اور روبن گھوش بھی روٹھ گئے

اور روبن گھوش بھی روٹھ گئے

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


کوئی شک نہیں،بلاشبہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور بنگال نے اعلیٰ درجے کے موسیقار پیدا کیے۔انہی ناموں میں سے ایک معتبر نام بنگالی موسیقار روبن گھوش کا بھی ہے جنہوں نے برِصغیر میں سروں کی کہکشاں سجائے رکھی۔ افسوس کہ گزشتہ روز وہ 76برس کی عمرمیں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کا فن اس خطے میں بسنے والے موسیقی کے شائقین کے لیے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روبن گھوش پندرہ برس پہلے اپنی بیوی اداکارہ شبنم کے ہمراہ بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ موسیقی کے میدان میں پنجاب اور بنگال کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ ان خطوں سے تعلق رکھنے والے سنگیت کاروں نے معرکتہ آلاراموسیقی دی اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ روشن گھوش 1939ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد اعلیٰ سرکاری عہدیدار تھے۔ چھ سال کی عمر میں روبن گھوش اپنی فیملی کے ساتھ ڈھاکہ آ گئے۔ موسیقی کا شوق انہیں شروع سے ہی تھا۔ جوان ہوئے تو ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن میں ملازمت کر لی۔ یہ ملازمت انہیں ان کے ایک دوست نے دلوائی۔ بعد میں اسی دوست کی بہن شبنم سے ان کی شادی ہو گئی۔ شبنم کا نام اس وقت جھرنا تھا اور وہ بنگالی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرتی تھیں۔ ’’آخری سٹیشن‘‘ میں شبنم نے ایک پگلی لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جس سے روبن گھوش بہت متاثر ہوئے۔ روبن گھوش کی کامیابیوں کا دور 1960ء سے شروع ہوا۔ انہیں فلمی موسیقی کی طرف لانے میں مرحوم گلوکار احمد رشدی کا بہت ہاتھ تھا۔ روبن کے بھائی اشوک گھوش بنگلہ دیشی فلمی صنعت کے مشہور ہدایت کار تھے۔ ایک بھائی ہدایت کاری کے میدان میں اپنا سکہ جما رہا تھا تو دوسرے نے موسیقی کے میدان میں اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ 1960ء کا عشرہ روبن گھوش کی کامیابیوں کا عشرہ ثابت ہوا۔ 1961ء میں بطور موسیقار ان کی پہلی بنگالی فلم ’’راج دھانی رکے‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے فوری بعد روبن گھوش کو ایک اور بنگالی فلم مل گئی۔ 1963ء میں احتشام کے بھائی مستفیض نے اردو فلم ’’تلاش‘‘ شروع کی جس کی موسیقی کے لیے روبن گھوش کا انتخاب کیا گیا۔ اس سے پہلے 1962ء میں روبن گھوش احتشام کی ہدایت کاری میں بننے والی اردو فلم ’’چندا‘‘ کا میوزک دے چکے تھے اور اس کے نغمات بہت ہٹ ہوئے تھے۔ ’’چندا‘‘ روبن گھوش کی پہلی اردو فلم تھی۔’’ چندا‘‘ کا مرکزی کردار شبنم نے ادا کیا تھا اور وہ اس وقت جھرنا سے شبنم بن چکی تھیں۔ ’’چندا‘‘ میں فردوسی بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ان کے گائے ہوئے نغمات نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں دھوم مچا دی تھی۔ لیکن ’’تلاش‘‘ ملک کے دونوں حصوں میں نہایت کامیاب رہی۔ اس کا ایک گانا ’’رکشے والا بے چارہ‘‘ بے انتہا مقبول ہوا۔ اسے بشیر احمد نے گایا تھا۔ بشیر احمد باکمال گلوکار تھے۔ انہوں نے بعد میں بھی بنگلہ دیش میں بننے والی اردو فلموں کے لیے کئی خوبصورت گیت گائے جنہیں فلم بینوں نے بہت سراہا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہ مغربی پاکستان میں ہی تھے اور یہ کہا جا رہا تھا کہ بشیر احمد یہیں رہیں گے اور اردو فلموں میں اپنی گلوکاری کے جوہر دکھائیں گے لیکن افسوس یہاں ان کی قدر نہ کی گئی اور وہ مایوسی کی تصویر بنے بنگلہ دیش چلے گئے۔ ’’تلاش‘‘ کے بعد جن دو فلموں کی موسیقی نے روبن گھوش کو مزید شہرت دی وہ تھیں ’’پیسہ‘‘ اور ’’کارواں‘‘۔ ’’کارواں‘‘ کے گانے سپرہٹ تھے۔ خاص طور پر بشیر احمد کا گایا ہوا یہ دلکش گیت بہت مقبول ہوا ’’جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے۔‘‘ اسی طرح فردوسی بیگم کا گایا ہوا گیت ’’یہ سماں، پیار کا کارواں‘‘ بھی شہرت کی تمام حدیں پار کر گیا۔ روبن گھوش کی موسیقی بھارت میں بھی بہت پسند کی جا رہی تھی۔ 1967ء میں احتشام نے ’’چکوری‘‘ بنائی تو ملک کے دونوں حصوں کے فلم بین مسحور ہو کے رہ گئے۔ ایک طرف ندیم اور شبانہ کی اداکاری نے نوجوانوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا تو دوسری طرف روبن گھوش کی شاندار موسیقی نے دھوم مچا رکھی تھی۔ ’’چکوری‘‘ ندیم کی پہلی فلم تھی۔ ’’چکوری‘‘ کی بے مثال کامیابی نے ندیم کو راتوں رات سٹار بنا دیا ۔ ’’چکوری‘‘ میں احمد رشدی اور فردوسی بیگم کے علاوہ ندیم نے بھی فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا گایا تھا۔ وہ کچھ یوں ہے: ’’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں‘‘ اس کے علاوہ احمد رشدی کا گایا ہوا یہ گیت بھی جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ’’کبھی تو تم کو یاد آئیں گی‘‘۔ مجیب عالم کا گایا یہ گیت بھی روبن گھوش کے فن کی ایک نادر مثال ہے۔ ’’وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ’’تم میرے ہو‘‘ کی موسیقی کو بھی فلم بینوں نے بہت پذیرائی بخشی۔ ’’تم میرے ہو‘‘ کے بعد روبن گھوش اور شبنم کراچی میں آباد ہو گئے اور پھر سرور بارہ بنکوی کے ساتھ ان کا خوب ساتھ رہا۔ سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گیتوں کو روبن گھوش کا لاجواب سنگیت ملا تو کمال ہو گیا۔ 1968ء میں ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ کے نغمات بھی بہت مشہور ہوئے۔ خاص طور پر یہ دو گیت تو بہت ہٹ ہوئے ’’اسے دیکھا اسے چاہا اسے بھول گئے‘‘ اور ’’مجھے تلاش تھی جس کی وہ ہم سفر تم ہو۔‘‘ ( جاری ہے ) 1972ء میں الیاس رشیدی کی فلم ’’احساس‘‘ کے گیتوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم باکس آفس پر بھی بہت کامیاب رہی۔ اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے۔ روبن گھوش کی موسیقی میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ نغمہ آج تک مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘ اور پھر مہدی حسن کا یہ لافانی گیت ’’آپ کا حسن جو دیکھا تو خدا یاد آیا‘‘ روبن گھوش کے اعلیٰ سنگیت کی ایک زبردست مثال ہے۔ ’’احساس‘‘ میں رونا لیلیٰ کے اس گیت نے اس گلوکارہ کو عروج بخشا اور بعد میں انہوں نے ’’امرائو جان ادا‘‘ میں سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے گیت گائے۔ ان کا انتخاب بے بدل موسیقار نثار بزمی نے کیا تھا۔ 1974ء میں ’’چاہت‘‘ اور ’’بھول‘‘ کی موسیقی بھی بہت مقبول ہوئی اور پھر ’’شرافت‘‘ کے نغمات نے بھی بڑی دھوم مچائی۔ ’’چاہت‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ ایک امر گیت ہے جو بڑے بڑے گیتوں پر بھاری ہے۔ اس فلم میں اخلاق احمد نے بھی گلوکار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’ساون آئے ساون جائے‘‘ آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتا ہے۔’’چاہت‘‘ اداکار رحمان کی ذاتی فلم تھی اور ایک زمانے میں شبنم اور رحمان کی جوڑی بہت مشہور رہی تھی۔ رحمان کی فلموں میں روبن گھوش ہی موسیقی دیا کرتے تھے۔ 1975ء میں رحمان کی ذاتی فلم ’’دو ساتھی‘‘ اگرچہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی لیکن روبن گھوش کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ غلام عباس کا گایا ہوا یہ گیت بہت مشہور ہوا ’’ایسے وہ شرمائے‘‘۔ یہ روبن گھوش کی اعلیٰ موسیقی کا کمال تھا کہ غلام عباس کو اس کے بعد وہ شہرت نہ مل سکی جو اس گیت نے دی۔ 1977ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’آئینہ‘‘ کو اگر روبن گھوش کے فن کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ’’آئینہ‘‘ کو تو ویسے بھی اردو فلموں کی سرتاج فلم کہا جاتا ہے۔ یہ فلم کراچی کے ایک سینما میں پانچ برس تک نمائش پذیر رہی۔ نذرالاسلام کی بہترین ہدایت کاری اور ندیم، شبنم، ریحان کی لاجواب اداکاری نے فلم کی کامیابی میں اگر اہم کردار ادا کیا تو اس کے ساتھ ساتھ روبن گھوش کی موسیقی نے بھی کمال کر دکھایا۔ اس فلم میں روبن گھوش نے اپنی موسیقی کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ گیتوں میں گٹار کا استعمال بھی بڑی خوبصورتی سے کیا گیا۔ روبن گھوش کے ساتھ گٹار سجاد طافو نے بجایا تھا۔ نیرہ نور، اخلاق احمد، عالمگیر اور مہدی حسن نے اتنے خوبصورت گیت گائے کہ وہ شاہکار گیتوں کا روپ اختیار کر گئے۔ روبن گھوش نے ان تمام گلوکاروں سے بڑی ذہانت سے کام لیا، ویسے تو اس فلم کے سبھی گیتوں نے فلم بینوں کو سحر زدہ کر دیا تھا لیکن تین گیت ایسے ہیں جو روبن گھوش کی شناخت بن گئے۔ یہ تین گیت کچھ یوں ہیں۔ -1 ’’مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ -2 ’’روٹھے ہو تم تو میں کیسے منائوں پیا‘‘ اور -3 ’’کبھی میں سوچتا ہوں۔‘‘ آئینہ کے بعد روبن گھوش نے تین اور یادگار فلموں کا یادگار میوزک دیا۔ یہ فلمیں تھیں ’’امبر‘‘، ’’بندش‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں۔‘‘ ان تینوں فلموں میں مہناز، مہدی حسن اور اخلاق احمد نے ان کی موسیقی میں دلکش گیت گائے جن کی تحسین آج بھی کی جاتی ہے۔ امبر میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ’’ٹھہرا ہے سماں‘‘، بندش کا ’’دوپیاسے دل ایک ہوئے‘‘ اور ’’نہیں ابھی نہیں‘‘ میں اخلاق احمد کا گایا یہ گیت ’’سماں وہ خواب کا سماں‘‘ روبن گھوش کی فنکارانہ عظمت کا بین ثبوت ہیں۔ انہوں نے کسی پنجابی فلم کا میوزک نہیں دیا۔ 1984ء میں ان کی ایک فلم ’’دوریاں‘‘ ریلیز ہوئی جس کی موسیقی بھی اعلیٰ درجے کی تھی۔ ان کے بارے میں بھارت کے نامور موسیقار سلیل چوہدری نے کہا تھا کہ روبن گھوش جیسے موسیقار کو بھارت میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ آر۔ ڈی۔ برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور نوشاد جیسے موسیقار بھی ان کے مداح تھے۔ روبن گھوش نے بہت منفرد اور معیاری کام کیا۔ ان کا سنگیت ہمیشہ زندہ رہے گا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
دو متضاد جیلیں

