دنیا مومن کے لئے قید خانہ
اسپیشل فیچر
زندگی نام رکھ دیا کس نے موت کا انتظار ہے دنیاارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’تم فرمادوکہ دنیا کا برتناتھوڑاہے اورڈروالوں کیلئے آخرت اچھی‘‘ (کنزالایمان سورۃ النساء 77)اللہ رب العزت نے نسل انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کیلئے کم و بیش ایک لاکھ24 ہزارانبیائے کرام مبعوث فرمائے ہرنبی نے اللہ کے حکم کے مطابق نسل انسانی کوہدایت و رہنمائی کی راہ دکھلائی۔ قربان جائوںحضرت آمنہؓ کے لال، فخر موجودات،سرورکائنات محمدرسولؐ اللہ پرجن کو اللہ پاک نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ صدشکرہے اس ذات پاک کاجس نے ہمیں نبی آخرالزماں ؐ کی امت میں پیداکیا۔مسلمان بھائیو!یہ دنیا فانی ہے اس نے ایک دن فناہوجاناہے۔ ہم نے اس دنیاسے محبت توکررکھی ہے پراسکی حقیقت کونہیں جانا ۔ ہم اسکی لذتوں میں مشغول ہوگئے جن پر ہم قیامت کے دن پچھتائیں گے کہ کاش ہم نے یہ لذتیں نہ لی ہوتیں،اُس دن صرف پچھتاوا ہوگااورکچھ نہیں۔مولاناروم ؒ سے کسی نے دنیا کی حقیقت پوچھی تو انہوںنے کہا’’دنیاکی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں چلا جاتاہے اس نے دیکھا پیچھے شیرچلا آرہا ہے ، وہ بھاگتاہے جب تھک جاتاہے تودیکھتا ہے کہ سامنے ایک گڑھاہے ۔ وہ چاہتاہے کہ گڑھے میں گرکرجان بچا ئے مگرگڑھے میں اژدھا نظر آتاہے ،اتنے میں درخت کی ایک ٹہنی پرنظرپڑتی ہے وہ ٹہنی پکڑ کر درخت پر چڑھ جاتاہے۔درخت پر چڑھنے کے بعد اسے پتاچلتاہے کہ دوچوہے( ایک سفید اور ایک سیاہ) درخت کی جڑکاٹ رہے ہیں ۔وہ بہت پریشان ہوتاہے کہ کچھ دیرمیں درخت گر جائیگا اور میں شیراوراژدھے کاشکار ہو جائو ں گااتنے میں اسے شہد کا چھتا نظر آ تا ہے ۔وہ شہدپینے میں ا تنا مشغو ل ہوجاتاہے کہ شیر اژدھے اورچوہوں کا ڈر نہ رہا ۔ اتنے میں درخت کی جڑکٹ گئی وہ گر پڑا ،شیرنے اسے چیر پھاڑکرگڑھے میں گرادیاجہاں اژدھے نے اُسے نگل لیا۔مولانارومؒ اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگل سے مرادیہ دنیا ہے شیرسے مراد موت ہے جوپیچھے لگی ہے گڑھاقبرہے جوانسان کے آگے ہے اژدھا برے اعمال ہیں جو قبر میں عذاب دیں گے ، چوہے دن اوررات ہیں درخت عمرہے جوہر گزرنے والے دن پرکم ہورہی ہے اور شہد کا چھتا دنیا کی غافل کر دینے والی لذتیں ہیں کہ انسان اعمال کی جواب دہی ،موت، قبرسب بھول جاتاہے اورموت اسے اچانک آن لیتی ہے۔ اصل میں دنیا کی حقیقت بھی یہی ہے، دنیاوی زندگی چارقسم کی ہے۔ طغیانی ،شیطانی، انسانی، ایمانی..طغیانی زندگی وہ ہے جواللہ پاک اوراس کے محبوب ؐکی مخالفت میں گزرے جیسے فرعون یاابوجہل کی زندگی۔ نفسانی و شیطانی زندگی وہ ہے جونفس امارہ کی پرورش اوررب تعالیٰ سے غفلت میں گزرے جیسے عام غافل زندگی گزارتے ہیں۔ ایمانی زندگی وہ زندگی ہے جو آخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابہ کرام ؓنے اپنی زندگیاں گزاریں۔قیامت کے دن کافروںکے دلوں پرغشی چہروں پرسیاہی چھا جائیگی ۔ مسلمانوں کے دلوں پرخوشی اورچہروں پر روشنی ہو گی کیونکہ جومومن ہوتاہے وہ اپنی زندگی اللہ اور اس کے محبوبؐ کے حکم کے مطابق گزارتا ہے مگر کافر اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارتا ہے۔اسی لئے دنیا کا سامان کافر کیلئے موت کے بعدکام نہیں آ تا لیکن مومن کواس کی دنیاموت کے بعدبلکہ قیامت کے دن بھی کام آئیگی۔ اگرکوئی مومن دنیامیں صدقہ جاریہ کرکے جاتاہے موت کے بعدبھی اس کویہ ثواب ملتا رہتا ہے۔کافرکی زندگی دنیاکی زندگی ہے اور مومن کی زندگی دینی زندگی ہے کیونکہ کافرکی زندگی خودی کیلئے ہے اورمومن کی زندگی خداکیلئے ہے ۔کا ش کہ میں دنیامیں پیدانہ ہواہوتاقبر و حشر کا سب غم ختم ہو گیا ہوتاارشادباری تعالیٰ ہے۔’’دنیاکی زندگی کی مثال توایسے ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتاراتواس کے سبب زمین سے اُگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکرنکلیں جو کچھ آدمی اورچوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپناسنگھارلے لیااورخوب آراستہ ہوگئی اوراس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہماراحکم اس پرآیارات میں یادن میں توہم نے اسے کردیاکاٹی ہوئی گویاکل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کیلئے‘‘ (کنزالایمان سورہ یونس پارہ 11آیت نمبر24 ) اس آیت کریمہ میں دنیاوی زندگی کوبارش کے پانی سے تشبیہ چندوجوہات سے دی گئی ہے ۔پہلی وجہ تویہ ہے کہ کنوئیں ،تالاب کاپانی قبضے میں ہوتاہے مگربارش کاپانی قبضے میں نہیں ہوتا ایسے ہی دنیاکے حالات ہمارے قبضے سے باہرہیں۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ بارش کبھی ضرورت سے زیادہ آجاتی ہے کبھی ضرورت سے کم کبھی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بالکل نہیں ہوتی ایسے ہی دنیاکاحال ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے آنے کاوقت معلوم نہیں ہوتاایسے ہی دنیاہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر بارش نہ ہو،تو مصیبت ،زیادہ ہوتوآفت ہے اسی طرح دنیانہ ہوتوتکلیف، زیادہ ہوتوآفت ہے۔ اسی طرح کافر مشقت سے دنیاجمع کرتا ہے جب جمع ہوجاتی ہے تووہ یہ سمجھتاہے کہ اب یہ میری ہوچکی ہے۔ اچانک یا تو مر جاتا ہے یا دنیااس سے رخصت ہوجاتی ہے پھر اس وقت افسوس کرتاہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بارش کا پانی باغ میں پڑکرپھول اگاتاہے ،خارمیں پہنچ کرکانٹے۔ اسی طرح دنیا کافرکے پاس پہنچ کر کفر بڑھاتی ہے اورمومن کے پاس جاکرایمان میں برکت دیتی ہے۔ ابوجہل نے مال سے دوزخ کو خریدا جبکہ حضرت عثمان غنی ؓنے اپنے مال سے دنیا میں جنت کی بشارت پائی۔اللہ والے دنیاکواپنے پاس رکھتے بھی نہیں ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عمرفاروقؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ یہ تینوں خلفائے کرام ایسے ہیں جنہوں نے عملی طو ر پرکبھی زکوٰۃ نہیں نکالی۔ جب ان خلفائے کرام کی حالات زندگی کا مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ انکے پاس جوکچھ بھی آتاتھاوہ اللہ کے نام پردے دیتے تھے ۔مسلمان بھائیو!ہمیں اس بے وفا دنیا پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے یہ اس وقت دھوکادیتی ہے جب اسکی ضرورت ہوتی ہے ۔