شبنم شکیل کی فکری کائنات

شبنم شکیل کی فکری کائنات

اسپیشل فیچر

تحریر : رضی الدین رضی


ادب میں اگرچہ مردانہ و زنانہ کی تخصیص مناسب نہیں ہوتی اور نہ اچھا شعر یا اچھا نثرپارہ اس نظر سے پرکھا جاتا ہے کہ وہ مرد کے قلم سے تحریر ہوایا اسے کسی خاتون نے تخلیق کیا ہے ،لیکن اس کے باوجود شاعری میں ہمیشہ مرد اور عورت کی تخلیقات کو الگ الگ زاویوں سے دیکھا اور پرکھا گیا۔ بعض شعرا اور ناقدین اس پر آج بھی اصرار کرتے ہیں کہ غزل کے معنی عورت کے ساتھ گفتگو کے ہیں ،سو غزل خاص طورپر مرد کی میراث ہے اور اس میدان میں اگر کوئی خاتون اپنا لوہا منوانا بھی چاہے، تو اسے شکوک وشبہات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ غزل جن مشاہدات اور تجربات کا احاطہ کرتی ہے، ہمارے معاشرے میں ان تجربات اور مشاہدات کا حصہ بننا عورت کے لئے ممکن نہیں، لیکن تمام تر تنگ نظری اور الزامات کے باوجود خواتین شعرا نے اپنی صلاحیتوں کو ہر دورمیں تسلیم کروایا ۔یہ الگ بات کہ ان کو مرد کے مقابلے میں بے شمار مسائل اوررکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں ،وہ مردانہ حاکمیت کے ساتھ ذہنی گھٹن کا بھی شکار ہے۔ کوئی خاتون کسی بھی شعبہ میں نمایاں نظر آتی ہے یا اپنی پہچان کروانا چاہتی ہے، تواسے بہت سے ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں کہ جن کا وہ اظہار بھی نہیں کرسکتی۔وہ مرد کی طرح حسن وعشق کی کہانی نہیں سناسکتی ۔ ہجر و فراق کی اذیتوں کو بیان نہیں کرسکتی اور ایسے بہت سے بنیادی جذبات و احساسات بھی قلم بندنہیں کرسکتی جو ہمارے گردوپیش میں بھی موجود ہیں اور جس کااس کو سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔شبنم شکیل نے اسی گھٹن زدہ ماحول میں آنکھ کھولی اور شعری افق پر قارئین وناقدین کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔انہوں نے ایک علمی وادبی ماحول میں پرورش پائی ۔ ان کے والد سید عابد علی عابد کا نام علم و ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔فارسی کے استاد کی حیثیت سے عابد علی عابد نے لاہور میں طویل خدمات انجام دیں۔ادبی صحافت کے ساتھ بھی منسلک رہے،یوں شبنم شکیل کی پرورش علم دوست اور کتاب دوست ماحول میں ہوئی۔وہ12مارچ1942ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم گجرات اور لاہور سے حاصل کی۔1961ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے کیا،جہاں انہیں سید وقار عظیم،ڈاکٹر عبارت بریلوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی نامور شخصیات سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان اساتذہ نے ان کے ذوق کو نکھارا اور ان کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کئے۔شبنم شکیل کے گھرمیں علمی و ادبی محفلیں سجتی تھیں۔ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے والد کے دوستوں ڈاکٹر تاثیر، فیض احمد فیض، پطرس بخاری، صوفی تبسم، عبدالمجید سالک کی محفلیں دیکھیں۔7سال کی عمر میں انہوں نے ریڈیو پاکستان ،لاہور کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کردیا۔جہاں ان کی ملاقات انور سجاد،مصطفی ہمدانی،قتیل شفائی جیسی نامور شخصیات سے ہوئی۔اسی دوران ان کے شعری سفر کا بھی آغاز ہوا اور انہوں نے غزل اور نظم کو ذریعہ اظہار بنایا۔ایم اے کے بعد شبنم نے درس و تدریس کے شعبہ کے ساتھ وابستگی اختیار کی۔ وہ1961-67ء میںکوئین میری کالج میں لیکچرار رہیں۔بعدازاں انہوں نے لاہور کالج فارویمن ،کنیئرڈکالج لاہور،گورنمنٹ گرلزکالج کوئٹہ،فیڈرل کالج اسلام آباد اور گورنمنٹ گرلز کالج سیٹیلائٹ ٹائون راولپنڈی میں بھی وقفے وقفے سے تعلیمی خدمات انجام دیں۔2مارچ 2013ء کو ان کا کراچی میں انتقال ہوا اور انہیں اسلام آباد میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ان کے شعری مجموعوں میں’’شب زاد‘‘،’’اضطراب‘‘،’’مسافت رائیگاں’’شامل ہیں۔ ان کے افسانے ’’نہ قفس نہ آشیانہ‘‘،خاکے ’’آوازتو دیکھو‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔شبنم شکیل نے اپنی شاعری میں عورت کے دکھوں کو موضوع بنایا۔ وہ ان چند خواتین شعرا میں سے ایک ہیں ،جو اپنے نسائی لہجے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔شبنم شکیل کی تخلیقی اور فکری کائنات کو معروف ماہر تعلیم حنا جمشید نے اپنے تخلیقی مقالے کاموضوع بنایا،جس کے ذریعے ان کی زندگی کے کئی نئے زاویے سامنے آئے۔حال ہی میں شائع ہونے والا یہ تحقیقی مقالہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ حنا جمشید نے اس کے ذریعے نہ صرف شبنم شکیل کی فکری کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی بلکہ ادب کے قارئین کو بھی ایک ایسی شاعرہ کی زندگی کا احوال بتایا، جسے مرد کے اس معاشرے میں اپنا گھر بچانے کے لئے اپنے شعری سفر کو کچھ عرصے کیلئے موقوف کرناپڑا۔حنا جمشید گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال میں اُردو پڑھاتی ہیں ۔ تعلیم و تحقیق ان کا میدان ہے ۔ شبنم شکیل کا احوال زندگی جاننے کے لئے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن حنا جمشید نے ثابت قدمی کے ساتھ تحقیق کا سفر جاری رکھا ۔ وہ چاہتیں تو صرف دستیاب وسائل پر ہی اکتفا کر سکتی تھیں کہ فی زمانہ تحقیق کے میدان میں ایسا ہی ہوتا ۔ تحقیق کا مقصد چونکہ اب صرف ڈگری اور مالی منفعت کا حصول ہی رہ گیا، سو کسی بھی موضوع پر کام کرنے والے اب نئے جہانوں تک رسائی حاصل نہیں کرتے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ ہم یہاں حنا جمشید کی اس کاوش کو ہی مد نظر رکھتے ہیں، جس کے ذریعے انہوں نے شبنم شکیل کی زندگی کے ان گوشوں کو بھی بازیاب کیا، جو پہلے ان کے قارئین سے اوجھل تھے ۔اس منزل تک پہنچنے کے لئے انہیں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ان کا مختصر احوال بھی اس کتاب کے پیش لفظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ ہر تخلیق کار کی زندگی کے کچھ گوشے ایسے ضرور ہوتے ہیں، جنہیں وہ کھلے عام بیان نہیں کرتا، لیکن وہ اس کی تخلیقات کا کسی نہ کسی طور حصہ بن رہے ہوتے ہیں ۔ مرد تخلیق کار بھی ایسے گوشوں کا اظہار کبھی مناسب نہیں کرتے اور خواتین کے لئے تو ان کا بیان ناممکن ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کئی اور سوالات سامنے آ جاتے ہیں اور کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی جانے لگتی ہیں ۔حنا جمشید نے اس ساری صورتِ حال کو سمجھا اور پھر شبنم شکیل کی صاحبزادی اور دیگر اہل خانہ کی مدد سے تمام معلومات حاصل کیں ۔ ایک اچھی بات یہ نظر آ ئی کہ انہوں نے شبنم کے دکھوں اور مشکلات کو عورت ہونے کے ناطے ہمدردی سے سمجھا اور پھر ان کی تخلیقات کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا ۔ انہوں نے بعض مسائل کا سرسری اور ڈھکے چھپے انداز میں ذکر کیا اور بعض باتوں کو اس مقالے کا حصہ بھی نہیں بنایا ، جو باتیں حنا کو شبنم کی صاحب زادی ملاحت اعوان نے امانت کے طور پر بتائیں۔ حنا نے انہیں امانت ہی رکھا اور تحقیق کی طالب علم کی حیثیت سے یہ حنا کی ایسی خوبی ہے ،جس کی کھلے دل کے ساتھ تعریف کی جانی چاہیے، یہ ایک غیر روایتی کام ہے اور اس کے نتیجے میں شبنم شکیل کے فن کی بھی کئی جہتیں سامنے آئی ہیں ۔ ان کی افسانہ نگاری کا تفصیلی ذکر اس کتاب میں موجود ہے اور ان کے ٹی وی پروگرام کا احوال بھی بیان کیا گیاہے ،جس میں موسیقی پر بات ہوتی تھی اور ٹی وی انتظامیہ کی جانب سے شبنم شکیل کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ موسیقی کے تذکرے کو پاکستان تک محدود رکھیں اور اس میں بھارتی شخصیات کو شامل نہ کریں ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ادب کے طالب علموں کو پاکستان کا ادبی و سیاسی منظر نامہ سمجھنے میں مدد دیں گی ۔ بحیثیت مجموعی حنا جمشید کی یہ تحقیق کاوش شبنم شکیل کو دریافت کرنے کا ہی ایک عمل ہے کہ اس کے ذریعے ان کی تخلیقات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملے گا ۔امید ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے موضوعات پر اسی انداز میں کام جاری رکھیں گی ۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار

