ماں وہ عظیم ہستی جس کے بغیر دنیا میں ہر چیز بے رونق ہے
اسپیشل فیچر
دنیا میں سب سے بڑی نعمت ماں ہے۔وہ ایک ایسی ہستی ہے جواپنی اولاد کے لیے تکلیف سہتی ہے ،لیکن بچوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی ۔اگر یہ نعمت کھو جائے تو خواہ دنیا کی ساری دولت ہی خرچ کر ڈالو یہ دوبارہ نصیب نہیں ہوسکتی۔یہاں تک کہ یہ وہ عظیم ہستی ہے جس کے بغیر دنیا میں ہر چیز بے رونق ہے۔ماں اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت ہے جسے بہت سے بد بخت پامال کر دیتے ہیں۔آئیے! آپ کو ایک ماں کی کتھا سناتے ہیں جس نے اولاد کی خاطر سب کچھ قربان کر دیا لیکن اکلوتے بیٹے نے دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔اس عبرت ناک سچی کہانی سے سب کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔وہ گلی کی نکڑ پر بے ہوش پڑی تھی، گود میں چھ ماہ کا بیٹا ،تین اور پانچ برس کی بیٹیاں رو رہی تھیں۔کسی کی نظر پڑی تو فوری طور پر پانی کے چھینٹے مارے۔ ہوش آیا تو اس نے خود کو گھر سے باہر پایا۔تھوڑے حواس بحال ہوئے تو یاد آیا کہ شوہر نے اسے بُری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا اور گھرسے نکال دیا اور جس حسینہ کے دامن فریب میں الجھ کر اس کی زندگی کو جہنم بنایا تھا، کے ہمراہ شہر کے کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے جا چکا ہے۔جس بھلے مانس نے اس کو ہوش دلایا تھا، نے کچھ روپوں سے مدد بھی کر دی۔وہ اٹھی اور بچوں کو لے کر باپ کے گھر لاہور چلی آئی۔یہاں اسے ایک کمرہ دے دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد باپ کا انتقال ہو گیا تواسے اندازہ ہو ا کہ زندگی کے کولہو کو چلانے کے لیے بیل کی جگہ خود کو جوتنا پڑے گا۔چناںچہ اس کی زندگی ایک مشین کی حیثیت اختیار کر گئی۔ سلائی مشین سے اٹھتی تو پیکنگ کی مزدوری کے لیے مقامی فیکٹری کا رخ کرتی،تھوڑی فرصت ملتی تو کپڑوں کی کشیدہ کاری شروع کر دیتی۔شب ور وز گزرتے چلے گئے ‘ پتہ ہی نا چلاکہ کب بوڑھی ہو گئی۔بالوں میں چاندی اتر آئی۔کئی بیماریوں نے آن گھیرا۔بڑی بیٹی نے ایف اے کر لیا۔چھوٹی نے میٹرک کیا اور بیٹا آٹھویں میں پڑھ رہا تھا۔بیٹیوں نے ماں کا ساتھ دینے کے لیے چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کیں۔بیٹا ابھی چھوٹا تھا کہ وہ اسے اپنے سامنے بیٹھا کے تکتی رہتی تھی۔کسی نے پوچھا کہ تم اسے ایسے کیوں دیکھتی رہتی ہو تو بہت معصومیت سے جواب دیا کہ اس کی شکل میں مجھے اس کا باپ نظر آتا ہے جو مجھے آج بھی بہت عزیز ہے۔اس نے زندگی بھر اپنے شوہر کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا۔زندگی کا پہیہ چلتا رہا۔ اس نے بڑی بیٹی کی شادی خالہ کے بیٹے سے کر دی۔وہ لوگ متمول گھرانے سے تھے۔لڑکے والوں نے شادی کے سارے اخراجات کیے اوربیٹی صرف ماں کی دعائیں لے کر رخصت ہوئی۔چھوٹی بیٹی کا رشتہ حافظ قرآن سے ہو گیا۔اسے لگا جیسے وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئی ہے۔زندگی کے دکھ ختم ہوگئے اور سکھ کا راج آ گیا۔ بیٹے نے آئی ٹی کی تعلیم پائی اور ایک با عزت روزگار پایا۔اب اس عورت کو ایک چاند سی بہو کی خواہش ہوئی تو بیٹے نے ایک چاند کا ٹکڑا دکھا دیا۔بڑے چائوسے شادی رچا دی گئی، حیثیت سے بڑھ کر اخراجات کیے گئے لیکن افسوس کہ چاند سا ٹکڑا عذاب ثابت ہوا۔چاند کے ٹکڑے کو بوڑھی عورت برداشت نہ تھی۔کچھ ہی دنوں بعد تلخیاں بڑھنے لگیں۔ماں کے ہاتھوں سے ناشتہ چھینا گیا۔ اکثر دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں فاسٹ فوڈ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے اور وہ باہر بیٹھی آنسو بہا رہی ہوتی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ایک دن چھان بھورے سے باسی روٹی کا ٹکڑا نکال کر پانی سے بھگوکر کھانا پڑا۔یہ اذیتیں مستقل شکل اختیار کر گئیں۔بیٹا چاند سی بہو کا ایسا اسیر ہوا کہ ماں کو بھول ہی گیا۔کئی کئی دن بلاتا ہی نہ تھا۔آخر ایک دن وہ پھٹ پڑی اور بیٹے کو دہائی دی کہ کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟وہ اس قدر روئی کہ بے ہوش ہو گئی۔ہوش آیا تو باہر گلی میں پڑی تھی،بہو بیٹا اسی حالت میں چھوڑ کر کسی کی دعوت میں چلے گئے۔اس دن اسے اپنے اس جملے کی سمجھ آئی ،’’ساجد!مجھے تمھاری شکل میں تمھارا باپ نظر آتا ہے۔‘‘اس دُکھیا ری کو تو اس کی بہن لے گئی لیکن ایک سوال چھوڑ گئی کہ کیا ماں اس لیے اپنے بچوں کے لیے زندگی کے سکھوں کا سودا کرتی ہے؟محبت اور پیار کے سارے استعارے ماں پر آکر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے تو ہمارے آقا ؐنے فرمایا۔’’ماں باپ کے چہرے پر پیار بھری ایک نگاہ ڈالنا حج اکبر کے برابر ہے۔‘‘ اولاد کا پیار ماں کو جگائے رکھتا ہے، بیما ر ہوجائے تو تڑپ جاتی ہے ، ذرا سی چوٹ لگ جائے تو ماں جاں نثار کر دیتی،خود بے آرام ہو کر اولاد کو زندگی بھر کا آرام دیتی ہے۔ اللہ کے محبوب نبیﷺ کا فرمان ہے کہ اگر میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللہ کے حضور کھڑا ہوتا۔ ماں آواز دیتی نماز چھوڑ کر دوڑ کے پاس جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے۔ماں بچے کو پیٹ میں کیسے رکھتی ہے؟اس دوران کیا کیا ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرتی ہے؟ بچے کی پیدائش سے لیکر ساری زندگی ایک ماں کن کن کیفیات اور مراحل سے گزرتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اولاد ہے کہ ان احسانات کو یکسر بھول کرو ہی کرتی ہے جو ساجد نے کیا۔ بقول ایک شاعر : اک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابشؔمیں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے٭…٭…٭