دنیاکی نا پا ئید ا ر ی اور یہاں مصیبتوں کااچانک آجانابھی عقلمند کو درس عبرت دیتاہے۔ بہت سے غافل دنیاکھوکر آنکھیں کھولتے ہیں اوراپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔جگاجی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیںہے آپؐ کی خدمت اقدس میںایک شخص شام کی سرزمین سے حاضرہوا،حضورنبی کریمؐ نے اس سے وہاں کی زمین کے بارے میں دریافت کیا؟ اس شخص نے شام کی زمین کی کشادگی اوراسکی قسم قسم کی پیداوارکاتذکرہ کیا۔آقاؐنے پوچھاتم کیاکرتے ہو ؟ اس شخص نے عرض کیایارسولؐ اللہ! ہم مختلف قسم کے اناج کاشت کرتے ہیں اورپھرنت نئی ڈشیں تیا ر کر کے انہیں کھاتے ہیں ۔آقاؐنے پوچھا پھر کیا ہو تا ہے ؟اس شخص نے عرض کیا رفع حاجت اور کیا۔ سرکارمدینہ راحت قلب وسینہؐ نے ارشادفرمایا ’’یہی مثال دنیاکی ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مندوہ ہے جودنیا(کی محبت) کو سب سے زیادہ چھوڑنے والاہو۔‘‘ہم آخرت کی ابدی زندگی کوچھوڑکردنیاکی فانی زندگی میں لگ گئے ہیں ہمیں نہ حقوق اللہ کاخیال ہے نہ حقوق العباد کا ۔ ہم نے اللہ پاک اوراسکے محبوب ؐکے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس دنیا نے ایک دن فنا ہوناہے ،باقی رہے گی توصرف رب ذوالجلال کی ذات ۔ہمیں چاہیے کہ اس ذات سے محبت کریں جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر اپنے نبی کریمؐ کی امت میں پیدا کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اس دن آدمی یاد کریگا جو کوشش کی تھی اور جہنم ہردیکھنے والے پر ظاہر کی جائیگی تووہ جس نے سرکشی کی اور دنیاکی زندگی کوترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اسکا ٹھکانا ہے۔ (پارہ 30سورہ النٰزعٰت آیت 35،39)یہاںپرتوہم عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں ہم نے دنیاکواپناپکاٹھکانہ سمجھ رکھا ہے۔اے مسلمانو!ایک دن وہ بھی آئے گاکہ اس دن انسان کے سامنے اسکی زندگی کی فلم گھومنے لگے گی، اگردنیاکی زندگی ہم نے اچھے کاموں میں گزاری توقیامت کے دن خوشی کی انتہانہ ہوگی۔ اگردنیاکی زندگی بداعمالیوں میں گزاری تواس روزافسوس ہوگا، قیامت کے دن ہمارے اعضاء گواہی دیں گے۔ قیامت کے دن اولادآدم دوگروہوں میں ہوگی ایک گروہ ان لوگوں کاہوگاجنہوں نے سرکشی اختیارکی، حدوداللہ کو تو ڑ ا ہو گادنیاوی زندگی کے آرام وآسائش کو ابدی زندگی کے آرام وآسائش پرترجیح دی ہوگی۔ آج ہمیں نما ز یا د ہے نہ زکوٰۃ ، صدقات نہ روزہ وحج۔ کل بروزقیامت ہم پچھتائیں گے کہ افسوس صد افسوس ہم نے زندگی گناہوں میں نہ گزاری ہوتی ۔ کاش ہم نے اپنی زندگی میں حقوق اللہ وحقوق العبادکاخیال رکھاہوتا، پراس دن صرف پچھتاناہی ہوگا۔ دوسراگروہ ان لوگوںکا ہو گاجواپنی پوری زندگی یہ تصورکرکے ڈرتے رہے کہ ہم نے ایک دن اللہ پاک کے روبروکھڑے ہو نا ہے اپنی ساری زندگی شریعت کے حکم کے مطابق گزاری ہوگی حقوق اللہ اورحقوق العباد کا خیال رکھا ہوگا۔ایسے لوگوں کیلئے جنت کی بہاریں ہونگی ۔