گہلن(پتوکی) کی پھول منڈی
اسپیشل فیچر
تعارف:قدر ت کا ایک حسین تحفہ پھول بھی ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے جمالیاتی ذوق کو تسکین بخشتے رہے ہیں۔ پھولوں کے شوخ رنگ نظر کو خیرہ تو کرتے ہی ہیں مگر یہ جذبات کے اظہار کا بھی موثر ذریعہ ہیں۔ اپنی دلکش خوبصورتی اور رعنائی کے علاوہ پھول ماحول کو بھی معطر کر دیتے ہیں۔ شعرا اور ادباء نے اپنی شاعری اور تحریروں میں پھولوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ کہیںپھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ ڈالا ہے تو کہیں اسے صنف نازک اور بچوںکی نزاکت سے ملا دیا ہے۔ شیخ سعدی ؒ نے اپنی کتابوں کے نام گلستان سعدی ؒ اور بوستان سعدی ؒ رکھے تھے۔سچ ہے کہ پھول انسان کی خوشی اور غمی میں برابر کے ساتھی ہیں۔ موقع کوئی بھی ہو پھولوں کے ساتھ انسان کا ساتھ ضرور رہتا ہے۔ اسی ساتھ کی وجہ سے پھول نزاکت ، لطافت اور خوشبو کی دنیا سے نکل کر بازاروں میں بکنے لگے ہیں۔ انہی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر پاکستان میں پھولوں کی کاشت بھی کی جانے لگی ہے۔اوقات کار:پتوکی پھول منڈی میں روزانہ وسیع پیمانے پر پھولوں کا کاروبار ہوتا ہے او ر خصوصاً نماز فجر کی ادائیگی کے بعد گہلن کی قریبی شہروں کے دکانداروں کا بہت زیادہ ہجوم دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں خریداری کے لئے موجود دکانداروں کی اکثریت کا تعلق لاہور سے ہوتا ہے جو اس پھول منڈی سے کئی اقسام کے پھول خرید کرلے جاتے ہیں بعد ازاں اپنی دکانوں پر ان کے گلدستے او ر ہار فروخت کرتے ہیں۔ کہاں کہاں سے تاجر یہاں آتے ہیں؟:لاہورمیں پھول منڈی کے قائم ہونے کے باوجود لاہور میں پھولوں کے کاروبار سے منسلک افراد پتوکی کا رخ کرتے ہیں۔ لاہور کو پھول فراہم کرنے کے لئے انہیں لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے چونکہ اس مقام پر روزانہ اردگرد موجود کھیتوں سے تازہ پھول چن کر بیچے جاتے ہیںاوران علاقوں میں گلاب کے پھولوں کی وسیع کاشت ہوتی ہے جہاں سے پھول چن کر لاہور کی اس منڈی میں لائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس منڈی میںسے بیرون ممالک اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی بیوپاری پھول منگواتے ہیں۔ یہاں کئی اقسام کے پھول خریدے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر پھولوں کی جو اقسام یہاں دستیاب ہیں ان میں گلاب ، چنبیلی، گیندا، ٹیولپ وغیرہ مشہور ہیں۔ صرف گلاب کے پھول کا جائزہ لیا جائے تو جن دنوں اس کی ضرورت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے اس کا نرخ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جس موسم میں گلاب کی فصل پھول دینے لگتی ہے پھول کی کثرت ہونے کی وجہ سے اسکے نرخوں میں بھی بہت زیادہ کمی آجاتی ہے۔(سید ظفر عباس نقوی کی تصنیف ’’ سیاحتِ ضلع قصور‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