دنیا مومن کے لئے قید خانہ

دنیا مومن کے لئے قید خانہ

اسپیشل فیچر

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی


زندگی نام رکھ دیا کس نے موت کا انتظار ہے دنیاارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’تم فرمادوکہ دنیا کا برتناتھوڑاہے اورڈروالوں کیلئے آخرت اچھی‘‘ (کنزالایمان سورۃ النساء 77)اللہ رب العزت نے نسل انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کیلئے کم و بیش ایک لاکھ24 ہزارانبیائے کرام مبعوث فرمائے ہرنبی نے اللہ کے حکم کے مطابق نسل انسانی کوہدایت و رہنمائی کی راہ دکھلائی۔ قربان جائوںحضرت آمنہؓ کے لال، فخر موجودات،سرورکائنات محمدرسولؐ اللہ پرجن کو اللہ پاک نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔ صدشکرہے اس ذات پاک کاجس نے ہمیں نبی آخرالزماں ؐ کی امت میں پیداکیا۔مسلمان بھائیو!یہ دنیا فانی ہے اس نے ایک دن فناہوجاناہے۔ ہم نے اس دنیاسے محبت توکررکھی ہے پراسکی حقیقت کونہیں جانا ۔ ہم اسکی لذتوں میں مشغول ہوگئے جن پر ہم قیامت کے دن پچھتائیں گے کہ کاش ہم نے یہ لذتیں نہ لی ہوتیں،اُس دن صرف پچھتاوا ہوگااورکچھ نہیں۔مولاناروم ؒ سے کسی نے دنیا کی حقیقت پوچھی تو انہوںنے کہا’’دنیاکی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں چلا جاتاہے اس نے دیکھا پیچھے شیرچلا آرہا ہے ، وہ بھاگتاہے جب تھک جاتاہے تودیکھتا ہے کہ سامنے ایک گڑھاہے ۔ وہ چاہتاہے کہ گڑھے میں گرکرجان بچا ئے مگرگڑھے میں اژدھا نظر آتاہے ،اتنے میں درخت کی ایک ٹہنی پرنظرپڑتی ہے وہ ٹہنی پکڑ کر درخت پر چڑھ جاتاہے۔درخت پر چڑھنے کے بعد اسے پتاچلتاہے کہ دوچوہے( ایک سفید اور ایک سیاہ) درخت کی جڑکاٹ رہے ہیں ۔وہ بہت پریشان ہوتاہے کہ کچھ دیرمیں درخت گر جائیگا اور میں شیراوراژدھے کاشکار ہو جائو ں گااتنے میں اسے شہد کا چھتا نظر آ تا ہے ۔وہ شہدپینے میں ا تنا مشغو ل ہوجاتاہے کہ شیر اژدھے اورچوہوں کا ڈر نہ رہا ۔ اتنے میں درخت کی جڑکٹ گئی وہ گر پڑا ،شیرنے اسے چیر پھاڑکرگڑھے میں گرادیاجہاں اژدھے نے اُسے نگل لیا۔مولانارومؒ اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگل سے مرادیہ دنیا ہے شیرسے مراد موت ہے جوپیچھے لگی ہے گڑھاقبرہے جوانسان کے آگے ہے اژدھا برے اعمال ہیں جو قبر میں عذاب دیں گے ، چوہے دن اوررات ہیں درخت عمرہے جوہر گزرنے والے دن پرکم ہورہی ہے اور شہد کا چھتا دنیا کی غافل کر دینے والی لذتیں ہیں کہ انسان اعمال کی جواب دہی ،موت، قبرسب بھول جاتاہے اورموت اسے اچانک آن لیتی ہے۔ اصل میں دنیا کی حقیقت بھی یہی ہے، دنیاوی زندگی چارقسم کی ہے۔ طغیانی ،شیطانی، انسانی، ایمانی..طغیانی زندگی وہ ہے جواللہ پاک اوراس کے محبوب ؐکی مخالفت میں گزرے جیسے فرعون یاابوجہل کی زندگی۔ نفسانی و شیطانی زندگی وہ ہے جونفس امارہ کی پرورش اوررب تعالیٰ سے غفلت میں گزرے جیسے عام غافل زندگی گزارتے ہیں۔ ایمانی زندگی وہ زندگی ہے جو آخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابہ کرام ؓنے اپنی زندگیاں گزاریں۔قیامت کے دن کافروںکے دلوں پرغشی چہروں پرسیاہی چھا جائیگی ۔ مسلمانوں کے دلوں پرخوشی اورچہروں پر روشنی ہو گی کیونکہ جومومن ہوتاہے وہ اپنی زندگی اللہ اور اس کے محبوبؐ کے حکم کے مطابق گزارتا ہے مگر کافر اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارتا ہے۔اسی لئے دنیا کا سامان کافر کیلئے موت کے بعدکام نہیں آ تا لیکن مومن کواس کی دنیاموت کے بعدبلکہ قیامت کے دن بھی کام آئیگی۔ اگرکوئی مومن دنیامیں صدقہ جاریہ کرکے جاتاہے موت کے بعدبھی اس کویہ ثواب ملتا رہتا ہے۔کافرکی زندگی دنیاکی زندگی ہے اور مومن کی زندگی دینی زندگی ہے کیونکہ کافرکی زندگی خودی کیلئے ہے اورمومن کی زندگی خداکیلئے ہے ۔