صبر و اخلاص
اسپیشل فیچر
طواف خانہ کعبہ کے دوران شیخ ابو الحسن سراج کی نظرخوبرو عورت پر پڑی،جس کا چہرہ انتہائی پر سکون تھا۔ ان کی زبان پر بے ساختہ جاری ہوگیا کہ شاید یہ آزاد خیال عورت ہوگی جس کو کوئی رنج غم ہی نہیں۔یہ آواز اس خاتون کے کا ن سے ٹکرائی اور وہ کہنے لگی خدا کی قسم میںتو غموں سے چور چور ہوں،میرا دل رنج و الام سے زخمی ہے۔آپ نے دریافت کیا ، کو ن سا غم لاحق ہے۔کہنے لگی ایک دن میرے شوہرنے بکری ذبح کی، قریب ہی میرے دوچھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے۔جبکہ تیسرا شیر خوا ربچہ میر ی گود میں تھا۔میں کھانا پکانے میں مشغول ہوئی کہ بڑابیٹا چھوٹے سے کہنے لگا آ تجھے بتائوں ابو نے بکری کس طرح ذبح کی؟ بڑے نے چھری ہاتھ میں لی چھوٹے کو زمین پر لٹایا اور ذبح کردیا، اپنے چھوٹے بھائی کو خون میں لت پت اور تڑپتا دیکھ کر گھبرا گیا، پہاڑ کی طرف بھاگااور لاپتہ ہوگیا،میرا شوہر تلاش میں نکلا اس نے دیکھا کہ ایک بھیڑئیے نے بچے کو چیڑ پھاڑ کر پھینک دیا۔بچے کی ہلاکت کا صدمے سے میرے شوہر کا وہیں پر انتقال ہو گیا ۔ میں ذبح شدہ بچے کی طرف آئی اور شیر خوار بچے کو وہیں چھوڑ دیا، بچے نے گرم ہنڈیااپنی طرف کھینچ لی جو اس کے اوپر گری اور وہ بھی فوت ہوگیا۔میری ایک شادی شدہ بڑی بیٹی بھی تھی جب ان ہلاکتوں کی اطلاع اس تک پہنچی تو اس کا کلیجہ پھٹ گیااور صدمے سے اس نے بھی تڑپ تڑپ کر جان دیدی ۔ یوںآن کی آن میں میرے چاروں بچے اور انکا باپ اس دنیا سے چلے گئے۔میں اس دنیامیں غم سہنے کیلئے تنہا رہ گئی۔ شیخ ابو الحسن سراج نے داستان غم سنی اور کہا آخرتم نے ان صدمات پر صبر کیسے کرلیا؟ عورت نے کہا کہ کوئی بھی صبر اور بے صبری پر غور کریگا تو اسے جدا جدا پائے گا۔اگر خوشحالی ظاہر کرکے صبر کیاتو اس کا انجام بہتر اور پھل میٹھا ہوگااور اگر بے صبری میں مبتلا رہا تو اسکا انجام برا اور وہ اجر وثواب سے محروم رہیگا۔لہٰذا میں بھی صبر کررہی ہوں۔ان صدمات کے باعث آنسو میرے دل پر گرر ہے ہیں، اتنا کہنے کے بعدوہ صابرہ خاتون آپ کے پاس سے رخصت ہوگئیں۔ ( روض ریاحین) مصیبت انسان کو ہلا کررکھ دیتی ہے، دراصل یہ بہت بڑا امتحان ہے۔ اس میں بندے کو آ ز ما یا جاتا ہے جو صبر کرتا ہے وہ ڈھیروں اجر پاتا ہے اور جو بے صبری کرتا ہے وہ ثواب سے رہ جاتا ہے بلکہ شکوہ کے کلمات بول کر گناہگار ہوجاتا ہے۔بعض لوگ تو کفریات تک بک ڈالتے ہیں اور اپنا ایمان بھی گنوا بیٹھتے ہیں، صبر کرنیوالوں کیلئے بہتر اجر ہے چنا نچہ پارہ۱۲ سورۃ الھود آیت۱۱ میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اوراچھے کا م کئے ان کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔‘‘(ترجمہ کنزالایمان )صبر کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنی مصیبت کا اظہار بلاسبب نہ کیا جائے جیسے آج کل ہوتا ہے۔ کسی پر تہمت رکھنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ کوئی کسی مسلمان کے بارے میں ایسی بات کہے جو نہیں (یعنی تہمت) تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک ردغتہ الخبال میں رکھے گا جب تک اس کی سزا پوری نہ ہوجائے۔