باب خیبر
اسپیشل فیچر
درہ خیبر، دنیا بھر میں مشہور ہے۔ روئے زمین کی کسی پہاڑی شاہراہ نے تاریخ اقوام پر اتنا گہرا اثر نہیں چھوڑا جتنا درہ خیبر نے ۔اس کی تاریخ اور سیاسی اہمیت کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ درہ نہ ہوتا تو آج برصغیر پاک وہند کی تاریخ بالکل ہی مختلف ہوتی۔ بظاہر یہ کوئی وادی گل پوش ہے نہ دلکش سیر گاہ، اس میں گنگناتے آبشار اور چشمے ہیں نہ خو ش منظر باغات، تاہم دنیا کے کونے کونے سے سیاح درہ خیبر دیکھنے آتے ہیں۔ وہ اس دشوار گزار اور پرپیچ پہاڑی راستے کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کو جانتے ہیں۔ یہ درہ ہمیں مہم جوئی پر اکساتا ہے ہمارے خون کو حرارت اور دل کو ولولہ تازہ عطا کرتا ہے درس عمل دیتا ہے اور کچھ کارنامہ کر گزرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ درہ خیبر نے تاریخ میں اتنے زیادہ حملے دیکھے اور برداشت کئے ہیں جو ایشیاء کے کسی اور مقام بلکہ دنیا کے کسی اور علاقے نے ہر گز نہیں دیکھے جہاں سورج اور ہوا میں ایسی تاثیر ہے جو ان مردان کہستان کو الجھنے، بڑھنے اور مرنے مارنے پر اکساتی ہے۔ وہ اپنی آزادی کے تحفظ کا راز جانتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ جو قوم اپنی ناموس کے لیے مرنا نہیں جانتی۔ وہ مٹ جایا کرتی ہے۔ مشہور زمانہ ڈیورنڈ لائن درہ خیبر کے بلند پہاڑوں سے گزرتی ہوئی اپنا طویل فاصلہ طے کرتی ہے یہ دنیا کا مشہور درہ سلسلہ کوہ سلیمان میں پشاور سے ساڑھے 17 کلو میٹر(11 میل) کے فاصلے پر قلعہ جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم (پاک افغان بارڈر)56 کلو میٹر (35 میل) تک پھیلا ہوا ہے برصغیر جنوبی ایشیاء کے وسیع میدانوں تک رسائی کے لیے چاہے وہ نقل مکانی کی خاطر ہو یا حملے کی، اس درے نے ہمیشہ تاریخ کے نئے نئے ادوار قائم کئے ہیں۔ یہ درہ قوموں، تہذیبوں، فاتحوں اور نئے نئے مذاہب کی بقاء اور فنا عروج اور زوال کی ایک مکمل تاریخ ہے ایک ریلوے لائن جو فن انجینئرنگ کا عجوبہ ہے1067 میٹر3500 فٹ اونچے درے میں سے گزرتی ہے اور لنڈی خانہ پر ختم ہو جاتی ہے جو پشاور سے 52 کلو میٹر(32 میل) دور ہے۔ تورخم تک پختہ سڑک جاتی ہے۔ تورخم میں سیاحوں کے لیے ایک ہوٹل بھی قائم ہے اس کی لگژری کوچز، درہ خیبر تک چکر لگاتی رہتی ہیں۔ یہاں پہاڑی سلسلہ کبھی تو اتنا کشادہ ہو جاتا ہے کہ گزر گاہ ڈیڑھ کلو میٹر (ایک میل) ہوتی ہے اور کبھی اتنا تنگ کہ صرف 16 میٹر(52 فٹ) رہ جاتی ہے یہاں کی ریلوے لائن عجائبات میں شمار ہوتی ہے۔ جو مسلسل سرنگوں میں سے گزرتی ہوئی۔ انتہائی پیچیدہ راستوں اور پلوں کو پار کرتی ہوئی سرحد افغانستان تک پہنچتی ہے بہرحال یہ درہ خیبر ماقبل تاریخ سے آج تک اقوام عالم کی گزر گاہ رہا ہے اور تاریخ کے صفحات پر اس کے انمٹ نقوش ثبت ہیں۔ مشہور زمانہ ڈیورنڈ لائن درہ خیبر کے بلند پہاڑوں سے گزرتی ہوئی اپنا طویل فاصلہ طے کرتی ہے اور ہمیشہ ایسی کشمکش کو دھراتی ہے جس سے اس درہ کے دونوں طرف کے ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ درہ خیبر، جس علاقے میں واقع ہے اسے خیبر ایجنسی کہا جاتا ہے یہ قبائلی علاقہ’’یاغستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ قبائلی عوام اب تک اپنی قبائلی علاقے کی قدیم روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے اپنے قانون اور دستور ہیں۔ ان کے تمام مقدمات اور معاملات قبائلی جرگوں میں طے کئے جاتے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنسی کا حاکم پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا ہے۔ پولیس کے بجائے ایجنسی میں خاصہ دار اور خیبر رائفلز کے جوان امن و امان قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں خیبر ایجنسی اور تیراہ کے بیسیوں مقامات ایسے ہیں جنہیں مقامی لوگوں کے سوا اب تک کوئی دیکھ نہیں پایا۔ کسی بیرونی شخص کو وہاں جانے کی اجازت نہیں، نہ ہی قبائلی اپنے اندرونی معاملات میں کسی کی مداخلت کو پسند کرتے ہیں۔ خیبر ایجنسی میں پولیٹیکل تحصیلوں لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ پر مشتمل ہے اس کا رقبہ کوئی 995 مربع میل ہے اس علاقے کا انتظام براہ راست وفاقی حکومت کے تحت ہے۔ اس لیے اسے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ یا ’’فاٹا‘‘ کہا جاتا ہے صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر، وفاق کے نمائندے اور صدر پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر ان علاقوں کے انتظامی سربراہ ہیں۔ خیبر ایجنسی میں تقریباً پونے چار لاکھ افراد آباد ہیں جن کی اکثریت آفریدی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم ان علاقوں شنواری، ملاگوری اور شلمانی بھی اس علاقے کے باشندے ہیں۔ ان حریت پسندوں نے پورے 100 سو برس تک فرنگی حکمرانوں کے خلاف جہاد جاری رکھا جہاں تک کہ غیر ملکی سامراجیوں کو یہاں سے نکلتے ہی بن پڑی۔ خیبر ایجنسی کی اصل اہمیت درہ خیبر ہی کے باعث ہے تاریخ کے مختلف ادوار میں وسط ایشیاء سے آنے والے حملہ آور اسی درہ سے گزر پر ہندوستان پہنچتے رہے۔ یہ درہ کیا ہے۔ اونچی نیچی پہاڑیوں کے مابین پیچ وخم کھاتی ہوئی ایک گھاٹی ہے۔ اصل درہ جمرود کچھ آگے شادی گھیاڑ کے مقام سے شروع ہو کر پاک افغان سرحد پر واقع مقام طورخم تک پہنچتا ہے جو کوئی 33 میل لمبا ہے جمرود کے مقام پر اس درہ کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے شاہراہ پر ایک خوبصورت محرابی دروازہ بنایا گیا ہے جسے ’’باب خیبر‘‘ کہتے ہیں یہ دروازہ جون1963ء میں بنا۔ باب خیبر پر مختلف تختیاں نصب ہیں جن پر اس درہ سے گزرنے والے حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام درج ہیں۔’’باب خیبر‘‘ کے پاس ہی جرگہ ہال ہے جہاں قبائلی نمائندوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ جمرود میں ایک اونچے مقام پر مٹیالے رنگ کا قلعہ ہے جس کی شکل و صورت ایک بحری جہاز کی طرح ہے۔ سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے 1836ء میں درہ خیبر کی حفاظت کے لیے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ لیکن اس کے دوسرے ہی سال مسلمان مجاہدین نے ایک معرکہ میں ہری سنگھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان دنوں یہاں خیبر رائفلز کے جوان مقیم ہیں جو پاکستانی سرحدوں کے جیالے پاسبان ہیں قدم کے قصبہ سے لنڈی کوتل کی طرف بڑھیں تو چڑھائی شروع ہوجاتی ہے سڑک کے دونوں جانب ہزار ڈیڑھ ہزار فٹ اونچی پہاڑی چٹانیں ہیں۔ علی مسجد تک پہنچتے پہنچتے سڑک سکڑ کر صرف پندرہ فٹ رہ جاتی ہے۔ علی مسجد کے پاس ایک اونچی جگہ شاہ گئی کا قلعہ ہے۔ علی مسجد کے پاس پانی کے چشمے بھی ہیں لنڈی کوتل اس سڑک پر بلند ترین مقام ہے۔ لنڈی کوتل سے پھر اترائی شروع ہو جاتی ہے۔طورخم افغان سرحد پر آخری پاکستانی چوکی ہے جبکہ سرحد کے پار پہلی افغانی چوکی ڈکہ ہے۔ درہ خیبر میں بہت سی جگہوں پر بودھوں اور ہندو تہذیبوں کے آثار قدیمہ ہیں۔ کافر کوٹ، شوپلا، اسٹوپا وغیرہ ایسے ہی آثار ہیں۔ سکندر اعظم کی فوج کا ایک حصہ درہ خیبر ہی کی راہ پت کال وی (موجودہ چارسدہ) پہنچا۔ ایرانی شہنشاہ دارا کا گزر بھی ادھر سے ہوا۔ محمود غزنوی، تیمور لنگ، بابر، اکبر، ہمایوں، جہانگیر اوراحمد شاہ ابدالی کے مجاہدوں کے قدم بھی انہیں سنگریزوں پر پڑے اور سب سے بڑھ کر وہ برگزیدہ لوگ بھی درہ خیبر ہی کے راستے برصغیر میں وارد ہوئے جنہوں نے اس سرزمین میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور جن کی کوششوں سے کروڑوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تین بار درہ خیبر کا دورہ کیا۔ خیبر کے سرفروشوں نے تحریک حصول پاکستان میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1948ء میں قائداعظم درہ خیبر آئے تو انہوں نے قبائلی عوام پر پورے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوجیں واپس بلالیں۔ اب ساری خیبر ایجنسی میں سکول اور کالج علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ وارسک اور باڑھ کی نہروں سے لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہونے لگی ہے۔ بجلی ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ اہل خیبر تجارت میں مصروف ہیں اور وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ )٭…٭…٭