیں؟(ایم- آر- کوپ میئر کی کتاب ’’خیالات کی طاقت‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