خلائی تحقیق کا آغاز و ارتقاء
اسپیشل فیچر
زمین کی فضا جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے خلاء کی پراسرار سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں اور یہ ہر سمت میں نامعلوم فاصلے تک موجود ہیں۔ خلائی سفر کا آغاز تقریباً نصف صدی قبل روس کے سپوتنک (Sputnik) نامی خلائی طیارے (Space Craft) کے ذریعے ہوا تھا۔آغازِ علمِ فلکیات میں خلاء کا مشاہدہ رصد گاہوں کے ذریعہ ہی ہوتا رہا جو کہ زمین پر بنائی گئیں تھیں۔ لیکن یہاں سے مشاہدے میں بہت سی دقتوں کا سامنا تھا۔ اسی نے انسان کو احساس کرایا کہ بہتر تحقیق کے لئے خلاء میں پرواز اشد ضروری ہے۔ پھر14اکتوبر1957ء کو روس نے سپوتنک اول (Sputnik-1)کو خلاء میں بھیجنے میں کامیابی حاصل کی ۔ یہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جہاں سے خلاء میں کھوج کے سفر شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد ہی لائیکا (Lica)نامی کتیا کے ساتھ سپوتنک دوم کو خلاء میں بھیجا گیا۔لائیکا کے صحیح سلامت واپس لوٹنے نے انسان کے خلاء میں جانے کے راستوں کو کھول دیا۔اس کے بعد اکتوبر 1959ء میںروسی Luna-III سے جو فوٹو حاصل ہوئے‘ اس کے ذریعے چاندکے نہ دکھائی دینے والے حصوں کو پہلی بار دیکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔1962ء میں امریکی خلائی طیارے میرینردوم نے زہرہ کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے درجۂ حرارت اور گھومنے کی الٹی سمت کا پتہ لگایا۔1965ء میں میرینر چہارم نے مریخ پر بنے گڈھوں کے بہت سے فوٹو گراف بھیجے۔اب خلاء میں کھوج کا کام اپنے عروج کی جانب چل نکلا تھا۔ اپنی سابقہ کوششوںمیں بہت سی تبدیلیوں کے بعد ریموٹ سے کنٹرول ہونے والے مصنوعی سیارے بنا کر انہیں چاند، مریخ اور زہرہ وغیرہ پر بھیجا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ کامیاب مشن ووئیگراول اوردوم کا رہا جس نے بہت سے مفروضوں میں تبدیلی پیدا کر کے ان کو اصل حقیقت میں سامنے لا دیا۔خلاء کا شروعاتی زمانہ تقریباً 23برس تک کا رہا جس میں انسان کی خلاء میں پرواز صرف تین فیصد تک ہی ہو سکی۔ اس دوران تقریبا 24سو خلائی طیاروں کی پرواز مکمل ہوئی۔ 12اپریل 1961ء کو روسی خلاء نوردیوری گگرن وہ پہلا انسان تھا جس نے خلاء میں پرواز کی۔ اس کے بعد 16جون 1963ء کو روسی خلاء نوردوں نے پانچ دن تک خلاء میں پرواز کی۔ اس مشن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ 1965ء میں دو آدمیوں کے بیٹھ سکنے والے جیمینی (Gemini)خلائی طیاروں کی کامیابی سے امریکہ نے روس کے ہاتھ سے فلکیاتی قیادت چھین لی۔مندرجہ بالا منصوبوں کی کامیابی نے انسان کو ایک ایسے خواب کی تعبیر پانے کی جانب متوجہ کیا جس نے قدیم زمانے سے چلی آ رہی کہانیوں اور روایتوں کو بدل ڈالا۔ یہ کامیابی تھی12جون 1969ء کو چاند پر انسان کا پہلا قدم۔ اور وہ اولین انسان نیل آرم اسٹرانگ تھاجو اپولو کے ذریعے چاند پر پہنچا تھا۔ اس مشن میں اس کے ساتھ ایڈون ایلڈرن اور کولنس بھی تھے۔ انہوں نے چاند پر پہنچ کرجو تجربات کئے اور وہاں سے لائی گئی چیزوں سے زمین پر جو نتیجے اخذ کئے ، انہوں نے زمین کے پڑوسی سیاروں اور خلاء کے پوشیدہ رازوں کے ساتھ ساتھ چاند کے بارے میں بھی بہت سی اہم معلومات فراہم کیں۔ اب تک 12امریکی چاند پرقدم رکھ چکے ہیں۔چاند پر پہنچ جانے کے بعد اب انسان کا اگلا ہدف مریخ ہے جس کی راہ میں آنے والی دشواریوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ حالت میں اگر مریخ کا سفر کیا جائے تو اس تک پہنچنے میں تقریباً ایک برس کا عرصہ لگ جائے گا۔ امریکن اسکائی لیب اور روسی میر (Mir)خلائی سٹیشنوں نے زمین اور دوسرے سیاروں کے ساتھ ساتھ خلاء کے بارے میں نئی مسلمہ معلومات فراہم کی ہیں۔ ان سٹیشنوں میں سائنسدانوں نے بہت سے تجربے کئے ہیں۔ ان تجربوں کی روشنی میں خلاء نوردی کو آرام دہ بنانے کا کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی خلاء میں کئے گئے سفر اور تجربوں سے دنیا کو روبرو کرنے کے لئے متعلقہ پروگرام اب ٹی وی پر بھی نشر کیے جانے لگے ہیں۔امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ’’ناسا ‘‘ نے بار بار استعمال ہو سکنے والا ایک ایسا خلائی طیارہ تیار کیا ہے جو زیادہ لوگوں کو لے جا سکنے کے علاوہ عام طیاروں کی طرح ہی اڑان بھر سکتا ہے اور سطح پر اتر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ابھی تک کوئی بھی خلائی طیارہ ایک مشن پر ہی کام آ سکتا تھا۔ اب ہر مشن کے لیے نئے خلائی طیاروں کی ضرورت نہیں رہی ہے۔روس نے 20فروری 1986ء کو میر (Mir) نامی جس خلائی تجربہ گاہ کو خلاء میں بھیجا تھا، وہ حال ہی میں واپس بلایا جا چکا ہے جس نے اپنے کام کو بہت اچھی طرح انجام دیا۔ حالانکہ یہ اب بھی کافی کام آ سکتا تھا۔ لیکن روس کی معاشی حالت خراب ہو جانے کے سبب اور اس میں بار بار تکنیکی خرابیوں کا ابھرنا اس مشن کے خاتمے کی وجہ بن گیا۔29جنوری 1986ء کو امریکہ کو ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب ان کا ایک شٹل یان چیلنجر (Challenger) خلاء میں ہی پھٹ گیا ۔اس حادثے میں چھ خلاء نورد اور ایک سکول ٹیچرموت سے ہم آغوش ہوئے۔ لیکن اس حادثے کے باوجود روس سے امریکہ کی خلائی جنگ بند نہیں ہوئی۔ اس نے ایک کے بعد ایک کئی خلائی مشن شروع کیے اور کامیابی حاصل کی۔ 1989ء میں نیپچون (Neptune)کی کھوج کے لئے ڈسکوری (Discovery) اورسورج کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے1990ء میں یولیسس (Youlisis)کو روانہ کیا گیا تھا اور اب خلائی تحقیق اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جس کے بارے میں انسان نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔(کتاب ’’آئینہ فلکیات‘‘ سے اقتباس)