کا ش کہ میں دنیامیں پیدانہ ہواہوتاقبر و حشر کا سب غم ختم ہو گیا ہوتاارشادباری تعالیٰ ہے۔’’دنیاکی زندگی کی مثال توایسے ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتاراتواس کے سبب زمین سے اُگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکرنکلیں جو کچھ آدمی اورچوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپناسنگھارلے لیااورخوب آراستہ ہوگئی اوراس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہماراحکم اس پرآیارات میں یادن میں توہم نے اسے کردیاکاٹی ہوئی گویاکل تھی ہی نہیں ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کیلئے‘‘ (کنزالایمان سورہ یونس پارہ 11آیت نمبر24 ) اس آیت کریمہ میں دنیاوی زندگی کوبارش کے پانی سے تشبیہ چندوجوہات سے دی گئی ہے ۔پہلی وجہ تویہ ہے کہ کنوئیں ،تالاب کاپانی قبضے میں ہوتاہے مگربارش کاپانی قبضے میں نہیں ہوتا ایسے ہی دنیاکے حالات ہمارے قبضے سے باہرہیں۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ بارش کبھی ضرورت سے زیادہ آجاتی ہے کبھی ضرورت سے کم کبھی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بالکل نہیں ہوتی ایسے ہی دنیاکاحال ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے آنے کاوقت معلوم نہیں ہوتاایسے ہی دنیاہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر بارش نہ ہو،تو مصیبت ،زیادہ ہوتوآفت ہے اسی طرح دنیانہ ہوتوتکلیف، زیادہ ہوتوآفت ہے۔ اسی طرح کافر مشقت سے دنیاجمع کرتا ہے جب جمع ہوجاتی ہے تووہ یہ سمجھتاہے کہ اب یہ میری ہوچکی ہے۔ اچانک یا تو مر جاتا ہے یا دنیااس سے رخصت ہوجاتی ہے پھر اس وقت افسوس کرتاہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بارش کا پانی باغ میں پڑکرپھول اگاتاہے ،خارمیں پہنچ کرکانٹے۔ اسی طرح دنیا کافرکے پاس پہنچ کر کفر بڑھاتی ہے اورمومن کے پاس جاکرایمان میں برکت دیتی ہے۔ ابوجہل نے مال سے دوزخ کو خریدا جبکہ حضرت عثمان غنی ؓنے اپنے مال سے دنیا میں جنت کی بشارت پائی۔اللہ والے دنیاکواپنے پاس رکھتے بھی نہیں ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ حضرت عمرفاروقؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ یہ تینوں خلفائے کرام ایسے ہیں جنہوں نے عملی طو ر پرکبھی زکوٰۃ نہیں نکالی۔ جب ان خلفائے کرام کی حالات زندگی کا مطالعہ کیا گیا تو پتا چلا کہ انکے پاس جوکچھ بھی آتاتھاوہ اللہ کے نام پردے دیتے تھے ۔مسلمان بھائیو!ہمیں اس بے وفا دنیا پر گھمنڈ نہیں کرناچاہیے یہ اس وقت دھوکادیتی ہے جب اسکی ضرورت ہوتی ہے ۔دنیاکی نا پا ئید ا ر ی اور یہاں مصیبتوں کااچانک آجانابھی عقلمند کو درس عبرت دیتاہے۔ بہت سے غافل دنیاکھوکر آنکھیں کھولتے ہیں اوراپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔جگاجی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیںہے آپؐ کی خدمت اقدس میںایک شخص شام کی سرزمین سے حاضرہوا،حضورنبی کریمؐ نے اس سے وہاں کی زمین کے بارے میں دریافت کیا؟ اس شخص نے شام کی زمین کی کشادگی اوراسکی قسم قسم کی پیداوارکاتذکرہ کیا۔آقاؐنے پوچھاتم کیاکرتے ہو ؟ اس شخص نے عرض کیایارسولؐ اللہ! ہم مختلف قسم کے اناج کاشت کرتے ہیں اورپھرنت نئی ڈشیں تیا ر کر کے انہیں کھاتے ہیں ۔آقاؐنے پوچھا پھر کیا ہو تا ہے ؟اس شخص نے عرض کیا رفع حاجت اور کیا۔ سرکارمدینہ راحت قلب وسینہؐ نے ارشادفرمایا ’’یہی مثال دنیاکی ہے‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مندوہ ہے جودنیا(کی محبت) کو سب سے زیادہ چھوڑنے والاہو۔