موت سے غافل نہ ہواے بے خبرہے تومہمان ایک ساعت دنیا پرحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’دنیامومن کاقیدخانہ اورکافرکی جنت ہے‘‘۔حضرت اسودبن قیسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جندؓ کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناکہ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق اعظمؓ آقاؐکی خدمت اقدس میںحاضرہوئے اوردیکھاآپؐ کی کمرمبارک پر چٹا ئی کے نشان پڑے ہوئے تھے ۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کرآبدیدہ ہوگئے ۔ آقاؐنے فرمایا’’اے عمر!تجھے کس چیزنے آبدیدہ کر دیا؟ انہوں نے عر ض کیایارسولؐ اللہ !مجھے قیصروکسریٰ یادآگئے اللہ کے دشمن عیش وعشرت کی زندگی بسرکریں اور محبوبؐ خداکی یہ کیفیت کہ چٹائی کے نشان کمرپر۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ ان لوگوں نے دنیاوی زندگی میں لذتیں اٹھانے میں جلدی کی جبکہ ہمارے لئے اللہ نے اخروی نعمتوںکاذخیرہ فرمارکھاہے‘‘۔دین اسلام ہمیں یہ نہیں کہتاکہ رزق حلال کمانا چھوڑ دواوررہبانیت اختیار کر ویا جنگل بیاباں میں جا کر اللہ اللہ کرو۔انسان کوچاہیے کہ دنیامیں اپنے قیام کوایسے تصور کرے جیسے ایک مسافراسٹیشن پر گا ڑ ی کا انتظا ر کرتا ہے اور اپنے دوسرے سفرکی تیاری میں ہو۔ سیدناعلی المرتضیٰ شیرخدا فرمایا کرتے تھے کہ’’ لوگو!میں تمہارے متعلق دوچیزوں سے خوفزدہ ہوں۔ 1:ناختم ہونیوالی امیدیں 2:خواہشات کی پیروی ‘‘۔حضرت سہل بن سعدساعدی ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضرہوااوراس نے عرض کیایارسولؐ اللہ مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جسے کرنے سے اللہ پاک بھی مجھ سے محبت کرے اورلوگ بھی، آپؐ نے فرمایا’’دنیاسے بے رغبت ہوجا اللہ پاک بھی تجھ سے محبت کریگا ا و ر جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہو جا لوگ بھی تجھ سے محبت کریں گے(ابن ما جہ ، شعب الایمان)نبی کریم رئوف رحیمؐ کاارشادپاک ہے ’’دنیامومن کیلئے قید،قبرقلعہ اورجنت اس کی منزل وٹھکانہ ہے جبکہ دنیاکافرکیلئے جنت، قبر قید اور جہنم اسکاٹھکانہ ہے ‘‘۔حضرت فقیہ سمرقندیؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا(کہ دنیامومن کیلئے قید ہے)سے مرادیہ ہے کہ مومن اگرچہ دنیامیں نعمتوں اورکشادگیوں میں ہولیکن جونعمتیں اللہ رب نے اس کیلئے جنت میں تیار کررکھی ہیں ان کودیکھ کروہ یوں ہی سمجھے گاکہ دنیاتواس کیلئے قیدہے کیونکہ جب کسی مومن کا وقت موت قریب آتاہے اوروہ موت کے پل کوعبورکرکے آخرت کی طرف محوسفرہوتاہے توجنت اس کے سامنے کردی جاتی ہے جب وہ جنت میں اپنے لئے طرح طرح کی نعمتوں کودیکھتاہے تویہ محسوس کرتاہے کہ وہ تو قید خانے میں رہااسی طرح جب کسی کافرکو موت میں کساجاتاہے تواس کے سامنے دوزخ کردی جاتی ہے وہ جہنم کے دہکتے انگارے ،عقوبت و سز ا د یکھتا ہے تودنیااسے جنت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت عما ر بن یاسرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں سرور کون ومکاںؐ کو فرماتے ہوئے سنا’’نیک لوگ دنیا سے بے رغبتی کے علاوہ کسی اور چیزکے ساتھ خوبصورت نہیں لگتے۔