پلاسٹک کے لفافے۔۔۔مضرصحت ہم منفی پہلووںپر توجہ نہ دے کر آلودگی کی صورت میں نتیجہ بھگت رہے ہیں

پلاسٹک کے لفافے۔۔۔مضرصحت ہم منفی پہلووںپر توجہ نہ دے کر آلودگی کی صورت میں نتیجہ بھگت رہے ہیں

اسپیشل فیچر

تحریر : فائزہ نذیر احمد


انسان بنیادی طور پر نفاست کا دلدادہ ہے۔اپنے گھر اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہر کو شش کرتا ہے۔لیکن چھو ٹی چھو ٹی باتوں اور حقائق کو نظرانداز کر کے ایسی خرابیوں کو جنم لینے کی دعوت دیتا ہے۔جن کا مداوا ممکن نہیں۔انسان نے اپنی آسانی کے لئے لاکھوں چیزیں بنائیںلیکن ان کے منفی پہلوئوںپر توجہ نہ دے کر آلودگی کی صورت میں نتیجہ بھگت رہا ہے۔ انسان آسائشوں کو حصول کے لالچ میں اتنا مگن ہوگیا کہ اسے اس بات کابھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ اپنی تباہی کا سامان خود بنا رہا ہے۔ دنیا بھر میں تمام تر اقدامات کے باوجود آلودگی کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔دیگر ممالک کی طرح ہمارا ملک بھی آلودگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق پاکستان، ایران، بھارت اور منگولیا دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔یوں تو بے شمار اشیاء کے استعمال سے آلودگی پھیل رہی ہے لیکن پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا کئی مختلف کیمیائی اجزاء سے مل کر تیار ہوتا ہے۔پلاسٹک کے لفافے دو طرح سے تیارہوتے ہیں۔، قدرتی طریقہ جس میں جانوروں اور درختوں سے پلاسٹک تیار ہوتاہے اور دوسرا لیبارٹریوں یا فیکٹریوں میں تیارکیا جا تا ہے۔ پلاسٹک ایک سیال مادہ کو باآسانی نہ صرف کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا بلکہ کسی بھی رنگ میں رنگا بھی جاسکتا ہے۔پلاسٹک کے لفافوں میں ایک زہریلا مادہ کیڈیم کا عنصر شامل ہوتا ہے جو کہ خوراک میں زہریلے مادے کو پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہم خالص غذا سے محروم ہو کر اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان تمام مضر اثرات کے باوجود ہم بیشتر کھانے پینے کی اشیاء عام طور پلاسٹک کے لفافوں میں ہی لاتے ہیں جو کہ سخت نقصان دہ ہے۔ عوام کو چاہیے کہ بازار جاتے وقت پرانے زمانے کی طرح اپنے ساتھ سامان خریدنے کے لیے کپڑے کے تھیلے یا ٹوکریاں اور دودھ دہی کے لیے برتن لے کر جایا کریں۔پاکستان میں 80 کی دہائی تک عام لوگ خریداری کیلئے کپڑے کے گھریلو تھیلے استعمال کیا کرتے تھے جبکہ کچھ لوگوں نے اپنی سہولت کیلئے اپنی سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر ٹوکریاں بھی لگا رکھی تھیں۔ دوسری جانب پھل فروش اور دوسرے پرچون فروش زیادہ خریداری پر کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکریاں بھی ساتھ دیا کرتے تھے۔ ملک بھر میں ہر طرح کی خریداری کیلئے خاکی کاغذ کے لفافے بھی استعمال ہوتے تھے، جبکہ پولی تھین کی آمد سے پہلے اخباری کاغذ کے شاپنگ بیگ بھی عام ہو چکے تھے۔پولی تھین کے شاپر بیگ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو گئے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا سستا پن تھا، ورنہ باقی تو خرابیاں ہی خرابیاں تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب ملک کے طول و عرض میں دودھ اور دہی تک پولی تھین کے لفافوں میں بیچا جاتا ہے۔ 