روس،کینیڈا،ڈنمارک ان دیکھے زیر آب علاقے کے دعویدار

آرکٹک کے بے پناہ معدنی ذخائر اپنے ارد گرد کے ممالک کے لیے تنازعے کا سبب بنے ہوئے ہیں، لومناسو رِج(Lomonosov Ridge) کا علاقائی تنازعہ بھی ان میں سے ایک ہے ، جس پر روس،ڈنمارک اور کینیڈا ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی متنازعہ علاقے کے دعویدار دو ملک ہوتے ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا زیر آب علاقہ بھی ہے جس کے دعویدار تین ملک ہیں۔ اس سہ ملکی قدیم تنازعہ کو سمجھنے کیلئے اس کا مختصر جغرافیائی محل وقوع ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ بنیادی طور پر یہ متنازعہ علاقہ قطب شمالی کا حصہ ہے۔ جسے آرکٹک بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بحر منجمد شمالی، کینیڈا، روس، گرین لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، امریکہ (الاسکا)، سویڈن اور فن لینڈ کے کچھ حصے شامل ہیں۔ملکیت کا دعوی ہے کیا؟ڈنمارک کا دعویٰ ہے کہ یہ پہاڑی سلسلہ اس کے خودمختار علاقے گرین لینڈ کا حصہ ہے۔ روس کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ سائبیریا کے ایک جزیرے کا حصہ ہے جبکہ کینیڈا کا دعویٰ ہے کہ یہ ایلزمئیر جزیرے کا حصہ ہے۔ لومانسو نام کا یہ پہاڑی سلسلہ گرین لینڈ سے شروع ہو کر کینیڈا پر جا کر ختم ہوتا ہے۔Lomonosov Ridge لگ بھگ 1700 کلومیٹر پر محیط ہے۔ زیر زمین اس پہاڑی سلسلے کا بلند ترین مقام سمندر کی تہہ سے صرف تین، چار کلومیٹر بلند ہے۔ اگرچہ لومانسو کوئی قابل ذکر پہاڑی سلسلہ نہیں ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ بالا تینوں ممالک قطب شمالی کے اردگرد 54850 مربع ناٹیکل میل کے اس متنازعہ علاقے کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ عالمی قواعد کے مطابق مذکورہ دعویدار ممالک کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ متعلقہ سطح سمندر ان کے براعظم ہی کا حصہ ہے۔ اس کیلئے ان ممالک کو یہ شواہد سامنے لانے ہیں کہ یہ ان کے ممالک کا وہ حصہ ہے جو پانی میں ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کہ یہ علاقہ سطح سمندر ہے، سمندری چٹان نہیں۔ بصورت دیگر ان کا اس ملک کے زمینی رقبے کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وہ تکنیکی نکتہ ہے جس کیلئے تینوں ممالک کے درمیان ملکیت کی دعویداری کی رسہ کشی جاری ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ کب اور کیسے دریافت ہوا؟لومانسوِ کی دن بدن بڑھتی اہمیت اور روس، کینیڈا سمیت گرین لینڈ (ڈنمارک) کے مابین پھیلتے تنازعہ نے ماہرین کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ صدیوں سے موجود اس علاقے کو 1948ء سے پہلے کیوں نہ کھوجا گیا۔1948ء میں یہ پہاڑی علاقہ آرکٹک کے مرکز میں سوویت یونین کی جانب سے سروے کیلئے لگائے ایک کیمپ کے دوران دریافت ہوا تھا۔ دراصل آرکٹک کی برف کے اوپر لگائے گئے خیموں کے دوران سوویت ماہرین کو معلوم ہوا کہ شمال کی جانب سائبیرین جزیروں پر پانی کی گہرائی دوسرے ملحقہ علاقوں کی نسبت کم ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس مقام پر سمندر ایک پہاڑ کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم ہے ، اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ سمندر کا مسلسل ایک ہی طاس ہے؛ چنانچہ اس کے بعد سائنسدانوں کی دلچسپی اس علاقے میں بڑھنا شروع ہوئی تو اس علاقے کی مزید تحقیق کیلئے نقشوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس علاقے بارے سب سے پہلے 1954ء میں ماہرین نے ایک نقشہ تیار کیا جس میں پہلی بار زیر آب اس پہاڑی سلسلے کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اس پہاڑی سلسلے کی دریافت کے بعد ماہرین اب اس نقطے پر یکسو ہیں کہ زیر سمندر یہ پہاڑی سلسلہ کیسے بنا ہو گا؟ ماہرین کے مطابق سائنسدانوں کو اس سلسلے میں پہاڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حاصل کرنا ہو گا جس سے اس معمے کی گتھیاں سلجھنے کی امید پیدا ہو جائے گی اور اسکی ارضیاتی اساس بارے معلوم ہو سکے گا۔اس سے پہلے روس کے سائنسدان بھی اس پہاڑی سلسلے کے پتھروں کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ بیشتر عالمی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ جاننا انتہائی مشکل ہے کہ آیا انہوں نے جو پتھرتحقیق کیلئے حاصل کیا ہے، وہ کسی اور پہاڑ کا تو نہیں، کیونکہ آرکٹک کے ساحلوں پر اکثر دور دراز جیسے سائبیریا کے برف کے پہاڑوں سے آیا ہوا پتھر بھی ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اس طرح تحقیق غلط سمت میں بھی جا سکتی ہے۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں ارضیات کے سروے کے ایک ماہر کرسٹین نڈسن نے اپنی تحقیقی کے دوران کہا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ چٹان گرین لینڈ کا حصہ ہو، لیکن اگر آپ اس کا دوسرا رخ دیکھیں گے تو یہ آپ کو روس کا تسلسل نظر آئے گا کیونکہ ایسے پتھر روسی جزیروں پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحقیق کو اور آگے لے جائیں تو کینیڈا سے ملنے والے شواہد کا بھی جائزہ لینا ہو گا جن کے مطابق یہ پہاڑی سلسلہ کینیڈا کے جزیرے کا تسلسل بھی لگتا ہے۔ ماہرین یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہLomonosov Ridge ایک ہی وقت میں روس،کینیڈا اور گرین لینڈ کا حصہ رہا ہو۔ ڈنمارک، کینیڈا اور روس نے اگرچہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حدودبراعظم میں اپنے ملکیتی دعوے دائر کر رکھے ہیںمگر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس منفرد کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ متنازعہ علاقہ اتنا اہم کیوں؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پوشیدہ زیر زمین پہاڑی سلسلے میں کیا کشش ہے کہ ایک عرصے سے تین ممالک اس کی ملکیت کے دعویدار چلے آ رہے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں اس دعوے کے پس پردہ چھپی تینوں مذکورہ ممالک کی ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہو گا۔اقوام متحدہ کے سمندری قوانین کے مطابق ہر وہ ملک جو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک 370 کلومیٹر کے برابر فاصلے کا مالک ہے وہ وہاںاکنامک زون قائم کرنے کااہل ہو گا۔اس زون کے قیام سے اس ملک کو مچھلیاں پکڑنے،قدرتی وسائل تک رسائی اور عمارتوں کی تعمیر کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ دور جدید میں چونکہ گیس،تیل اور معدنیات کی دستیابی اس طرح کے خطوں کی کشش کا سبب بنتی ہے لیکن بیشتر عالمی ماہرین جغرافیائی علوم کے مطابق چونکہ زیر بحث علاقہ ایک طویل عرصہ سے متنازعہ چلا آرہا ہے جس کے سبب یہاں کسی قسم کاسروے نہ ہونے کے باعث وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ علاقہ قدرتی وسائل کا خزانہ ثابت ہوگا۔  