ردغتہ الخبال جہنم میں ایک وادی ہے جہاں تہمت لگانے والے کو رکھا جائیگا۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ کسی کو جان یا مال میںکوئی مصیبت پہنچے تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے کسی پر ظاہر نہ کرے،اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر مغفرت لکھ دیتا ہے،جتنی بڑی مصیبت ہوگی اتنا ثواب بھی زیادہ ہوگا ۔ حدیث پاک میں ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ بڑا ثواب بڑی آزمائش کے ساتھ ملتا ہے۔اللہ کسی قوم کیساتھ محبت فرماتا ہے تو اسے آزمائشوں میں مبتلا کردیتا ہے اورجو راضی ہوتا ہے اس کیلئے اللہ کی رضا ہے اگر ناراض ہوتا ہے (بے صبری کا مظاہر ہ کرتا ہے)تو اس کیلئے ناراضگی ہے ۔‘‘مسلمان اس طرح کے امتحان کیلئے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر214میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ’’ کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جائوگے ، ابھی تک تمہیں اگلوں جیسی ر و د ا د یعنی حالت نہیں آئی۔‘‘(ترجمہ :کنزالایمان) سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادیؒخزائن العرفان میں اس آیت کی شان نزول کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔یہ آیت غزوہ الاحزاب کے متعلق نازل ہو ئی جہاں مسلمانوں کو بھوک پیاس کی سخت تکلیف تھی اس میں انہیں صبر کی تلقین کی گئی اور بتایا گیاراہ خدامیں تکالیف برداشت کر نا قدیم زمانے سے اللہ کے نیک بندوں کا معمول رہا ہے ابھی تو تمہیں پہلوں سی تکالیف پہنچی بھی نہیں ہیں۔ اللہ اپنے پیارے حبیبؐ کے صدقے میں صبر کی دولت سے مالامال رکھے اور ہر طرح کی آزمائش سے محفوظ رکھے۔ آمیناخلاص صالحین کی عادت مبارکہ کا خاصاتھا ، وہ ہرایک عمل میں اخلاص کو مد نظر رکھتے اور ریا کا شائبہ بھی انکے دلوں میں پیدا نہیں ہوتاتھا ۔ وہ جانتے تھے کہ کوئی عمل بجز اخلاص مقبول نہیں ۔ وہ لوگوں میں زاہدعابد بننے کیلئے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔انہیں اس بات کی کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ لوگ انہیں اچھا سمجھیں گے یا برا ۔ ان کا مقصودمحض رضائے حق سبحانہ و تعالیٰ ہوتاتھا۔ ساری دنیا ان کی نظروں میں ہیچ تھی وہ جانتے تھے کہ اخلاص کے ساتھ عمل قلیل بھی کافی ہوتاہے، مگر اخلاص کے سوا رات دن بھی عبادت کی جائے تو کسی کام کی نہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ ؓکو جب یمن بھیجا تو فرمایا’’ اپنے دین میں اخلاص کر تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا۔‘‘(حاکم)حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا واقعہ ناظرین سے مخفی نہیں کہ ایک لڑائی میں ایک کافر پر آپ ؓنے قابو پالیا اس نے آپؓ کی شان میں گستاخی کی تو آپؓ نے اسے چھوڑ دیا ، وہ حیران رہ گیا کہ بجائے اس کے کہ انہیں غصّہ آتا اور مجھے قتل کردیتے انہوں نے چھوڑدیا۔ حیران ہوکر پوچھا تو آپؓ نے فرمایا’’ میں نے محض رضائے حق کیلئے تلوار پکڑی ہے میں خدا کے حکم کا بندہ ہوں اپنے نفس کے بدلے کیلئے مامور نہیں ہوں میں خدا کا شیر ہوں اپنی خواہش کانہیں ۔ تو نے میری گستاخی کی،اب اس لڑائی میں نفس کا دخل ہو گیا اخلاص جاتارہا، اس لئے میں نے تجھے چھوڑ دیا کہ میرا کام اخلاص سے خالی نہ ہو، اس جنگ میں ایک علّت پیدا ہوگئی جو اخلاص کے منافی تھی تو میں نے تلوار کا روکنا ہی مناسب سمجھا ۔