نواب آف کالا باغ،ملک امیر محمد خان
اسپیشل فیچر
٭خاندانی پس منظر: ملک بندے علی سب سے پہلا اعوان ہے، جو ڈھنکوٹ سے کالاباغ آکر آباد ہوا ۔ یہاں وہ نمک پر قابض ہوا۔ کالاباغ پتن پر اپنا تسلط قائم کرکے پتن، نمک اور پھٹکڑی پر محصول لگا دیا اور اس علاقہ کا رئیس بن گیا۔ بھنگی خیل خٹک سے جو کالاباغ کے شمال میںپہاڑوں پر آباد تھے خراج لیا کرتا تھا۔ اس طرح ملک بندے علی نے شمال میں ٹولہ بانگی خیل، جنوب میں دائودخیل، مشرق میں سواں نالہ ، نکی اور مغرب میں جلال پور تک مکمل کنٹرول حاصل کرکے اپنی ایک خودمختار قسم کی ریاست کی بنیاد رکھ دی اور کالاباغ کو اپنا پایہ تخت بنایا ،جو پورے ہندوستان کے اعوان کا مرکزی مقام کہلاتاہے۔ رئیس کالاباغ نے شہر سے باہر قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا کہ حملہ آوروں کا شہر سے باہر رہ کر مقابلہ کیا جائے تاکہ شہری آبادی بوڑھے ، بچے ، عورتیں محفوظ رہ سکیں۔ اس لیے موجودہ قلعہ نواب صاحب اس دفاعی مقصد کی غرض سے شہر سے باہر حملہ آوروں کی راہ میں تعمیر کرایا گیا۔ افغان حملہ آوروں کے ساتھ راستہ میں دوسرے خٹک قبائل بھی شامل ہوجاتے تھے جن کے ساتھ بھی رئیس کالاباغ کو جنگیں لڑنی پڑیں اور لڑتے لڑتے شمال میں اپنی ریاست کالاباغ کی حد ٹولہ بانگی خیل کالاباغ سے تیس میل دور تک قائم کی۔ ٹولہ میں ایک حد بندی برج تعمیر کرایا جو ریاست کی لائن آف کنٹرول کہلاتا تھا آج بھی موجود ہے۔ جنوب میں دائودخیل شہر تک مشرق میں سواں نالہ سے مغرب جلاپور شہر تک حدود مقرر کردی گئیں۔ ٭ پیدائش: جب پہلی جنگ ِ عظیم شروع ہوئی حکومت برطانیہ نے رئوسائے پنجاب سے جنگ میں امداد کی اپیل کی ۔ اس اپیل کے بدلے ملک کالاباغ نے حکومت برطانیہ کو ایک جنگی جہاز خرید کر دیا جس دن جنگی لڑاکا طیارہ خرید کر دینے کا اعلان ہوا دوسرے روز ہندوستان کے اخبار کی شہہ سرخی یہ تھی کہ ملک کالاباغ نے جنگی جہاز کی امداد دے کر پنجاب کے رئوسا سے امداد میں سبقت لے لی۔ رئیس ملک عطامحمد خان سے جب پوچھا گیاکہ آپ انگریز کی امداد کیوں کرتے ہیں ؟تو انہوں نے جواب دیا کہ انگریزوں نے ہماری سکھوں سے جان چھڑائی ہے ۔ انگریز سکھوں سے قدرے بہتر ہیں۔ ملک عطا محمد خان پہلے رئیس کالاباغ ہیں جن کو انگریز نے نواب آف کالاباغ کا خطاب دیا۔ اس سے قبل رئیس کالاباغ کہلاتے تھے۔ کورٹ آف وارڈز حکومت برطانیہ کا ایک نظام ایڈمنسٹریشن تھا جو کہ کسی رئیس کے فوت ہونے کی صورت میں اس کی اولاد کے جوان ہونے تک اس کی جائیداد کی دیکھ بھال کرتا اور اولاد کے جوان ہونے پر اولاد کو دے دیتا۔ اس سے قبل جتنے رئیس کالاباغ گزرے ۔ انہوں نے مقامی سطح تک دینی و دُنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ ٭نوابی: کالاباغ کا نظام حکومت صدیوں پرانا ہے اسی طرح ملازم کی بڑھایا پنشن بیوگان کا تادم حیات راشن گندم الائونس وغیرہ تنخواہ کے علاوہ فری علاج بچوں کی مفت تعلیم کالاباغ میں کوئی بیوہ یا غریب عورت سڑک پر بیٹھ کر بھیک مانگتی نظر نہیں آئے گی۔ جب بھی کالاباغ میں کوئی عورت بیوہ ہوتی ہے نواب صاحبان کی بیگمات کے پاس ملازم ہوجاتی ہے اور ان کی معاشرہ میں کافی عزت ہوتی ہے۔ نواب آف کالاباغ کے مہمان خانوں میں خٹک قبیلہ کے لیے علیٰحدہ خاص مہمان خانے تھے جہاں ان کے قیام و طعام کا بندوبست ہوتاتھا۔ ان کی ہر بات کو دوسر ے قبائل پر زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ نواب صاحبان کے پکے ووٹر تھے۔ ملک صاحبان کو فوجی طریقہ سے سلوٹ کرتے اور سر کہہ کر پکارتے تھے۔ دوسرے نمبر پر اُتراد کا اعوان قبیلہ تھا جو یونین کونسل مسان کے بارہ گائوں نکی ، مسان، شمارہ ، مراندی شرقی،غربی، شکر پڑی ، پنجووالہ، جابہ، نواں شہر، مسان اسٹیشن ، ڈھوک بھرتال، پیر پہائی وغیرہ پر مشتمل تھا۔ یہ زمیندار لوگ تھے ۔ان میں سے اکثر نواب آف کالاباغ کی زمینیں کاشت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کالاباغ کے شہری تھے ، غیر زمیندار ، سادہ ، دبلے پتلے لیکن کمال کے ہنر مند ۔ کالاباغ کے کار پینٹر، مستری میسن جیسا کاریگر ، جوتے بنانے والا بہترین کاریگر، لباس تیار کرنے والے بہترین درزی، کمہار، لوہار، نمک اور پتھر کے برتن بنانے والے ، حلوہ والے حلوائی اور نانبائی ایسے کہ جن کا ملک بھر میں کوئی ثانی نہ تھا۔ رزق حلال کمانا ان کا پیشہ ہے ۔سرائیکی قوم ملک صاحبان کی مختلف ڈیوٹیاں سر انجام دیتی۔ علاقے کے عوام کو تھانہ کچہری جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ ایک سفید کاغذ پر بغیر ٹکٹ لگائے درخواست دی جاتی ، اس پر حکمِ نواب ہوتا۔ جرگہ مقرر ہو جاتا۔ چار ثالث جرگہ کے ممبر ہوتے ۔ فیصلہ کر کے نواب کو پیش کردیتے ۔ نواب فیصلہ سنا دیتے ، بغیر وکیل بغیر خرچے فیصلہ ہوجاتا۔ انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد1931ء میں وطن واپس آئے اور اپنی جائیداد کانظم و نسق کورٹ آف وارڈز سے لے کرسنبھالا اور اس کے انتظام و انصرام میں مصروف ہوگئے۔ نواب صاحب نے جدید طریقہ زراعت کو رائج کرکے اپنی زمینداری میں بہت سی مفید اصلاحات جاری کیں۔ اس طرح کالاباغ کے زرعی فارم کا پاکستان کے چوٹی کے فارموں میں شمار ہونے لگا۔ زمینداری کے ساتھ ساتھ نواب آف کالاباغ نے تحریک پاکستان کی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔1940ء میں منٹو پارک لاہور میں جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو نواب ملک امیر محمد خان اس میں خود بنفس نفیس شامل ہوئے۔قائد اعظم نے اس جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا ہوگا۔ ان کاموں کے لیے فنڈ زکی ضرورت ہوگی لہٰذا آپ تمام دوست تحریک کے لیے فنڈ زدیں۔ اجلاس میں موجود ہر آدمی نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دینے کا اعلان کیا۔ اس دوران قائداعظم کا سیکرٹری چندہ نوٹ کرتا رہا۔ جب تمام لوگوں نے امداد کا اعلان کردیا تو اجلاس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک خوبصورت دراز قدلنگی سر پر سجائے ہوئے نوجوان پچھلی قطار سے اُٹھے اور اعلان کیاکہ سکیرٹری صاحب جتنا چندہ سب لوگوں نے جمع کرانے کا اعلان کیا ہے اس تمام چندے کے برابر تحریک پاکستان کے لیے میرا چندہ شامل کیا جائے۔ اجلاس میں شامل تمام رئوسائے پنجاب اور خود قائداعظم محمد علی جناح یہ اعلان سن کر دنگ رہ گئے ۔قائداعظم نے فرنٹ لائن سے پچھلی لائن میں لگی کرسیوں پر بیٹھے اس نوجوان کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نواب ممتاز دولتانہ سے پوچھا؛ یہ نوجوان کون ہے؟ جس کے جواب میں دولتانہ نے کہا؛ جناب !یہ ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ ہیں۔اس کے بعد قائداعظم نے ممتاز دولتانہ سے کہاکہ آپ میرے ساتھ والی اپنی کرسی ان کے لیے چھوڑیں تاکہ وہ میرے ساتھ بیٹھ سکیں ۔ چنانچہ قائداعظم نے نواب صاحب کو پچھلی قطار سے بلا کر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا۔ ٭ گورنری: کالاباغ کو عالمی میڈیا کے سامنے سب سے زیادہ شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب نواب کالاباغ خاندان کے نواب ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان بنے جن کا عہد گورنری1959ء سے1966ء تک ہے۔ ان کا دور گورنری انتظامی لحاظ سے مثالی رہاہے، جس میں بھارت کے ساتھ1965ء کی کامیاب جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے زرعی اور صنعتی میدان میں نمایاں ترقی کی۔ صدر ایوب خان نے اپنے گورنر نواب صاحب کو منہ بولابھائی کہاہوا تھا۔ مہنگائی ، بیروزگاری کا نواب صاحب کے دور میں خاتمہ ہوا۔ اشیائے خورونوش کے نرخ مقرر ہوئے ، داخلوں، ملازمتوں میں میرٹ کا رواج کر دیا۔ جو قانون غریب کے لیے تھا وہ صدر ایوب خان کے بیٹے پر بھی لاگو تھا۔ اپنے صاحبزادگان کو وقت لیے بغیر گورنر ہائوس میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ بیگم صاحبہ نے گورنر ہائوس دیکھا تک نہیں ۔ بغیر تنخواہ کام کیا۔ راشن آٹا گوشت روزانہ کالاباغ سے بذریعہ ریل ماڑی ایکسپریس لاہور منگوایا جاتا۔نواب صاحب کی صدر پاکستان اسکندر مرزا سے ذاتی دوستی تھی جن سے اپنے علاقہ دائودخیل ضلع میانوالی میں چار کارخانے کھاد سیمنٹ ،پاک ڈائز کیمیکل اور پنسلین فیکٹری منظور کروائے۔ جب ان کارخانوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو اسکندرمرزا نے اس رات نواب آف کالاباغ کے ہاں ان کے ذاتی مہمان خانہ بوہڑ بنگلہ میںقیام کیا۔ نواب صاحبان کے چند ذاتی مخالفین کہتے ہیں کہ نوابوں نے ضلع میں ترقی نہیں ہونے دی۔ اگر ایسی بات ہوتی تو رات کو گھر میں ٹھہرے ہوئے مہمان دوست صدر پاکستا ن کو میانوالی میں کارخانے لگانے سے منع کرسکتے تھے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ یہ کارخانے نواب صاحب کی کوشش سے ضلع میانوالی کے عوام کی خوشحالی کے لیے لگائے گئے۔ پاکستان کی ترقی کو بیرونی طاقتیں خاص کر سی آئی اے کو یہ بات پسند نہ تھی کہ پاکستان ترقی کرے۔ حکومت مستحکم ہو، بیروزگاری کا خاتمہ ہو ہڑتالیں ، جلوس نہ ہوں۔ 1965 ء کے جنرل الیکشن میں حکومتی پارٹی کی جیت ہو۔ یہ سب باتوں کی پاکستان میں سی آئی اے کے ہیڈ سے امریکی حکومت نے باز پرس کی جس کے جواب میں امریکی حکومت کو بتایا گیا کہ جب تک نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان ہیں نہ ایوب حکومت ختم ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک پاکستان کمزور ہو سکتاہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک شخص اگر حکومت سے ہٹ جائے تو پھر ہمارے ادارے کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صاف ہو جائے گا۔ ادارہ سی آئی اے کی نئی کوششیں شروع ہوئیں اور ایوب خان اور نواب آف کالاباغ میں اختلافات پیدا کرائے گئے۔کالاباغ کا مہمان خاص چاہے شاہ ایران آرہا ہوتا، اسکندرمرزا، صدر ایوب خان یا ذوالفقار علی بھٹو پوری رعایا دست بستہ غلام کھڑی ہوتی ۔ خٹک تھے جو اپنی سپاہیانہ ڈیوٹی چوکیدارہ کررہے ہوتے اور کوئی خٹک ڈانس پیش کرتے ۔ کالاباغ کے لوگ اپنے اپنے فن سے خدمت میں مصروف ہوتے۔ مہمانا ن گرامی کو ایسا لگتا تھا جیسا کہ پورا علاقہ نواب آف کالاباغ کا ملازم ہے۔سب لوگ یوں سمجھتے تھے۔ حلقہ میں کسی کی کیا مجال کہ کوئی اس نواب یا اسکی رعایا سے الیکشن جیت سکے ۔ الیکشن بھی رعایا اپنا ذاتی الیکشن سمجھ کر لڑتے تھے۔ اچانک کسی کی نظر لگی جس طرح امریکی ادارہ سی آئی اے نے پاکستان کے منہ بولے دو بھائیوں ایوب خان اور نواب آف کالاباغ میں دراڑ ڈالی اور پاکستان گونا گوں مسائل کا شکار ہوکے رہ گیا۔(کتاب ’’ سوانح ِ حیات:نواب آف کالا باغ،ملک امیر محمد خان‘‘ سے مقتبس)