پلاسٹک کے لفافے۔۔۔مضرصحت ہم منفی پہلووںپر توجہ نہ دے کر آلودگی کی صورت میں نتیجہ بھگت رہے ہیں
انسان بنیادی طور پر نفاست کا دلدادہ ہے۔اپنے گھر اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہر کو شش کرتا ہے۔لیکن چھو ٹی چھو ٹی باتوں اور حقائق کو نظرانداز کر کے ایسی خرابیوں کو جنم لینے کی دعوت دیتا ہے۔جن کا مداوا ممکن نہیں۔انسان نے اپنی آسانی کے لئے لاکھوں چیزیں بنائیںلیکن ان کے منفی پہلوئوںپر توجہ نہ دے کر آلودگی کی صورت میں نتیجہ بھگت رہا ہے۔ انسان آسائشوں کو حصول کے لالچ میں اتنا مگن ہوگیا کہ اسے اس بات کابھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ اپنی تباہی کا سامان خود بنا رہا ہے۔ دنیا بھر میں تمام تر اقدامات کے باوجود آلودگی کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔دیگر ممالک کی طرح ہمارا ملک بھی آلودگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق پاکستان، ایران، بھارت اور منگولیا دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔یوں تو بے شمار اشیاء کے استعمال سے آلودگی پھیل رہی ہے لیکن پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا کئی مختلف کیمیائی اجزاء سے مل کر تیار ہوتا ہے۔پلاسٹک کے لفافے دو طرح سے تیارہوتے ہیں۔، قدرتی طریقہ جس میں جانوروں اور درختوں سے پلاسٹک تیار ہوتاہے اور دوسرا لیبارٹریوں یا فیکٹریوں میں تیارکیا جا تا ہے۔ پلاسٹک ایک سیال مادہ کو باآسانی نہ صرف کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا بلکہ کسی بھی رنگ میں رنگا بھی جاسکتا ہے۔پلاسٹک کے لفافوں میں ایک زہریلا مادہ کیڈیم کا عنصر شامل ہوتا ہے جو کہ خوراک میں زہریلے مادے کو پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہم خالص غذا سے محروم ہو کر اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان تمام مضر اثرات کے باوجود ہم بیشتر کھانے پینے کی اشیاء عام طور پلاسٹک کے لفافوں میں ہی لاتے ہیں جو کہ سخت نقصان دہ ہے۔ عوام کو چاہیے کہ بازار جاتے وقت پرانے زمانے کی طرح اپنے ساتھ سامان خریدنے کے لیے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکریاں اور دودھ دہی کے لیے برتن لے کر جایا کریں۔پاکستان میں 80 کی دہائی تک عام لوگ خریداری کیلئے کپڑے کے گھریلو تھیلے استعمال کیا کرتے تھے جبکہ کچھ لوگوں نے اپنی سہولت کیلئے اپنی سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر ٹوکریاں بھی لگا رکھی تھیں۔ دوسری جانب پھل فروش اور دوسرے پرچون فروش زیادہ خریداری پر کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکریاں بھی ساتھ دیا کرتے تھے۔ ملک بھر میں ہر طرح کی خریداری کیلئے خاکی کاغذ کے لفافے بھی استعمال ہوتے تھے، جبکہ پولی تھین کی آمد سے پہلے اخباری کاغذ کے شاپنگ بیگ بھی عام ہو چکے تھے۔پولی تھین کے شاپر بیگ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو گئے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا سستا پن تھا، ورنہ باقی تو خرابیاں ہی خرابیاں تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب ملک کے طول و عرض میں دودھ اور دہی تک پولی تھین کے لفافوں میں بیچا جاتا ہے۔ 30 سال سے زائد عرصہ میں پولی تھین کے شاپنگ بیگ ماحول کو بری طرح آلودہ کرچکے ہیں۔ ان معمولی لفافوں کی وجہ سے نہ صرف گٹر بند ہوتے ہیں، بلکہ نکاسی آب کی نالیاں بھی شاپنگ بیگز اور چپس کے لفافوں سے بھری رہتی ہیں۔ دوسری جانب کچرے کے ساتھ ان پلاسٹک کے لفافوں کو جلانے سے بھی سانس کی بیماریوںمیںنمایاں اضافہ ہوا ہے۔ہماری حکومت اور مقامی انتظامیہ بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پولی تھین سے بنائے گئے شاپنگ بیگ ہی ہمارے سیوریج سسٹم کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں، لیکن علم ہونے کے باوجود آج تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے یہ خطرناک شاپنگ بیگ سیوریج سسٹم میں داخل نہ ہوسکیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچا نے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے، لیکن بنیادی طور پر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کیلئے جامع منصوبے بنائے، جن میں ویسٹ میجمنٹ کیلئے مناسب انتظامات بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب پولی تھین کے شاپنگ بیگز کو ملک میں سے مکمل طور پر ختم کیا جانا ضروری ہے اور متبادل کے طور پر لوگوں میں ماضی کی طرح کاغذ کے بنے ہوئے شاپنگ بیگ استعمال کرنے کا شعور بیدار کیا جائے۔ حکومت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کے سمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کرکے بھی عوامی سطح پر انتہائی مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔1995ء میں پاکستان میں قانونی طور پر پلاسٹک بیگز بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے تحت تین سو مائیکرون سے کم موٹائی یا وزن والی تھیلیوں کی تیاری، فروخت اور استعمال کو جرم قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کی قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں موجود ہیں ،تاہم بہت کم لوگ اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب میں پولی تھین کے شاپنگ بیگ کا استعمال بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔یہ احکامات خرم خان ایڈووکیٹ کی رٹ پٹیشن پر جاری کیے گئے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پولی تھین لفافے سیوریج سسٹم کو ناکارہ کرتے ہیں اور چونکہ یہ ایسے مواد سے تیار کیے جاتے ہیں جو مٹی میں تحلیل نہیں ہوتا، یہ زمین کو بنجر بنا رہے ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پولی تھین کا سیاہ تھیلا بنانے ،فروخت کرنے اور اس کے استعمال پر پابندی ہے جس کی خلاف ورزی پر تین ماہ قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔آئیے !یہ عہد کریں آئیے !یہ عہد کریں پلاسٹک اور پولی تھین بیگوںاور لفافوں کا استعمال نہ ہم خود کریں نہ ہی دوسروں کو استعمال کرنے دیں۔ آج سے ہی روز مرہ کی چیزوں کو لانے لے جانے کیلئے ہم پلاسٹک کے متبادل بیگوں کا استعمال کریں، جو ہماری صحت اور ہمارے ماحول کو ضرر نہ پہنچائیں۔ ایسا کرنے سے ہی ہم اپنے ماحول کو صاف و شفاف اور پاک رکھ کر اطمینان کی سانس لے کر مستقبل کو سنوار سکیں گے۔