کنارِ راوی ...ہیڈ بلوکی!
اسپیشل فیچر
ضلع قصور کی خوبصورت سیاحت و شکار گاہ*** دریائے راوی کی ادائے دلبری لیے بلو کی درحقیقت سلگتے غموں ، تنہائیوں، زندگی کی وحشتوں سے آزادی کا محور، بے پناہ حیرانیوں سے تاباں، بادلوں کی جادوگری بکھیرتی تابندہ وحساس نگری ہے، جہاں گزرتی راحتیں لیے صبح جوالا، اورجہاںیادوں اور خوشبوکا مہکتا فراواں تاثر ہر سو ہی نظر آتا ہے۔٭فطرت کی تمام رنگینیاں یکجا: بلوکی میںجولائی میں تسکین آمیز بادل کی تمام آوازیں نگلتی گرج، ہم سے ہاتھ ملاتی، زمین، پانی اور آسمان کے قدم باہم ملاتی، رقص کرتی، جسم چھوتی مادی بارش کی قدرتی اور بے ساختہ تروتازہ بوندیں، ہماری جامن بھر ی جھولی، نہروں اور دریا میں کاغذ کی نائو تیرانا، بھیگی مٹی کو ہاتھوں میں لے کر اسے سانسوں کے ذریعے اپنے من میں اتارنا، آسمان کے بدلتے رنگ،مرینہ بوٹ کلب کے بمبوہٹ کی کھڑکیوں سے بارش کی آواز سننا (مشاہدہ کرنا) اور مشروبات سے تواضع، چمکتی بجلی اور کاجل جیسے کالے، گھنگور،بوندوں کی چال کے ساتھ پنکھ پھیلا کر رقص کرتے مور، تالاب سے اچھلتے اور ٹراتے مینڈک، رقص کرتے پیٹرپودے اورلیَ میں چلتی ہوائیں،بھنتی مکئی کے ِسٹوں کی خوشبوؤں ، بارش میں آم کھانا اور یادوں کے جھروکے کھولتی ہوم ورک سے آزادی، کالی بھوری کس میلی صبح کے نظارے جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔٭ کہاں واقع ہے؟ـ:سیاحتی سرگرمیوں اور خوشحالی کا عکس لیے ضلع قصور کا سب سے پرسکون بلوکی کا مقام دریائی شہد کا مرکز بھی ہے۔ لاہور سے مغرب میں 58 کلو میٹر دور، بھائی پھیرو۔ موڑ کھنڈا، فیصل آباد، جڑانوالہ روڈ پر واقع، دو اضلاع( قصور اور ننکانہ صاحب )کی حدود پر واقع دنیا کے سب سے بڑے، انسانی ہاتھ سے لگائے ہوئے جنگل ’’ چھانگا مانگا‘‘ کے شمال مغرب میں ، 2,25000 کیوسک پانی گزارنے اور سنبھالنے کی صلاحیت والا، قادر آباد تاکھنڈا موڑ کے رقبہ پر پھیلا، شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ GT روڈ پر واقع (بلوکی یارکھوالا) ، ضلع لاہور (اور فیصل آباد) کے مچھلی کھانے والے شائقین کے لیے مرکز ِنگاہ، یہ بند صوبہ پنجاب کے ایک تہائی علاقہ کو سیراب کرتا ہے۔٭کیسے پہنچیں، راستے میں آنے والے سیاحتی مقامات:لاہور سے ملتان جاتے ہوئے قدیمی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے پھول نگر کے مقام سے 8 کلو میٹر دور موڑ کھنڈا۔ فیصل آباد روڈ پر پنجاب کے خوبصورت کھلیانوں کا نظارہ لیے، تفریحی مقام ہیڈ بلوکی پہنچا جاسکتا ہے۔ بلوکی زیریں باری دو آب کی نہر کی پٹڑی پر اپنے موٹر سائیکل پر سفر کرکے ساہیوال سے بلوکی براہ راست بھی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس راستے میں سفر کے دوران نت نئے دیہی رنگ، لوگ، تاریخی بنگلے، عمارات، اوکاڑہ کی مویشی منڈی، عارضی ہوٹل، 1933ء میں قائم شدہ مچل فروٹ فارم، اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے ہمنگ برڈ، ایشیاء کا سب سے باترتیب پانی پہ تیرتی ہوئی عمارت لیے، 70 ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے والا سرگنگارام کا تعمیر کردہ8 موٹروں والا برصغیر کا پہلا تعمیر کردہ پن بجلی گھر (جس کا سنگ بنیاد سرویلم ملک ہیلے نے 22مارچ 1925 ء میں رکھا اورجو 1958 ء تک پی اینڈ ڈبلیو کے محکمہ کے زیرِ انتظام چلتا رہا)، رینالہ شہر سے تین کلو میٹر آگے انگریزوں کے دور کا ڈاک بنگلہ جو 1913 ء میں رینری تین نامی انگریز نے تعمیر کیا تھا، گھوڑوں کے فارم کے لیے مشہور مس ٹیلر کا گھوڑوں کا قدیمی فارم گم شدہ مسافروں اور سیاحوں کی راہ تک رہے ہیں۔ فصل کٹائی کے موسم میں نہری پانی سے سیراب ہونے والی سات رنگی فصلوں کے درمیان سے مختلف دیہہ اور کوٹ، سبزفصلوں کے سمندر میں سنہرے جزیروں کی مانند جاپتے ہیں۔ فصل کٹائی کے بعد یہی راستہ درختوں، تالابوں، گمنام راہوں سے اٹہ ایک سراب سا لگتا ہے۔(سید ظفر عباس نقوی کی تصنیف ’’ سیاحتِ ضلع قصور‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