‘‘ہم آخرت کی ابدی زندگی کوچھوڑکردنیاکی فانی زندگی میں لگ گئے ہیں ہمیں نہ حقوق اللہ کاخیال ہے نہ حقوق العباد کا ۔ ہم نے اللہ پاک اوراسکے محبوب ؐکے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس دنیا نے ایک دن فنا ہوناہے ،باقی رہے گی توصرف رب ذوالجلال کی ذات ۔ہمیں چاہیے کہ اس ذات سے محبت کریں جس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر اپنے نبی کریمؐ کی امت میں پیدا کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اس دن آدمی یاد کریگا جو کوشش کی تھی اور جہنم ہردیکھنے والے پر ظاہر کی جائیگی تووہ جس نے سرکشی کی اور دنیاکی زندگی کوترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اسکا ٹھکانا ہے۔ (پارہ 30سورہ النٰزعٰت آیت 35،39)یہاںپرتوہم عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں ہم نے دنیاکواپناپکاٹھکانہ سمجھ رکھا ہے۔اے مسلمانو!ایک دن وہ بھی آئے گاکہ اس دن انسان کے سامنے اسکی زندگی کی فلم گھومنے لگے گی، اگردنیاکی زندگی ہم نے اچھے کاموں میں گزاری توقیامت کے دن خوشی کی انتہانہ ہوگی۔ اگردنیاکی زندگی بداعمالیوں میں گزاری تواس روزافسوس ہوگا، قیامت کے دن ہمارے اعضاء گواہی دیں گے۔ قیامت کے دن اولادآدم دوگروہوں میں ہوگی ایک گروہ ان لوگوں کاہوگاجنہوں نے سرکشی اختیارکی، حدوداللہ کو تو ڑ ا ہو گادنیاوی زندگی کے آرام وآسائش کو ابدی زندگی کے آرام وآسائش پرترجیح دی ہوگی۔ آج ہمیں نما ز یا د ہے نہ زکوٰۃ ، صدقات نہ روزہ وحج۔ کل بروزقیامت ہم پچھتائیں گے کہ افسوس صد افسوس ہم نے زندگی گناہوں میں نہ گزاری ہوتی ۔ کاش ہم نے اپنی زندگی میں حقوق اللہ وحقوق العبادکاخیال رکھاہوتا، پراس دن صرف پچھتاناہی ہوگا۔ دوسراگروہ ان لوگوںکا ہو گاجواپنی پوری زندگی یہ تصورکرکے ڈرتے رہے کہ ہم نے ایک دن اللہ پاک کے روبروکھڑے ہو نا ہے اپنی ساری زندگی شریعت کے حکم کے مطابق گزاری ہوگی حقوق اللہ اورحقوق العباد کا خیال رکھا ہوگا۔ایسے لوگوں کیلئے جنت کی بہاریں ہونگی ۔موت سے غافل نہ ہواے بے خبرہے تومہمان ایک ساعت دنیا پرحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’دنیامومن کاقیدخانہ اورکافرکی جنت ہے‘‘۔حضرت اسودبن قیسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جندؓ کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناکہ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق اعظمؓ آقاؐکی خدمت اقدس میںحاضرہوئے اوردیکھاآپؐ کی کمرمبارک پر چٹا ئی کے نشان پڑے ہوئے تھے ۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کرآبدیدہ ہوگئے ۔ آقاؐنے فرمایا’’اے عمر!تجھے کس چیزنے آبدیدہ کر دیا؟ انہوں نے عر ض کیایارسولؐ اللہ !مجھے قیصروکسریٰ یادآگئے اللہ کے دشمن عیش وعشرت کی زندگی بسرکریں اور محبوبؐ خداکی یہ کیفیت کہ چٹائی کے نشان کمرپر۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ ان لوگوں نے دنیاوی زندگی میں لذتیں اٹھانے میں جلدی کی جبکہ ہمارے لئے اللہ نے اخروی نعمتوںکاذخیرہ فرمارکھاہے‘‘۔دین اسلام ہمیں یہ نہیں کہتاکہ رزق حلال کمانا چھوڑ دواوررہبانیت اختیار کر ویا جنگل بیاباں میں جا کر اللہ اللہ کرو۔انسان کوچاہیے کہ دنیامیں اپنے قیام کوایسے تصور کرے جیسے ایک مسافراسٹیشن پر گا ڑ ی کا انتظا ر کرتا ہے اور اپنے دوسرے سفرکی تیاری میں ہو۔ سیدناعلی المرتضیٰ شیرخدا فرمایا کرتے تھے کہ’’ لوگو!میں تمہارے متعلق دوچیزوں سے خوفزدہ ہوں۔ 1:ناختم ہونیوالی امیدیں 2:خواہشات کی پیروی ‘‘۔