شرقپور کا محمد امین
اسپیشل فیچر
میں ساتویں جماعت میں تھاکہ ماں جی چھ سات ماہ بیمار رہ کر فوت ہو گئیں۔وہ گھر جہاں رات کودیر تک چراغ جلتاتھا شام ہی کو تا ریکی میں ڈوب جاتا ۔جس آنگن میں شعروادب کی محفلیں جمتیں،قہقہے اٹھتے اور ابیات گائے جاتے تھے وہاںسے اب سسکیوں اور بینوں کی آوازیں اٹھنے لگیں۔چالیس روزرشتے دار اور گاؤں کی عورتیں میرے نام کو اپنے بینوں میں پرو کر روتی اور رلاتی رہیں۔ میرے اپنے گاؤں سے سکول اٹھارہ بیس میل دور تھا،اورمیںابھی ٹھیک سے بائیسکل نہ چلاسکتا تھامگرچھوٹی بہن اور بھائی کی خاطر، جو بہت کم سن تھے ،بائیسکل پر سکول جاتااور اکثرشام کو واپس آجاتا۔ ماں جی کے چلے جانے کے بعد میںبہت حساس ہوگیااور قصے کہانیوں اور کتابوں میں پناہ لی ۔ساتویںآٹھویں تک میں نے بے شمار کتابیں پڑھ ڈالیں۔پیسہ سیریزکی ایک ایک کتاب ۔جنوں کی کہانیاں، ماہی گیروں کی کہانیاں،بادشاہوں کی کہانیاں،چوروں کی کہانیاں وغیرہ ۔بلکہ بچوں کا پورا میّسرادب ۔دسویں سے پہلے بانگ درا،پریم پچیسی ،احمد ندیم قاسمی ،منٹو ،بیدی اورکرشن چندر کے افسانے ،مرزا ادیب کے صحرانورد کے خطوط میاں ایم اسلم ،رشید اختر ندوی،رئیس احمد جعفری اورنسیم حجازی کے متعدد ناول ۔سردیوں میں کورس کی کتابوں میں چھپاکر اورگرمیوں میںرات کو گھر والوںسے چھپ کرچاندکی روشنی میںکہانیوں اور نظموں کی پوری پوری کتاب ختم کر ڈالتا۔اسی طرح میلے ٹھیلے ،سرکس ،تھیٹراورفلمیںدیکھنے کابہت شوق تھا۔گرمی کی چھٹیوں میں ہم بیٹری پر چلنے والاکرایے کاریڈیو لے آتے یا گراموفون پر وہی پرانے نغمے جو پہلے بھی سن چکے ہوتے بار بار سنتے۔ان سب چیزوں نے میرے ادبی ذوق کے نکھار میں اپنااپنا حصہ ڈالا۔میٹرک تک آتے آتے پتہ نہیںابھی میں خودذہنی طور پر بالغ ہوا تھا کہ نہیںمگرمیںنے بالغوںکے لیے نظمیں، غزلیں اور کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔۱۹۵۵ء میں جب میں میٹرک کے امتحان سے فارغ ہواتو ایک افسانہ ’’کنول ‘‘ کے نام سے لکھااور اپنے دور کے مقبول ترین رسالے شمع لاہور کو،جس میں اس دور کے سبھی مشہور ادیبوں کے افسانے چھپتے تھے، بھیج دیا۔جب دو چار ہفتے گزرگئے اور پیمانہٗ صبرلبریز ہو گیاتو میںشاہ عالمی لاہور میں واقع شمع کے دفتر پہنچ گیا ۔ایڈیٹر کے کمرے کی چق اٹھائی تو ایک مولاناصبیحہ خانم کی بڑ ی سی تصویر سامنے رکھے دکھائی دیے۔چپراسی مجھے روکنے لگاتو مولانانے شاید میرے گرمی اور غصے سے تمتماتے چہرے کی طرف دیکھااوراسے منع کر دیا۔میں نے افسانے کے بارے میں دریافت کیاتو جواب میں انھوں نے مجھے بیٹھنے کوکہااور میرے لئے ٹھنڈا پانی منگایااور نہایت شفقت سے میرانام اور افسانے کاعنوان پوچھا۔پھرنائب مدیر عماد صدیقی کوبلوایا۔ رسالے کے سرورق پرچھاپنے کے لیے تصویر ان کے حوالے کی اور میرے افسانے کی تلاش کا حکم دیا اورجب تک افسانہ ملتاانھوں نے میرے کوائف پوچھ لیے۔میں نے بتایاکہ گھر والے مجھے انجینئرنگ کا ڈپلومہ کورس کراناچاہتے ہیںتا کہ جلدی سے باروزگار ہو جاؤں مگر میںکالج میں داخلہ لینا اور ادب میںایم اے کرناچاہتاہوں۔کسی ردی کی ٹوکری سے افسانہ مل گیا۔انھوں نے پڑھا۔کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہے پھر بولے ’’تم نے خود لکھا ہے؟‘‘ میں بھڑک اٹھا’’کیوں میں خود نہیں لکھ سکتا ۔آپ کیا سمجھتے ہیں۔ میں نے چوری کیاہے؟‘‘ کہنے لگے’’ اس میں کرداروں کے نام ہندو کیوں ہیں؟‘‘ میں نے جوا ب دیا’’اس میںایک بیوی شوہر کے لیے جس قسم کی قربانی دیتی ہے۔وہ ایک پتی ورتا،ستی ہوجانے والی ہندو عورت ہی دے سکتی ہے کہ اسے ہی یہ سکھایا گیا ہے ۔دوسرے یہ خیال بھی تھاکہ کہ کوئی مولوی اعتراض نہ کردے‘‘ مولوی کی بات سن کر وہ مسکرائے تو مجھے خیال آیاوہ خودبھی تو مولوی ہیں۔مگر بات زبان سے نکل چکی تھی۔انھوں نے میرے لیے کھانامنگایااور اصرار کرکے کھلایا۔حالانکہ لاہور میں میری دو خالائیں تھیںاور میرا ارادہ بڑی خالہ کے گھر جانے کاتھا۔کہنے لگے افسانہ ضرور چھپے گامگر تم افسانوں کی بجائے ابھی اپنے کیرئیر کی طرف توجہ دو۔ کالج کی بجائے ٹیکنیکل تعلیم تمہارے لیے بہتر رہے گی ۔ورنہ مجھے دیکھو اتنی لمبی ڈاڑھی اور اداکاراؤں کی تصاویر ۔ باروزگار ہو جاؤ توبی اے، ایم اے بھی کرلینا۔رہی افسانہ نگاری تو اس کے لیے عمر پڑی ہے ۔ و عدہ کرو انجینئرنگ سکول میںداخل ہونے کے بعد مجھے خط لکھ کر اطلاع دوگے۔ مجھے اس سے بہت خوشی ہوگی۔میں نے وعدہ کرلیاتو وہ کہنے لگے۔ آج تمہیں دیکھ کر مجھے ایسالگا جیسے شرقپور کا محمد امین پھرسے جوان ہوگیاہے ۔میں بھی کبھی اسی طرح اعتماد،غصے اورجوش سے بھرا، ایک ساتھ دودوسیڑھیاں پھلانگتاگاؤںسے لاہور کے ایک دفتر میں آیاتھا۔ مجھے بھی کہانیاں لکھنے کابہت شوق تھا۔یہ شمع ،بانو،کھلونااورمکتبہ شمع کے مالک و مدیر مولانامحمد امین شرقپوری تھے۔ان کے افسانوں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی۔ میراان سے بعد میں بھی رابطہ رہا۔٭…٭…٭