5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن

5دسمبر: رضاکاروں کا عالمی دن

رضاکارمعاشرے کا ایسا فرد جو کسی لالچ یا مالی مفاد کے بغیر دوسرے لوگوں کی مدد کرتا ہے/ کرتی ہے۔ ایک لمحہ کیلئے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ موجودہ خود غرض، مفاد پرست، اقرباء پروری، رشوت ستانی، نااہلی، کام چوری اور بھی بے تحاشہ معاشرتی برائیوں کی موجودگی میں ایسا کوئی بھی شخص جو رضاکار کی تعریف پر پورا اترے تو اسے بلند و بالا مقام ملنا چاہیے لیکن کیا ایسا ہے؟اگر ہم پاکستانی معاشرے کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ہم من حیث القوم اوپر بیان کی گئی برائیوں کے گڑھے میں غرق ہونے کے قریب قریب ہیں۔کیا ہمیں اس گڑھے سے نکلنے کیلئے کچھ کرنا چاہئے تو ہمیں اپنی دینی اساس کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں، میں ہجرت مدینہ کے موقع پر کئے گئے رضا کاری اور بھائی چارے کے مظاہرے کا ذکر ضرور کروںگا۔ جب مہاجرین کا قافلہ ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں مکہ سے مدینہ پہنچا تومہاجرین کے حالات سب کے سامنے تھے۔ ہمارے رسول ﷺ اس وقت صرف اور صرف انصار مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر زمانے نے بھی دیکھا اور انسانی آنکھ سے بھی یہ چیز پوشیدہ نہیں رہی کہ انصار مدینہ نے رضاکاری اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو تا قیامت دوبارہ نہیں ہو سکتی۔ انصار مدینہ نے اپنی ملکیت میں موجود ہر چیز میں مہاجر بھائی کو حصہ دار بنایا، یہاں تک کہ جس انصار مدینہ کی دو بیویاں تھیں (عرب میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا)ا س نے اپنی زیادہ خوبصورت بیوی کو طلاق دی تا کہ مہاجر بھائی اس کے ساتھ نکاح ثانی کر سکے(یہاں اس مثال کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگرانصار مدینہ نے اس حد تک مہاجرین کے ساتھ نباہ کیا تو باقی مالی او ر دنیاوی چیزوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے)۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاکاری اور دوسروں کی بے لو ث مدد بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔اگر ہماری قوم میں یہ جذبہ مکمل طور پر بیدار ہوجائے تو ہمارے 95فیصدمعاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب ہم آجاتے ہیں 5 دسمبر کے دن کی طرف۔ یہ دن ہر سال رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کی منظوری اقوام متحدہ نے 1985ء میں دی تھی۔اسے عالمی منظر نامہ پر اس وقت جانا اور مانا گیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 52ویں اجلاس منعقدہ 20 نومبر 1997ء میں ایک قرارداد اس حوالے سے منظور کی گئی جس میں 2001ء کو رضاکاروں کا سال بھی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال یہ دن 5دسمبر کو ''رضاکاروں کے عالمی دن‘‘ (International Volunteer Day) کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ آج کل کے تیز رفتار دور میں جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے چند سر پھرے ایسے ہوتے ہیں جو بے لوث کسی کی مدد کرنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح اس عالمی دن کو منایا جاتا ہے اور مٹھی بھر افراد حتی المقدور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ رضاکاری کا جذبہ معاشرے میں پروان چڑھ سکے۔ حیران کن حد تک یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہ جذبہ 10سے 14سال کی عمر کے بچوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ''بوائز سکائوٹس‘‘، ''گرلز گائید‘‘ ناموں سے کچھ ادارے پاکستان میں رضاکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں لیکن (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سمت میں ہماری سوسائٹی کا رجحان بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ شائد پچھلے کچھ سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی حالات نے بھی معاشرے کو کافی حد تک خود غرض بنا دیاہے۔ پاکستان میں ''پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن‘‘ اس سلسلے میںکام کررہی ہے۔ دو سال قبل بیگم ثمینہ عارف علوی (بیگم صدرپاکستان) نے چیف گائیڈ پاکستان کا حلف اٹھایا تھا ۔ اگر ہمارے لیڈران اور ان کے اہل خانہ ایکٹیو رول ادا کریں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں بھی رضاکارانہ خدمت کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ معاشرے میں اس چیز کوپروموٹ کرنے کیلئے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں 70 فیصد رضاکارانہ کاموں کا کریڈٹ کسی ادارے کو نہیں لیکن معاشرے کے افراد کو انفرادی طور پر جاتا ہے کیونکہ لوگ ایسے کاموں کی شہرت بھی پسند نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور تحقیق کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جو افراد رضاکارانہ کاموں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں ان کی آمدنی میں دوسرے لوگوں کی نسبت 5فیصدزیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ اس سلسلے میں یہاں ایک اسلامی بات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ''رزق کی کشادگی بچت میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے‘‘۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان پچاس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ رضاکار موجود ہیں۔اللہ پاک ہمارے نوجوانوں اور رضا کاروں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے تاکہ وہ اسی طرح پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔خدا کرے میری ارض پاک پر اترےوہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

آج کا دن

آج کا دن

''لندن سموگ‘‘''لندن سموگ‘‘ ایک شدید فضائی آلودگی کا واقعہ تھا جس نے لندن کوشدید متاثر کیا۔ اس شدید سموگ کا آغاز 5 دسمبر 1952ء کوہوا جو 9 دسمبر 1952ء تک جاری رہی۔ سرکاری طبی رپورٹس میں بتایا گیا کہ سموگ کے نتیجے میں براہ راست 4ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد مختلف طبی مسائل کا شکار ہوئے۔اسے ''لندن کی عظیم دھند‘‘ یا ''1952ء کی سموگ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ترکی : خواتین کیلئے خصوصی قانون کی منظوری5دسمبر1934ء کوترکی میں خواتین کو رکن پارلیمان بننے اور حق رائے دہی کے استعمال کا قانون منظور ہوا۔ اس قانون کے تحت 22سال سے بڑی خواتین کو حق رائے دہی اور رکن پارلیمان بننے کیلئے 30 سال عمر کی حد مقرر کی گئی۔ اس قانون کی منظوری کے بعد 1935 ء کے عام انتخابات میں پہلی بار 18 خواتین بطور رکن پارلیمان منتخب ہوئیں۔ادارہ عالمی مہاجرین کا قیام اقوام متحدہ کے تحت عالمی مہاجرین کا ادارہ ''آئی او ایم‘‘ (انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن) کا قیام 5دسمبر1951ء کو عمل میں آیا۔ یہ ہجرت کے مسائل پر کام کرنے والی اوّلین بین الحکومتی تنظیم ہے جو حکومتی، بین الحکومتی اور غیر حکومتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔برمودا ٹرائی اینگل اور ''فلائٹ19‘‘''فلائٹ 19‘‘ پانچ جنرل موٹرز ٹی بی ایم ایونجر ٹارپیڈو بمباروں کے ایک گروپ کا نام تھا جو 5 دسمبر 1945ء کو برمودا ٹرائی اینگل کے اوپر سے غائب ہو گیاتھا۔ ''فلائٹ 19‘‘ کا تعلق نیوی ایئر سٹیشن فورٹ لاؤڈرڈیل، فلوریڈا سے تھااور وہ امریکی نیوی کے مشن ''اوور واٹر نیوی گیشن ٹریننگ فلائٹ‘‘ پر تھا۔ اچانک تمام 14 ایئر مین لاپتہ ہوگئے۔''فلائٹ 19‘‘کی تلاش میں جانے والے مارٹن پی بی ایم میرینر فلائنگ بوٹ کے عملے کے 13 ارکان بھی اسی مقام کے قریب غائب ہو گئے۔پہلے یوکرینی صدرکاانتخابلیونیڈمیکروخ یوکرین کے معروف سیاستدان اور پہلے صدر تھے۔ وہ 5 دسمبر 1991ء کو صدر منتخب ہوئے اور19جولائی 1994ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ 1992ء میں انہوں نے یوکرین کے جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان سیاسی بحران کے بعد لیونیڈ نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنی صدارت کے بعد لیونیڈ یوکرائن کی سیاست میں سرگرم رہے۔ 