حضرت سہل بن سعدساعدی ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضرہوااوراس نے عرض کیایارسولؐ اللہ مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جسے کرنے سے اللہ پاک بھی مجھ سے محبت کرے اورلوگ بھی، آپؐ نے فرمایا’’دنیاسے بے رغبت ہوجا اللہ پاک بھی تجھ سے محبت کریگا ا و ر جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہو جا لوگ بھی تجھ سے محبت کریں گے(ابن ما جہ ، شعب الایمان)نبی کریم رئوف رحیمؐ کاارشادپاک ہے ’’دنیامومن کیلئے قید،قبرقلعہ اورجنت اس کی منزل وٹھکانہ ہے جبکہ دنیاکافرکیلئے جنت، قبر قید اور جہنم اسکاٹھکانہ ہے ‘‘۔حضرت فقیہ سمرقندیؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا(کہ دنیامومن کیلئے قید ہے)سے مرادیہ ہے کہ مومن اگرچہ دنیامیں نعمتوں اورکشادگیوں میں ہولیکن جونعمتیں اللہ رب نے اس کیلئے جنت میں تیار کررکھی ہیں ان کودیکھ کروہ یوں ہی سمجھے گاکہ دنیاتواس کیلئے قیدہے کیونکہ جب کسی مومن کا وقت موت قریب آتاہے اوروہ موت کے پل کوعبورکرکے آخرت کی طرف محوسفرہوتاہے توجنت اس کے سامنے کردی جاتی ہے جب وہ جنت میں اپنے لئے طرح طرح کی نعمتوں کودیکھتاہے تویہ محسوس کرتاہے کہ وہ تو قید خانے میں رہااسی طرح جب کسی کافرکو موت میں کساجاتاہے تواس کے سامنے دوزخ کردی جاتی ہے وہ جہنم کے دہکتے انگارے ،عقوبت و سز ا د یکھتا ہے تودنیااسے جنت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت عما ر بن یاسرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں سرور کون ومکاںؐ کو فرماتے ہوئے سنا’’نیک لوگ دنیا سے بے رغبتی کے علاوہ کسی اور چیزکے ساتھ خوبصورت نہیں لگتے۔(مسندابویعلیٰ)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’دنیاسے بے رغبتی دل اورجسم (دونوں)کوسکون بخشتی ہے ‘ ‘ ۔ ( طبر ا نی ) حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ختم المرسلین ؐنے ارشادفرمایاجوشخص دنیاسے کٹ کر صرف اللہ کی (راہ کی) طرف ہوجائے اللہ تعالیٰ اسکی ہرضرورت پوری کرتاہے اوراسے وہاں سے رزق دیتاہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہواورجوشخص( اللہ تعالیٰ سے) کٹ کردنیاکی طرف ہوجاتاہے تواللہ پاک اسے اسی (دنیا)کے سپردکردیتاہے۔(طبرانی فی المعجم الاوسط)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ پاک فرماتاہے اے ابن آدم ! تومیری عبادت کیلئے فارغ توہومیں تمہاراسینہ بے نیازی سے بھردونگا اور تیرا فقروفاقہ ختم کر دونگا اگر تو ایسا نہیں کریگا تو میں تیرے ہاتھ کام کاج سے بھر دونگا اور تیری محتاجی( کبھی) ختم نہیں کرونگا ‘‘۔ حضرت جعفر بن محمدؒ روایت کرتے ہیں کہ محبوب خدانے حضرت علی المرتضیٰؓ شیرخدا کوارشادفرمایا’’اے علی چار خصلتیں بدبختی کی علامتیں ہیں1۔آنکھوں سے آنسوئوںکاخشک ہونا 2۔سنگدل ہونا 3۔دنیا کی ہوس ومحبت 4۔لمبی امیدیں‘‘۔ہم نے اللہ پاک اوراس کے محبوبؐ کا سہارا چھوڑ دیاہے اس لئے دربدرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کائنات میں ہمارے لئے اللہ پاک اوراس کے محبوبؐ سے بڑھ کراورکوئی سہارا نہیں۔ اگر ہمارا بھروسہ اللہ پاک پرہوتا توہم یقینا اس دنیاسے بے رغبت ہوجاتے۔ ہم رزق کی لالچ میں پھررہے ہیں حالانکہ رزق ہمیں اس طرح تلاش کرتاہے جس طرح موت تلاش کرتی ہے۔جب وقت مقرر پورا ہو جائے ہم مضبوط سے مضبوط قلعوں میں بھی داخل ہو جائیں توموت آجاتی ہے اسی طرح ہماری قسمت میں جورزق لکھاہواہے وہ ہمیںضرور ملے گا۔ انسان کابھروسہ اللہ پاک پرہوتورزق انسان کے پاس اس طرح آتاہے کہ انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔حضرت عمربن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’اگرتم اللہ تعالیٰ پراس طرح بھروسہ کرتے جیسابھروسہ کرنیکاحق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیاجاتاجس طرح پرندو ں کو د یا جاتاہے وہ صبح کوبھوکے نکلتے ہیں اورشام کوپیٹ بھرکرواپس آتے ہیں ‘‘۔ (ترمذی)اے انسان تواپنے زندگی خدااورمصطفیؐ کی رضامیںگزار،اگرتیری زندگی انکی رضامیں گزری تو قریب ہے کہ جب تیراوقت رخصت ہوگا تواللہ پاک کی طرف سے یہ نداآئیگی۔ ترجمہ ’’اے اطمینان والی روح ، اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی ، پس میرے بندوں میں شامل ہو ، اور میری جنت میں داخل ہو ۔‘‘ (سورہ الفجرآخری آیہ مبارکہ)اللہ رب العزت سے دعاہے کہ تمام مسلمانوںکو صراط مستقیم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔دنیاکی محبت ہمارے دلوں سے نکال کر اپنی اوراپنے محبوبؐ کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے تاکہ بروز قیامت ہم تیرے محبوبؐ کی شفاعت اورتیری جنت کے حقداربن جائیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو جذبہ ایمانی نصیب فرمائے، شیطان اور اس کے پیروکاروں سے بچائے، نبی ؐکی غلامی نصیب فرمائے۔ آمین٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

عظیم الجثہ مجسمے قدیم مصری فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیںمصر نے حال ہی میں اپنی قدیم تہذیب کی ایک نہایت اہم یادگار کی بحالی کا کام مکمل کیا ہے۔ یہ یادگار فرعون امنحوتپ (Amenhotep) سوم کے عظیم الجثہ مجسموں پر مشتمل ہے، جو ان کی شان و شوکت اور قدیم مصری فن تعمیر کی اعلیٰ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مٹی اور موسمی اثرات کے بعد یہ مجسمے اب دوبارہ اپنی اصل صورت میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف مصر کی تاریخی وراثت زندہ ہوئی ہے بلکہ عالمی ثقافتی منظرنامے میں بھی اس کا مقام مستحکم ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ بحالی منصوبہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ سیاحتی شعبے کو فروغ دینے اور قدیم مصر کے فن تعمیر کی یادگار کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔زلزلے سے متاثر ہونے کے تین ہزار سال سے زائد عرصہ بعد، مصر کے دو شاندار اور دلکش آثار قدیمہ کو دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ میمنون کے عظیم مجسمے دریائے نیل کے اس کنارے پر واقع ہیں جو قدیم شہر لقصور (Luxor) کے سامنے ہے، جو مصر کا تاریخی شہر ہے۔ یہ دونوں عظیم الجثہ مجسمے تقریباً 50 فٹ بلند ہیں اور یہ امنحوتپ سوم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو قدیم مصر پر 1391 تا 1353 قبل مسیح تک حکمرانی کرنے والا طاقتور فرعون تھا۔چند روز قبل حکام نے ان مرمت شدہ مجسموں پر سے پردہ اٹھایا، جنہیں مصر کی تہذیب کی سب سے اہم یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ مجسمے دوبارہ بحال کر کے اپنی اصل جگہ پر نصب کیے گئے ہیں۔ امنحوتپ سوم کو قدیم مصر پوجا جاتا تھا اور وہ توت عنخ آمون کے دادا تھے۔آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل ہیبِچٹ (Michael Habicht)کے مطابق انہوں نے امن کو فروغ دیا اور اقتصادی خوشحالی کے عظیم دور میں زندگی گزاری۔ممکن ہے کہ وہ اپنے دور میں دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہوں‘‘۔میمنون کے عظیم مجسمے اصل میں 1350 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مجسمے بڑے پتھریلے بلاکس سے بنائے گئے، جو موجودہ قاہرہ کے قریب کانوں سے نکالے گئے اور تقریباً 420 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچائے گئے۔