ماموں کی فنکاریاں
اسپیشل فیچر
میرے چھوٹے ماموں غلام باری انتہائی زندہ دل اور رنگیلے انسان تھے۔ وہ جہاں بیٹھتے بس قہقہے ہی بکھیرتے رہتے تھے، ان کی اس چھیڑ چھاڑ سے کوئی بچ نہیں پایا، ہم بچے تو مسلسل ان کی شرارتوں اور چیرہ دستیوں کا شکار بنتے تھے۔ بچوں کے لیے ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ان کے لیے موزوں رشتے تلاش کرنا ہوتا تھا۔ وہ بڑے اہتمام سے ہم میں سے ہر ایک کو کسی کمّی کی کمسن بیٹی کے ساتھ منسوب کر دیا کرتے تھے اوراس بات کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیتے تھے کہ آج فلاں کی منگنی فلاں لڑکی سے کر دی گئی ہے۔ہم بچے تو تھے لیکن اب اتنے معصوم بھی نہیں تھے کہ ان کی بات کا مطلب نہ سمجھ سکیں اس لیے منگنی کے نام سے شرماتے ضرور تھے۔ وہ اس قدر زور و شور سے اس نئے طے شدہ رشتے کی تشہیر کرتے تھے کہ مذکورہ بچہ اپنی منگیتر کا نام آتے ہی سرخ ہو جاتا اور منہ چھپائے پھرتا۔ جب سب بھائیوں کی منگنیوں سے فارغ ہو جاتے تو خود ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کسی ایک کی منگنی توڑ ڈالتے اور پھر دوسری جگہ رشتہ پکاکر دیتے۔ حسب روایت میری منگنی بھی دو دفعہ ٹوٹی اور آخر کار مجھے بتایا گیا کہ اب میں ایک جولاہے کی بیٹی سے منسوب کر دیا گیا ہوں، جس کی ایک آنکھ میں کچھ مسئلہ تھا اور وہ اکثربندہی رہتی تھی۔ نام تو اس کا حمیدہ تھا لیکن سب اسے مِدّو کہتے تھے۔چھوٹے بھائی شفیق کی نسبت جس بچی سے طے پائی وہ گائوں کے موچی کی صاحبزادی تھی، جسے سب طوطی کہتے تھے۔اس کو ابھی تک اس نام سے اتنی نفرت ہے کہ بچوں کے بے حد اصرار کے باوجود وہ کوئی طوطا گھر میں نہیں لاتا،مبادا بعد میں کہیںوہ طوطی ہی نہ نکل آئے۔تھوڑی بڑی عمرکے لڑکوں کو ماموں باری کسی اور ہی ڈھنگ سے تنگ کرتے تھے۔جس کو بیان کرنے کی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ تاہم جاتے ہوئے بچے کے پیچھے سے شلوار اتارنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، میں تو بچ نکلتا تھا لیکن شفیق اکثر ان کے ہتھے چڑھ کر عزت و آبرو سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔اس بیچارے کو تو ماموں اسی حالت میں اپنے پیروں پر بٹھا کر حوائج ضروریہ سے فارغ کروانے کا تصور دیتے تھے، اس دوران وہ اسی کام کے لیے تخلیق کی گئی مخصوص سیٹی ’’سی وی ۔۔سی وی ‘‘بھی بجاتے رہتے تھے۔شفیق تو اس وقت تک کچھ بڑا ہو گیا تھا اور اپنا برا بھلا سمجھتا تھا ورنہ زمین گیلی ہونے میں ذرا بھی دیر نہ لگتی۔پھر بھی شرمندگی کی انتہاپر ہوتا تھا وہ معصوم بچہ۔ مزہ تب آتا تھا جب ماموں اپنے ہم عصروں میں بیٹھے اونچی اونچی چھوڑ رہے ہوتے تھے۔ چونکہ بہنوئی فوج میں تھا اس لیے وہ ہر طرح کا مذاق سرکاری کارندوں سے بھی کر لیتے تھے۔ اکثر ان کو للکارتے تھے اور کبھی کبھار ان سے مار بھی کھا لیتے، پھر وہی آزمودہ نسخہ تھا کہ ابا جان کو اس بندے کے خلاف ایک خط لکھواتے تھے۔ وہاں سے ہفتے دس دن بعد فورٹ عباس پولیس سٹیشن کے وائرلیس سیٹ پر پیغام آتا اور متعلقہ محکمے کا افسر اگلے دن اس ملزم کو ساتھ لاتا اور ماموں سے معافی دلواکر اس کی جاں بخشی کروا دیتا۔یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب حکومت نے اس علاقے میں تیتر اور بٹیر کے شکار پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔ ماموں باری کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ کسی طرح دو زندہ بٹیر پکڑ کر دھوتی کے دونوں ڈبوں میں چھپائے اور گائوں کے بڑے چوک میں آ کر وہاں بیٹھے ہوئے لوگو ں کے سامنے نہ صرف یہ کہ ان کی نمائش کی بلکہ سرکار کو چیلنج بھی کر دیا کہ دیکھتا ہوں کوئی میرا کیا بگاڑ لیتا ہے۔ ان کے بدخواہ بھلا یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتے، سرپٹ اونٹ دوڑاکر ایک بندہ فورٹ عباس تھانے گیا اور وقوعہ کی اطلاع کر دی ساتھ ہی بتایا کہ نہ صرف جرم سرزد ہوا ہے بلکہ سرکار کو بھی للکارا گیا ہے۔ اگلی صبح پولیس کے دو سپاہی نصف یونیفارم یعنی نیچے دھوتی اور اوپر خاکی قمیض اور ٹوپی پہنے آن دھمکے۔ ماموں کو بلوایا گیا، سپاہی ماموں کے خاندانی پس منظر سے واقف نہیں تھے، انھوں نے اپنے روایتی انداز میں ان کو سمجھا دیا کہ ایسا کرنا مناسب نہ ہے۔ حالانکہ ان دونوں کو وہاں کچھ معزز لوگوں نے کہا بھی تھا کہ یہ کام نہ کرو تمہارے لیے مسئلہ بن جائے گا،لیکن وہ نہیں مانے، تسلی سے اپنا کام کیا اور چلے گئے۔وقت گزر گیا لیکن گھائو نہ بھرا تھا کیونکہ براہ راست بے عزتی ہوئی تھی اور وہ بھی بیچ بازار میں۔ٹیلی فون تو اس وقت ہوتا نہیں تھا، شہر جا کر کسی پڑھے لکھے بندے سے تار لکھوایا اور اسی شام ابا جان کو روانہ کر دیا۔کچھ دن بعد پولیس تھانے کی وائرلیس پر کراچی کے گورنر جنرل ہاؤس سے آیا ہوا ایک پیغام چلا، جس نے وہاں وہ ہی ماحول پیدا کر دیا جس سے ان سپاہیوں کو ڈرایا گیا تھا۔ہانپتے کانپتے وہ دونوں آئے اور ماموں کے پائوں چھو کر معافی چاہی۔ہمارے یہ ماموں بہت ہی پیارے تھے اور بچوں کے پسندیدہ بھی کیونکہ وہ ان کے ساتھ مل کر گلی ڈنڈا بھی کھیل لیتے تھے اور کھدو کھونڈی بھی۔ بات چیت میں ادھار کسی سے نہیں رکھا بلکہ بسا اوقات پیشگی ہی وہ سب کچھ کہہ جاتے تھے جو اصولی طور پر مخالف سمت سے کوئی ناپسندیدہ حملہ ہونے کے بعد کہنا ہوتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب وہ اپنی زمین پر موجود تھے، سروے کی ایک ٹیم کے دو افسر وہاں آئے اوران کے پاس کھڑے ہو کر آپس میں انگریزی میں گفتگو کرنے لگے ۔ ماموں نے ان کی انگریزی سے متاثر ہوئے بغیر ان کی طرف غور سے دیکھا اور کہا کہ’’ بھائیو یہ جو تم لوگوں نے میرے پاس کھڑے ہو کر آپس میں گٹ مٹ گٹ مٹ کی ہے اگر تو کوئی اچھی بات کی ہے تو جی آئیاں نُوں، بیٹھو، لسی پانی پیو اور اگر گالی دی ہے تو تمہاری بھی ایسی تیسی۔‘‘ ماموں نے یہاں بھی پیشگی حملہ کر کے ادھار نہیں رکھا تھا اور ان کو دونوں متبادل حل دے دئیے۔وہ ناراض ہونے کی بجائے ہنسنے لگے کہ ماموں کا انداز ہی ایسا پیارا تھا۔ماموں باری کشتیوں اورکبڈی کے بھی بڑے کھلاڑی تھے، جوانی میں گائوں کے بڑے بڑے پہلوانوں کو مٹی چاٹنے پر مجبور کیا اور بسا اوقات خود بھی اپنی زبان سے مٹی صاف کرتے نظرآجاتے تھے۔ میرے یہ ماموںشدید علالت کے بعدجب اس جہاں سے ر خصت ہوئے تو اک زمانہ اشکبار چھوڑ گئے ۔( کتاب ’’ اچھی گزر گئی...‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