30 سال سے زائد عرصہ میں پولی تھین کے شاپنگ بیگ ماحول کو بری طرح آلودہ کرچکے ہیں۔ ان معمولی لفافوں کی وجہ سے نہ صرف گٹر بند ہوتے ہیں، بلکہ نکاسی آب کی نالیاں بھی شاپنگ بیگز اور چپس کے لفافوں سے بھری رہتی ہیں۔ دوسری جانب کچرے کے ساتھ ان پلاسٹک کے لفافوں کو جلانے سے بھی سانس کی بیماریوںمیںنمایاں اضافہ ہوا ہے۔ہماری حکومت اور مقامی انتظامیہ بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پولی تھین سے بنائے گئے شاپنگ بیگ ہی ہمارے سیوریج سسٹم کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں، لیکن علم ہونے کے باوجود آج تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے یہ خطرناک شاپنگ بیگ سیوریج سسٹم میں داخل نہ ہوسکیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے بچا نے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے، لیکن بنیادی طور پر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کیلئے جامع منصوبے بنائے، جن میں ویسٹ میجمنٹ کیلئے مناسب انتظامات بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب پولی تھین کے شاپنگ بیگز کو ملک میں سے مکمل طور پر ختم کیا جانا ضروری ہے اور متبادل کے طور پر لوگوں میں ماضی کی طرح کاغذ کے بنے ہوئے شاپنگ بیگ استعمال کرنے کا شعور بیدار کیا جائے۔ حکومت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کے سمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کرکے بھی عوامی سطح پر انتہائی مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔1995ء میں پاکستان میں قانونی طور پر پلاسٹک بیگز بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے تحت تین سو مائیکرون سے کم موٹائی یا وزن والی تھیلیوں کی تیاری، فروخت اور استعمال کو جرم قرار دیتے ہوئے چھ ماہ کی قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں موجود ہیں ،تاہم بہت کم لوگ اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب میں پولی تھین کے شاپنگ بیگ کا استعمال بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اس پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔یہ احکامات خرم خان ایڈووکیٹ کی رٹ پٹیشن پر جاری کیے گئے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پولی تھین لفافے سیوریج سسٹم کو ناکارہ کرتے ہیں اور چونکہ یہ ایسے مواد سے تیار کیے جاتے ہیں جو مٹی میں تحلیل نہیں ہوتا، یہ زمین کو بنجر بنا رہے ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پولی تھین کا سیاہ تھیلا بنانے ،فروخت کرنے اور اس کے استعمال پر پابندی ہے جس کی خلاف ورزی پر تین ماہ قید یا پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔آئیے !یہ عہد کریں آئیے !یہ عہد کریں پلاسٹک اور پولی تھین بیگوںاور لفافوں کا استعمال نہ ہم خود کریں نہ ہی دوسروں کو استعمال کرنے دیں۔ آج سے ہی روز مرہ کی چیزوں کو لانے لے جانے کیلئے ہم پلاسٹک کے متبادل بیگوں کا استعمال کریں، جو ہماری صحت اور ہمارے ماحول کو ضرر نہ پہنچائیں۔ ایسا کرنے سے ہی ہم اپنے ماحول کو صاف و شفاف اور پاک رکھ کر اطمینان کی سانس لے کر مستقبل کو سنوار سکیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