دو متضاد جیلیں

لفظ جیل کے ساتھ ہی ذہن میںناپسندیدہ اور گھٹن والی جگہ کا تاثر ذہن میں آتا ہے۔ آج ہم جن دو متضاد جیلوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ان میں سے ایک کو دنیا کی خوفناک ترین اور خطرناک ترین قراردیا جاتا ہے جبکہ دوسری ایسی جیل ہے جو ایک پرتعیش جیل کی شہرت رکھتی ہے۔ خطرناک ترین جیل ایل سلواڈور، وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا اور سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔یہ بحرالکاہل کے ساحل پر گوئٹے مالا اور ہنڈوراس کے درمیان خلیج فونسیکا پر واقع ہے۔ 65لاکھ آبادی کا حامل یہ ملک ان ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم (قتل وغارت ،منشیات سمگلنگ ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ) کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے دو عشرے پہلے یہاں قتل عمد کی شرح 41فیصد یعنی ایک لاکھ افراد تھی۔جن میں 60 فیصد قتل جرائم پیشہ گروہوں نے کئے تھے ۔چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروہوں کو چھوڑ کر اس ملک میں رفتہ رفتہ دو بڑے جرائم پیشہ حریف گروہوں یعنی ''مارا سلواٹروچا‘‘ (MS-13)اور '' بیریو18‘‘کو جرائم کی دنیا کے ''بے تاج بادشاہ‘‘ کہا جانے لگا ، جن کا نعرہ تھا '' دیکھو ، سنو مگر منہ بند رکھو‘‘۔ان دونوں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایل سلواڈور میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی اور خون ریزی کا بازار گرم تھا۔ ایل سلواڈور کے صدر بوکیلے ہیں جو حال ہی میں اس وجہ سے بھاری اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں ،جن کا انتخابی نعرہ ہی ملک سے ان گینگز کا فوری خاتمہ تھا۔ چنانچہ صدر بوکیلے نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی جیل تعمیر کرائی جس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ یہاں تو ''چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی‘‘۔اس جیل کی سخت سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کے بہت بڑے ایک میڈیا گروپ کے نمائندوں کو طویل انتظار کے بعد بالآخر صدر بوکیلے کی خصوصی اجازت کے بعد کڑی نگرانی میں اس جیل کے دورے کی اجازت ان شرائط پر دی گئی کہ نہ تو وہ کسی قیدی سے ہم کلام ہوں گے اور نہ ہی کسی قیدی سے آنکھ ملانے کی کوشش کریں گے۔ عام حالات میں اس جیل کے قیدیوں کو نہ تو اپنے ساتھیوں سے بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی نظریں اوپر اٹھانے کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس جیل کو دنیا کی ''ظالم ترین جیل ‘‘ کی شناخت بھی حاصل ہے۔یہاں جیل کے سیل سے باہر نکالنے کے دوران قیدیوں کے پائوں میں لوہے کے کڑے ڈال دئیے جاتے ہیں جن سے وہ گھٹنوں کے بل چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ''سینٹر فار دی کنفائنمنٹ آف ٹیررازم‘‘ (سیکوٹ) نامی یہ میگا جیل، ایل سلوا ڈور کے دارالحکومت شان سلواڈور سے بجانب جنوب مشرق 74 کلومیٹر دور ایک ویران اور بیاباں علاقے میں واقع ہے۔گزشتہ سال جنوری میں صدر بوکیلے نے ہی اس جیل کا افتتاح کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا '' یہ جیل ایل سلواڈور کے خطرناک گینگز کیخلاف جنگ کی علامت ہے‘‘۔ پہلے مرحلے میں یہاں 2ہزارخطرناک ترین قیدیوں کو منتقل کیا گیا۔ 456 کنال پر مشتمل یہ جیل 8 بلاکوں پر مشتمل ہے۔ ہر بلاک میں 32 قید خانے ہیں جہاں مجموعی طور پر 40ہزارقیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔جنہیں 24 گھنٹے بلا تعطل جدید ترین کیمروں اور اسلحہ سے لیس تازہ دم سکیورٹی اہلکاروں کی زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔ جیل کے اندر داخل ہونے کیلئے جدید سکیننگ سسٹم کے علاوہ ایک وسیع سکیورٹی نیٹ ورک سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس کی سخت سکیورٹی پر تبصرہ کرتے ہوئے ''تشدد کی روک تھام‘‘سے متعلق اقوم متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے ایک سابق رکن مسٹرمیگوئل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے تھے کہ یہ جیل کنکریٹ اور فولاد کا ایک ایسا گڑھا ہے جو سزائے موت کے بغیر لوگوں کو مارنے کی کوشش ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جیل کے گرد دو باڑیں بھی ہیں جن پر نصب تاروں میں ہائی وولٹیج بجلی گزرتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے 19 واچ ٹاورز بھی اس جیل کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں جن پر 24 گھنٹے اسلحہ بردار محافظ اسلحہ تانے نظر آتے ہیں۔ اس قید خانے میں ہر قیدی کیلئے کتنی جگہ دی گئی ہے ؟ برطانوی میڈیا گروپ کے نمائندے کے مطابق حکام اس سوال کا جواب دینے پر خاموش تھے۔تاہم نمائندے نے جیل کے تعمیراتی نقشے سے اندازہ لگایا ہے کہ ہر قیدی کے حصے میں فقط 0.58 مربع میٹر جگہ آتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق، اس طرح کے مشترکہ قید خانوں میں ہر قیدی کو کم از کم 3.4 مربع میٹر جگہ مہیا کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہاں پر قیدیوں کو دھات کے بنے چار منزلہ بیڈ پر سلایا جاتا ہے جس پر کسی قسم کا گدا یا چادر نہیں ہوتی۔قیدیوں کے سیل فولادی جالیوں سے بنے ہوئے ہیں جن پر محافظ اسلحہ تانے چوبیس گھنٹے نظر رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی قیدی ان سے جھول نہ جائے۔انہیں کھانے کیلئے چاول، دالیں ، پاستا یا ابلا انڈہ دیا جاتا ہے۔انہیں یہ سب کچھ بغیر چمچ یا کانٹا کے کھانا ہوتا ہے کیونکہ دھاتی اشیاء جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ ایل سلواڈور میں سارا سال موسم گرم اور حبس والا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قید خانے میں نہ تو کوئی کھڑکی اور نہ ہی کوئی پنکھا۔ہر سیل میں قیدیوں کیلئے دو بیت الخلاء بغیر کسی پردے کے مہیا کئے گئے ہیں۔پرتعیش سہولتوں والی جیل : جیلوں بارے عام طور پر سننے میں آتاہے کہ کسی گروہ نے اپنے ساتھی چھڑانے کیلئے جیل پر حملہ کر دیا۔ آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک جرائم پیشہ گروہ سے جیل کا قبضہ چھڑانے کیلئے حکومت کو فوج کے 11ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔یہ صرف ایک جیل نہیں بلکہ جیل کے اندر ایک شہر تھا جہاں قیدیوں کے اہلخانہ اور عزیز و اقارب بھی رہتے تھے۔'' ٹوکورون‘‘ نامی ملک کی سب بڑی یہ جیل ، وینزویلا کے شمال میں کارکاس کے جنوب مغرب میں لگ بھگ 140 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جس پر کئی سالوں تک وینزویلا کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘کا قبضہ رہا ہے۔ جرائم کی دنیا میں اس جیل کو ٹیرن ڈی آرگوا کا '' ہیڈ آفس‘‘ بھی تصور کیا جاتا تھا۔جہاں سے اس تنظیم کے سربراہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے نیٹ ورک کے اہلکاروں کو ہدایات دیا کرتے تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس جیل کے اندر پہنچ کر یہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ آپ کسی جیل کے اندر ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں چھ گھنٹے کے میگا آپریشن کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس جیل کا قبضہ حاصل کر لیا ہے۔جو تفصیلات سامنے آئیں ان کے مطابق، اس جیل میں جرائم پیشہ گروہ ''ٹیرن ڈی آرگوا‘‘ کاسرغنہ ہیکٹر گیریرو فلورس قتل اور منشیات سمگلنگ کے جرم میں 17 سال کی قید کاٹ رہا تھا۔ ملک کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اس جیل میں عملاً جرم کا راج تھا۔ آپریشن کے دوران جیل سے باہر نکلنے والی سرنگوں کا سراغ بھی ملا ہے۔یہ گروہ اتنا طاقتور تھا کہ جیل کے اندر باہر آزادانہ نقل و حرکت ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔مقامی میڈیا نے اس جیل بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہاں قید اس گینگ کے سرغنہ ، چلی ، پیرو ،ایکواڈور اور کولمبیا میں موجود اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیتے تھے۔ اس گینگ کے ارکان جیل کے اندر باہر ایسے گھومتے تھے جیسے ایک آزاد شخص پھرتا ہے۔ اس جیل میں کسی بھی ہوٹل کی طرح پرتعیش سہولیات موجود تھیں، جن میں سوئمنگ پول ، نائٹ کلب ، ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اور اشیاء خور ونوش کی متعدد دکانیں شامل ہیں۔اس کامیاب آپریشن کے بعد وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو نے سیکیورٹی اہلکاروں کو مبارک دی اور کہا کہ اب ہمیں وینیزویلا کو مکمل طور پر جرائم سے پاک ملک کی شناخت دلانا ہوگی۔

