مال روڈ کا سفر...! جم خانہ کرکٹ کلب
اسپیشل فیچر
پاکستان اور لاہور کی سب سے پہلی اور قدیم کرکٹ گراؤنڈ ہمارے سامنے تھی۔ سرسبز میدان پر سفید رنگ کی کِٹس میں ملبوس کھلاڑی جگہ جگہ گیند پکڑنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ درمیان میں دو بیٹسمین اور دو ہی امپائر تھے، جیسے جیسے رنز بنتے جا رہے تھے ویسے ویسے ہمارے دائیں اور پویلین کے بائیںجانب نصب سکور بورڈ کے ہندسے تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔ پویلین کے برآمدے میں کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے کے لیے تالیاں بجاتے اور کبھی کبھی شاباش شاباش کی آوازیں بلند کرتے۔ کہیں کہیں زمین پر گراؤنڈ کے چاروں طرف گھنے اور قدیم درختوں کے سائے میں بیٹھے تماشائی کھیل سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سُرخ اینٹوں اور سبز رنگ کے کھڑکی دروازوں والے قدیم و جدید طرز کے پویلین کے آگے پاکستان اور لاہور جم خانہ کرکٹ کلب کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پاکستان اور کرکٹ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، شام ہونے میں اب کچھ ہی دیر رہ گئی تھی، میچ کے کچھ ہی اوورز باقی رہ گئے تھے اور کسی کی فتح و شکست کا فیصلہ ہونے ہی والا تھا۔ ہم نے کلب کے ایک ذمہ دار سے اپنا تعارف کرایا اور پویلین دیکھنے کی آرزو ظاہر کی۔ وہ ہمیں سیڑھیاں چڑھا کر اُوپر لے گئے۔ایک بڑے کمرے کو بڑی خوب صورتی سے سجایا گیا ہے۔ چاروں طرف کلب کی پرانی تصاویر آویزاں ہیں، یہ تصاویر اس گراؤنڈ اور کلب کی تاریخ بتا رہی تھیں۔ انگریزوں نے برصغیر میں کرکٹ، اسکوائش، سنوکر، بلیئرڈ، برج اور گولف جیسے کھیل متعارف کروائے مگر ان میں سب سے زیادہ مقبولیت کرکٹ کو حاصل ہوئی۔ لاہور جم خانہ کرکٹ کلب کو پاکستان کا پہلا کرکٹ کلب اور اس گراؤنڈ کو پہلا کرکٹ کا میدان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ کلب ۱۸۸۵ء سے ۱۹۰۰ء کے عرصے کے دوران ملکہ وکٹوریا کی سال گرہ کی یادگار کے طور پر قائم ہوا۔ اس کی عمارت ٹولنٹن مارکیٹ کی طرز پر بنائی گئی جو آج بھی اپنی قدامت اور شان و شوکت کے ساتھ اپنی تاریخ کی گواہ ہے۔ گراؤنڈ کے اردگرد لمبے اور گھنے شیشم اور پیپل کے درخت یہاں کے یادگار میچوں کے گواہ ہیں۔ کرکٹ کلب کا پویلین، کھلاڑیوں کے ڈریسنگ رومز، باتھ رومز اور اونچی چھت کے ہال کمرے پر مشتمل ہے۔ اس ہال میں اب کرکٹ میوزیم ہے جہاں جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے والی قدیم ٹیموں کی تصاویر اور کھلاڑیوں کے سکورز اور اہم ریکارڈ کو رکھا گیا ہے۔شروع شروع میں یہاں ہر جمعہ، ہفتہ اور اتوار چالیس چالیس اوورز کے میچ منعقد ہوتے تھے ۔ ہر کھلاڑی اس گراؤنڈ پر کھیلنا اپنا خواب سمجھتا تھا۔ جموں کشمیر اور پٹیالہ کے مہاراجا تواتر کے ساتھ یہاں جم خانہ کرکٹ کلب ٹیم کے خلاف کھیلتے رہے ہیں۔ ۱۹۱۱ء میں برٹش آرمی اور ورلڈ الیون کے درمیان اس گراؤنڈ میں میچ کھیلا گیا۔ ورلڈ الیون میں زیادہ تر گلوسٹر شائر اور لنکا شائر کے کھلاڑی شامل تھے۔ یہ میچ ورلڈ الیون نے ۶۱ رنز سے جیتا تھا اور اس کے کھلاڑی ہینڈرسن نے ۵۹ رنز سکور کیا تھا۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں یہاں غیر سرکاری ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ یہ میچ انڈیا کی کرکٹ ٹیم اور ڈی آر جارڈن کی ٹیم کے مابین کھیلا گیا تھا۔ ہندستانی ٹیم میں اس دور کے مشہور کرکٹ وزیر علی اور ایس ایم نثار بھی اس میچ میں شامل تھے۔ اس کے بعد جو غیر سرکاری ٹیسٹ اس گراؤنڈ میں کھیلا گیا وہ ہندوستانی اور ٹینی سن کی کرکٹ ٹیموں کے مابین تھا۔ ہندوستانی ٹیم میں وجے مرچنٹ، مشتاق علی، امر سنگھ جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کامن ویلتھ الیون نے بھی یہاں ایک میچ پنجاب الیون کے خلاف کھیلا جس میں امتیاز احمد اور اے ایچ کاردار جیسے کرکٹر بھی شامل تھے۔پاکستان نے اس گراؤنڈ پر دوسرا پانچ روزہ سرکاری ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف ۲۶ تا ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو کھیلا۔ پاکستان نے یہ میچ چار وکٹوں سے جیتا تھا۔ وقار حسن اور امتیاز احمد نے ۳۰۸ رنز کی پارٹنر شپ قائم کی تھی جن میں امتیاز احمد کے ۲۰۹ رنز بھی شامل تھے۔ اس گراؤنڈ میں تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ۲۶ تا ۳۱ مارچ ۱۹۵۹ ء کوکھیلا۔ پاکستا ن یہ میچ ایک اننگز اور ۱۵۶ رنز سے ہار گیا تھا ۔ اس کے بعد جم خانہ گراؤنڈ میں کوئی ٹیسٹ میچ نہ ہوا کیوں کہ اب قذافی سٹیڈیم کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور میچ وہاں ہونے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ اس کی تاریخی عمارت کی حالت توجہ نہ ہونے کے باعث قابل رحم ہوتی گئی۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی تک اس کی مُرمت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ پھر پنجاب کے اس وقت کے گورنر غلام جیلانی اور وزیر اعلیٰ میاںمحمد نواز شریف نے اس طرف دھیان دیا اور اس تاریخی گراؤنڈ، عمارت کی بحالی اور تعمیر و مرمت کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے کی رقم مختص کی۔ اس رقم سے اس کو ایک مرتبہ پھر شان دا ربنا دیا گیا۔ اعظم کلاتھ مارکیٹ کے تاجروں کی طرف سے ٹیوب ویل کا عطیہ دیا گیا۔ سائیڈ سکرین سیّد انجینئرز کی طرف سے عطیہ ہوئی۔ مین پویلین کی تعمیر کے لیے معروف ماہر تعمیرات نیئر علی دادا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ علاوہ ازیں کرکٹر ماجد خان اور اداکار ندیم نے بھی اس کی بحالی کے کاموں میں حصہ لیا۔ جم خانہ کی دوسری عمارت جس میں کبھی ناؤنوش ہوتی تھی اس کی بھی مرمت کر دی گئی اور یہاں کُرسیاں اور صوفے لگا دئیے گئے۔لاہور جم خانہ کرکٹ گراؤنڈ آج بھی لاہور کی بہترین کرکٹ گراؤنڈ ہے۔ یہاں میاں محمد نواز شریف بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق پورا کرتے رہے ہیں۔ یہاں اب بھی اہم میچ ہوتے ہیں البتہ صرف کلب کے ممبران کو ہی یہاں کھیلنے کی اجازت ہے۔ پاکستان کے قدیم ترین کرکٹ گراؤنڈ، ابتدائی ٹیسٹ میچوں کے انعقاد اور بعض یادگار اننگز کی بدولت لاہور جم خانہ کرکٹ کلب کی گراؤنڈ ہماری کرکٹ کا عظیم ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم اس عظیم ورثہ سے واپس نکلنے لگے تو ایک کبوتر پویلین کے برامدے میں لٹکتی تار پر جھولے لے رہا تھا۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