کسی مالدار بخیل کا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا۔ دوا دارو کرنے کے باوجود بھی بخار کا زور نہ اترا تو کسی نیک دل شخص نے اسے مشورہ دیا کہ قرآن مجید ختم کراؤ یا بکرے کا صدقہ دو۔یہ سن کر مالدار بخیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا کہ قرآن مجید ختم کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ منڈی دور ہے اور آنے جانے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔اس کی یہ بات سن کر نیک آدمی نے کہا ''قرآن مجید ختم کرنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن اس کی نوک زبان پر ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہوا ہے۔حاصل کلام: بخیل وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھنے کی بجائے ہمیشہ دولت کو دیکھتا ہے۔ خواہ دولت نہ خرچ کر کے نقصان ہی اٹھانا پڑے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

٭...ساقی 2 اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔٭... وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ''بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔٭... 1955ء میں وہ لاہور میں ایک فلمی پروڈکشن یونٹ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وابستہ ہوئے۔ ٭...پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''التجا‘‘ تھی جو 1955ء میں ریلیز ہوئی۔٭... 1958ء میں ''لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد ''سسی پنوں‘‘ اور ''بمبئے والا‘‘ میں کام کیا۔٭... 1959ء میں ان کی فلم ''ناگن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔٭... 1960ء میں ''رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ''ہزار داستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔٭... ان کی یادگار فلم ''لاکھوں میں ایک‘‘ 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔٭...ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔٭... ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ ٭...ساقی نے کریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں میں بھی پذیرائی حاصل کی۔٭... انہوں نے ''پاپی‘‘ اور'' ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ٭...ان کی مشہور فلموں میں ''الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت‘‘ شامل ہیں۔ ٭...پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان سے انہوں نے شادی کی ۔٭...22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ساقی کی اہم فلمیں و کردارشہید1962ء:گونگے کا کردارلاکھوں میں ایک1967ء:پٹھان ٹرک ڈرائیورزرقا1969ء:عرب بدو کا کردارگھرانہ1973ء:وفادار گھریلو ملازمناگن1959ء:سپیرے کا کردار 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسریز کا پہلا تجربہ1895ء میں آج کے روز جرمن معالج ولہیم رونجن نے پہلا کامیاب ایکس رے لیا۔ رونجن کی دریافت نے طبی تشخیص میں انقلاب برپا کیا۔ آج، ایکس ریز مشینیں ہڈیوں کے فریکچر، دانتوں کی خرابی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی خدمات سائنس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا نام اس دریافت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑا ہوا ہے اور ایکس ریز کو اکثر ''رونجن ریز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔سنکیانگ زلزلہ1906ء میں آج کے روز چین کے شہر سنکیانگ میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے جھٹکے صبح 8 بجے محسوس کئے گئے۔ اس زلزلے کا مرکز چین کے صوبے سنکیانگ کے ماناس کاؤنٹی میں واقع تھا۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 280 سے 300 افراد ہلاک ہوئے اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے۔ یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔مسلم لیگ کا ''یوم نجات‘‘23 دسمبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ''یوم نجات‘‘ منایا۔یہ ''یومِ نجات‘‘ ایک روزہ جشن تھا جو قائد اعظمؒ کی اپیل پر ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ اس کی قیادت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناحؒ نے کی۔ اس دن کا مقصد حریف کانگریس پارٹی کے تمام اراکین کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے استعفے پر خوشی منانا تھا، جو اس بات پر احتجاجاً دیے گئے تھے کہ انہیں برطانیہ کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کے فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ویتنام کی ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تاکہ انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) پر جاپانی قبضے کی مزاحمت کی جا سکے۔ یہ فوج انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) میں جاپانی افواج کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد ویتنام کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا اور جاپانی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ اس فوج کا قیام ویتنام کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ویتنام کی خود مختاری کی جنگ میں اہم سنگ میل تھا۔کروز جہاز حادثہ1963ء میں آج کے روز مشہور کروز جہاز لاکونیا پرتگال کے علاقے مادیرا سے تقریباً 290 کلومیٹر شمال میں حادثے کا شکار ہوا۔ یہ جہاز تفریحی سفر کیلئے روانہ ہوا تھا، لیکن اچانک آگ لگنے سے جہاز میں شدید تباہی پھیلی۔ جہاز میں سوار مسافر اور عملہ شدید خطرے میں آ گئے۔ جہاز کے عملے اور قریبی کشتیاں موقع پر پہنچ کر لوگوں کی مدد کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں، مگر حادثے کی شدت بہت زیادہ تھی۔اس المناک واقعے کے نتیجے میں 128 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ آگ کی وجہ سے جہاز کا بڑا حصہ جل کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی سطح پر جہازوں میں آگ سے بچاؤ کے اقدامات اور حفاظتی قوانین کو مزید سخت کیا گیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے المیہ سے بچا جا سکے۔