دونوں مجسموں میں فرعون امنحو تپ سوم کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے ہاتھ رانوں پر رکھے ہیں، جبکہ ان کے چہرے مشرق کی سمت دریائے نیل اور طلوعِ آفتاب کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ان کے سر پر دھاری دارشاہی تاج ہے جبکہ انہوں نے شاہی لباس پہن رکھا ہے، جو فرعون کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔فرعون کے پیروں کے پاس موجود دو چھوٹے مجسمے ان کی اہلیہ ملکہ تِیے کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان عظیم مجسموں پر یونانی اور لاطینی زبانوں میں کندہ ایک سو سے زائد تحریریں موجود ہیں۔تقریباً 1200 قبل مسیح میں ایک شدید زلزلے نے ان مجسموں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں امنحوتپ سوم کا مندر بھی تباہ ہو گیا۔ زلزلے کے بعد یہ مجسمے ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے چبوترے بکھر گئے، جبکہ بعض پتھریلے حصے نکال کر لے جائے گئے۔ آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق ان کے کچھ بلاکس لقصور کے کرناک مندر میں دوبارہ استعمال کیے گئے، تاہم بعد میں ماہرین آثار قدیمہ نے انہیں واپس لا کر مجسموں کی ازسرِنو تعمیر کی۔یہ عظیم مجسمے شہر لقصور کیلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، جو قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہیں اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحالی اس کوشش کا بھی حصہ ہے کہ ''یہ دکھایا جا سکے کہ بادشاہ امنحوتپ سوم کا تدفینی مندر قدیم زمانے میں کیسا دکھائی دیتا تھا ‘‘، یہ بات محمد اسماعیل نے کہی جو سپریم کونسل آف اینٹی کوئٹیز کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ امنحوتپ سوم، جو قدیم مصر کے نمایاں ترین فرعونوں میں شمار ہوتے ہیں، نیو کنگڈم کے تقریباً 500 سالہ دور میں حکمران رہے، جو قدیم مصر کا سب سے خوشحال زمانہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فرعون، جن کی ممی قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہے کا دور امن، خوشحالی اور شان و شوکت کیلئے مشہور تھا۔ ڈاکٹر ہیبِچٹ (Habicht)کے مطابق غیر ملکی حکمرانوں کی سفارتی تحریروں میں ان سے تحفے کے طور پر سونا بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ مصر میں سونا ریت کی طرح وافر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس قسم کے خطوط میں عام مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بے پناہ دولت کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے۔ماہر تعلیم کے مطابق، یہ فرعون کسی حد تک عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا بھی تھا، جس نے سیکڑوں غیر ملکی خواتین کو اپنے حرم میں شامل کرنے کیلئے مصر منگوایا۔انہوں نے کہاکہ بظاہر وہ خواتین میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سینکڑوں غیر ملکی خواتین اپنے گر دجمع کیں، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔امنحوتپ سوم کا دورِ حکومت عظیم تعمیرات کیلئے بھی جانا جاتا ہے، جن میں ان کا مندر بھی شامل ہے۔ جہاں میمنون کے عظیم مجسمے واقع ہیں۔اس کے علاوہ نوبیا میں واقع سولیب کا مندر بھی ان کی تعمیری عظمت کی ایک نمایاں مثال ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات 40 سے 50 برس کی عمر کے درمیان ہوئی، اور وہ اپنے جانشین (بیٹے امنحوتپ چہارم ) کیلئے ایک ایسی سلطنت چھوڑ گئے جو طاقت اور دولت کے عروج پر تھی۔

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

