ویلنٹائن ڈے ۔۔۔؟
انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے گذشتہ عشرے میں مغربی تہذیب کا مشرقی معاشرے پر تیزی سے اثر انداز ہونا کسی المیے سے کم نہیں ۔فکرو خیالات کانام تہذیب اور اس کی عملی صورت تمدن اور تمدن کے نتیجے میں ثقافت کلچر پروان چڑھتا ہے۔ اسلامی تہذیب سے معاشرے میں اخلاقی و روحانی قدریں پروان چڑھتی ہیں۔مثبت سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتاہے ۔رشتوں کے تقدس کی اہمیت حاصل ہوتی ہیں ۔ا س کے برعکس عیسائی تہذیب جیسے مغربی تہذیب لکھا اورکہا جاتاہے۔انقلاب فرانس کے نتیجے میں یورپی معاشرے سے چرچ کے کردار کو ختم کردیاگیا۔مذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا، جس نے مغربی معاشرے کو کھوکھلااور اخلاقی قدروں سے آزاد کردیا۔کوئی بھی تہوار یادن ،جسے امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے ،بالواسطہ یابلاواسطہ مذہب وتاریخ سے جڑا ہواہوتاہے ۔ویلنٹائن ڈے سالانہ مغربی تہوار جو ہر سال 14فروری کومنایاجاتاہے ۔الیکڑانک میڈیااور ملٹی نیشنل کمپنیوں وانٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بالخصوص عالم اسلام وپاکستان میں پروان چڑھایاجارہاہے ،جس کاحقیقت میں مذہب وتہذیب سے کوئی تعلق نہیں ۔یوم ویلنٹائن کی تاریخ ہمیں روایات کے انبار میں بھی ملتی ہے۔ روایات کا یہ دفتر اسرائیلی روایات سے بھی بدتردرجے کی چیز ہے لوگوں نے اپنے سفلی جذبات کی تسکین کیلئے سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے کیا کچھ تخلیق کیا، اس کی ہلکی سی جھلک مندرجہ ذیل روایتوں میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے، جس کا مطالعہ مغربی تہذیب میں بے حیائی ،بے شرمی کی تاریخ کے آغا زکا اشارہ دیتاہے۔ روایتوں کے مطابق یہ وہ دن ہے، جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوںنے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا،کئی لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا )اور وینس (حسن کی دیوی )سے موسوم کرتے ہیں ،جوکیوپڈ کی ماں تھی ۔یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں، جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلاکر انہیں گھائل کرتاتھا ۔تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں ۔چودہ فروری کادن وہاں رومن دیوی ،دیوتاؤں کی ملکہ جونو کے اعزازمیں یوم تعطیل کے طورپر منایاجاتاہے ۔اہل روم ملکہ جو نو کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام موسوم کرتے ہیں جبکہ پندرہ فروری لیوپرکس دیوتاکا دن مشہور تھا اور اس دن اہل روم جشن زرخیزی مناتے تھے ۔اس موقع پر وہ پورے روم میں رنگا رنگ میلوں کا اہتمام کرتے جشن کی سب سے مشہور چیز نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی ۔ہوتا یوں تھا کہ اس رسم میں لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے اور وہاں موجود نوجوان اس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی میں لکھا نام جشن کے اختتام تک اس نوجوان کاساتھی بن جاتاجو آخر کار مستقل بندھن یعنی شادی پر ختم ہوتا۔ایک دوسری روایت کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے گشت وخون کامرکز بنی رہی اور یہ عالم ہواکہ ایک وقت کلاڈلیس دوم کی اپنی فوج کیلئے مردوں کی تعداد بہت کم آئی، جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اور ہم سفروں کو چھوڑ کرپردیس جاناپسند نہ کرتے تھے۔ اس کا شہنشاہ کلاڈلیس نے حل نکالاکہ ایک خاص عرصے کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کوفوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جائے، اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ مارلیس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا، اس کایہ کام چھپ نہ سکا اور شہنشاہ کارڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کوگرفتار کرلیاگیااور اذیتیں دے کر 14فروری 270ء کو قتل کردیاگیا۔اس طرح 14فروری ملکہ جونو،جشن زرخیزی اور سینٹ ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کیلئے معتبرو محترم دن قرار پایا۔سینٹ ویلنٹائن نامی ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا، یہ بشپ آف ٹیرنی تھا، جسے عیسائیت پرایمان کے جرم میں 14فروری 269ء کوپھانسی دے دی گئی تھی کہاجاتاہے کہ قید کے دوران بشپ کوجیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی اوروہ اسے محبت بھرے خطوط لکھاکرتاتھا اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن ڈے کہاجاتاہے ۔چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتاتھا ،لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کارتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کواس دن محبت بھرے خطوط ،پیغامات ،کارڈزاور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پایا۔برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کوبعد میں امریکا اور جرمنی میں بھی منایاجانے لگا،تاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایات نہیں ملتیں، برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں، جو تحفہ وصول کرنے والوں کیلئے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بنددل کواپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کواگر کوئی لڑکی چڑیادیکھ لے تواس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے ،البتہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی ۔ اگر عورت ویلنٹائن ڈے پرکسی سنہری پرندے کودیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیرشخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوارگزرے گی ۔امریکا میں روایت مشہورہے کہ 14 فروری کووہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جو نہی رقص کا عمل ختم ہوگااور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگا،اس سے ہی ان کی شادی قرار پائے گی جبکہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں دلچسپ روایت بھی زبان زدعام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہشمندہیں کہ یہ جان سکیں ،آپ کی کتنی اولادہوگی توویلنٹائن ڈے پرایک سیب درمیان سے کاٹیں کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے میں جتنے بیج ہوں گے، اتنے ہی آپ کے بچے ہوں گے ۔جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پراپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں اٹلی میں غیرشادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مردان کے سامنے سے گزرتاہے ۔ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کاہونے والا خاوند ہوتاہے جبکہ ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کوبھیجے جاتے ہیں ۔تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کارواج چودہویں صدی میں ہوا ابتدامیں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیاجاتاتھا،جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن ،کٹ آؤٹ ،اورپرل پر س ویلنٹائن کارخانوں میں بننے لگے 19ویں صدی کے آغاز پرویلنٹائن کارڈزبھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پرپڑی جواب ایک مستقبل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔بعض مغربی دانشور یورپی معاشرے کی تباہ ہوتی ساکھ کوبچانے کیلئے مدر ڈے ،کبھی فادر ڈے توکبھی کچھ کبھی کچھ ایام مناکر ماضی کی پرانی یادوں کوزندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے کرم سے ہمارا معاشرہ ابھی اُس تباہی کی جانب نہیں بڑھا۔رشتوں کا احترام ،رواداری کا جو سبق ہماری اسلامی تعلیمات سے ہمیں ملتا ہے ،ہم میں موجودہے جسے مغربی وملٹی نیشنل کمپنیاں ختم کرنا چاہتی ہیں ہمیں اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہراُس سازش کوناکام بنادیں جوہماری اخلاقی وروحانی تہذیبی قدروں کوہم سے چھینا چاہتے ہیں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقاء صرف اسلامی تہذیب اور تمدن سے وابستگی میں ہے ۔ ٭…٭…٭