کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
اسپیشل فیچر
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گامیَں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جاؤں گامذکور شعرکے خالق نیئر نظم و نثر احمد ندیم قاسمی نے سچ کہا کہ کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا؟ کیوں کہ وہ اُردو شعر و ادب کا ایک ایسا دریا بل کہ سمندر ہیں،جو ہمیشہ بہتا رہے گا۔اُنھوں نے ادب کی تمام اہم اصناف پر طبع آزمائی کی، جن میں شاعری، تنقید،افسانہ نگاری، بچوں کے ادب کے علاوہ انشائیے اور ڈرامے بھی شامل ہیں۔اُنھوں نے افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے اُس وقت خود کو نمایاں کیا،جب برعظیم پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ الغرض قاسمی صاحب اُردو ادب کے ایک پورے عہد پر اثرانداز رہے، وہ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، فیض احمد فیضؔ اور سعادت حسن منٹو کے ہم عصر تھے۔ عہد ِموجود کے بہت سے نام وَراُدبا و شعرا کو احمد ندیم قاسمی کے شاگرد ہیں ۔ معاصرادیبوں سے جب کبھی میَں مصاحبہ (انٹرویو) کے سلسلے میں مکالمہ کرتا ہوں، تو کئی معروف ادیب انتہائی فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ قاسمی صاحب کی زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’ فنون‘‘ کے باعث اُردو شعر وادب میں معتبر ہوئے ہیں، یعنی قاسمی صاحب اُن بزرگوں میں سے تھے، جنھوں نے اچھا ادب تخلیق کرنے کے ساتھ نئی نسل کی آب یاری بھی کی اور اُنھیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ قاسمی صاحب نے ’’فنون‘‘ کے ذریعے جن نوجوانوں کو متعارف کروایا، آج وہ شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کے سلسلے میں 1963ء میں پہلی بار اُن کے شعری مجموعے ’’دشت ِوفا‘‘ کو ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ دوسری بار اُن کے شعری مجموعے ’’محیط‘ ‘کے لیے 1976ء میں اور پھر تیسرے شعری مجموعے ’’دوام‘‘ کے لیے 1979 ء میں اُنھیں مذکورہ ایوارڈ سے نوازا گیا،واضح رہے کہ پاکستان کے ادبی اعزازات میں یہ سب سے اہم اعزاز ہے۔ اس اعزاز کے علاوہ 1968ء میں اُنھیں ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘ ‘کا سول اعزاز اورپھر حکومت ِپاکستان کی جانب سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ جیسے وقیع اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ احمد ندیم قاسمی جتنے اچھے شاعر اور افسانہ نگار تھے، اُتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی ترجیحات میں انسان سرفہرست رہا۔ اُنھوں نے انسان کو بڑی اہمیت دی، دوست کو عزیز جانا اور دشمن کی تحقیر نہیں کی۔ جہاں تک اُن کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے، تواُردو کے افسانوی ادب میں منشی پریم چند نے جو روایت قائم کی تھی اُسے پروان چڑھانے کا سہرا منٹو، بیدی اور عصمت کے ساتھ احمد ندیم قاسمی کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ پریم چند نے اُردو افسانے کو خواب و خیال کی طلسماتی دُنیا سے نکال کر براہ راست عام انسانی زندگی سے اس کا رشتہ جوڑا۔ احمد ندیم قاسمی نے منشی پریم چند کی اسی روایت کو آگے بڑھایا اور ترقی پسند ادب کی مقصدیت کے ساتھ وابستہ ہونے والے افسانہ نگاروں میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اپنے ہم عصروں میں وہ اس لیے بھی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں کہ جب ترقی پسند ادیب و شاعر مارکسی یا اشتراکی نظریہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پروپیگنڈائی ادب تخلیق کر رہے تھے ،تواُنھوں نے اس وقت بھی اس اشتہاری ادب کی تخلیق سے گریز کیا اور ترقی پسند تحریک کے وہ رجحانات اپنائے، جو معاشرے میں قابل قبول تھے۔احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میںدیہی زندگی کے مسائل کے ساتھ شہری زندگی کے سماجی مسائل اور معائب کا بھی فنکارانہ ڈھنگ سے اظہار کیا۔ اُن کے افسانوں میں شہر کی غربت، بے روزگاری، مزدور، بھکاری، کلرک، افسر وغیرہ کے مسائل بطور خاص شامل ہیں۔ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اُن کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے اپنے افسانوں کے لیے ایسے موضوعات کا بھی انتخاب کیا،جن پر اُن کے عہد کے دیگر افسانہ نگاروں کی نظر کم پہنچی۔ مثال کے طور پر پسماندہ مسلم طبقہ میں ضعیف الاعتقادی، توہمات، پیری فقیری اور اس کی آڑ میں چلنے والے غیر اخلاقی دھندے ،جس کی مثال اُن کا ایک افسانہ ’’بین‘‘ ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ وہ افسانوں کا تار و پود پنجاب کے ماحول میں رکھتے ہوئے بھی اسے ایسی وسعت دیتے ہیں ،جس میں پنجاب کے باہر کی دُنیا بھی شامل ہو کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ قاسمی صاحب کے فن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُن کے یہاں رجائیت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ادب میں ایسے فنکاروں کی کوئی جگہ نہیں، جو قنوطی ہوں اور ایسا فن بھی بیکار ہے، جو قاری کو منفی انداز میں اُداس کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے افسانوں میں سماجی مسائل کو اولیت دیتے ہوئے کردار نگاری پر خاصی توجہ دی اور کرداروں کی داخلی اور خارجی کیفیات کے ساتھ اُن کی نفسیاتی الجھنوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا ۔ اُن کے افسانوی ادب کا بڑا حصہ نہ صرف ہندی بل کہ بہت سے افسانے روسی، چینی اور انگریزی ا ور فارسی کے ساتھ پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی اور مراٹھی جیسی علاقائی زبانوں میں بھی منتقل ہو چکے ہیں۔احمد ندیم قاسمی نے تنقید نگاری سے بھی پرہیز نہیں کیا۔ ’’تہذیب و فن‘ ‘اور’’ادب و تعلیم کے رشتے‘ ‘اُن کی تنقیدی کتابیں ہیں ۔قاسمی صاحب چوں کہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، اس لیے اُن کے یہاں حسن ِبلاخیز اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ حسن کے یہ نظارے اُن کے افسانوں کے ماحول کے علاوہ کرداروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ فطرت کی حسن کاری سے احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے فن میں اضافہ ہوتا ہے۔اس ضمن میں ’’پہاڑوں کی برف‘‘،’’نصیب‘‘، ’’لارنس آف تھیلیبیا‘‘،’ ’بھاڑا‘‘، ’’بدنام‘ ‘جیسے اُن کے افسانے مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔تقسیمِ ہند کے بعد پیش آنے والے واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے مہاجروں اور کمزور طبقے کے دہقانوں کی نفسیات کا جائزہ اپنے افسانوں میں بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔اس ضمن میں اُن کا افسانہ ’’پرمیشر سنگھ‘‘ حقیقت نگاری کی ایک بہترین مثال ہے۔ قاسمی صاحب نے قریباً 17 افسانوی مجموعے اُردو ادب کو دئیے ہیں،جن میںاُن کے شہرہ آفاق افسانے: ’ ’کفن دفن‘‘، ’’رئیس خانہ‘‘، ’’موچی‘‘، ’’خربوزے‘‘، ’’ماسی گل بانو‘‘، ’’ماں‘‘، ’’آتش ِگل‘‘، ’’نیلا پتھر‘‘، ’’عاجز بندہ‘‘، ’’بے گناہ‘‘، ’’سلطان‘‘ وغیرہم شامل ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت کی گوناگوں خصوصیات کا عکس اپنے افسانوں پر بھی چھوڑا ہے۔ دراصل اُن کی شخصیت کی تشکیل میں، جو دیگر عناصر اور محرکات کارفرما رہے، اُن میں اُن کی اصلاح پسند شخصیت، درد مند دل، بے خوف، بے باک اور غیر جانب دار صحافی، بے غرض نقاد اور فطری شاعری کا خاصا دخل ہے اور یہ وہ منجملہ خصوصیات ہیں ،جو احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری کو نہ صرف بلندی عطا کرتی ہیں بل کہ شہرتِ دوام بھی بخشتی ہیں۔٭…٭…٭