چھانگا مانگا :بین الاقوامی سیر گاہ
اسپیشل فیچر
چھانگا مانگا دنیا میں سب سے قدیم نہری ذخیرہ ہے جو کہ بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ یہ لاہور سے 75کلومیٹر کے فاصلے پرتحصیل چونیاںمیں واقع ہے۔ چھانگا مانگا جنگل پہلے ’’سول رکھ‘‘ کی صورت میں تھا جس میں قدرتی طور پر جنڈ، کریر،بیری اور ون وغیرہ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ نہری پانی کی سہولت مہیا ہونے پر 1886ء میں اس کو باقاعدہ نہری ذخیرہ بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا گیا۔ 1888ء تک ذخیرہ کے بیشتر حصہ میں شیشم لگائی گئی۔ بعد میں توت سمبل، بکائن، پاپولر، پیپرملبری، سفیدہ، سرس ، ولو اور بانس کے درخت بھی لگانا شروع کر دئیے گئے۔جب1864-65 ء میں لاہور کے نواح میں جلنے والی لکڑی کی سپلائی کے لیے مصنوعی جنگل کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو780 ایکٹر کا قدرتی حکومتی ملکیتی جنگل1866ء میں مزید بڑے جنگل کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ 1870ء تک اِس کام کی سست روی کے باعث صرف550 ایکٹر رقبہ پر جنگل لگایا جا سکا۔ 1871ء میں اس جنگل کو کچھ سڑکوں اور ذیلی نالوں سے باہم ملا کر1880 ء تک زیر جنگل رقبے کو9000ایکٹر تک لے جایا گیا اور 1879ء میں اِسے جنگلات ایکٹ کے زیر انتظام محفوظ جنگل قرار دے دیا گیا۔اس قدیمی جنگل کا نام’’رکھ چھانگا مانگا‘‘ رہا۔ ریلوے کے سٹیم انجن کوکوئلے کی بجائے جلانے کی لکڑی سے چلانے کی قیمت(اِس وقت 22روپے فی ایک سو من کوئلہ، پنجاب میں67 روپے اور 30 روپے فی سومن کوئلہ جبکہ دہلی کے علاقے میں90روپے فی سومن) کم ثابت ہوئی تو ہندو پاک کے مختلف علاقوں میں ہاتھ سے بوئے جانے والے نہری پانی کے جنگلات لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1866ء میں اسی مقام پر چھانگامانگا کے نام سے ایک عظیم الشان جنگل کی بنیاد رکھی گئی۔ اس جنگل کی بنیاد رکھنے والے انگریز کا نام بی رابن ٹرپ (Mr.B. Ribbentrop)تھا۔ ابتدائی طور پر12ہزار ایکڑ رقبے پر کیکر اور شیشم (ٹالی) کے درخت لگائے گئے۔جب برصغیر میں ریل متعارف ہوئی تو ریلوے انجن میں پتھر کے کوئلے کی بجائے لکڑی استعمال ہوتی تھی چنانچہ ریلوے کی اُس وقت کی ضروریات کے مدِّ نظر یہاں بارہ ہزار پانچ سو دس ایکڑ رقبے پر ایک جنگل لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گو اس منصوبے پر کام کا آغاز تو کچھ پہلے ہو چکا تھا تاہم محکمہ جنگلات کو اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی اور نگرانی کا کام1866ء میں تفویض ہوا۔اس زمانے میں یہاں پانچ ٹرام ہر روز لکڑی کولاتی اورلے جاتی تھیں۔ 