نجومی ریاضی دان،شاعر عمر خیام:عظیم ہمہ جہت شخصیت

نجومی ریاضی دان،شاعر عمر خیام:عظیم ہمہ جہت شخصیت

عمر خیام کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ان کی شاعری اور رباعیاں سامنے آ جاتی ہیں جبکہ وہ صرف ایک شاعر نہ تھے، مصنف اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر علم نجوم، ریاضی دان اور ماہر فلکیات بھی تھے۔ عمر خیام کا ایک کارنامہ رصدگاہ میں تحقیقات کر کے مسلمانوں کو ایک نیا کیلنڈر بنا کر دینا بھی ہے۔عمر خیام 18 مئی 1048ء میں نیشا پورکے ایک خیمہ سینے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کاپورا نام ابو الفتح عمر خیام بن ابرھیم نیشا پوری تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ ان کے استادوں میں عبدالرحمن الخازنی، قاضی ابو طاہر اور مصطفی نیشا پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلسفہ میں وہ مشہور فلسفی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سلجوقی سلطان ، ملک شاہ نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیااور انہیں اصفہان کے اندر ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اس کی تعمیر 1073 ء میں شروع ہوئی اور ایک سال بعد یعنی 1074ء میں اس رصد گاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ عمر خیام کو یہاں کا انچارج مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے علاوہ چند مشہور سائنس دانوں نے بھی یہاں کام کیا جن میں ابوالغفار الاسفیزاری ،میمن ابن نجیب الوسیطی اور محمد بن عماد البیہقی کے نام زیادہ مشہور ہیں۔سلطان ملک شاہ نے عمر خیام کو ایک نیا کیلنڈر بنانے کا حکم دیا۔ملک شاہ کے کہنے پر انہوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کیلنڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں 33 سال پر لیپ ایئر آتا ہے جبکہ گریگوین میں ہر چار سال پر اضافی دن والا سال آتا ہے۔ اس کے بعد وزیر نظام المک نے اصفہان مدعو کیا جہاں کی لائبریری سے انہوں نے استفادہ کیا اور اقلیدس اور اپولینیس کے علم الحساب کا بغور مطالعہ شروع کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم تصانیف چھوڑیں۔ریاضی کے میدان میں مکعب اور متوازی کے نظریے پر ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں اقلیدس میں جو اشکالات نظر آئے ان پر عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان ''رسالہ فی شرح اشکال من مصدرات کتاب اقلیدس‘‘ تھا۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنہوں نے 1859ء میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان ''رباعیات آف عمر خیام‘‘ رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ عمر خیام کی پزیرائی مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے۔ 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے۔ 1980ء میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔اس عظیم مسلمان سائنسدان کا انتقال 4دسمبر 1131ء کو ایران میں ہوا، آج ان کی برسی ہے۔ 

