مست الست صوفی شاعر شاہ حسین
اسپیشل فیچر
لاہور میںبہار کی آمد کے ساتھ ہی میلوں ٹھیلوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ان میلوں میں سے ایک میلہ چراغاں بھی ہے جو عقیدت مندوں کی شرکت کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگ کی جلترنگ بھی ہے۔یہ میلہ کب اور کیوں شروع ہوا؟ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس بات کے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں سکھوں کے دور میں بھی یہ میلہ منایا جاتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ خود اپنے درباریوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتے تھے اور باغبانپورہ میں شاہ حسینؒ کے دربار پر گیارہ سو روپے اور ایک جوڑا بسنتی چادروں کا چڑہاوے کے طور پر دیا کرتا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل اس میلے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میلے کا پھیلاؤ دہلی دروازے سے لے کر شالامار باغ تک ہوا کرتا تھااور زائرین کی کثیر تعداد شاہ حسینؒ کے مزار پر چراغ جلایا کرتی تھی اور منتیں مانا کرتی تھی۔ اسی مناسبت سے اس کا نام میلہ چراغاں پڑ گیا۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹول گردانا جاتا تھا۔ مادھولال حسینؒ کے عرس پر ملک بھر سے ملنگ جمع ہوتے ہیں اور اس میلے کو ملنگوں کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔ مادھولال حسینؒ کی عشقِ حقیقی میں ڈوبی ہوئی آواز ایک درویش صفت اور مست الست انسان کی آواز ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل خطہ پنجاب میں گونجی اور پھر دیکھتے دیکھتے پاک وہند میں پھیل گئی۔ شاہ حسینؒ پنجاب کے ان سرکردہ صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے برصغیرمیں خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ مادھولال حسینؒ کا عشق اپنی نوعیت کا عجیب فلسفہ ہے۔ایک روز قرآن کی تفسیر پڑھتے ہوئے وہ اس آیت پر پہنچے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’دنیا ایک کھیل کود کے سوا کچھ نہیں‘‘ اس آیت کا شاہ حسینؒ پر ایسا اثر ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لال کپڑے پہن، داڑھی مونچھ منڈوا کر گانا بجانا شروع کر دیا اور فقیروں کے ملامتیہ فرقے میں شامل ہو گئے اور زندگی کے بقیہ ستائیس برس جذب و سکر کی حالت میں گزارے۔اسی دور میں شاہ حسینؒ کو ایک برہمن ہندو لڑکے مادھو لال سے عشق ہو گیا‘ اسی عشق کی وجہ سے لوگ شاہ حسینؒ کو شاہ حسینؒ کی بجائے مادھو لال حسینؒ کہنے لگے۔مادھو نے بھی سر تسلیم خم کیا اور باقی تمام عمر شاہ حسینؒ کی مریدی میں گزار دی۔ ایک روزشاہ حسینؒ اسی جذب و مستی کی حالت میں چھت سے گرے اور داعی عدم ہو گئے۔ شاہ حسینؒ کو پہلے مادھو لال نے اپنے علاقے شاہدرہ میں دفنایا مگر (شاہ حسین ؒکی پیش گوئی کے مطابق) بارہ برس بعد 1613ء میں جب دریائے راوی نے اپنا رخ بدلا تو مادھو لال نے اپنے مرشد کو شاہدرہ سے نکال کر باغبانپورہ میں دفن کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی مزار کی مجاوری میں گزار دی اور جب مادھو 1636ء میں فوت ہوا تو اس کی قبر بھی شاہ حسینؒ کے برابر میں بنائی گئی۔شروع سے لے کر1950ء تک میلہ چراغاں یا مادھو لال حسینؒ(شاہ حسینؒ) کا عرس شالا مار باغ میں ہوا کرتا تھا مگر بعد میں شالامار باغ کی تخریب کو مد نظر رکھتے ہوئے میلے کو جی ٹی روڈ اور باغبانپورہ تک محدود کر دیا گیا۔حضرت بابا شاہ حسینؒ 945ھ بمطابق 1538ء کو اندرون ٹیکسالی گیٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے تھا جوکہ فیروز شاہ تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔بچپن میں شاہ حسینؒ کے والد آپ کو ٹیکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں حافظ أبوبکر کے پاس حفظ قرآن پاک کے لئے چھوڑ آئے۔ شاہ حسینؒ نے دس برس کی عمر تک سات پارے حفظ کر لئے اسی دروان ایک صوفی درویش حضرت بہلول حافظ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت بہلول ضلع جھنگ کے قصبہ لالیاں کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک گائوں بہلول کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حافظ ابو بکر سے شاہ حسینؒ کے متعلق دریافت کیا۔ شاہ حسینؒ حضرت بہلول کے روبرو پیش ہوئے تو حضرت بہلول نے شاہ حسینؒ کو خوب پیار کیا اور دریائے راوی سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے کہا۔ شاہ حسینؒ فوراً دریا سے پانی لے کر واپس مڑے تو دریا کے کنارے ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جنہوںنے شاہ حسینؒ کو فرمایا کہ بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈال دو شاہ حسینؒ نے پانی بزرگ کے ہاتھ پر ڈال دیا۔ بزرگ نے وہ پانی شاہ حسینؒ کے منہ میں ڈال دیا ۔پانی حلق سے اترنا تھا کہ شاہ حسینؒ کی دنیا بدل گئی۔ پھر سبز پوش بزرگ نے خضرکے نام سے اپنا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ پیرومرشد کے پاس جائو اور میرا سلام پیش کرنا۔ شاہ حسینؒ پانی لے کر حضرت بہلول کے پاس پہنچے اور تمام واقعہ گوش گذار کیا۔ حضرت بہلول نے وضو کیا ور بارگاہ خدا وندی میں خصوصی دعا فرمائی۔ حضرت بہلول نے حافظ ابوبکر سے دریافت کیا کہ یہاں تراویح کی نماز کون کراتا ہے؟ حافظ ابو بکر نے کہا کہ میں کراتا ہوں۔ حضرت بہلول نے فرمایا کہ اس مرتبہ شاہ حسینؒ تراویح کی نماز کی امامت کریں گے۔ شروع رمضان میں شاہ حسینؒ نے امامت فرمائی آپ کو چھ سپارے یاد تھے جب وہ سنا چکے تو حضرت بہلول کی خدمت میں عرض کیا جی حضرت جو قرآن مجھے یاد تھا وہ سنا چکا ہوں۔جواب میں حضرت بہلول نے شاہ حسینؒ کو دریائے راوی سے دوبارہ پانی لانے کیلئے کہا۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور شاہ حسینؒ کے حق میںدعا فرمائی ‘ اس کے بعد انہوں نے 27 رمضان تک سارا قرآن پڑھ کر مکمل کر لیا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس بچے کو صرف کچھ پارے یاد تھے‘ مکمل قرآن پاک کیسے یاد ہو گیا۔ رمضان المبارک کے بعد حضرت بہلول شاہ حسینؒ کو لے کر دربار حضرت داتا گنج بخشؒ لے گئے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تیرے بھی مرشد ہیں اور میرے بھی مرشد ہیں۔ اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا حضرت بہلول شاہ حسینؒ کو داتا علی ہجویریؒ کے سپرد کرنے کے بعد پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ حسینؒ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی۔ ہر رات دریائے راوی میں کھڑے ہوکر پورا قرآن پڑھتے ۔صبح دربار حضرت علی ہجویریؒ پر حاضر ہوکر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے اور روزانہ روزہ بھی رکھتے۔ؒؒآپ انتہائی درویش صفت بزرگ اور باکمال صوفی شاعر ہیں۔ آپ نے کافی کی صنف کو موسیقی کے سروں کے ساتھ متعارف کرایا۔ شاہ حسینؒ کی شاعری اپنے اندر نہ صرف مطالب کی گہرائی رکھتی ہے بلکہ راگوں اور سروں کا خزانہ بھی ہے۔ شاہ حسینؒ کی شاعری میں درد ہجر وصال کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جو انسانی فطرت کو تخلیق کائنات کے رازوں سے آشنا کرتی ہے۔ آپ صاحب کرامت بزرگ اور فقیر کامل تھے۔ شاہ حسینؒ جب عمر مبارک کے 51ویں برس میں داخل ہوئے تو آپ کو مادھو لال نامی ہندو برہمن سے عشق ہوگیاجو شاہدرہ کا رہائشی تھا۔ شاہ حسینؒ مادھولال کے مکان کے گرد چکر لگاتے رہتے اور اندرون خانہ کی ساری باتیں باہر بیان کرتے‘ آہستہ آہستہ مادھولال بھی شاہ حسینؒ کے رنگ میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسینؒ سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔شاہ حسینؒ نے آپ کا اسلامی نام محبوب الحق رکھا۔ شاہ حسینؒ کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔ شاہ حسینؒ کے حکم پر انہوں نے تیرہ برس مغل فوج میں ملازمت کی۔ 1008ھ میں حضرت شاہ حسینؒ کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی پیشگوئی کے مطابق دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے باعث آپ کا مدفن بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ حضرت مادھو لال حسینؒ نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔اس طرح حضرت شاہ حسینؒ کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔ جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتے میں میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔٭٭