بیٹی … سراپا رحمت
اسپیشل فیچر
اللہ تعالی نے انسانوں کو پیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ انہی انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’اولاد‘‘ ہے ۔ بیٹے اور بیٹیاں گھروں کی رونق ہوتے ہیں۔ بیٹیاں گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہیں جو گھر کو اپنی خوشبو سے معطر رکھتی ہیں۔سمجھدار والدین بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی پرورش احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں جبکہ بد قسمتی سے کچھ لوگ اس عظیم تحفہِ خداوندی کی قدر نہیں کرتے۔ اگر ہم دورِ حاضر کا موازنہ پرانے زمانے سے کریں تو عیاں ہو گا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹی کی پیدائش پر سوگ مناتے تھے۔ وہ بیٹیوں کو اس قدر نیچ سمجھتے تھے کہ اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ شرم کے مارے منہ چھپاتا پھرتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ کچھ ظالم تو بیٹی کا باپ کہلوانے کے خوف سے اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔دورِ جاہلیت میں والدین کا رویہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ نا مناسب تھا مگر دورِ حاضر میں بھی جہاں ہم دن بدن ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، لوگوں کی سوچ کو مکمل طور بدلا نہیں گیا۔ آج بھی بہت سے لوگ بیٹی کی آمد کو ناخوشگوار سمجھتے ہیں بلکہ بیٹی کی پیدائش پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں اور بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ بیٹی کی پیدائش پر ماں کو لعن طعن سننے کو بھی ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اپنے بیٹوں کی کثرت پر ناز کرتے ہیں، انہیں خوف خدا کرنا چاہیے، غرور و تکبر کرنے کی بجائے اس ذات کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے انہیں اس نعمت سے نوازا۔ کیونکہ بیٹا یا بیٹی کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی دین ہے، کسی بندے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں، وہ جسے چاہے بیٹے کی دولت سے مالا مال کرے اور جسے چاہے بیٹی جیسا انمول تحفہ بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے جو امر و ثواب لڑکیوں کی پر ورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر رکھا ہے وہ لڑکوں کی پرورش پر نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کی پرورش میں انسان کی خود مرضی شامل ہوتی ہے کہ بڑھاپے میں یہ میرا سہارا بنے گا جبکہ بچیوں کی پرورش خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اور جنت کا ذریعہ سمجھ کر کی جاتی ہے۔دین اسلام نے ’’بیٹی‘‘ کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کی اعلیٰ پرورش کے سبب جنت کی ضمانت دی ہے۔حضورِ اکرمﷺ کا فرمان ہے: (مفہوم)جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتے بھیجتے ہیں جو کہتے ہیں، اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو پھر اس بچی کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں صعیف ہو صعیف سے پیدا ہوتی ہو، قیامت تک اس کے کفیل کی مدد کی جائے گی۔غرضیکہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹی کی اچھی پرورش دوزخ سے نجات اور جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور والدین کی بخشش کا سامان ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دینِ اسلام نے بیٹی کو باعثِ فخر قرار دیا ہے تو پھر والدین بیٹوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں روا رکھتے ہیں؟ بیٹی ہو یا بیٹا ہر مرحلے پر ان کے ساتھ مساوی سلوک برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لڑکے تو باہر گھوم پھر کر اور کھیل کود کر اپنا جی بہلا لیتے ہیں مگر لڑکیاں جو گھر کی رونق ہوتی ہیں گھر میں ہی رہتی ہیں اس لیے تعلیم و تفریح کے سلسلے میں برابری کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں لڑکوں سے بھی زیادہ ترجیح دی جائے تا کہ وہ گھر کے خوشگوار ماحول میں ذہنی اور جسمانی نشوونما میں بیٹوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔مختصراً یہ کہ صحت مند ماں صحت مند معاشرے کو جنم دے سکتی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے جب ہم اپنی بیٹیوں کو زحمت سمجھیں، ان کی آمد پر ان کا خوش دلی سے استقبال کریں اور زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی رہنمائی کریں، ان کی بات سنیں اور رائے کو اہمیت دیں۔ کیونکہ آج کی بیٹی کل کی ماں بنے گی لہٰذا بیٹیوں کی اعلیٰ پرورش کریں کیونکہ اسی تعلیم و تربیت کی بدولت یہ معاشرے میں مثبت تبدلی لا سکتی ہیں۔آپ اپنی بیٹی کو بیٹا کہہ کر بھی پکار سکتے ہیں مگر اپنے بیٹے کو کبھی بیٹی کہہ کر نہیں پکار سکتے ہیں کیونکہ بیٹی میں بیٹے والے تمام گُر ہوتے ہیں جبکہ بیٹے میں بیٹی جیسا خلوص اور محبت نہیں ہوتا۔خدارا! بیٹیوں کی قدر کیجیے، انہیں حقیر مت سمجھیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں، انہیں زحمت نہ خیال کریں۔