ضدی بچے
اسپیشل فیچر
بچے عموماً شرارتی ہوتے ہیں، لیکن بعض بچے بے حد ضدی بھی ہوتے ہیں، جن سے کوئی کام کرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ اچھی تربیت ، تعمیر ، شخصیت اور تعلیم کے حصول میں ضد ایک رکاوٹ ہے۔ یہی ضد جب مطالبے پورا ہونے پر بچے کی عادت بن جاتی ہے، تو ایسے بچوں کو بڑا ہونے پر بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچہ ضد کیوں کرتا ہے؟ ان کے محرکات کا کھوج لگانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ان محرکات کی جڑیں کتنی گہری ہیں؟ بچوں کی نشوونما میں بچے کی وراثت اور ماحول کے اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اگر بچے کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کے ہمہ پہلو تعمیر میں ایک عنصر سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے اور وہ ہے محبت…بچوں سے پیار کیجیے، جو (اساتذہ کریں یا والدین) بھی پیارکرے گا، بچے اس کے گرویدہ رہیں گے اور اس سے ضد نہیں کریں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین اور اساتذہ بچے کی محبوب ہستیاں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ضد بچوں کو وراثت میں بھی ملی ہے۔ گائوں کا چودھری جب یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں نے کہہ دیا نا…اب کون مائی کا لعل میری بات نہیں مانے گا تو اس کی ضد اس کے بچوں کے رگ و ریشہ میں اتر جاتی ہے۔ مڈل کلاس اور پرائمری کلاس کے بچے اس لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں کہ وہ سلیم الفطرت ہوتے ہیں اور متوازن بھی…پرخلوص ، وفادار اور محبت کرنے والے،قربانی والے، بہت سوں کو اپنے اوپر ترجیح دینے والے، بڑوں کا حکم ماننے اور ان کا ادب کرنے والے… وہ تعمیل حکم بھی ایسے کرتے ہیں کہ دل میں اتر جاتے ہیں۔ بڑے بڑے گھرانوں کے بچوں کی تربیت میں توازن رہے تو مؤدب ہوتے ہیں اوراگر دولت یا خاندان کی برتری کا احساس بڑھ جائے تو متنفر ہو جاتے ہیں اور وہ بھی ضد کرنے لگتے ہیں۔ گھر میں ضد کی وجہ سے آ کر توڑ پھوڑ بھی کرلیتے ہیں۔ پیارکو ترستا بچہ راستے بند پا کر خود ہی مسکرالیتا ہے۔ ایسے بچوں کو غصہ بھی زیادہ آتا ہے، مگر اکثر بچے متوازن ہوتے ہیں۔ ان کے دیگر مسائل کی طرح ان کی ضد کے علاج کی کنجی والدین کے پاس ہوتی ہے۔ بچوں کی ایک قسم اور ہے۔ غصے میں تپتے، جھگڑتے بات بات پر چیخنا اور مار کٹائی پہ آمادہ، انا کے مارے یہ بچے پائوں پٹختے ہیں، دھاڑتے ہیں اور توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں۔ ان میں کچھ تو صاحبانِ اقتدار کے بچے ہوتے ہیں۔ ان کا احساسِ تفاخر اور احساس برتری انہیں ضد پر ڈٹ جانے پر آمادہ کرتا ہے۔ کچھ غریبوں کے بچے جن کے پاس کھانے اور کھونے کو کچھ نہیں ہوتا وہ بھی ضد کرتے ہیں۔ بچوں کی ضد کی ایک وجہ کم علمی بھی ہے۔ والدین کا بے جا لاڈ بچوں کو ضدی بنا دیتاہے۔ خصوصاً اکلوتے بچے زیادہ ضدی ہوتے ہیں۔ ضد کے عنصر کو قویٰ کرنے میں ماحول کا بڑا کردار ہے اس ضد کا علاج دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک تو تعلیم کے ذریعے…آگاہی ضروری ہے کہ ناجائز لاڈ نہ دیں اور جائز ضرورتیں نہ روکیں۔ اپنے رویے میں سے جذباتیت کو خارج کردیں۔ اور دوسرا اہم علاج یہ ہے کہ بچوں کو محبت دیں۔ دل کی گہرائیوں سے انہیں چاہیں اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں انہیں باور کرائیں کہ متوازن انسان کیا ہوتا ہے اور اس کے سیرت و کردار میں ان عناصر کو نظرانداز نہ کریں جو دین فطرت دیتا ہے…۔ سوچیں آپ ضدی نہیں تھے تو آپ کے بچے کیوں ضدی ہیں؟ ٭…٭…٭