غور طلب باتیں

غور طلب باتیں

٭...اردشیر نے اپنے بیٹے سابور کو وصیت کی تھی:یا د رکھ کہ دین اور ملک دو بھائی ہیں۔ کسی بادشاہ کیلئے ان میں سے کسی کے ساتھ بے نیازی کا برتاؤ کرنا ممکن نہیں کیونکہ دین ملک کی اساس ہوتا ہے اور ملک دین کا محافظ۔ جس ملک کی اساس نہ ہو وہ منہدم ہو جاتا ہے اور جس چیز کا کوئی محافظ نہ ہو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔٭...اگر نظریے کو انقلابی عمل سے مسلک نہ کیا جائے تو یہ بے مقصد ہو کر رہ جاتاہے۔نئے کارکنوں میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہر نئی چیز کے بارے میں بے حد حساس واقع ہوتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان میں اعلیٰ درجے کا جوش و خروش اور پہل قدمی پائی جاتی ہے۔ اور یہی وہ خوبیاں ہوتی ہیں جن کی بعض پرانے کارکنوں میں کمی ہوتی ہے۔ (سٹالن)٭...کسی سربراہ حکومت کے لئے صرف ذہانت ہی ضروری نہیں بلکہ کسی سربراہ مملکت کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ طاقت، حوصلہ اور عقل مندی ہے۔ (ہنری کسنجر)٭...اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتا تو وہ کبھی اس کام کو نہیں کر سکتا۔شخص فطرت کی طرح فیاض ہے وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ (کنفیوش)٭... جس قدر کسی بادشاہ کی سلطنت وسیع ہوتی چلی جاتی ہے، وہ اسی قدر مختصر ہوتا چلا جاتا ہے۔ (سکندر اعظم)٭...جب تک انسان مصائب میں گرفتار نہیں ہوتا، اس کے جو ہر نہیں کھلتے۔ (ہمایوں)٭...جرم معاشرے میں نہیں بلکہ معاشرتی اقدار میں پرورش پاتا ہے۔ (مالتھمس) ٭...شاہی محل ، عورت کی صلاحیتوں کے قاتل ہیں۔(ملکہ جو زیفائن) ٭...میرا تو ہمیشہ سے یہ اصول ہے کہ اپنے تصورات اور خاکوں کو الفاظ کے بجائے عمل کا جامہ پہنا کر دکھاؤ۔ (جارج واشنگٹن)٭...جنگ ہو تو محکم ارادہ، شکست ہو تو آئندہ لڑنے کا عزم، فتح ہو تو فراخدلی اور امن ہو تو خیر سگالی کے مظاہرہ میں کامیابی پنہاں ہے۔ (چرچل) ٭...جنگ جیتنا اصل مرحلہ نہیں ہوتا بلکہ فاتح سپاہیوں کو قابو کرنا جنگ جیتنے سے بھی کٹھن ہے۔ (سکندر اعظم)٭...ذو الفقار علی بھٹوکوئی بھی ذہین شخص کسی ایک ہی صحیح خیال سے ہمیشہ چھٹا نہیں رہ سکتا۔تمہیں اپنے دماغ کو کھلا رکھنا چاہئے۔ لیکن تمہیں کچھ نہ کچھ اس میں ڈالتے رہنا چاہئے۔ ورنہ خیالات تمہارے دماغ سے بالکل اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح انگلیوں میں سے ریت نکل جاتی ہے۔ (نہرو)٭...جنگ افراد سے نہیں حوصلے سے لڑی جاتی ہے۔ (جنرل رو میل) 

کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟

کھانا کیوں ہضم نہیں ہوتا؟

''کئی دنوں سے مجھے بھوک بالکل نہیں لگتی۔ کوئی بھی چیز کھالوں، ہضم نہیں ہوتی، پیٹ بھاری بھاری رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پیٹ میں ہوا بھری ہوئی ہے‘‘۔جنرل پریکٹس میں اس طرح کی بدہضمی، معدہ کی گیس اور جلن وغیرہ کی تکالیف کی شکایت کے ساتھ بہت سے مریض آتے ہیں۔ تقریباً 30 فیصد سے زیادہ مریض بدہضمی کا رونا روتے ہیں اور اس کے مداوے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔وجوہاتبدہضمی، معدے میں جلن یا تیزابیت اور پیٹ درد وغیرہ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں پیٹ کی بیماریاں مثلاً معدہ کا السر، پتے میں پتھری، معدے کا کینسر، پیٹ کی کوئی دوسری بیماری وغیرہ ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ نفسیاتی الجھنوں، ذہنی پریشانیوں، اعصابی تنائو یا پھر سٹریس اور ڈپریشن وغیرہ کی صورت میں بھی بندے کو بھوک بالکل نہیں لگتی یا پھر کھایا پیا ہضم نہیں ہوتا اور پیٹ میں بھاری پن اور گیس محسوس ہوتی ہے۔ علاج اور بچائوبدہضمی وغیرہ کے علاج کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن نشین رکھیں۔(1) 50فیصد سے زیادہ بدہضمی کی شکایات ذہنی پریشانیوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تفکرات سے نجات حاصل کی جائے جو کوئی بھی اس طرح کے مسائل کا شکار ہے، اسے چاہیے اللہ پہ یقین رکھے۔ اپنا کام دل جمعی اور ایمانداری سے کرے اور نتائج اللہ پر چھوڑے۔ انشاء اللہ سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ اگر ذہنی پریشانی دور ہو جائے تو پھر بدہضمی جیسے مسائل سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔(2)اس صورت میں ضروری ہے کہ کسی مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں تاکہ آپ کے چپک اپ اور تشخیصی ٹیسٹوں سے اس کی صحیح وجہ کا پتہ چل جائے اور اس کے مطابق علاج ہو۔(3)بدہضمی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ مرغن اور ثقیل غذائوں سے پرہیز کریں اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے ان کے مطابق وقت مقررہ پر کھانا کھائیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی ایسی اشیاء جن سے پیٹ خراب ہونے کا اندیشہ ہو، ان کو اپنی خوراک سے نکال دیں۔ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں اسپغول کا چھلکا اور دہی کا استعمال کریں۔(4)کھانے میں فروٹ اور تازہ سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ (5)شام کے وقت زیادہ ثقیل کھانا نہ لیں۔ ہر وقت منہ مارنے سے پرہیز کریں۔ چٹ پٹی اشیاء، چکنائی، نمک مرچ کم سے کم استعمال کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

