حقوں کو دلفریب نقش و نگار سے آراستہ کرنے کی صنعت زوال پذیر
حقہ محض تمباکو نوشی کا ذریعہ نہیں بلکہ دیہی تہذیب کا اہم حصہ بھی ہے۔ لوگ آج بھی اس کی آرائش پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ حقے کی جنم بھومی برصغیر کا علاقہ ہے اور ہزاروں سال گذرنے کے باوجود بھی اس کی بناوٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔دو تین دہائیاں پہلے حقہ گھر کے فرد کی طرح ہوتا تھا اور گاؤں میں ہر گھر کا لازمی جز ہوا کرتا تھا تاہم تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے آگاہی اور سگریٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد یہ منظر سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔یہ دن میں کئی بار’تازہ ‘ کیا جاتا ہے۔ گھر کے افراد ہی نہیں ہر آئے گئے کے سامنے چائے پانی کی طرح اس کی ’ نے‘ بھی گھما دی جاتی ہے۔مہمان حسب ضرورت کش لگانے کے بعد اس کا رخ کسی اور کی جانب موڑ دیتا ہے۔حقے کا نچلا حصہ نیَچہ کہلاتا ہے۔ یہ مٹی یا دھات سے بنا بیضوی برتن ہوتا ہے جس میں پانی بھرا جاتا ہے۔ صراحی کی ایک لیکن اس کی دو گردنیں ہوتی ہیں۔دونوں گردنوں سے بانس کی دو نالیاں گزرتی ہیں۔ ان نلیوں کو ’گز‘ یا ’نڑی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ایک نلی عمودی اور دوسری تقریباً 45 درجے پر مڑی ہوتی ہے۔عمودی نلی کا نچلا حصہ نیَچہ پانی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے باہری سرے کے آخر پر چلم دھری جاتی ہے۔ چلم میں تمباکو اور دہکتے کوئلے ڈالے جاتے ہیں۔ترچھی نلی نیَچہ میں پانی کی سطح سے قدرے بلند ہوتی ہے۔ یہ چکر کی گردن سے نکل کر کچھ فاصلے کے بعد چلم کی مخالف جانب مڑ جاتی ہے اسے ’ نے‘ کہا جاتا ہے۔حقہ نوش ’نے ‘کے سرے پر منہ رکھ کر کش لگاتا ہے۔ کش لگاتے ہی چلم سے دھواں پہلے نلی، پھر پانی اور اس کے بعد ’نے ‘ سے گزرتا ہوا حقہ نوش کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔مختلف علاقوں میں حقوں کی بناوٹ مختلف ہوتی ہے تاہم بنیادی اصول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔حقے کی مرکزی حیثیت کی وجہ سے اس کی آرائش پر بھی توجہ دی گئی تو رنگ برنگے حقے بنانے کی گھریلو صنعت وجود میں آ گئی۔ساہیوال میں حقوں پر نقش نگاری کا کام پل بازار، کوٹ خادم علی شاہ، کچا پکا ہڑپہ روڈ پر گاؤں الف سو، چک 97 /6 آر، منظور کالونی اور میر داد مافی کے علاقوں میں کیا جاتا ہے۔حقے پر کیے جانے والے نقش نگار اپنی خوبصورتی، نفاست اور مہارت میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔پل بازار میں حقہ سازی کے کام سے منسلک محمد افضل بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ 40 سال سے حقے بنا رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ حقے پر دستکاری کا کام خواتین کرتی ہیں۔خواتین حقے کی نلیاں لے جاتی ہیں اور ہفتے دس دن بعد ان پر دستکاری کر کے واپس دے جاتی ہیں۔انہیں فی نلی 28 روپے سے 35 روپے تک مزدوری ملتی ہے۔حقے کی نالیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ان پر نائلون، تانبے، لوہے یا پیتل کی تار چڑھائی جاتی ہے۔ کچھ حقوں پر ڈوری یا سوتی کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔محمد افضل بتاتے ہیں کہ ایک مزین حقے کی اوسط قیمت ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔نلی حقے کا سب سے نمایاں اور اہم حصہ ہوتی ہے۔بانس کی یہ نلیاں بنگلہ دیش اور چین سے درآمد کی جاتی ہیں۔ بازار میں ایک ٹکڑے کی قیمت 40 سے 50 روپے ہوتی ہے۔دستکاری اور آرائش کا زیادہ کام انہی پر کیا جاتا ہے۔کوٹ خادم علی شاہ کے دستکار محمد کاشف کہتے ہیں کہ وہ 15 سال سے کام کر رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان گھریلو دستکاری کے فن میں مہارت رکھتا ہے۔نلی پر ڈوری چڑھانے کی اجرت صرف 15 سے 25 روپے ہوتی ہے اور ایک نلی تیار کرنے کے لئے آدھے گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک کاریگر دن میں 15 سے 20 نگ تیار کر لیتا ہے۔ اس کام کے لئے انہیں جن اوزاروں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں قینچی، بلیڈ، ہتھوڑی، سندران، چرخی، اْوراہ اور سٹینڈ شامل ہیں۔نواحی بستیوںچک میر داد مافی اور چک الف سو میں دست کاری کرنے والی خواتین بتاتی ہیں کہ نقش نگاری کے ڈیزائنوں میں کپڑے، نائلون اور ڈوری سے دھاری ڈالنا، موہری بنانا، چھلے بنانا، گدا پٹا اور پِڑیاں ڈالنا شامل ہیں۔نلی پر پہلے کپڑا لپیٹا جاتا ہے۔ پھر اس پر باریک نائلون کی تہہ لپیٹی جاتی ہے۔اس کے اوپر ڈوری سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جسے دھاری ڈالنا کہتے ہیں۔نلی پر ڈوری لپیٹنے کے خاص ڈیزائن کو موہری کہا جاتا ہے۔ڈیزائن کے دوران ڈوری کو نیچے سے اوپر کی طرف لپیٹنا گدا پٹا کہلاتا ہے۔ ڈیزائن کے ذریعے پھول بنانے کو مقامی طو پر پڑیاں ڈالنا کہتے ہیں۔تانبے کی تار سے مڑھی نلی کی قیمت تین سے چار سو روپے ہوتی ہے۔تانبے سے کئے گئے کام کی اجرت 25 سے 30 روپے ہوتی ہے۔مہنگائی نے حقے کی آرائش کے کام کو بھی متاثر کیا ہے۔دستکار کہتے ہیں کہ ان کے کام کی مانگ کم ہو رہی ہے۔پیسے والے لوگ تو ویسے ہی حقے سے سگریٹ پر منتقل ہو گئے اور غریب آدمی کی اتنی سکت نہیں کہ وہ پانچ ہزار کا حقہ خریدے۔(بہ شکریہ: سجاگ)