نیم پلیٹ
اسپیشل فیچر
…نیم پلیٹ پڑھنا میری محبوب ترین ہابی ہے۔ یہ بات جب میں نے ایک انٹرویو میں صاحبِ صدر سے کہی تو وہ ایک طنز آمیز ہنسی برلب دہن لاکر بولے:’’ بھئی یہ تو کوئی ہابی نہیں…’’ ان کا خیال تھا کہ نیم پلیٹ پڑھنے کا شغل ایک غیردانشمندانہ اور احمقانہ فعل ہے مگر میرا آج بھی یہی خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر دلچسپ، فکر انگیز اور مفید شغل اور کوئی نہیں کہ بغیر افراد کے ملے ہم ان کی شخصیت سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ان کے شعور اور تحت الشعور میں تیراکی کی مشق کرسکتے ہیں۔ ان کے حمام میں جھانک سکتے ہیں۔ صاحبِ صدر نے مجھے کیوں منتخب کیا‘ اس کا مجھے ہر گز افسوس نہیں۔ ویسے مجھے آج تک کسی انٹرویو میں کامیاب ہونے کا شرف ہی کب حاصل ہوا ہے۔یقین جانئے مجھے اپنے شہر کی قریب قریب تمام کوٹھیوں، مکانوں اور دکانوں کی نیم پلیٹوں اور بورڈوں کے حروف زبانی یاد ہیں… اگر یونیورسٹی میں کبھی ایسا شعبہ قائم ہوگیا جس کا تعلق نیم پلیٹوں اور سائن بورڈوں سے ہو( جیسا کہ مجھے امید ہے کہ ایسا شعبہ مستقبل قریب میں ضرور قائم ہوجائے گا) تو میں نہ صرف اس کا طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل کرلوں گا بلکہ یقینا اس فن میں گولڈ میڈل پانے کی بھی کوشش کروں گا۔ سائن بورڈ اور نیم پلیٹ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ اگر سائن بورڈ ادویات و ملبوسات یا مشروبات و ماکولات کا اشتہار ہے تو نیم پلیٹ صاحبِ خانہ کی شخصیت اور ذہنیت کا مقصد۔ دونوں کا کام ایک ہی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ کسی کولا کا اشتہار ایک لمبے چوڑے سائن بورڈ پر کسی چوک کی نکڑ یا کسی عظیم اور باوقار بلڈنگ کے اوپر اس طرح لگا ہوتا ہے کہ دن میں ایک میل کے فاصلے اور رات کو کئی میل کے فاصلے سے نظر آتا ہے۔ خدا بھلا کرے ان موجدوں کا جنہوں نے نیون لائٹ کی ایجاد سے اشتہار بازی یا سازی کے شوق کو اتنا فروغ بخشا کہ رات کی گھمبیر تاریکی میں یہ جگمگ جگمگ کرتے سائن بورڈ راہ گیر کی توجہ اس طرح اپنی منعطف کرتے ہیں جس طرح کوئی حسین و چنچل دوشیزہ اپنے انداز دلربائی سے۔ بس بازاروں کے یہی دلفریب اور جاذب نظر سائن بورڈ محلوں اور بستیوں کے مکانوں اور کوٹھیوں کی پیشانی پر نیم پلیٹوں کی صورت اختیار کرکے جلوہ نما ہوجاتے ہیں۔چند روز سے میرے پڑوس میں ایک صاحب نے اپنے نوتعمیر شدہ مکان کے باہر بڑی فن کاری سے ایک نیم پلیٹ آویزاں کررکھی ہے۔ پلیٹ پر لکھے ہوئے حروف کو حوادثِ روزگار سے محفوظ کرنے کے لیے اس پر ایک شیشہ چڑھا دیاگیا ہے جیسے کوئی تصویر فریم میں لگا دی گئی ہو اور ٹالکم پوڈر کے سائن بورڈ پر عمل کرتے ہوئے شیشے کے اندر ایک چھوٹا سا بلب بھی نصب کردیا گیا ہے‘ رات کو یہ بلب عجیب عشرہ و انداز سے آنکھ مچولی کرتا ہے اور ہر راہ رو سے کچھ اس طور سے نظرالتفات کی درخواست کرتا ہے کہ آپ صاحبِ خانہ کے نام کو پڑھنے پر خود کو مجبور اور بے بس پاتے ہیں۔ ان صاحب کی قوتِ اختراع کی داد دینی پڑتی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اور باذوق حضرات ان کی تقلید میں ایسے ہی اعجاز پرور کمالات کا مظاہرہ کریں گے۔ فی الحال تو میرے خیال میں یہ صاحب تمام اہل ذوق پر سبقت لے گئے ہیں۔ اگر میں کسی پرائز ٹربیونل کا ممبر ہوتا تو انہیں اس سال کا پہلا انعام دلانے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا۔ کسی نے یہ بات بالکل غلط کہی ہے کہ چہرہ شخصیت کا آئینہ ہے۔ میں کہتا ہوں نیم پلیٹ شخصیت کا آئینہ ہے۔ اگر فرائیڈ زندہ ہوتا تو وہ میری رائے سے ضرور متفق ہوتا کیوں کہ تحت الشعور کی لہروں کی دریافت کا سہرہ اس کے سر ہے۔ آپ کسی کی ظاہری شکل و صورت سے دھوکا کھاسکتے ہیں۔ جیسا کہ محاورہ عام ہے۔ لیکن نیم پلیٹ تو ایک منہ بولتی تصویر ہے۔ ( تامرد سخن نہ گفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد) کے مصداق نیم پلیٹ کے حروف آپ سے سرگوشی کے انداز میں کچھ کہتے ہیں اور صاحبِ خانہ کی شخصیت کے مستور اور لطیف گوشے آپ پر اس طرح منکشف کرتے ہیں جس طرح کوئی مریض کسی ماہرِ نفسیات کے سامنے اپنے حبثِ باطن کو۔جونہی میں کسی نیم پلیٹ کو پڑھتا ہوں تو مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو بہت جلد محبت یا نفرت، دوستی یا دشمنی میں بدل جاتی ہے جب میں اس قبیل کی کوئی نیم پلیٹ دیکھتا ہوں جس پر اسمِ گرامی یوں لکھا ہوتا ہے:’’ جناب ع۔غ صاحبزادہ، یا نوابزادہ یا پیرزادہ۔‘‘تو مجھے ان صاحب کی کم مائیگی اور تہی دامانی پر ترس آنے لگتا ہے کہ بے چارے خود تو کوئی کمال حاصل نہ کرسکے اور اب بزرگوں کے نام سے شہرت کے طلب گار ہیں اور جب میں کسی مبارک نام کے ساتھ القابات و خطابات ، تمغہ جات و انعامات کی ایک طویل فہرست پڑھتا ہوںتو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میکاولی یا بیکن آنجہانی کی روح کو ضرور ایصالِ ثواب ہورہا ہوگا۔ ان جہاندیدہ بزرگوں کے زریں اصولوں پر چل کر بیسویں صدی کے سیاستدانوں نے کماحقہ فائدہ اٹھایا ہے۔ چنانچہ ان میں سے کسی نام نامی کے ساتھ آکر تعلیمی ڈگریاں جو (بیشتر آنریری ہوتی ہیں) چسپاں دیکھتا ہوں تو اپنی ایم اے کی اکلوتی ڈگری سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہوں اور تادیر ان دوستوں کی راہ دیکھتا رہتا ہوں جومجھے سمجھا بجھا کر اس خطرناک ارادے سے باز رکھیں۔ایک صاحب کی نیم پلیٹ برسوں میرے زیرِمطالعہ رہی۔ میں نے ان کی پلیٹ کی سطح ’’مرتفع‘‘ پر کئی انقلاباتِ زمانہ دیکھے۔ ان خارجی انقلابات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے بارے میں میری رائے میں بھی خوشگوار اور ناخوشگوار تبدیلیاں آتی رہیں۔ ان انقلابات کا ظہور ’’سطح مرتفع‘‘ پر کچھ اس طرح ہوتا رہا کہ کبھی نیم پلیٹ کے حروف سے ان کے خاندانی تفاخر کا اظہار جلی الفاظ میں ہوا۔ کبھی تعلیمی برتری کا پرچار ہوااور کبھی اعلیٰ ملازمت کے حصول پر عہدے کا علم بلند ہوا لیکن عرصہ دراز کے بعد ایک ایسا انقلاب پلیٹ کے ۔حروف سے لے کر رنگ و روغن تک میں ہویدا ہوا کہ میری ناپسندیدگی پسندیدگی میں، نفرت محبت میں اور دشمنی دوستی میں متبدل ہوگئی۔ اب نیم پلیٹ پر نہ تو طویل و دراز القابات تھے اور نہ خاندانی جاہ و حشمت کا دبدبہ اور نہ شوح و بھڑکیلے رنگ و روغن کی تہہ… بس صاف و شفاف سطح پر ان کا ننھا سا مختصر نام ق م مرقوم تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب انہوں نے تمام رسمی و دنیاوی لوازم و فروعات سے ایک ذہنی اور روحانی کرب کے بعد نجات حاصل کرلی تھی اور اب وہ فقر و غنا ، عزم و استقلال اور انسانیت کی معراج پر پہنچ گئے تھے ۔ چنانچہ اب میرے دل میں ان کے لیے محبت اور عقیدت کے پھول ہیں جن کا علم انہیں آج تک نہیں ہوا۔( مضمون ’’نیم پلیٹ‘‘ سے مقتبس)