تھیلیسیمیا کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا دن8 مئی کو منایا جاتاہے۔ طبی ماہرین کے مطابق خون کا مہلک مرض تھیلیسیمیا دراصل مورثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے، یہ مرض خون کے خلیوں کی غیرمعمولی حرکات کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے یا اُس کی پیداوار کا عمل رک جاتا ہے۔نیا خون نہ بننے کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کو بار بار خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔روس کا امریکی سمراولمپکس کا بائیکاٹ8مئی 1984ء کو لاس اینجلس میں ہونے والی سمر اولمپکس کا روس کی جانب سے بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ بائیکاٹ دراصل امریکہ کی جانب سے ماسکو ،روس میں 1980ء کو ہونے والی سمر اولمپکس کے بائیکاٹ کے ردعمل کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس بائیکاٹ میں روس کے ساتھ ساتھ 14 مشرقی ممالک کا بلاک، سیٹلائٹ ریاستیں اور دیگر اتحادی ممالک بھی شامل تھے۔ان تمام ممالک نے روس کی سرپرستی میں 8مئی1984ء کو امریکہ میں ہونے والی سمر اولمپکس کا بائیکاٹ کیا۔ سوویت یونین کے بائیکاٹ کی وجہ سے اولمپک میں ہونے والے وہ مقابلے خاص طور پر متاثر ہوئے جن پر غیر حاضر ممالک کا غلبہ تھا۔ پراگ میں بغاوتپراگ کی بغاوت دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر مئی 1945 میں پراگ شہر کو جرمن قبضے سے آزاد کرانے کیلئے چیک مزاحمت کی جزوی طور پر کامیاب کوشش تھی۔ 5 مئی 1945 ء کو یورپ میں جنگ کے آخری لمحات میں چیک شہریوں نے جرمن قابضین پر حملہ کر دیا۔ روسی لبریشن آرمی، جو جرمنوں کیلئے لڑ رہی تھی، نے انحراف کیا اور باغیوں کی حمایت کی۔ 8 مئی کو، چیک اور جرمن رہنماؤں نے جنگ بندی پر دستخط کیے جس کے تحت جرمن افواج کو شہر سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔چیچک کا خاتمہ 8مئی1980ء کو ورلڈ ہیلتھ آرگننائزیشن کی جانب سے دنیا بھر سے چیچک کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا تعلق آرتھوپوکس وائرس جینس سے تھا۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے آخری کیس کی تشخیص اکتوبر 1977ء میں ہوئی تھی، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار اور قے شامل تھے۔ اس کے بعد منہ میں السر اور جلد پر دانے بن جاتے تھے ۔ اس بیماری میں موت کا خطرہ تقریباً 30 فیصد ہوتا تھا، جس کی شرح بچوں میں زیادہ ہوتی تھی۔ 

حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات  کے شاہکار ریستوران

حیرت انگیز اور انوکھی تعمیرات کے شاہکار ریستوران

کسی بھی ریستوران میں قیام کرنے والے شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے ریستوران میں ہر طرح کی سہولت میسر ہو۔ اس حوالے سے فائیو سٹار اور تھری سٹار ہوٹلوں میں قیام کرنے والوں کو بہترین اور غیری معمولی جدید سہولتیںفراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن دنیا میں بہت سے اسے ریستوران بھی موجود ہیں جو اپنے طرز تعمیراور محل و قوع کے لحاظ سے انتہائی منفرد ۔ انوکھے اور حیرت انگیز ہیں۔ جن کو دیکھنا یا ان میں ٹھہرنا مسافروں کیلئے نہایت دلچسپ اور انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ آئیے سیاحوں کی دلچسپی کے مرکز دنیا کے ان شاہکار ریستورانوں میں سے چند کا جائزہ لیتے ہیں۔ریت سے بنا ہوا ریستورانبرطانیہ کے جنوبی ساحل پر ریت سے ایک حیرت انگیز ریستوران تعمیر کیا گیا ہے جس کی تعمیر میں ہزاروں ٹن ریت استعمال ہوئی ہے۔ اس حیرت انگیز ریستوران کو چار مجسمہ سازوں کی تعمیر نے روزانہ 14 گھنٹے کام کر کے 7 روز میں تعمیر کیا ہے۔ ریستوران میں تمام کمرے اور بستر ریت سے تعمیر کئے گئے ہیں۔ بارش اس ہوٹل کو چند لمحوں میں برباد کرسکتی ہے۔اس ریستوران کی چھت نہیں ہے اس وجہ سے یہاں رات کو ٹھہرنے والے لوگ ریت سے بنے بستر پر لیٹ کر آسمان پر چمکتے ستارے دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے ساتھ مظاہر قدرت کا یکسوئی کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس ریستوران کے مالک کا نام مارک اینڈرسن ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ریت سے بنی ہوئی برطانیہ کی سب سے بڑی عمارت ہے۔تیرنے والا ریستورانسوئیڈن میں ایک انوکھا تیرنے والا ریستوران ''سالٹ اینڈسل‘‘ واقع ہے جو سوئیڈن کے جنوب میں ''کلیڈزیبو لیمن‘‘ نامی جزیرے میں بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز اکتوبر2008ء میں ہوا تھا۔ یہ ایک ماحول دوست ریستوران ہے جس میں لوگ کھلی فضاء میں بیٹھ کر ہوٹل کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ ہوٹل دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس ریستوران کے کمروںکے فرش پر گرینائٹ لگایا گیا ہے اور ان کمروں کو اعلیٰ ترین فرنیچر سے سجایا گیا ہے۔ اس تیرنے والے ریستوران میں مہمانوں کوSea Foodسے بنائے گئے کھانے کھلائے جاتے ہیں جبکہ ریستوران میں ایک میٹنگ روم اور کانفرنس ہال بھی بنایا گیا ہے۔برف سے بنایا گیا ریستورانکینیڈا میں واقع ''ہوٹل دی گلیس‘‘ نامی ریستوران مکمل طورپر برف سے بنایا گیا ہے۔ یہ حیرت انگیز برفانی ہوٹل کینیڈا کے شہر ''موٹریال‘‘ سے 149 میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے برف سے بنایا گیا ہے۔ ریستوران کے تمام کمرے، ستون اور آرائشی اشیاء برف سے تراشی گئی ہیں۔ اس ریستوران کی سیر اور اس میں قیام کیلئے سب سے اچھا وقت 4 جنوری سے 4 اپریل تک ہے کیونکہ یہاں سردی کے موسم میں برفانی ریستوران کا اندرونی درجہ حرارت منفی 13 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے، برف سے بنے ہوئے اس انوکھے اور خوب صورت ریستوران میں اکثر فلموں اور ٹی وی پروکشنز کی شوٹنگ، شادیاں ،سیمینار، آرٹ کی نمائش اور مختلف کمپنیوں کی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ اس حیرت انگیز برفانی ریستوران کو دیکھنے کیلئے ہر سال دنیا بھر سے سیاح بڑی تعداد میں کینیڈا آتے ہیں۔کیپسول ریستورانجاپان میں ایک جدید طرز کا ''کیسپول ریستوران‘‘ بنایا گیا ہے جونہایت کم خرچ میں ایک شخص کو سونے کیلئے کافی ہے۔ یہ ہوٹل اپنی ساخت کے لحاظ سے نہایت ہی انوکھا اور حیرت انگیز ہے کیونکہ جس طرح مرغے، مرغیوں اور دوسرے پالتوں پرندوں کی رہائش کیلئے ڈربے بنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کیلئے یہ کیسپول نما ریستوران بنایا گیا ہے، جس میں انسانوں کیلئے ڈربے بنائے گئے ہیں جن کی ساخت ایک دراز کی طرح ہے جس میں ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص سو سکتا ہے۔ ریستوران کے کمرے اور دروازے لکڑی یا لوہے کی بجائے شیشے سے بنائے گئے ہیں اوراس کیپسول ریسٹورنٹ میں دیگر بڑے ہوٹلوں جیسی تمام سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ کمروں میں کھانا کھانا اور سگریٹ نوشی ممنوع ہے۔ ان کمروں کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی دومیٹر ہے۔ اس طرز کے بنے ہوئے ریستوران جاپان میں بہت تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہے ہیں اور اب کئی جگہ ایسے ہوٹل تعمیر کئے جارہے ہیں۔جنگل میں بنایا گیا ریستورانمیکسیکو کے جنگل میں پہاڑوں اور درختوں کے درمیان لوہے کے ڈھانچے پر مشتمل ایک مضبوط اور خوبصورت ہوٹل ''جنگل ہوٹل‘‘ کے نام سے بنایا گیا ہے۔ جس کے کمرے نہایت آرام دہ ہیں۔ یہ ہوٹل چھٹیاں گزارنے کیلئے ایک بہترین جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں چھٹیوں کے زمانے میں بہت مشکل سے کمرے کرائے پر ملتے ہیں اور کافی پہلے سے اس ہوٹل میں کمرے بک کروانے پڑتے ہیں۔ یہ ہوٹل زمین سے کافی بلندی پر بنایا گیا ہے جس کا ہر کمرہ بہت دلکش ہے۔ اس ہوٹل میں رہنے والوں کو تمام اشیاء لینے کیلئے خود نیچے آناپڑتا ہے۔ چونکہ یہ ہوٹل مسافروں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اس وجہ سے اس ہوٹل سے نیچے ایک بڑا بازارقائم ہوگیا ہے۔ جہاں ضرورت کی تمام اشیاء با آسانی خریدی جاسکتی ہیں۔ اپنی وضح قطع اور محل وقوع کے لحاظ سے یہ ایک انوکھی اور دلچسپ جگہ ہے جہاں آنے والوں کو بھر پور تفریح اور مہم جوئی کے مواقع ملتے ہیں۔غار ریستورانیہ ریسٹورنٹ ترکی میں کیپی ڈوشیا کی پہاڑیوں میں ایک غار میں بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے ''غار ہوٹل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ زمانہ قدیم کے کسی دور کے باسی ہیں۔ جب لوگ عام طورپر پہاڑوں میں غار کے اندررہا کرتے تھے۔ ترکی میں کیپی ڈوشیاء کے پہاڑوں کے اندر بنے ہزاروں سال پرانی قدیم غاروں کو تمام ضروری اشیاء سے مزین کر کے انہیں ایک بہت ہی خوبصورت ہوٹل کی شکل دی گئی ہے۔ 6 غاروں پر مشتمل اس ''غار ہوٹل‘‘ میں تیس کمرے ہیں جہاں سہولتوں اور آرام کا ہر ممکن اہتمام کیا گیا ہے۔ اس غار ہوٹل کے قریب ایک اوپن ایئر عجائب گھر، شاپنگ سنٹر، ریسٹورنٹ اور مذہبی مراکز بھی قائم ہیں جبکہ ہوٹل کے ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ 

