جان کیٹس
اسپیشل فیچر
محبت، شاعری اور زندگی گزارنے کیلئے قدرت نے کیٹس کو بہت کم وقت دیا۔ویسے تو رومانوی شاعر بائرن (Byron) اور شیلے(Shelley) کی زندگی بھی بہت مختصر تھی، مگر بہادر شاہ ظفر کا مصرع ’’عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن‘‘ کیٹس پر بڑا صادق آتا ہے۔ اس کی زندگی واقعی چار چھ دن ہی بنتی ہے۔ 19 سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کی۔ محبت کی شمع دل میں روشن کی اور 25 سال کی عمر میں موت اسے اٹھا کر لے گئی۔بائرن اور شیلے نے زندگی گرچہ مختصر گزاری، مگر زندگی کا ہاتھ پکڑ کر خوب دھما چوکڑی مچائی۔ عشق کئے، شاعری کی، لوگوں سے لڑائیاں لڑیں، گھومے پھرے مگر کیٹس بیماری کو سینے میں دبا کر میر تقی میر کی طرح غمزدہ رہا۔ اس کی تخلیقی زندگی چھ سال کا مختصر عرصہ ہے۔ اس مختصر عرصے میں اس نے وہ سب کچھ کر ڈالا جو اس کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔جان کیٹس نے کسی کھاتے پیتے گھرانے میں آنکھ نہیں کھولی۔ کیٹس کا باپ لندن کے ایک مے خانے میں (Barman) تھا۔ وہ اسے کسی اچھے سکول میں نہ پڑھا سکا۔ معاشی حالات نے راستہ روکا۔ (Enfield) کے ایک چھوٹے سے سستے سکول میں داخل کرایا گیا جہاں اتفاق سے ایک پڑھا لکھا ادبی ذوق رکھنے والا استاد John Clarke اسے مل گیا، جس نے اس کی ادبی تربیت کی اور یونانی ادب کے تراجم سے متعارف کرادیا۔ ایک دن باپ گھوڑے پر بیٹھ کر اسے ملنے کیلئے آیا۔ واپسی پر گھوڑا بے قابو ہو گیا۔ کیٹس کا باپ گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ باپ کی وفات کے چند ماہ بعد اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی۔ دوسرا خاوند اچھا آدمی ثابت نہ ہوا۔ ماں اس سے طلاق کے بعد کیٹس اور باقی بچوں کو لے کر اس کی داد ی کے پاس چلی گئی۔ چند ماہ بعد ماں بھی مر گئی۔ اب کیٹس کی عمر14 سال تھی۔ اسے سکول سے اٹھا لیا گیا اور خاندان کے ایک واقف سرجن ڈاکٹر کے پاس سرجری کی تربیت حاصل کرنے کیلئے بھیج دیا گیا۔ بقول کیٹس ’’یہ اس کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ زمانہ تھا، جو اس نے ایک سزا سمجھ کر گزار دیا‘‘۔ جان کیٹس 31 اکتوبر 1795ء میں پیدا ہوا۔ اس کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ بہن سے اسے بہت محبت تھی۔ ادویات اور سرجری کی طرف (سند ہونے کے باوجود) کیٹس نے بالکل توجہ نہ دی اور اپنی مختصر زندگی کا سارا وقت شاعری کے کھاتے میں ڈال دیا۔ لی ہنٹ کی وجہ سے وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے لکھنے والوں سے متعارف ہو گیا اور لکھنے والے اس کی شاعری کو ایک ’’نئے سکول‘‘ کا نام دینے لگے۔حسن اور تخیل کا اس نے اپنی شاعری میں ایک ایسا باغ لگایا کہ اس کے پھولوں کی مہک سے انگریزی شاعری کی دنیا بے خودی کی فضا میں لڑکھڑا نے لگی۔ اس نے اپنے ایک دوست کو لکھا:’’مجھے صرف ایک چیز کا یقینی طور پر احساس ہے اور وہ ہے جذبے کی سچائی، تخیل کی صداقت اور یہ دونوں چیزیں حقیقی حسن کو پا لیتی ہیں‘‘۔اپنی مشہور زمانہ نظم Ode to a Grecian urn میں یہ لافانی سطور لکھ کر اس نے اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے۔حسن سچائی ہے اور سچائی حسنسب کچھ یہی ہےجو دنیا میں تمہیں جاننا چاہیےاس سے زیادہ جاننے کی ضرورت نہیںکیٹس نے ایک ہمدرد اور ایک مخالف گروپ کے درمیان زندگی کے دن گزارے۔ ہمدرد گروپ میں بارئن، لی ہنٹ اور شیلے تھے جنہوں نے اس کی شاعری کی تعریف کی اور اچھے کلمات کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی۔ مخالف گروپ میں یہی دو میگزین تھے۔ اس رسالے میں لکھنے والوں نے اس کی شاعری کو بُری طرح تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی شاعری کو The Cockeny School (لندن کی پرانی زبان) کا نام دیا، لیکن کیٹس شاعری کرتا رہا۔ اسے بیماری کے باوجود زندہ رکھنے میں اس شدید محبت کا ہاتھ تھا، جو اس نے Fanny Brawne سے کی۔ (Fanny Brawne) سے اس کا عشق خالص مشرقی روایتی انداز کا عشق تھا۔ ضبط کی زنجیروں میں جکڑا ہوا۔ محبوب کا دیکھنا، چب رہنا، دیکھتے رہنا اور پھر تنہائی میں اس کی یادوں سے باتیں کرنا۔ عشق کی یہ گہرائی اور محبت کا یہ والہانہ پن باقی رومانوی شاعروں سے کیٹس کے ہاں مختلف انداز میں ملتا ہے۔ کیٹس نے بائرن اور شیلے کی طرح اپنی شاعری میں کسی انقلاب کی دعوت نہیں دی۔ بس اپنے محبوب سے محبت کر کے تخیل اور حسن کی انتہائی بلندیوں کو چھوا ہے۔ (Fanny Brawne) اس کے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ روز اس سے ملنے گھر آتی۔ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ کیٹس بیمار تھا لیکن اس کے آنے سے وہ اپنی بیماری کو بھول کر گھنٹوں اپنی شاعری کے بارے میں گفتگو کرتا رہتا۔ اپنی مشہور نظم(Bright Star) اس نے فینی کے ساتھ بیٹھ کر لکھی اور کانٹ چھانٹ کی۔ دونوں اپنی محبت کا اظہار چھوٹی چھوٹی کاغذ کی چٹوں پر کیا کرتے تھے۔ فینی نے کیٹس کو خطوط لکھے۔ کیٹس نے ان کا جواب لکھا۔ کیٹس کی موت کے بعد فینی کے تمام خطوط ضائع کر دیئے گئے، لیکن کیٹس کے خطوط چھپوائے گئے۔،جن کا انگریزی ادب میں اہم مقام ہے۔کیٹس کی زندگی میں فینی سے پہلے ایک خاتون اور بھی آئی اس کا نام ازابیلا جونز تھا، وہ شاعری کو اتنا نہیں سمجھتی تھی، لیکن اسے تھیٹر سے بڑا لگاؤ تھا۔ کچھ عرصہ کیٹس کی زندگی میں وہ رہی اور کیٹس نے اس کے ساتھ زندگی کا کچھ عرصہ بہت رومانوی فضا میں گزارا، لیکن جب فینی کیٹس کی زندگی میں آئی تو اس کا نقشہ ہی بدل گیا اور وہ حسن اور سچائی کے مفہوم کو پا گیا۔ ازابیلا جونز کی محبت کیٹس کے نزدیک شاید جسمانی محبت تھی۔ فینی اس کیلئے روحانی بلندیوں کو چھونے کا سبب بنی۔کیٹس کو اپنے بھائی ٹام کی تیماداری میں ایک عرصہ گزارنا پڑا۔ ٹام ٹی بی کا مریض تھا۔ چھوت چھات کی یہ بیماری کیٹس کو بھی لگ گئی۔ بھائی مر گیا، مگر وہ جاتے جاتے یہ موت کیٹس کی جھولی میں ڈال گیا۔ کیٹس دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح کا عادی تھا۔ 1818ء میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ گیا۔ کچھ عرصہ (Well Walk) کے علاقے میں ٹھہرا۔ پھرتے پھراتے سب دوست جولائی کے مہینے میں (Mull) کے جزیروں میں پہنچے۔ وہاں سے واپس آیا تو۔ ٹی بی کی بیماری اسے اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔فینی سے عشق کیا اور لازوال عشقیہ خطوط لکھے۔ لازوال شاعری کی۔ اس کی شاعری اس کی محبت ہے اور محبت اس کی شاعری۔ کائنات کی جس چیز پر بھی نظر ڈالی اس میں سچی محبت شامل کر کے اسے لازوال بنا دیا۔ اس کی لکھی ہوئی نظمیں اس کا ثبوت ہیں۔ اس کا دوست(Brown) اس کی نظم Ode to a Nighting کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:’’1819ء میں میرے گھر کے قریب ایک کوئل نے درخت پر گھونسلا بنا لیا تھا۔ کیٹس کو اس کی آواز میں ایک درد اور کشش نظر آئی۔ وہ صبح ناشتے کے بعد میز کرسی بچھا کر درخت کے نیچے بیٹھ جاتا۔ جب کمرے میں واپس آتا تو کاغذوں پر اشعار کا ایک ہجوم ہوتا تھا۔ یہ نظم اسی عمل کے بعد مکمل ہوئی‘‘۔کیٹس کے خطوط کو انگریزی رومانوی نثر میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کی رائے میں یہ اعلیٰ پائے کے رومانوی خطوط ہیں۔ کیٹس کے یہ خطوط اس کی ذاتی رومانوی زندگی، شاعری کی اہمیت اور شاعری کے بارے میں اس کے خیالات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ کیٹس ایک بیمار آدمی تھا۔ ایک ایسا بیمار آدمی جسے بیماری آہستہ آہستہ ہاتھ پکڑ کر موت کی طرف دھکیل رہی تھی۔ کیٹس اس سے آگاہ تھا اور وہ جاتے جاتے اپنی محبوبہ، رشتہ داروں اور دوستوں سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ سب کچھ ان خطوط میں کہنے کی کوشش کی ہے۔کیٹس کی مختصر زندگی دُکھ درد، مصیبت آلام اور بیماری سے لبالب ہوئی تھی۔ 8 سال کی عمر میں باپ مرا، 14 سال کی عمر میں ماں مر گئی۔ پھر بھائی فوٹ ہو گیا۔ بیمار بھائی کی تیمارداری کے صلے میں بیماری ملی جو اس کیلئے جان لیوا ثابت ہوئی اور پھر فینی کے عشق کا عذاب۔ بس کیٹس میر تقی میر کی طرح ساری زندگی دُکھ درد سمیٹتا رہا اور انہیں گیتوں کی شکل دیتا رہا۔٭…٭…٭