دنیا بھر میں آج ''مراقبہ کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا ہےہر سال 21 دسمبر کو دنیا بھر میں مراقبہ کاعالمی دن (world Meditation Day) منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں کو ذہنی سکون، باطنی توازن، روحانی ہم آہنگی اور پرامن طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مادّی ترقی نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی، اضطراب اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مراقبہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا اور اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔مراقبہ دراصل توجہ، یکسوئی اور شعوری آگہی کی ایک قدیم مشق ہے جس کی جڑیں مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں ملتی ہیں۔ بدھ مت، ہندو مت، تصوف، یوگا اور دیگر روحانی روایات میں مراقبہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکلیں اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے، ذہن کو پرسکون کرنا، خیالات کی بے ترتیبی کو کم کرنا اور انسان کو حال سے جوڑنا۔اقوامِ متحدہ نے عالمی مراقبہ دن کے اعلان کے ذریعے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ذہنی صحت، عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب فرد ذہنی طور پر پرسکون اور متوازن ہو تو وہ نہ صرف بہتر فیصلے کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی لیے مراقبہ کو صرف ایک ذاتی مشق نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق بھی مراقبہ کے فوائد کی تصدیق کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، یادداشت اور توجہ میں اضافہ کرتا ہے، نیند کو بہتر بناتا ہے اور ڈپریشن و اینگزائٹی جیسے مسائل میں نمایاں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ دل کی صحت، بلڈ پریشر کے اعتدال اور قوتِ مدافعت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، دفاتر، ہسپتالوں حتیٰ کہ فوجی تربیتی مراکز میں بھی مراقبہ کو اپنایا جا رہا ہے۔عالمی مراقبہ دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز، ورکشاپس، اجتماعی مراقبہ نشستیں اور آگاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد لوگوں کو مراقبہ کے سادہ طریقوں سے متعارف کروانا اور انہیں روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون بیرونی وسائل میں نہیں بلکہ انسان کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مراقبہ دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور عدمِ استحکام نے عوام کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ اگر تعلیمی نصاب، دفتری ماحول اور معاشرتی سطح پر مراقبہ جیسی مثبت عادات کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ مجموعی قومی مزاج بھی اعتدال اور برداشت کی طرف مائل ہو گا۔ تصوف اور روحانیت کی ہماری مقامی روایات بھی مراقبہ اور ذکر و فکر کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو ہمارے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، جنگوں اور نفرت انگیز رویّوں کے تناظر میں مراقبہ کا پیغام مزید اہم ہو جاتا ہے۔ جب افراد اپنے اندر امن پیدا کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی امن کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اسی سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی امن کا آغاز فرد کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مراقبہ دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ دعوت ہے رک کر خود کو سننے کی، اپنی سانسوں کو محسوس کرنے کی اور زندگی کی دوڑ میں اپنے باطن کو نظرانداز نہ کرنے کی۔ اگر ہم روزانہ چند منٹ بھی مراقبہ کیلئے وقف کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون، توازن اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک پرسکون فرد ہی ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور یہی عالمی مراقبہ دن کا اصل پیغام ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