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

دلکش سیاحتی مقامات والا ملک:پانامہ

ابھی چند برس پہلے کی بات ہے جب ہر سو پانامہ پیپر لیکس کا چرچا تھا۔ پاکستان میں تو اس کا شور تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا لیکن وسطی امریکہ کے جس ملک نے یہ تہلکہ مچایا تھا خود اس کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟ پانامہ صرف ٹیکس فری بزنس زون ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے حقائق کا مالک ہے جن کے بارے میں بہت کم لوگ علم رکھتے ہیں۔ آئیے پانامہ ملک کے حوالے سے چند اہم باتیں جانتے ہیں۔پاناما وسطی امریکہ میں ایک چھوٹا ملک ہے، جس کا دارالحکومت پانامہ سٹی ہے۔ یہاں کی کرنسی ڈالر ہے اور یہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ پانامہ کے خوبصورت اور دلکش مقامات کی سیر کے لیے ہر سال 20 لاکھ سیاح اس ملک کا سفر کرتے ہیں۔ یہاں متعدد آبشاریں، پہاڑ، جھرنے اور جنگلات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یونیسکو کی جانب سے پانامہ کے نیشنل پارک کو عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔پانامہ نہرپانامہ میں واقع پانامہ نامی نہر ملکی معیشت کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ 1914ء میں بننے والی اس نہر کی تیاری انجینئرنگ کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس نہر کی تعمیر کے دوران تقریباً 27 ہزار 500 مزدور ہلاک ہوئے۔ جس میں 1881ء سے 1889ء تک جاری رہنے والا ناکام فرانسیسی منصوبہ بھی شامل تھا جس میں 22 ہزار کے قریب مزدور ہلاک ہوئے۔ تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود 1904ء سے 1914ء تک جاری رہنے والے امریکی منصوبے کے دوران بھی 5 ہزار 609 کارکن ہلاک ہوئے اس طرح نہر کی تعمیر کے دوران ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 27 ہزار 500 کے قریب ہے۔اس کی تعمیر سے علاقے میں جہاز رانی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس سے قبل جہاز براعظم جنوبی امریکہ کے گرد چکر لگا کر راس ہارن سے بحر الکاہل میں داخل ہوتے تھے۔ اس طرح نیویارک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فاصلہ 9 ہزار 500 کلومیٹر ہو گیا جو راس ہارن کے گرد چکر لگانے پر 22 ہزار 500 کلومیٹر تھا۔ اور یہ سفر طے کرنے میں بحری جہازوں کو تقریباً 3 مہینے زائد سفر کرنا پڑتا تھا۔پانامہ نہر ایک صدی بعدپانامہ کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے کئی برسوں سے پانامہ نہر کی توسیع کام کیا جا رہا ہے جس کے بعد اس راستے سے کنٹینر کی ترسیل کے لیے استعمال کیے جانے والے بحری جہاز بھی یہاں سے گزر سکیں گے۔ اس وقت پانامہ کی کُل آمدنی میں 8 فیصد کردار اس نہر کا ہے۔ آج نہر پانامہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں جن پر 203 ملین ٹن سے زیادہ سامان لدا ہوتا ہے۔ اس نہر سے گزرنے کا دورانیہ تقریبا 9 گھنٹے ہے۔ڈیوٹی فری آلبروک شاپنگ مالیہ شاپنگ مال پانامہ شہر میں واقع ہے اور اسے لاطینی امریکہ کے سب سے بہترین شاپنگ مالز میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس شاپنگ مال سے بغیر ڈیوٹی ادا کیے اشیاء کی خریداری ممکن ہے۔ سیاح اس شاپنگ مال میں خریداری کیلئے ضرور آتے ہیں۔بالبوآ ایونیویہ اس ملک کی نہ صرف مہنگی ترین سڑک ہے بلکہ پانامہ شہر کا مرکز بھی ہے۔ اس سڑک کو سیاحوں کی خصوصی توجہ حاصل ہے۔ اس علاقے میں امراء رہائش پذیر ہیں اور اسی وجہ سے یہاں گھر خریدنا عام افراد کے بس کی بات نہیں۔غربتاگرچہ اس ملک میں بسنے والے افراد کی اوسط آمدنی ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہاں کسی حد تک غربت موجود ہے۔ اگر آپ پانامہ ملک کے دارالحکومت پانامہ سٹی کا دورہ کریں تو آپ کو جہاں ایک جانب بلند و بالا عمارات دکھائی دیں گی وہیں ان کے درمیان کچی بستیاں بھی نظر آئیں گی۔مقبول ترین تہوارکارنیوال دنیا کا سب سے مقبول ترین تہوار ہے اور یہ تہوار پانامہ میں بھی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر پورے ملک میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں لوگوں نے علاقائی لباس زیب تن کر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ تہوار چار روز تک منایا جاتا ہے۔٭...٭...٭