اپالومشن کے 50سال بعد امریکی خلائی گاڑی چاند پر اترے گی

اپالومشن کے 50سال بعد امریکی خلائی گاڑی چاند پر اترے گی

آخری اپالو مشن کے 50 سال سے زیادہ کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک بار پھر 25 جنوری کو چاند پر جہاز اتارنے کی کوشش کرے گا۔اس پروگرام کے سربراہ کے مطابق چاند کی سطح کو ممکنہ طور پر کامیابی سے چھونے والی پہلی نجی کمپنی کی خلائی گاڑی ''پیریگرین‘‘ میں کوئی بھی سوار نہیں ہو گا، یعنی یہ مکمل طور پر خود کار طریقے سے کام کرے گی۔ اس خلائی گاڑی کو امریکی کمپنی Astrobotic نے تیار کیا ہے جس کے سی ای او جان تھورنٹن نے کہا ہے کہ وہ ناسا کے آرٹیمس مشن کے لیے چاند کے ماحول کا مطالعہ کرنے والے ناسا کے آلات لے کر جائے گا۔ تھورنٹن نے گزشتہ ہفتے پٹسبرگ میں پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ہم یہاں جس چیز کی کوشش کر رہے ہیں اس میں سے ایک بڑا چیلنج چاند کی سطح پر لینڈنگ کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خلائی جہاز کو لینڈنگ کی کوشش کرنے سے پہلے 25 جنوری تک انتظار کرنا پڑے گا تاکہ اترنے کے مقام پر روشنی کی صورتحال درست رہے۔ یاد رہے کہ چاند پر اب تک 12 خلاباز اتر چکے ہیں،وہ سب کے سب ناسا کے خلاباز تھے جنہیں 1969ء سے 1972ء کے دوران اپالو کے چھ مشنز کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ناسا نے 1963ء سے 1972ء تک چاند کے لیے 12 اپالو مشنز لانچ کیے تھے جن میں سے 6 چاند کی سطح پر اترے۔ 7 دسمبر 1972ء کو ناسا نے اس سیریز کا آخری مشن ''اپالو 17‘‘ لانچ کیا۔ اس مشن میں 3 خلا بازوں نے حصہ لیا اور 4 دن کا سفر طے کرنے کے بعد یہ مشن 11 دسمبر کو چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب رہا۔ اس مشن نے مختلف ریکارڈ قائم کیے اور اس نے چاند پر 3 دن قیام کیا جس دوران 22 گھنٹے اس مشن نے چاند پر چہل قدمی کی اورخلابازوں نے 35 کلومیٹر تک کے علاقے سے 110 کلوگرام وزن کے مختلف پتھر جمع کیے اور 14 دسمبر کو زمین کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ 19 دسمبر کو یہ مشن زمین پر لینڈ کر گیا۔ نیل آرمسٹرانگ جنہوں نے چاند پر پہلا قدم رکھا ، اس مشن کے سربراہ تھے۔تاہم اب سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ انسان خود چاند کا سفر کرنے کے بجائے اپنی جگہ مشینوں کو بھیج کر یہ کام کرنے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ چاند کے لیے پرواز کرنے والا یہ نیا اور پہلا خود کار مشن 24 دسمبر کو امریکہ کی ریاست فلوریڈا سے روانہ ہو گا۔اس خلائی مشن کی روانگی کے لیے یو ایل انڈسٹریل گروپ کا بنا ہوا ''وولکن سینٹار‘‘ نامی راکٹ استعمال کیا جائے گا۔یہ خلائی مشن انسانوں کی مدد کے بغیر خود کار طریقے سے چاند پر اترے گا اور کمپنی کے کنٹرول سنٹر سے اس کی نگرانی کی جاتی رہے گی۔رواں برس جاپان کے سٹارٹ اَپ ' آئی سپیس‘ نے بھی چاند پر اترنے والی پہلی نجی کمپنی بننے کی کوشش کی تھی لیکن یہ مشن ایک حادثے کی وجہ سے ناکام رہا۔یاد رہے کہ اب تک صرف چار ممالک کامیابی سے چاند پر اترے ہیں جن میں امریکہ، روس، چین اوراس سال اگست میںبھارت بھی چندریان تھری کی کامیابی کے ساتھ اس صف میں شامل ہو گیا۔چندریان بھی ایک خود کار مشن تھا ، تاہم حالیہ امریکی کمپنی ایسٹروبوٹک کا تیارکردہ خلائی جہاز'' پیریگرین‘‘ پہلا ایسا مشن ہو گا جسے کوئی نجی کمپنی روانہ کرے گی۔ 