٭... 25 دسمبر 1948ء کو لاہور کے ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ٭...وہ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔٭... کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد محمد شریف تھے۔٭...1964ء میں ریڈیو پاکستان کا رخ کیا، ابتدا میں کورس میں گایا۔٭...سولو پرفارمنس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔پی ٹی وی پر پنجابی گیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ٭...65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔٭...فلم انڈسٹری میں آمد موسیقار خلیل احمد کی وجہ سے ہوئی ، جن کی فلم ''تصویر‘‘ کیلئے اْنھوں نے گانا ''بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو سینسر کی نظر ہو گیا۔٭...موسیقار خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔٭...70ء کی دہائی میں کراچی شفٹ ہو گئیں۔جہاں جلد ہی پی ٹی وی سے جڑ گئیں، مشہور زمانہ گیت ''انوکھا لاڈلہ‘‘ وہیں ریکارڈ کروایا۔ پروڈیوسر امیر امام کے پروگرام ''سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا۔٭... 1980ء میں ستار نواز استاد رئیس خان سے شادی کے بعد بھارت چلی گئیں۔٭...1986ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔٭...معروف موسیقار محسن رضا ان کے بھی ہیں۔٭... 21دسمبر2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔مقبول غزلیں٭...وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا(پروین شاکر)٭...کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں( عبید اللہ علیم)٭...مت سمجھو ہم نے بھلا دیا٭...انوکھا لاڈلہ

آج کا دن

آج کا دن

پہلا باسکٹ بال میچ 21 دسمبر 1891ء کو امریکی ماہرِ تعلیم جیمز نائس سمتھ نے باسکٹ بال کے کھیل کا پہلا باضابطہ میچ منعقد کروایا۔ نائس سمتھ نے یہ کھیل سردیوں میں طلبہ کو جسمانی طور پر متحرک رکھنے کیلئے ایجاد کیا تھا۔ ابتدا میں کھیل میں فٹ بال استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قواعد میں تبدیلیاں آئیں اور آج یہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شامل ہو چکا ہے۔اپالو 8 خلائی مشناپالو 8 ناسا کا تاریخی اور انقلابی خلائی مشن تھا جو 21 دسمبر 1968ء کو لانچ کیا گیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے باہر نکل کر چاند کے گرد گردش کی اور اس دوران زمین کے طلوع ہونے والی مشہور تصویر ''ارتھ رائز‘‘ لی گئی۔ اپالو 8 کی کامیابی نے بعد میں اپالو 11 کے ذریعے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی راہ ہموار کی اور خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا۔ سانتا ماریا قتل عامچلی کی فوج نے 21 دسمبر1907ء کو کان کنوں کا قتل عام کیا۔رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا جہاں دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کان کن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔پین ایم فلائٹ103حادثہ21دسمبر1988ء کو فرینکفرٹ سے نیویارک جانے والی پرواز ''پین ایم فلائٹ 103‘‘ میں اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جہاز سکاٹ لینڈ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افرادسمیت 11افراد زمین پر بھی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشت گردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلے معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا۔ اینٹونوو این225 کی پروازاینٹونوو این 225 ایک سٹریٹجک ائیرلفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