عارف منصور ملتانی اک چراغ اور نذرِ شام ہوا
اسپیشل فیچر
سات فروری 2016ء کو عارف منصور ملتانی بھی اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ منصور ملتانی نے اپنے شعری سفر کا آغاز تو غزل سے کیا مگر وہ اب اپنی نعت کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک ایسا شاعر جس کے ہاں قادر الکلامی بھی ملتی تھی اور موضوعات کا تنوع بھی۔ ان کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ ایک سیلف میڈ انسان جس نے زندگی کے تمام ذائقوں سے آشنائی حاصل کی، مشکل حالات بھی دیکھے لیکن فن کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی۔ وہ شعر و ادب کی دنیا میں منصور ملتانی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا اصل نام تنویر احمد خان تھا۔ 23 جولائی 1950ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد وزیر احمد خان محکمہ ڈاک میں پوسٹ ماسٹر تھے۔تنویر عارف خان اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان سے بڑے ایک بھائی امتیاز احمد خان اور بہن ممتاز بیگم تھیں۔ تنویر عارف خان سے پہلے اس خاندان میں اسد ملتانی شعر و ادب کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔اسد ملتانی رشتے میں منصور ملتانی کے نانا تھے۔منصور ملتانی نے 1970ء کے اوائل میں چند جاسوسی ناول لکھے پھر وہ ملتان سے لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے پی ٹی وی کے ایک دو ڈراموں میں مختصر کردار ادا کئے لیکن انہی دنوں ان کے والد کی وفات ہو گئی۔ اوائل عمری میں شادی کے بعدفکر معاش کی ذمہ داریوں نے انہیں اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کر کے سرکاری نوکری پر مجبور کر دیا۔ پہلے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور 1976ء میں اے ایس ایف کے قیام کے بعد اس میں اسسٹنٹ سکیورٹی آفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے اور 2010ء میں ریٹائرمنٹ کے وقت وہ اے ایس ایف کے ڈائریکٹر تھے۔ سرکاری نوکری کی اہم ترین ذمہ داریوں کے باوجود انہوں نے ادب سے اپنا ناطہ نہ توڑا،1989ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ کلام ’’سورج زمیں پر‘‘ شائع ہوا۔ کراچی کے اہل زبان حلقوں میں تنویر عارف خان نے منصور ملتانی کاقلمی نام اختیار کر کے اپنا لوہا منوایا اور پھر منصور ملتانی سے منصور عارف ہو گئے۔سرکاری نوکری کے دوران انہوں نے تقریباً پوری دنیا کے سفر کئے لیکن خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ پر حاضری نے ان کی شاعری کا رُخ غزل سے نعت رسول مقبولؐ کی طرف موڑ دیا۔ اگرچہ وہ زندگی کے آخری دنوں تک غزل گوئی بھی کرتے رہے لیکن اب ان کی شاعری کا اصل میدان نعت گوئی تھا۔ انہوں نے اﷲ تعالیٰ اور حضور اکرمؐ کے ننانوے ناموں پر قطعات لکھ کر ’’مرسل و مرسل‘‘ کے نام سے شائع کرائے۔ سیرۃ النبیؐ ’’منظوم‘‘ لکھنا شاید ان کی زندگی کا سب سے بڑا پراجیکٹ تھا جسے انہوں نے انتہائی عقیدت و مہارت سے مکمل کیا۔ غزلوں کے دو مزید مجموعے بھی مکمل تھے لیکن انہیں زندگی نے اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ ان کتب کو شائع کرا کے قارئین تک پہنچا سکتے۔ سرکاری نوکری کے سلسلہ میں لاہور، ملتان، پشاور اور کراچی میں مقیم رہے لیکن ان کی مستقل رہائش کراچی میں ہی رہی۔ وہ جس شہر میں بھی گئے وہاں کی ادبی انجمنیں ان کے بغیر نامکمل تھیں۔ ان کی قادرالکلامی، علم عروض پر دسترس قابل ستائش، ڈاکٹر قیس مینائی کے بقول غالبؔ کے بعد مشکل ترین ردیف اور قافیہ میں اس قدر خوبصورت کلام منصور ہی لکھ سکتا ہے:میں ہوں تیرےؐ دیار سے باہرغم ہوئے ہیں شمار سے باہرکس کی باری پہ اپنا نام لکھوںمیں کھڑا ہوں قطار سے باہرفاصلہ ہی جنوں میں کتنا ہے’’اک قدم اختیار سے باہر‘‘ ان کے اشعار میں اتنی دلکشی، سادگی، روانی و سلاست ہے کہ وہ بے اختیار یاد ہو جاتے ہیں۔ ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی سلاست و سادگی، بے ساختہ پن اور قادرالکلامی ہے۔ انہوں نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، غرضیکہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ عارف منصور نے مشکل ردیف و قافیہ کا بہت خوبصورتی سے استعمال کیا۔شورِ دریا بڑھ رہا تھا اور مٹھی میں تھی ریتاک گھروندہ بن چکا تھا اور مٹی میں تھی ریتجشنِ مرگِ آرزو میں لے گیا آشوبِ عشقدل ستارہ آشنا تھا اور مٹھی میں تھی ریتمختصر بحر میں بھی انہوں نے کمال کے اشعار لکھے۔داد غم کی وصول کیا کرتےہم کسی کو ملول کیا کرتےتھی جہاں رسم بے اصولی کیپھر وہاں پر اصول کیا کرتےعارف منصور کے کلام کا شاید دسواں حصہ بھی شائع نہیں ہوا۔ وہ ہر مشاعرے، نشست، ادبی محفل میں تازہ کلام پڑھتے۔ ان کی شاعری میں ساغر صدیقی کا درد اور قابل اجمیری کی رجائیت تھی۔عارف منصورنے ایس ای کالج بہاولپور سے ایف اے، ایمرسن کالج سے بی اے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔وہ ایک سادہ منش انسان تھے۔ سادگی، حسن اخلاق اور دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھنا ان کا اصول حیات تھا۔ وہ ایک انتہائی محبت کرنے والے شوہر، انتہائی شفیق باپ اور خاندان بھر کے سرپنچ تھے۔ خاندان کے ہر اک فرد کا خیال ان کی فطرت تھی۔ وہ کسی بھی عزیز کا مسئلہ اپنا مسئلہ اور کسی کی خوشی اپنی خوشی، کسی کا غم اپنا غم سمجھتے تھے۔ انتہائی سیر چشم، فیاض اور مہمان نواز تھے۔ وہ مذہب انسانیت کے قائل تھے۔ اپنے خیالات کسی پر مسلط کرنا انہیں بالکل پسند نہیں تھا۔ شاعری کی طرح ان کی گفتگو بھی بہت دل نشین اور ان کی بات دوسرے کے دل میں اتر جاتی تھی۔آج عارف منصور ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی شاعری، ان کی باتیں ہمیشہ ہمیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