(مسندابویعلیٰ)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’دنیاسے بے رغبتی دل اورجسم (دونوں)کوسکون بخشتی ہے ‘ ‘ ۔ ( طبر ا نی ) حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ختم المرسلین ؐنے ارشادفرمایاجوشخص دنیاسے کٹ کر صرف اللہ کی (راہ کی) طرف ہوجائے اللہ تعالیٰ اسکی ہرضرورت پوری کرتاہے اوراسے وہاں سے رزق دیتاہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہواورجوشخص( اللہ تعالیٰ سے) کٹ کردنیاکی طرف ہوجاتاہے تواللہ پاک اسے اسی (دنیا)کے سپردکردیتاہے۔(طبرانی فی المعجم الاوسط)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ پاک فرماتاہے اے ابن آدم ! تومیری عبادت کیلئے فارغ توہومیں تمہاراسینہ بے نیازی سے بھردونگا اور تیرا فقروفاقہ ختم کر دونگا اگر تو ایسا نہیں کریگا تو میں تیرے ہاتھ کام کاج سے بھر دونگا اور تیری محتاجی( کبھی) ختم نہیں کرونگا ‘‘۔ حضرت جعفر بن محمدؒ روایت کرتے ہیں کہ محبوب خدانے حضرت علی المرتضیٰؓ شیرخدا کوارشادفرمایا’’اے علی چار خصلتیں بدبختی کی علامتیں ہیں1۔آنکھوں سے آنسوئوںکاخشک ہونا 2۔سنگدل ہونا 3۔دنیا کی ہوس ومحبت 4۔لمبی امیدیں‘‘۔ہم نے اللہ پاک اوراس کے محبوبؐ کا سہارا چھوڑ دیاہے اس لئے دربدرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کائنات میں ہمارے لئے اللہ پاک اوراس کے محبوبؐ سے بڑھ کراورکوئی سہارا نہیں۔ اگر ہمارا بھروسہ اللہ پاک پرہوتا توہم یقینا اس دنیاسے بے رغبت ہوجاتے۔ ہم رزق کی لالچ میں پھررہے ہیں حالانکہ رزق ہمیں اس طرح تلاش کرتاہے جس طرح موت تلاش کرتی ہے۔جب وقت مقرر پورا ہو جائے ہم مضبوط سے مضبوط قلعوں میں بھی داخل ہو جائیں توموت آجاتی ہے اسی طرح ہماری قسمت میں جورزق لکھاہواہے وہ ہمیںضرور ملے گا۔ انسان کابھروسہ اللہ پاک پرہوتورزق انسان کے پاس اس طرح آتاہے کہ انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔حضرت عمربن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’اگرتم اللہ تعالیٰ پراس طرح بھروسہ کرتے جیسابھروسہ کرنیکاحق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیاجاتاجس طرح پرندو ں کو د یا جاتاہے وہ صبح کوبھوکے نکلتے ہیں اورشام کوپیٹ بھرکرواپس آتے ہیں ‘‘۔ (ترمذی)اے انسان تواپنے زندگی خدااورمصطفیؐ کی رضامیںگزار،اگرتیری زندگی انکی رضامیں گزری تو قریب ہے کہ جب تیراوقت رخصت ہوگا تواللہ پاک کی طرف سے یہ نداآئیگی۔ ترجمہ ’’اے اطمینان والی روح ، اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی ، پس میرے بندوں میں شامل ہو ، اور میری جنت میں داخل ہو ۔‘‘ (سورہ الفجرآخری آیہ مبارکہ)اللہ رب العزت سے دعاہے کہ تمام مسلمانوںکو صراط مستقیم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔دنیاکی محبت ہمارے دلوں سے نکال کر اپنی اوراپنے محبوبؐ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے تاکہ بروز قیامت ہم تیرے محبوبؐ کی شفاعت اورتیری جنت کے حقداربن جائیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو جذبہ ایمانی نصیب فرمائے، شیطان اور اس کے پیروکاروں سے بچائے، نبی ؐکی غلامی نصیب فرمائے۔ آمین٭٭٭