گُلِ داؤدی
اسپیشل فیچر
گُلِ دائودی کا نام لیتے ہی آنکھوں کے سامنے رنگارنگ گھنی پتیوں پر مشتمل خوشنما اور دیدہ زیب پھول کِھل اٹھتے ہیں۔ اِن رنگ برنگ اور تہ بہ تہ پتیوں کے حامل پھولوں کو دیکھ کر ہم فطرت کی حُسن کاری پر اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ گُلِ دائودی جسے مشرق کا رُوپہلا پھول کہتے ہیں، ہزارہا سال پرانی تاریخ کا حامل ہے۔ یہ مشرق کا مغربی ممالک کے لیے ایک نفیس تحفہ شمار ہوتا ہے۔ اس کی کاشت انسانی نفاست پسندی اورحُسن شناسی کی دلیل ہے۔گُلِ دائودی کو نباتات کی بین الاقوامی زبان میں ’’کریسنتھیمم‘‘ (Chrysanthemum)، اُردو اور فارسی میں گُلِ دائودی، عربی میں باسوم، سندھی میں ڈوپھروگل اور سنسکرت میں ’’سسیتا‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی لفظ ’’کریسنتھیمم‘‘ لاطینی کے ۲الفاظ ’’کرائی ساس‘‘ اور ’’اینتھی مون‘‘ کا مجموعہ ہے۔ ان الفاظ کے معنی ’’سونا‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ہیں۔ اس پھول کا آبائی وطن چین ہے۔ ابتدائی صورت میں پھول کا رنگ سنہرا زرد تھا۔ اس لیے چین میں اسے (Seal Golden The) یعنی ’’طلائی مہر‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔گُلِ دائودی گذشتہ اڑھائی ہزار سال سے انسان کا جمالِ ہم نشیں ہے۔ پھولوں کی کاشت کے متعلق معروف کتاب’’ گلبانی‘‘ کے مصنف چوہدری خورشید محمد کے مطابق اس دلفریب و دلربا پھول کا اُردونام گُلِ دائودی۲ الفاظ کا مجموعہ ہے ،جو فارسی اور عبرانی زبان سے تعلق رکھتے ہیں ،لیکن ہماری تحقیق کے مطابق لفظ گل فارسی زبان کا ہے ،جو کہ اُردو میں مستعمل ہے جبکہ دائودی عبرانی زبان کے بجائے چینی زبان کا ہے۔ کنفیوشس کے ہم عصر لائوزے کی مشہورِزمانہ کتاب کا عنوان تائو۔تی۔چنگ یا تھوڑے سے تلفظ کے فرق سے دائو دی جنگ جس کے معنی Power Devine مقدس طاقت، نیکی کی راہ یا اعلیٰ اخلاق کے ہیں سے ماخوذ ہے۔ دائو۔دی۔جنگ اُردو زبان میں داخل ہو کر ہجے اور تلفظ کی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دائودی بن گیا ہے۔چین کے ادیبوں اور شاعروں نے اسے انکسار، شرافت، وجاہت، بزرگی اور درازیٔ عمر کی علامت قرار دیا ہے۔ چین میں ایک خاص تہوار پر گُلِ دائودی سے مشروب تیار کیا جاتا اور گھروں سے باہر گُلِ دائودی کی کیاریوں کے پاس بیٹھ کر یہ مشروب پیا جاتا ہے۔ گلِ دائودی کی بعض اقسام کی پنکھڑیاں چائے کی پتی کی طرح استعمال ہوتی ہیں۔ یہی پتیاں تکیوں میں روئی کی جگہ بھی استعمال ہوتی ہیں، ایسے تکیے موسم گرما میں اپنی خوشبو کے باعث روح کو ٹھنڈک اور فرحت پہنچاتے ہیں۔ ماہرین ِ نباتات کے مطابق گُلِ دائودی جنگلی کی۲ اقسام گُلِ دائودی ہندی اور گُلِ دائودی چینی آج کے گُلِ دائودی کے آباء واجداد میں شمار ہوتی ہیں:گُلِ دائودی ہندی: اپنی خوبصورت بناوٹ اور نیم دائرہ پتیوں کی بدولت عہدِقدیم سے لے کر چینیوں کا دل پسند پھول ہے۔ آج بھی یہ اپنی اصل جنگلی صورت میں ’’ہانگ کانگ‘‘ اور ’’پائی پنگ‘‘ کے درمیانی علاقے میں پایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ہندوستان کا پودا نہیں بلکہ سویڈن کے مشہور سائنسدان لائینز نے غلط فہمی کی بنا پر گُلِ دائودی کی اس بنیادی قسم کو ہندی، یعنی انڈیکم کا غلط نام دے دیا تھا۔ بعد کے سائنسدانوں نے اس کی تصحیح کرکے اس کا نام گُلِ دائودی جاپانی یعنی ’’کریسنتھیمم جاپونیکا‘‘ تجویز کیا۔ گُلِ دائودی چینی: اکہری پتیوں والا سفید رنگ کا پھول ہے۔ اس کا ذکر تانگ عہدِ حکومت یعنی (۶۱۸ء تا ۹۰۲ء) کے ادب اور شاعری میں بار بار ملتا ہے۔ درحقیقت یہ پہلے گُل ِدائودی سے بہت بعد کی پیداوار ہے۔ تانگ عہدِحکومت کے بانی نے اس کی نت نئی انواع پیدا کرنے میں باغبانوں کی دل کھول کر سرپرستی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے آبائی شہر ژونگ شان سٹی کے شائولن ٹائون کا نام بدل کر ’’جوژیان‘‘ یعنی ’’گلِ دائودی کا شہر‘‘ رکھ دیا گیا۔ موسمِ خزاں میں جب باغ باغیچوں کی فضا اجڑنے اور بکھرنے لگتی ہے تو گلِ دائودی کا پودا گل افروز ہوکر انجمن آرا ہوتا ہے۔ راہ وارِ خزاں کا اکیلا شاہسوار اپنا پھریرا لہرانے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تنہائی، عزلت نشینی اور ملک خزاں کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔پھولوں سے محبت کرنے والے چین کے ایک باذوق گلبان تائومنگ ینگ نے تقریباً پانچویں صدی عیسوی میں گُلِ دائودی کی کاشت اور نت نئے رنگ پیدا کرنے میں اپنی پوری عمر صرف کر دی۔ اس پھول سے انسان کی اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ اسی زمانہ میں یہ پھول اپنے غیرملکی سفر پر روانہ ہوا اور کوریا کے راستے جاپان پہنچ گیا۔ جاپان میں تقریباً دو اڑھائی سو سال اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ ۱۸۲۶ء میں جاپان کے شہنشاہ مکاڈویودا کی نگاہِ قدردان اس پر پڑی تو اس نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے اس کی تمام اقسام کو فراہم کرنے، شاہی محلات اور ملک کے تمام بڑے باغوں اور قابلِ ذکر علاقوں میں لگوایا۔ اس پھول سے جاپانیوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اسے شاہی خاندان کے مخصوص نشان کی علامت بنا دیا۔ شاہی دستاویزات پر اس کی علامتی تصویر بنائی گئی۔ سولہ پتیوں والے پھول کا نشان شاہی گاڑیوں، محلات کے دروازوں اور تلواروں کے دستوں پر کندہ کیا جانے لگا۔ آج جاپان کا سب سے بڑا قومی اعزاز نشانِ گلِ دائودی کہلاتا ہے اور اس پھول کے نام پر ہر سال ایک قومی تہوار بھی منایا جاتا ہے جسے فیسٹیول آف ہیپی نس کا نام دیا گیا ۔۱۷۹۵ء میں گُلِ دائودی کا پودا انگلستان لے جایا گیا اور کیوگارڈن کی زینت بنا۔ یورپ میں گلاب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت گُلِ دائودی کو حاصل ہے۔ ۱۹۳۱ء میں یورپ میں اس کی پہلی نمائش منعقد ہوئی اور علاقائی انجمنیں قائم کی گئیں۔ ۱۸۴۰ء میں ماہرِنباتات ہاورتھ نے اس کی درجہ بندی کی اور ۱۸۴۳ء میں انگلستان کے مشہور ماہرِنباتات رابرٹ فارچون نے چین کا سفر کیا اور تقریباً تمام اقسام اکٹھی کرکے انگلستان بھجوائیں۔ ۱۸۶۲ء میں رابرٹ فارچون نے اسی سلسلہ میں جاپان کا دوسرا سفر کیا اور وہاں سے بھی تمام اعلیٰ اقسام اکٹھی کرکے انگلستان روانہ کیں اور اسی سفر کے دوران وہ راہی ملک عدم ہوا۔ براعظم امریکا میں گُلِ دائودی کب اور کس طرح پہنچا، اس کا کوئی تاریخی احوال دستیاب نہیں۔ البتہ ۱۸۲۷ء میں فلے ڈیلفیا میں اس کی پہلی نمائش منعقد ہوئی۔ امریکا میں اس پھول کی نئی نئی اقسام پیداکرنے میں والکوٹ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ۱۸۸۰ء میں جان تھروپ نے منفرد رنگوں پر مشتمل اس کی چند نایاب اقسام پیدا کیں، جن کی تصویر کشی کسی ادیب نے کچھ اس طرح کی کہ جیسے کوئی سبز پری، رنگین اور منور فانوس اٹھائے رقصاں ہو یا جیسے کوئی نازک اندام ہتھیلیوں پرگھومتی ہوئی خواب رنگ طشتری رکھے مسکرا رہی ہو۔ امریکا میں اس طرز کا ایک پھول مسزایلفیس ہارڈی نے ۱۸۸۸ء میں پیدا کیا جو۱۵۰۰امریکی ڈالر میں فروخت ہوا۔طب اور ادب کی مختلف کتب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ گُلِ دائودی یورپ سے بہت پہلے ایران اور برصغیر میں پہنچ چکا تھا۔اس وقت دنیا میں اس پھول کی تقریباً ۵ ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔پاکستان میں موجود اقسام میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔ نیم دہرے دائودی، چاک داماں دائودی، تکمہ دائودی، گولا دائودی، لہنگے دار دائودی، معکوس دائودی، آفتابی دائودی، چینی اور جاپانی دائودی اور مکڑا دائودی وغیرہ۔ پاکستان میں گُلِ دائودی کے شائقین کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک سے کم نہیں۔ حد درجہ محنتی اور ذوقِ سلیم کے حامل حاجی مہتاب دین مرحوم نے مسٹر وی ایچ بولتھ کی کوٹھی ڈیوس روڈ لاہور میں بہت سی نئی اقسام بیجوں سے تیار کیں، جس پر ۱۹۱۱ء میں انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔ اس کے علاوہ سفید بالوں والی ایک قسم ۱۹۲۳ء میں پیدا کی، جس پر وہ انعام کے مستحق ٹھہرے۔ چوہدری چراغ دین مرحوم نے ڈاکٹر ٹیلر کی کوٹھی پر اندر کی طرف خمیدہ چوڑی پریوں والے پیلے رنگ کے علاوہ سفید برش نما پھول پیدا کیے۔ چوہدری قمردین مرحوم نے لاہور ہائی کورٹ کے باغ میں سلیٹی رنگ کا پھول پیدا کرکے دادِ تحسین حاصل کی۔ پاکستان میں ہر سال ماہِ نومبر کے آخر پر گُلِ دائودی کی نمائش کراچی، اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور پشاور میں گذشتہ کئی سالوں سے باقاعدگی سے منعقد ہو رہی ہے، جس میں شائقین و ناظرین کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ مقابلہ میں شریک گلبانوں کو اول، دوم اور سوم انعامات سے نوازا جاتا ہے، جو اس کی ترقی و ترویج میں انتہائی ممدومعاون ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تگ وتاز کو دیگر شہروں تک بھی پھیلایا جائے کہ اس شوقِ لطیف کے پروان چڑھنے کا مطلب حسنِ فطرت سے لگائو رکھنے والوں کے ذوق کی تسکین و تسلی ہوگی۔ شاید اس طرح ملک پاکستان خونچکانی کے حصار سے نکل کرگل و بلبل اور رنگ و خوشبو کے دائرے میں داخل ہو جائے۔ فطرت، ہوا، رنگ برنگی تتلیاں، شہد کی مکھیاں، ننھّے منے کرم شب و روزان عجوبہ روزگار پھولوں میں اَن گنت حسین و جمیل موشگافیاں کرتے رہتے ہیں اور صانع کامل ان کی شکل و صورت میں حسین ترین تبدیلیاں اور عجیب و غریب رنگ آمیزیاں کرکے ان کی نوک پلک سنوارتا رہتا ہے۔ ٭…٭…٭