انگریزی حروف تہجی کا 27 واں کیریکٹر!
اسپیشل فیچر
آج کی انگریزی میں 26 حروف ہیں، اور یہ A سے شروع ہوکر Z پر ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انگریزی حروف تہجی کی تعداد 27 ہوا کرتی تھی۔ ایک علامت جو آج and کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے، جسے ہم سب اچھی طرح سے پہچانتے ہیں، اور جسے ایمپرسینڈ (ampersand) کہاجاتا ہے، یعنی &، کبھی انگریزی زبان کا ستائیسواں حرف ہوا کرتا تھا۔ ایمپرسینڈ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ نہ صرف اس کی شکل عجیب ہے بلکہ اس کی تاریخ بھی عجیب و غریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ انگریزی زبان میں کہاں سے آیا اور پھر کہاں چلا گیا؟ایمپرسینڈ کی کہانی پہلی صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے اور یہ قدیم دور میں رومن کرسیو (Roman Cursive) میں استعمال ہوتا تھا۔ رومن کرسیو، جسے لیٹن کرسیو (Latin Cursive) بھی کہاجاتا ہے، ہاتھ کی لکھائی یعنی ہینڈرائٹنگ یا سکرپٹ کی ایک قسم تھی، جس میں حروف کو باہم ملا کر ایک تسلسل کے ساتھ لکھا جاتا ہے، اور یہ وہ طریقہ ہے جو آج بھی ہاتھ کی لکھائی میں استعمال ہوتا ہے۔ جب دو یا دو سے زیادہ حروف کو باہم جوڑ کر ایک ہی شکل دی جاتی ہے تو اسے لگیچر (Ligature)کہتے ہیں۔ قدیم رومن کرسیو میں لفظ and کیلئے لاطینی متبادل ET استعمال ہوتا تھا اور اسے عام طور پر جوڑ کر لکھا جاتا تھا۔ یعنی جب وہ لاطینی لفظ et ، جس کا مطلب and ہی ہے، لکھتے تھے تو دونوں حروف کو باہم ملا کر ایک لگیچر کی شکل دے دیتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی لگیچر نے & کی شکل اختیار کرلی۔ جیسے کہ j اور k کی شکل دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ 1455ء میں یورپ میں پرنٹنگ کی ایجاد کے بعد پرنٹرز نے رومن ایمپرسینڈ کو بے تحاشا استعمال کیا۔ چونکہ ایمپرسینڈ کی جڑیں رومن دور سے ملتی ہیں اس لئے لاطینی حروف تہجی کی تبدیل شدہ شکلوں کی بنیاد پر بننے والی زبانوں میں اسے استعمال کیا جانے لگا۔ لاطینی حروف تہجی میں ایمپرسینڈ کو اکثر آخری حرف تہجی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آج & کیلئے نام کے طور پر استعمال ہونے والا لفظ ’’ایمپرسینڈ‘‘ (ampersand) بہت بعد میں آیا۔ انگریزی حروف تہجی میں & کا استعمال اس لفظ کے وجود میں آنے سے بہت پہلے شروع ہوچکا تھا۔ اس نام کے بننے کی وجہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں جب بچے سکولوں میں ’’اے بی سی...‘‘ پڑھا کرتے تھے تو وہ حروف تہجی کا اختتام & پر کرتے تھے۔ لیکن پڑھتے ہوئے x, y, z, and کہنا الجھن کا باعث بنتا تھا۔ لہٰذا وہ اسے x, y, z, and نہیں کہتے تھے، بلکہ x, y, z کے بعد andکہنے کی بجائے \"and per se and\" کہتے تھے۔ لاطینی زبان میں per se کا مطلب \"by itself\" یا ’’بذات خود ‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی جب بچے اے بی سی پڑھتے ہوئے x, y, z, and per se and کہتے تھے تو ان کا مطلب ہوتا تھا x, y, z, and by itself and ۔ اگر اسے اردو میں کہنا چاہیں تو یوں کہہ لیں کہ حروف تہجی کا اختتام ’’ایکس، وائی، زیڈ، اور بذات خود اینڈ‘‘ کی صورت میں ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ \"and per se and\" مختصر ہوکر ampersand بن گیا اور آج دنیا بھر میں & کی علامت کیلئے یہی لفظ رائج ہے۔آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ & کا ارتقائی سفر رُکا نہیں بلکہ آگے بھی جاری ہے۔ آج کی روزمرہ ہینڈرائٹنگ میں ایمپرسینڈ کے ڈیزائن کو اور بھی سادہ بنایا جا رہا ہے۔ آج اسے بڑے سائز کے’’ e ‘‘ کی صورت میں بھی لکھا جاتا ہے، یہ لوئرکیس ایپسلون (epsilon) ہے جو کہ یونانی حروف تہجی کا پانچواں حرف ہے اور الٹے 3 کی شکل کا ہے۔ بات یہیں تک رہتی تو ایمپرسینڈ کی اصلی شکل کا بھرم رہ جاتا، لیکن اب 3 کا ہندسہ بھی ایمپرسینڈ کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ لکھتے وقت لوگ 3 کے اوپر کھڑے زبر کی طرح ایک عمودی لائن لگا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایپسلون اور تین کے اوپر یا نیچے چھوٹی سی عمودی لائن لگا کر اسے ایمپرسینڈ کے طور پر استعمال کرنے کی مثالیں آج ہاتھ کی لکھائی میں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔٭…٭…٭