دینہ
اسپیشل فیچر
ضلع جہلم کا معروف قصبہ اور تحصیل جہلم شہر سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ دینہ شہر کئی تہذیبوں کا امین ہے۔ یہ پنجاب اور آزاد کشمیر کے درمیان ایک دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم زمانے میں گکھڑوں کی جولانگاہ تھا۔ روہتاس کے چودہ تپوں میں ایک تپ کا یہ بھی بازو رہا ہے۔ قلعہ روہتاس یہاں سے ۷کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ عوامی روایت اسے سلطان محمود غزنوی کے دَور کی آبادی قرار دیتی ہے۔ بابا دین محمد عرف دینہ ، محمود غزنوی کے لشکر کے ایک سپاہی تھے اور دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ یہ قصبہ انہی کے نام سے منسوب ہے۔ ان کا مزار جی ٹی روڈ کے ساتھ محلہ ڈومیلی میں واقع ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت پیر شاہ غازی قلندر المعروف دمڑی والی سرکار کے خلیفہ دین محمد اس قصبہ کے بانی ہیں۔دینہ کے اولین آباد کاروں میں برّہ گوجروں کا نام نمایاں ہے۔ تقسیم سے قبل یہاں ہندو بھی آباد تھے جن کے قدیم مکانات آج بھی مختلف مقامات پر نظر آتے ہیں۔ دینہ کے مشہور محلے، محلہ شیخاں، محلہ معصوم شاہ، محلہ کوثر آباد، میانہ محلہ، ڈومیلی محلہ، کیانی سٹریٹ، نور محلہ ، محلہ لعل شاہ ، اسلام پورہ، قائد اعظم کالونی، بڈالی سیّداں، اور محلہ تاجپوری وغیرہ ہیں۔ دینہ غلہ اور سبزی کی مشہور منڈی ہے اور تحصیل جہلم کا ایک تجارتی مقام ہے۔ یہاں کے باشندے تجارتی ذہن رکھتے ہیں۔ ایوبی دور میں اسے یونین کونسل اور1977ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔یہاں کا تھانہ 1883ء سے پہلے کا قائم شدہ ہے۔ اس کی اولین عمارت 1895ء میں تعمیر کی گئی۔ اسے ضلع جہلم کی تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔ شہر کو دو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں کا ڈاکخانہ، ریلوے اسٹیشن اور ٹیلیگراف آفس بھی انگریزی عہد میں قائم ہوئے۔آزاد کشمیر کے شہر میرپور کو یہاں سے سڑک جاتی ہے۔ منگلہ ڈیم دینہ کے شمال میں قریباً 15کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ ہندوئوں کا مشہور تیرتھ کوئہ بالناتھ ٹلہ جوگیاں35کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہاں طلبا و طالبات کے کالج، تحصیل سطح کے دفاتر ، متعدد سرکاری و پرائیویٹ سکول اور ہسپتال موجود ہیں۔ طلبا و طالبات کے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکولوں کے علاوہ ایک ہائی سکول میانہ محل میں بھی ہے۔ یہاں ایک بزرگ چھاپاں والی سرکار کا مزار بھی ہے۔یہاں زیادہ تر مرزا، گکھڑ، سادات، مغل، گجر، جاٹ، کشمیری بٹ، اعوان، بلوچ، بھٹی، چوہان، جنجوعہ اور راجپوت اقوام کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں آئرن اور ماربل انڈسٹری بھی ہے جبکہ لکڑی کی مقامی صنعت بھی ہے۔ادبی اعتبار سے عبدالقادر قادری، طاہر جہلمی اور جاوید اختر بیدی مرحوم، مرزا خالد مرحوم یہاں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ موجودہ دور میں امین البشیر شیخ، اکرم میرپوری، ساگر احمد، طاہر کیانی، ضمیر جہلمی، شاہین شفق ربانی، سیّد منظر عباس، فارس خیال، وشال اسد، امین شیخ، شہزاد قمر، ارشد علی اور صدیق سورج نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ صدیق سورج شاعر، مترجم، نقاد اور ادیب ہیں۔ ارشد علی کی کتب منظر مجھ پر نکلتا ہے ، قافلہ سفر میں ہے اور آثارالصنادید (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) شائع ہوئیں جبکہ شہزاد قمر کا شعری مجموعہ ’’آنکھوں کے خیموں میں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ساگر احمد کا مجموعہ کلام ’’کوزہ گری‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔دینہ کی آبادی1981ء کی مردم شماری کے مطابق23670 جبکہ1998ء کی مردم شماری کے مطابق138790افراد پر مشتمل تھی۔اس کی موجودہ آبادی 48ہزار کے لگ بھگ ہے۔(اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)