‘‘ وہ کافر تھا آپؓ کا جواب سن کر مسلمان ہوگیا ۔اس پر مولانا رومیؒ نے کیا خوب کہا کہ بس خجستہ معصیت کاں مرد کرد نے زخارے بردمد اوراق ورد مولانا تمثیلؒ نے بھی اس سلسلے میں کیا خوب کہا کہ جس طرح کانٹوں سے گُل ِسرخ کے پتے نکلتے ہیں اسی طرح اس کے گناہ سے اسے اسلام حاصل ہوگیا ۔ حضرت معروف کرخی ؒ فرمایا کرتے تھے’’اے نفس !اخلاص کرتاکہ تو خلاصی پائے۔‘‘ آپؒ نے یہ بھی فرمایا’’مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو بھی ایسے ہی چھپائے جیسے کہ اپنی برائیوں کو چھپاتاہے۔‘‘حضرت سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے کہا’’اے میرے بیٹے !علم پر اگر عمل کی نیت ہو توپڑھو ورنہ وہ علم قیامت کے دن تم پروبال ہوگا۔‘‘ حضرت حسن بصری ؒ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب کرکے فرمایا کرتے تھے’’ اے نفس!تو باتیں تو ایسی کرتاہے جیسے بڑا ہی کوئی صالح ، عابد ، زاہدہے لیکن تیرے کام ریاکا ر و ں ، فا سقو ں ، منا فقو ں کے ہیں۔ خدا کی قسم! مخلص لوگوں کی یہ صفات نہیں کہ ان میں باتیں ہوں اور عمل نہ ہو۔‘‘ خیال فرمائیے حضرت حسن بصری ؒ وہ ہیں جنہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خرقہ خلافت پہنا، سلسلہ چشتیہ قادریہ اور سہروردیہ کے شیخ ہوئے ۔ مگر نفس کو ہمیشہ ایسے ہی جھڑکا کرتے تھے تاکہ اس میں ریا نہ پیدا ہو ۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ سے پوچھا گیا کہ آدمی مخلص کس وقت ہوتاہے ؟آپؒ نے فرمایا’’جب عبادت الٰہی میں خوب کوشش کرے اور اسکی خواہش یہ ہو کہ لوگ میری عزت نہ کریں ، جو عزت لوگوں کے دلوں میں ہے وہ بھی جاتی رہے ۔‘‘ حضرت یحییٰ بن معاذ ؒ سے سوال ہواکہ انسان کب مخلص ہوتا ہے؟ آپ ؒ نے فرمایا’’جب شیر خوار بچہ کی طرح اس کی عادت ہو شیرخوار بچے کی کوئی تعریف کرے تو اسے خوشی نہیں ہوتی اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی یعنی وہ بے پرواہ ہوتاہے اسی طرح انسان جب مدح وذم کی پرواہ نہ کرے تو اُسے مخلص کہا جاسکتاہے۔‘‘حضرت ابو السائب ؒ یہاں تک اخلاص کا خیال رکھتے تھے کہ اگر قرآن یا حدیث کے سننے سے ان کو رقت طاری ہوجاتی اور آنکھوں میں پانی بھر آتا تو آپؒ فوراً اس رونے کو تبسم کی طرف پھیر دیتے۔یعنی ہنس پڑتے اور ڈرتے کہ رونے میں ریا نہ ہوجائے ۔ ابو عبداللہ انطاکیؒفرماتے ہیں کہ’’ قیامت کے دن ریا کار کو حکم ہوگا کہ جس شخص کے دکھانے کیلئے تونے عمل کیا اس کا اجراسی سے مانگ۔‘‘حضرت حسن بصریؒ فرماتے تھے’’ جو شخص مجالس میں اپنے نفس کی مذمت کرے تو اس نے گویا مدح کی اور یہ ریا کی علامت سے ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ فرماتے تھے کہ’’ کسی بھائی کو اس کے نفلی روزوں کے متعلق نہ پوچھو کہ تیرا روزہ ہے یا نہیں ۔ کیونکہ اگر اس نے کہا کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا دل خوش ہوگا اور وہ خیال کریگا کہ میری عبادت کا اس کو پتالگ گیا ہے ۔ اگروہ بولا کہ میرا روزہ نہیں تو وہ غمناک ہوگا اور اسے شرم آئے گی کہ میرا روزہ نہیں اور اس شخص کو میری نسبت جو حسنِ ظن ہے جاتارہے گا ۔ یہ خوشی اور غمی دونوں ہی علاماتِ ریا سے ہیں اور اس میں اس مسؤل کو فضیحت ہے کہ صرف تمہارے پوچھنے کے سبب وہ ریا میں مبتلا ہوا۔‘‘ حضرت فضیل بن عیاض ؒفرماتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو پایا کہ وہ عملوں میں ریا کرتے تھے یعنی عمل کرتے تھے اور اس میں ریا ہوتاتھا لیکن آج ایسی حالت ہوگئی ہے کہ لوگ ریا کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے یعنی کرتے کچھ نہیں محض ریا ہی ریا ہے ۔ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کا ہی ایک اور فرمان ہے کہ’’جو شخص اس امر کی محبت رکھے کہ لوگ میرا ذکر خیر کریں اس نے نہ اخلاص کیا نہ تقویٰ‘‘ حضرت عکرمہ ؒفرماتے تھے کہ نیت صالحہ بکثرت کیا کرو کہ نیت صالح میں ریا کی گنجائش نہیں ۔حضرت ابو دائود طیالسی ؒفرمایا کرتے تھے کہ عالم کولا زم ہے کہ جب کوئی کتاب لکھے اس کی نیت میں دین کی نصرت کا ارادہ ہو یہ ارادہ نہ ہوکہ عمدہ تالیف کے سبب لوگ مجھے اچھا سمجھیں ۔ اگر یہ ارادہ کریگا تو اخلاص جاتا رہے گا۔امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ’’ ریا کار کی تین علامتیں ہیں جب اکیلا ہو تو عبادت میں سستی کرے اور نوافل بیٹھ کر پڑھے اور جب لوگوں میں ہو تو سستی نہ کرے بلکہ عمل زیادہ کرے اور جب لوگ اس کی مدح کریں تو عبادت زیادہ کرے، اگرلوگ مذمت کریں تو چھوڑ دے ۔‘‘حضرت سفیان ثوری ؒ کا قول ہے کہ جو عمل میں نے ظاہر کردیا ہے میں اس کو شمار میں نہیں لاتا یعنی اس کو کالعدم سمجھتا ہوں کیونکہ لوگوں کے سامنے اخلاص حاصل ہونا مشکل ہے ۔حضرت ابراہیم تیمی ؒ ایسا لباس پہنتے تھے کہ ان کے احباب کے سوا کوئی ان کو پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ عالم ہیں اور فرمایا کرتے تھے کہ مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو ایسا چھپائے جیسے برائیوں کو چھپاتا ہے ۔حضرت امام حسن بصری ؒ نے حضرت طاؤسؒ کو دیکھا کہ وہ حرم شریف میں ایک بہت بڑے حلقہ درس میں حدیث کا املاء فرمارہے تھے۔ حضرت حسن بصری ؒ نے قریب ہوکر ان کے کان میں کہا کہ اگر تیرا نفس تجھے عُجب میں ڈالے یعنی اگر نفس کو یہ بات پسندیدہ معلوم ہوتی ہے توتو اس مجلس سے اُٹھ کھڑا ہو اسی وقت حضرت طاؤسؒ اُٹھ کھڑے ہوئے ۔حضرت سفیان ثوریؒ جب حدیث کی املاء کیلئے اکیلے بیٹھتے تو نہایت خائف اور مرعوب بیٹھتے ۔ اگر ان کے اوپر سے بادل گزرتا تو خاموش ہوجاتے اور فرماتے کہ میں ڈرتا ہوں کہ اس بادل میں پتھر نہ ہوں جو ہم پر برسائے جائیں۔ایک شخص حضرت اعمشؒ کے حلقہ میں ہنسا تو آپ نے اس کو جھڑکا اور اُٹھا دیا اور فرمایا کہ تو علم طلب کرتا ہوا ہنستا ہے جس علم کے طلب کیلئے اللہ تعالیٰ نے تجھے مکلف فرمایا ۔ پھر آپ نے دوماہ تک اس کے ساتھ کلام نہ کیا ۔حضرت سفیان بن عیینہؒ کو کہا گیا کہ آپ کیوں ہمارے ساتھ بیٹھ کر حدیثیں بیان نہیں کرتے ۔ فرمایا: خدا کی قسم!میں تم کو اس بات کا اہل نہیں سمجھتا کہ تمہیں حدیثیں بیان کروں اور اپنے نفس کو بھی اہل نہیں سمجھتا کہ تم میرے جیسے شخص سے حدیثیں سنو ۔حضرت ابن عباسؓجب قرآن کی تفسیر بیان کرنے سے فارغ ہوتے تو فرمایا کرتے کہ اس مجلس کو استغفار کے ساتھ ختم کرو،یعنی مجلس کے ختم پر بہت استغفار کرتے ۔ تومعلوم ہو ا کہ بندہ شیطان سے اخلاص کے سوا نہیں بچ سکتا۔ ٭…٭…٭