امی جان! مجھے آپ سے پیار ہے
اسپیشل فیچر
سوسان نے جواب دیا:’’بے شک، لیکن دراصل بات یہ ہے کہ جب میری کامیاب ماں نے جب بھی یہ دوسراطریقہ استعمال کیا، یہ کارگر اور مفید ثابت ہوا۔‘‘ نوجوان خاتون نے کہا:’’براہ کرم، تم مجھے یہ بتا سکتی ہو کہ یہ طریقہ، درحقیقت، کس طرح مفید اور کارگرثابت ہوتا ہے؟‘‘ بیٹی نے کہا:’’بالکل درست! جب میری والدہ نے ’’فوری اہداف کے تعین‘‘ کا طریقہ استعمال کیا، تو پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ نہایت غور سے میرا جائزہ لیتیں۔‘‘نوجوان خاتون نے کہا:’’تمہاری والدہ کس بات کا جائزہ لیتی تھیں؟‘‘’’میری والدہ مجھے کوئی بھی درست اور صحیح کام کرتا دیکھنا چاہتی تھیں۔‘‘نوجوان خاتون نے کہا:’’وہ تمہیں کوئی بھی اچھا اور درست کام کرتا ہوا دیکھیں!‘‘سوسان نے کہا:’’بالکل درست، ہمارے گھرانے میں سب افراد کا ایک ہی مقولہ ہے جو اس طرح ہے:میں اپنے بچوں کی اس لحاظ سے مدد کرتی ہوں کہ میرے بچے خود میں بھرپور صلاحیتیں اور استعدادیں پیدا کریں، نیز جب وہ اچھا کام کرتے ہیں تو میں ان جائزہ لیتی ہوں او ان کی تعریف و ستائش کروں۔سوسان نے اپنی بات جاری رکھی:’’اکثر گھرانوں میں والدین زیادہ وقت یہی دیکھتے رہتے ہیں کہ ان کے بچے کیا کام کر رہے ہیں۔‘‘نوجوان خاتون مسکرائی اور کہنے لگی:’’والدین یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے غلط کام کر رہے ہیں۔‘‘ سوسان نے جواب دیا:’’ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں کہ ہم درست اور صحیح کام کر رہے ہیں۔‘‘ نوجوان خاتون نے اپنے کاپی میں متعدد اور مختلف معلومات درج کیں اور پھر پوچھنے لگی:’’سوسان، جب تم بچوں کو کوئی صحیح اور اچھا کام کرتے ہوئے دیکھتی ہو پھر تم کیا کرتی ہو؟‘‘سوسان نے خوش ہوتے ہوئے کہا:’’یہی موقع ہوتا ہے جب میں ان کی فوری طور پر تعریف و ستائش کرتی ہوں۔‘‘نوجوان خاتون نے کہا’’تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘سوسان نے کہا:’’بہت خوب! جب میں یہ دیکھتی ہوں کہ میرے کسی ایک بچے نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو خاص طور پر بہت ہی عمدہ اور صحیح ہے، میں اس کے پاس جاتی ہوں اور اس کی کمر میں اپنا بازو حمائل کر دیتی ہوں، اس کے چہرے کی طرف دیکھتی ہوں اور اسے دو باتیں کہتی ہوں: پہلی بات یہ ہے کہ اسے خاص طور پر بتا دیتی ہوں کہ اس نے کون سا اچھا کام کیا ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ میں اسے یہ بتا دیتی ہوں کہ میں اس کے متعلق کی محسوس کر رہی ہوں۔ ہم دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک لمحہ اسے یہ بتا دیتا ہے کہ میں اس کے متعلق کس طرح بہترین طور پر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘پھر اس وقت سوسان کو دھرام سے دروازہ بجنے کی آواز سنائی دی۔ سوسان نے نوجوان خاتون سے معذرت چاہی اور اپنے بچے کی طرف متوجہ ہوگئی:’’جمی، کیا تمہیں سکول سے اپنے نتیجے کے متعلق اطلاع نامہ مل چکا ہے۔’’ہاں! امی جان۔‘‘’’میرے پیارے بیٹے! یہ مجھے دکھائو، میں تو بہت اشتیاق سے تمہارے نتیجے کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘ اسے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ سوسان نے دوبارہ اپنے بیٹے کو آواز دی:’’جمی! کیا تم بالکل ٹھیک ہو، کیا سکول میں سب اچھا ہے؟‘‘ پھر اس کا گیارہ سالہ بیٹا آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنی ماں کے ہاتھ میں اپنا تعلیمی اطلاع نامہ تھما دیا۔ ماں نے اس کا بغور مطالعہ کیا۔ لڑکے پر اضطراب طاری ہونا شروع ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس اطلاع نامے میں درج ہے، دو مضامین میں’’اے گریڈ، تین مضامین میں ’’بی‘‘ گریڈ، ایک مضمون میں’’ڈی‘‘ گریڈ، اور تاریخ میں بھی’’ڈی‘‘ گریڈ تھا۔ماں آہستہ آہستہ کہنے لگی:’’جیمز!!‘‘ وہ ایک لمحے کے لیے چپ ہوگئی۔ اس نے تعلیمی اطلاع نامے پر دوبارہ نظر درڑائی۔ پھر وہ کہنے لگی:’’بہت ہی شاندار!‘‘لڑکا ہنسنے لگا۔ ماں نے نہایت گرم جوشی سے کہا:’’اس تعلیمی اطلاع نامے کو دیکھو! تم نے دو مضامین میں’’اے گریڈ اور تین مضامین میں’’بی‘‘ گریڈ حاصل کیا۔‘‘ ماں نے لڑکے کی کمر میں اپنے بازو حمائل کر دیئے اور کہا:’’جمی! میں بہت خوش ہوں، تم نے بہت اچھی کامیابی حاصل کی ہے!‘‘ لڑکے نے جلدی سے اپنی ماں کو گلے لگایا، اور پھر وہ کسی قدر خوفزدہ نظر آنے لگا، اور پھر کہا:’’کیا میں تھوڑی دیر باہر کھیلنے کے لیے جا سکتا ہوں؟‘‘ماں مسکرائی اور اپنے بیٹے سے کہا:’’جو بچہ واقعی، اپنے امتحان میں ’’اے‘‘ اور ’’بی‘‘ گریڈ حاصل کرے گا، وہی کھیلنے کے لیے باہر جا سکتا ہے۔‘‘ بچے کا منہ کھلے کاکھلا رہ گیا۔ وہ اپنی ماں کو’’شکریہ‘‘ کہہ کر غائب ہوگیا اور دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ پھر وہ بچہ جلدی سے دوبارہ واپس آیا اور کہنے لگا:’’امی جان! مجھے آپ سے پیار ہے۔‘‘(سپینسر جانسن کی کتاب ’’ون منٹ مدر‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