چاکر اعظم کا قلعہ( ستگھرہ)
اسپیشل فیچر
پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس کی تاریخ بہت قدیم ہے انسانی تاریخ کے کئی ایک واقعات کا تو آغاز ہی یہاں سے ہوا تب سے یہ سرزمین مسلسل آباد ہے ملک کے طول و عرض میں بے شمار ایسے مقامات بکھرے ہوئے ہیں جو گزشتہ ادوار کی تہذیب و تمدن اور وقار کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اوکاڑہ کے نزدیک دریائے راوی کے کنارے پر ایک گائوں ستگھرہ آباد ہے۔ ستگھرہ کی وجہ شہرت عظیم بلوچ سردار میر چاکررند کا قلعہ اور مقبرہ ہے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے علاوہ بلوچ رہنما اکثر یہاں آتے رہتے ہیں۔ میر چاکر رند1468ء میں پیدا ہوا اپنے والد شیحاک کی وفات کے بعد رند قبیلے کا سردار بنا۔ سردار بننے کے بعد میرچاکر رند کی ساری زندگی جنگ و جدل میں بسر ہوئی۔1496ء میں میر چا کر رند نے سلطان شاہ حسین سے امداد حاصل کرنے کے لیے افغانستان کا سفر کیا جہاں اسے بہادری اور شجاعت کا ثبوت دینے کے لیے پاگل ہاتھی اور خونخوار چیتے سے لڑنا اور منہ زور گھوڑے پر سواری کرنا پڑی۔ وہ ان تمام آزمائشوں میں کامیاب ہوا۔ لاشاری قبیلے کے خلاف ’’30 سالہ جنگ‘‘ کے اختتام پر 1519ء میں میرچاکر رند نے بلوچستان کو خیرآباد کہا اور ہجرت کرکے وسطی پنجاب میں آ کر آباد ہوا۔ سبی سے آ کر ستگھرہ میں آباد ہونے کی وجہ تو معلوم نہیں ہے لیکن ستگھرہ پہنچ کر بلوچ سردار نے پرانے گائوں کے ساتھ نیا گائوں آباد کیا۔ اس کے ارد گرد عظیم الشان قلعہ تعمیر کیا۔ میر چاکررند 1540ء میں یہاں خوشحال اور بااختیار زندگی بسر کر رہا تھا یہاں سے اس نے شیر شاہ سوری کی امداد کرنے سے انکار کیا اور اس کی فوج نے میر چاکر کے بیٹے شاہ داد کی کمان میں مغل بادشاہ ہمایوں کو تخت دہلی کے حصول میں مدد دی۔ ہمایوں نے انعام کے طورپر ستگھرہ سمیت ایک بہت بڑی جاگیر، گھوڑے اور غلام میر چاکر رند کے بیٹے کو دیئے۔ 1565ء میں میرچاکر رند نے وفات پائی اور یہیں پر دفن ہوا۔ اس کے ساتھ بلوچوں نے یہاں پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کیا۔ ستگھرہ کا ایک اور مطلب سنسکرت کے لفظ ’’سیتہ‘‘ سے لیا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے ’’سچ‘‘ سنسکرت میں ستگھرہ کا مطلب ہوا سچائی کی سرزمین۔ ستگھرہ، ویسے بھی ایک قدیم تاریخی آبادی ہے جس کا ثبوت ایک اور تاریخی یاد گار ہے جو آبادی کے مقابل سڑک کے دوسری طرف سب سے الگ تھلگ ایک ٹیلے پر پچھلے اور گزرے دنوں کی یاد میں خاموش اور غمزدہ سا کھنڈر ہے یہ کھنڈر چھوٹی اور پیلی پکی اینٹوں سے تعمیر کیے گئے ایک مینار کی عمارت کا ہے۔میر چاکر کا تعمیر کرایا ہوا یہ قلعہ خاصا وسیع ہے دراصل یہ قلعہ کم اور فصیل زیادہ ہے یہ فصیل آبادی کی حفاظت کے لیے تعمیر کرائی گئی تھی۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے گائوں سے باہر اوانچی برجی دکھائی دیتی ہے جو قلعے کے اردگرد 15 میل کے علاقے میں خطرات پر نظر رکھنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ اس دور میں بھی مواصلات کا بسیط نظام وضح کیا گیا تھا۔ کسی خطرے کی صورت میں پہرہ دار برجی پر آگ جلاتا دوسری برجی سے آگ دکھائی دیتی تو وہاں بھی آگ جلا دی جاتی۔ یوں آناً فاناً پورے علاقے میں خبر پھیل جاتی۔ برجی سے آج بھی دور دور تک علاقہ دکھائی دیتا ہے۔ے ستگھرہ کا قلعہ بہت بڑا اور مضبوط تھا۔ اس کی 25 فٹ اونچی دیوار بھی سارے گائوں کا احاطہ کرتی تھی۔ جوں جوں گائوں کی آبادی بڑھتی گئی وہ قلعے سے باہر پھیلتا گیا۔ میر چاکر خان نے لمبی عمر پائی اور جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی آخری آرام گاہ پر اس کے قبیلے والوں نے شاندار مقبرہ تعمیر کیا اور بہت عرصے تک مقبرے کی دیکھ بھال کی گئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میر چاکر کے ساتھ آباد ہونے والے بلوچ خاندان رفتہ رفتہ ادھر ادھر کے علاقوں میں جانے لگے اور آج ان بلوچ قبائل کے نام لیوا پنجاب کے بیشتر علاقوں میں موجود ہیں۔ ہشت پہلو مقبرے کا جو حصہ ابھی موجود ہے وہ اس کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے اب سے 183 سال قبل رنجیت سنگھ نے ملتان جاتے ہوئے یہاں قیام کیا تھا اس کی فوجوں نے مقبرے کی چھت گرا دی اور اس کے نقش و نگار کو برباد کر دیا مقبرے کے اندر مٹی کی سات قبریں ہیں درمیانی قبر پر ایک چھوٹی سی تختی رکھی ہے۔ تو یہ ہے میر چاکر کا مقبرہ! وہ عظیم بلوچ سردا ر جس نے ہزاروں معرکوں کو سر کیا جس کی داستانیں رزمیہ نظموں اور گیتوں میں آج تک موجود ہیں۔(شیخ نوید اسلم کی کتاب ’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ ‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