1888ء میں ضلع جہلم میں ’’ڈنڈوت‘‘ کے مقام پر کثیر مقدار میں کوئلہ نکلنے پر ریلوے ٹرین میں لکڑی کا متبادل مل گیا تو اس جنگل کی ترقی میںعارضی رکاوٹ آگئی۔وجہ تسمیہ:یہ جنگل چھانگا اور مانگا دو ڈاکوئوں کے نام سے موسوم ہے۔ یہ دونوں اٹھارہویں صدی میں اس جنگل میں رہا کرتے تھے۔ چھانگا مانگا دو محب وطن حریت پسندوں چھانگااور مانگا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ یہ حریت پسند انگریزوں کے خلاف اٹھارہویں صدی میں لڑتے رہے۔ یہ دونو ں بھائی تھے اور انگریزوں کی جانب سے اشتہاری قرار دیئے جانے کے بعد وہ جنگل میں روپوش ہوگئے تھے۔رقبہ:اِس جنگل کا کل رقبہ 12510 ایکٹر ہے جس میں رکھ شاہپور اور موجوکی کا 1671 ایکٹر رقبہ بھی شامل ہے۔ چھانگا مانگا کا جنگل ابتداء میں صرف ایک بے نام جنگل تھا جس میں قدرتی طور پر چند یر، بیری اور وَن وغیرہ کے درخت اُگے تھے۔ نہری پانی کی سہولت مہیا ہونے کے بعد 1886ء میں اس کو باقاعدہ نہری جنگل بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا گیا۔1888ء تک بیشتر حصہ میں شیشم کے درخت لگائے گئے۔ بعد میں شہتوت، سنبل ، بکائن ، پاپلر،پیپر ملبری ، سفیدہ ، سرس ،وِلو اور بانس کے درخت بھی لگائے گئے۔ 6مارچ 1979ء کو چھانگا مانگا جنگل کو باقاعدہ جنگل کا نام دیا گیا۔جنگل میں1866ء تا 1868ء تک صرف شیشم لگائی گئی۔ 1868ء تا1936ء میں پنجاب کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ایندھن او رٹمبر کی مانگ پوری کرنے کے لئے مزید شیشم لگانا پڑی۔ لاہور سے جمبر کے راستے 48میل دور 20مربع میل رقبہ پر مشتمل اِس جنگل میں اُگنے والی لکڑی کی مارکیٹ بعد ازاںگوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، امر تسر، کرتار پور، سکھر،بٹالہ، دھری وال اور کوئٹہ تک پھیل گئی۔1888 ء کے بعد جلانے والی لکڑی کی طلب برائے ریلوے ختم تو ہوگئی لیکن پنجاب بھر میں سب سے عالی شان چھانگامانگا لکڑی کی طلب بڑھ چکی تھی اور اس کا حل نہری پانی سے بڑھنے والے ہاتھ کے لگائے جنگلات تھے۔اس جنگل میں ابتداء میں شیشم اگائی گئی لیکن سری لنکا اور ہندوستان سے روس، سائبیریا، ایشیاء کی ٹھنڈی چراگاہوں اور جھیلوں کی طرف ہجرت کرنے والے روزی سٹارلنگ نامی اس جنگل میں عارضی قیام پذیرہجرتی پرندوں کے شہتوت کھا کر بیٹھوں کے ذریعے شہتوت کے پھیلنے والے بیجوں کے ذریعے اس جنگل میں چہار اطراف شہتوت کے درخت پھیلتے چلے گئے اور جنگل کے کچھ حصوں میں یہ درخت چھا گئے۔قومی پارک میں سیاحوں کی آمد:چھانگا مانگا جنگل کو 1960ء میں قومی پارک بنایا گیا۔ سیاحوں کی تفریح کے لئے چڑیا گھر، مہتابی جھیل، کشتیاں، تالاب، لکڑی کے ہٹ، چلڈرن پارک اور دیگر سہولیات مہیا کی گئیں ۔ سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام ہے۔ یہاں ملکی او رغیر ملکی سیاح ہر سال تفریح کے لئے تقریباً 3 لاکھ کی تعداد میں آتے ہیں۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار اور سرکاری چھٹی کے دن مہتابی جھیل تک لے جانے او رلانے کے لئے فارسٹ ٹرین(ٹرام) کی سہولت موجود ہے۔ 4000 افراد جنگل میں مختلف کالونیوں میں رہتے ہیں۔جنگل کے مقامی لوگ توت کے پتوںسے ہر سال تقریبا 4500 اونس ریشم کے کیڑے پالتے رہے ہیں جس سے تقریباً4000 ہزار من خام ریشم حاصل ہوتاتھا۔ 1981ء کے مالی سال میںٹہنیوں اور پتوں کی فروخت سے 20,19000 روپے کی آمدنی ہوئی۔ لکڑی اور ایندھن ذخیرہ سے سیل ڈپو تک چھوٹی ریل گاڑی کے ذریعے لے جائی جاتی ہے۔ ڈیزل یا بھاپ سے چلنے والے انجن 25ٹرالیوں پر مشتمل گاڑی کو کھینچ کر یکبارگی35ٹن لکڑی لے جاتے ہیں۔ یہ ریل کی مستقل پٹٹری16.50 میل لمبی ہے اور عارضی پٹٹری 3.5 میل لمبی ہے۔مقامی چڑیاگھرمیں ہرن ،مور، عقاب، گدھ اور جنگلی مرغیاں موجود ہیں۔ جنگل میں نیل گائے، ہرن، خرگوش، مور، تیتر، گیڈر اور بڑے سائز کے بلے بھی ہیں۔محکمہ جنگلات کے ریکارڈ کے مطابق عین اس جگہ جہاں اب چھانگا مانگا کے ہرے بھرے جنگلات بہارِ جانفزا دکھلا رہے ہیں زمانہ قدیم سے ایک خودرو جنگل چلا آ رہا تھا جس میں جَنڈ، کَریر، بیری اور وَن کے درخت ہوا کرتے تھے۔مقامی روایات کے مطابق یہ جنگل ’’چھانگا‘‘ اور ’’مانگا‘‘ نامی دو ڈاکوئوں کی کمین گاہ تھا جنہوں نے انگریز کی قید سے فرار ہو کر اس جنگل میں آ ڈیرہ لگایا تھا۔ ان ڈاکوئوں کی جو آپس میں سگے بھائی بھی تھے اٹھارہویں صدی عیسوی میں اردگرد کے علاقے میں بہت دہشت تھی۔ انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اس طرف سے گزرنے والے اِکّا دُکّا مسافروں اور قافلوں پر حملہ آور ہوتے اور لوٹ مار کے بعد جنگل میں روپوش ہو جاتے۔ حکومت ان کی کارروائیوں سے سخت نالاں تھی اور انہیں قرار واقعی سزا دینا چاہتی تھی لیکن وہ ہر بار جُل دے جاتے۔ بالآخر مارے گئے لیکن اس جنگل کی شکل میں ان کا نام زندہ جاوید ہو گیا۔سیاحوں کے لیے سہولیات: سیاحوں کے بہت سے چھوٹے بڑے گروپ صبح سویرے یہاں پہنچ جاتے ہیں اور کئی خوبصورت یادوں کے ساتھ گھر واپس لوٹتے ہیں۔ ان کی تفریح کے لیے فی الوقت یہاں پر جو سہولیات میسر ہیں ان میں ایک مصنوعی جھیل،2 معلّق پُل، چلڈرن پارک، گھاس کے وسیع و عریض میدان اور اِکّا دُکّاسیاحوں کو گوشہ تنہائی مہیا کرنے کے لیے جا بجا بنی ہوئی چھتریاں شامل ہیں۔ چلڈرن پارک کے اندر بچوں کے لیے کئی طرح کے پنگوڑے اور بجلی سے چلنے والے جھولے نصب ہیں جن سے بچوں کے علاوہ بڑے بھی برابر لطف اندوز ہوتے ہیں۔(سید ظفر عباس نقوی کی تصنیف ’’ سیاحتِ ضلع قصور‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