شطرنج کاکھیل ذہانت کا متقاضی
اسپیشل فیچر
آپ نے اکثر شطرنج کے کھلاڑیوں کو دیکھا ہو گا کہ کھیل میں یوں منہمک ہوتے ہیں جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ شطرنج اور سیاست، دونوں میں مہروں کا درست اور بروقت استعمال کامیابی کا ضامن ہے۔ اس کھیل میں بھی گرم لوہے پر چوٹ لگانے والا ہی فاتح بنتا ہے۔شطرنج آغاز ہی سے بادشاہوں، شاعروں اور فلسفیوں کا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔ شطرنج کی تاریخ چھٹی صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ لفظ دراصل سنسکرت لفظ ’’چتر۔ انگ‘‘ سے نکلا ہے جو ہندو راجائوں کی فوج کے چار پہلو یعنی پیدل، فیلا (ہاتھی)، گھڑ سوار اور رتھوں کی مناسبت سے ہے۔ شطرنج کے آغاز کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک موہوم سی روایت کے مطابق اسے سندھ کے ایک بودھ، سواجی سسہ نے ایجاد کیا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی تک یہ ہندوستان بھر سے مشہور ہو چکا تھا۔ ہندوستان سے شاہراہ ریشم کے راستے یہ کھیل چین پہنچا اوروہاں سے کوریا کے راستے جاپان میں مقبول ہوا۔ چین میں اسے کچھ ترامیم کے بعد رائج کیا گیا۔ا سے چینی شطرنج یا ’’زیانگ۔ گی‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح جاپان میں کھیلا جانے والا کھیل ’’شوگی‘‘ بھی شطرنج ہی کی ایک پیچیدہ شکل ہے۔ جب 638ء سے 651عیسوی میں ایران اورپھر 712میں سندھ فتح ہوا تو مسلمان اس کھیل میں متعارف ہوئے یہ کھیل ایران میں ’’چترنگ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا جس کا عربی لفظ ’’شطرنج‘‘ ہے۔ اردو میں بھی یہی مستعمل ہے۔ مسلمان سلاطین اور فاتحین نے اس کھیل میں خصوصی دلچسپی لی۔ یہ مسلمان فاتحین ہی تھے جو اس کھیل کو اپنے ساتھ بذریعہ مراکشی ساحل سپین اور پرتگال لے گئے۔ انہوں نے ہی یورپ کو اس کھیل سے روشناس کروایا جو اس وقت ’’تاریک دور Age) (Dark ‘‘سے گزر رہا تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے جب سسلی اور قبرص کے جزائر فتح کئے تو یہ کھیل ان کے ذریعے مغربی یورپ اور بحیرہ روم کے کنارے آباد دیگر ممالک میں پھیلا۔ مسلمان فاتحین و سلاطین میں بنو عباس بہت شوق سے شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ہاتھی کے دانت کی ایک نفیس شطرنج ، شاہ فرانس کو بھجوائی تھی۔ وہ پیرس کے ایک عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔ بعض سلاطین جڑائو سونے کے مہرے استعمال کرتے تھے۔ بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں اس کھیل کے قواعدو ضوابط کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں اس کھیل میں مہروں کی چال کے متعلق قوانین میں ترمیم ہوئی اور اس سے متعلق مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اسے آپ جدید شطرنج کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔ تب تک اس کھیل کے نامور کھلاڑی اسپین اور پرتگال ہی سے تعلق رکھتے تھے لیکن سولہویں صدی کے اختتام تک اطالوی کھلاڑی شطرنج پر چھا گئے۔ ایک ممتاز اطالوی کھلاڑی، فیملی ڈور نے اس کھیل پر پہلی کتاب لکھی جس کا نام’’ شطرنج کی چالوں کا تجزیہ‘‘ فیملی ڈور نے اس کتاب میں پیادوں کی چال کو اجاگرکیا۔ یہ اس نوعیت کی پہلی باضابطہ کوشش تھی۔ رفتہ رفتہ شطرنج کئی ممالک میں مقبول ہوتی گئی۔ اس کھیل کی حوصلہ افزائی سرکاری سطح پر بھی ہوئی۔ کھیلوں میں شطرنج کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ بہت سے ممالک کے کھلاڑیوں نے یہ کھیل کھیلا لیکن جو شہرت روسی کھلاڑیوں کو ملی وہ کوئی اور حاصل نہ کر سکا۔ روس میں یہ کھیل جنوب اور مغرب کے تجارتی راستوں سے داخل ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے قومی کھیلوں میں شامل ہو گیا۔ ویسے تو یہ کھیل انقلاب روس 1971 سے قبل ہی اپنی جڑیں مضبوط کر چکاتھا لیکن اسے بجا طور پر عروج کمیونسٹ حکومتوں نے دیا۔انہوں نے شطرنج کی سرپرستی کی، اس کے مقامی اورقومی سطح کے مقابلے کروائے اور باقاعدہ ایک فن کا درجہ دیا۔ شطرنج کی اس سر پرستی کے باعث پچھلی صدی کے وسط میں روسی کھلاڑیوں کی فتوحات شروع ہوئیں۔ 1975 میںایک روسی کھلاڑی، انتونی کار پوف نے عالمی چمپئن بن کر یہ اعزاز پھر اپنے ملک کو دلایا۔ شطرنج ریاضی دانوں کا بھی پسندیدہ کھیل ہے۔ ریاضی کی ایک شاخ، نظریہ کھیل، (گیم تھیوری) میں شطرنج کا مطالعہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ نظریہ کھیل کا تعلق غیر معاون Non Cooperation کھیلوں کے تجزیہ سے ہے۔ ریاضی کی اس شاخ سے نہ صرف شطرنج کے کھیل کو فائدہ پہنچا بلکہ وسیع تر تناظر میں معاشیات، سیاسیات اور عمرانیات کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوئی۔ شطرنج اس حوالے سے قدرے سادہ کھیل ہے۔ یہ صرف دو کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جانے والا ایک شفاف اور واضح کھیل ہے۔ اس میں کسی قسم کی مخفی معلومات نہیں۔ لیکن ریاضی اور شطرنج کے ملاپ سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں خاصی ترقی ہوئی ہے۔