جگر کی بیماریوں کیلئے 8پھل

جگر کی بیماریوں کیلئے 8پھل

جگر کی صحت کیلئے ان 8 پھلوں کو اپنی روزمرہ کی غذا میں شامل کریں، کیونکہ یہ پھل جگر سے نقصان دہ مواد کو خارج (ڈی ٹاکسی فائی) کرتے اور جگر کو کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ اور صاف کر سکتے ہیں۔ جگر، انسانی جسم کا ایک اہم عضو ہے۔ انسان کو مجموعی طور پر صحت مند رہنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ جگر صحیح طور پر کام کرتا ہو۔ جگرمیٹا بولزم (metabolism) ، ڈی ٹاکسی فکیشن (Detoxification) اور غذائی ذخیرہ سمیت مختلف جسمانی افعال کیلئے ناگزیر ہے، چنانچہ تندرستی کو یقینی بنانے کیلئے جگر کی حفاظت ضروری ہے۔ پھلوں سے بھرپور غذا خاص طور پر بیر، انگور اور ترشاوا پھلوں جیسی غذا جگر کی صحت میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اینٹی آکسیڈینٹس اور وٹامنز سے بھرپور یہ پھل جگر کی سوزش کو کم کرنے اور جگر کے مناسب افعال کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔ جگر کی بیماریاں دنیا بھر میں صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تویہاں بھی جگر کے کئی عوارض، خاص طور پر جگر کا سکڑنا اور ہیپاٹائٹس بی اور سی عام ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس سی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس صورتحال میں ماہرین غذائیت کی یہ تجویز حوصلہ افزا ہے کہ پھلوں سے بھرپور صحت مند غذا سے جگر کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔ خاص طور پر فیٹی لیور کیلئے ان پھلوں کو اپنی غذا میں شامل کرنا جگر کی صحت کیلئے کافی فائدہ مند ہو گا۔جگر کی بیماریوں کیلئے یہ 8 پھل جادوئی اثر رکھتے ہیں۔ گریپ فروٹنیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گریپ فروٹ میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ جگر کی سوزش کا مقابلہ کرنے اور جگر کو بیکٹیریا سے بچانے کی صلاحیت کیلئے تسلیم شدہ مرکبات ہیں۔ درحقیقت، گریپ فروٹ فیٹی لیور کی وجہ سے ہونے والے جگر کے نقصان کی بحالی میں بھی مدد کرتے ہیں۔سیبکہا جاتا تھا روزانہ ایک سیب آپ کو ڈاکٹر سے بچائے رکھے گا۔ اب یہ تحقیقات سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ سیب واقعی جگر کے مسائل کو دور رکھ سکتا ہے۔ سیب گھل جانے والے فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ جزو جگر کی چربی کو کم کرنے اور detoxification کے عمل کو آسان بنانے میں مدد کیلئے جانا جاتا ہے۔ سیب ہاضمے اور مجموعی جسمانی بہتری کیلئے بھی آزمودہ ہے۔ایوکاڈوایوکاڈو میں صحت مند چربی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ یہ چربی ڈھال کے طور پر کام کرتی ہے جو جگر کو ممکنہ نقصان سے بچاتی ہے۔ اپنی غذا میں ایوکاڈو شامل کرنا دل کی صحت کیلئے بھی بہت اچھا ہوسکتا ہے اور آسٹیوپو روسس (ہڈیوں کی کمزوری) کو بھی روک سکتا ہے۔بیریزسٹرابیری، رسبری، اور بلیک بیری اینٹی آکسیڈنٹس سے بھری ہوئی ہیں، جو جگر کی صحت کیلئے بے حد اہم جزو ہے۔ اس لیے یہ مانا جاتا ہے کہ بیریز کا باقاعدگی سے استعمال آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرتے ہوئے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو برقرار رکھنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔پپیتاپپیتا وٹامنز اور انزائمز سے بھرپور، دل، ہاضمے اور مدافعتی نظام کیلئے اچھا ہے۔ ہاضمے میں مدد کرنے سے پپیتا جگر پر کام کے بوجھ کو بھی کم کرتا ہے جس سے یہ جگر کو زیادہ موثر طریقے سے کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔یہ پھل، جو کہ ہمارے ملک میں باآسانی دستیاب ہے، بہت سے طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے سلاد اور اسموتھیز میں بھی۔بلوبیریزبلوبیری، صحت کے فوائد سے بھرپور، اینٹی آکسیڈنٹس کا پاور ہاؤس ہیں۔یہ اینٹی آکسیڈنٹس جگر میں سوزش اور آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دراصل، پب میڈ سینٹرل میں شائع ہونے والی 2019ء کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بلوبیری جگر کے کم فائبروسس اور جگر کے وزن میں اضافے کی کم شرح سے منسلک ہیں۔ ان عوامل کو کم کرکے، بلوبیری جگر کی مجموعی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔کیویغذائی اجزاء سے بھرپور کیوی نہ صرف مدافعتی نظام کو فروغ دیتا ہے بلکہ جگر کی مجموعی صحت کو بھی سپورٹ کرتا ہے۔ وٹامنز اور معدنیات کا اس کا انوکھا امتزاج اسے جگر سے آگاہ غذا میں ایک قیمتی اضافہ بناتا ہے۔ اس میں طاقتور اینٹی آکسیڈنٹس بھی ہوتے ہیں جو فیٹی جگر کی بیماریوں کو مؤثر طریقے سے روکتے ہیں۔ترشاوا پھلترشاوا پھل، جیسا کہ کنو، لیموں، مسمی وغیرہ وٹامن سی کی قوی خوراک اور اچھی قوت مدافعت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ضروری غذائی اجزاء آپ کے جگر کی حفاظت کرتے ہیں اور ڈی ٹاکسی فکیشن کے عمل میں مدد کرتے ہیں۔ اپنی غذا میں ترشاوا پھلوں کو شامل کرنا جگر کی صحت کیلئے بے حد فائدہ مند ہے۔ ان پھلوں کے ساتھ، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے جگر کی حفاظت کیلئے متوازن غذا اور صحت مند طرز زندگی پر عمل پیرا ہوں۔