کوٹلی ستیاں

اسپیشل فیچر
ضلع راولپنڈی کا قصبہ اور ایک تحصیل ، راولپنڈی سے 55کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پہلے یہ قصبہ مری میں شامل تھا۔ بعد ازاں الگ تحصیل کا درجہ حاصل ہوا۔ یہ علاقہ گکھڑوں کی ملکیت تھا اور یہاں گکھڑ سردار کا بنگلہ تھا، جسے کوٹلی کہا جاتا تھا۔ انگریزی عہد تک اس کا سرکاری نام کوٹلی مشہور رہا،مگر بعد میں یہاں آباد ستّی قبیلے کی نسبت سے یہ کوٹلی ستیاں معروف ہو گیا۔ ستّی قبیلے کے بارے میں روایت ہے کہ یہ اپنا سلسلۂ نسب ایران کے ایک ممتاز شخص برلاس سے ملاتے ہیں۔ قدیم وقتوں میں ایک ایرانی قافلہ اپنے سالار شاہ عالم کی قیادت میں جانب دہلی رواں تھا کہ مری اور کہوٹہ کے وسط میں خوبصورت پہاڑ ’’نڑھ‘‘ کے دامن میں ’’تھون‘‘ کے مقام پر ڈاکوئوں کا اس گروہ سے آمنا سامنا ہوا۔ کئی مسافر ہلاک ہوئے اور باقیوں کو لوٹ لیا گیا۔اسی دوران شاہ عالم کی بیوی جان بچا کر قریبی بستی ’’تھون‘‘ کے ایک برہمن خاندان کے گھر پہنچ گئی، جہاں اُس نے بچے کو جنم دیا۔ اس کا نام ستّی رکھا گیا، جس کے معنی فولاد ہوتا ہے۔ اس کی شادی کیٹھوال قبیلے میں ہوئی۔ اسی کی اولادیں تحصیل مری اور کہوٹہ میں پھیل گئیں۔ کوٹلی ستیاں بھی ان کا ایک مرکزی مقام ہے۔انگریزی عہد میں یہاں تھانہ اور پوسٹ آفس قائم ہوئے۔ یہاں کا تھانہ1884ء میں قائم ہواتھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد طب و صحت کی سہولتیں بھی بہم پہنچائی گئیں۔1992ء میں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ یہاں تحصیل سطح کے دفاتر، ہسپتال، طلباوطالبات کے کالج، ہائی سکول وغیرہ قائم ہیں۔ دھرنیاں، بُرج محلہ، ملوٹ ستیاں، بدھنیاں سانٹھ، ہنوالی، بلاوڑہ، پھن، پھونڈی، کرل، بھرات، کہوٹی اور لترار یہاں کے رہائشی محلے جبکہ مین بازار تجارتی مرکز ہے۔ یہاں بابا فدا حسین شاہ نامی بزرگ کا مزار بھی ہے۔ نیلور کا ایٹمی تحقیقات کا ادارہ اس کے قریب واقع ہے۔( اعزاز فضیلت پانے والے لکھاری اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