انیس ناگی :ایک ادھوری سرگذشت خاکہ
اسپیشل فیچر
اجنبی دیس میںاپنی پہچان کی لاش اٹھائےمسافر جو آئےانہیں دیکھ کرلوگ بے ساختہ مسکرائےاپنی سرنوشت بیان کرتے ہوئے انیس ناگی نے سماجی اجنبیت اور ذاتی تضحیک کو بڑی دردمندی کے ساتھ اپنی ذات میں سمیٹ لیا ۔ یہ سرگذشت دوستوفسکی کے فادر کا مپلکس کی ایک ایسی تصویر ہے، جس کے بیشتر حصے میں انیس ناگی کی والدہ نے لاتعلقی اور ’’وجودِ غیر‘‘ کے مدہم رنگ بھرے ہیں، قربانی والے اسماعیل اور تثلیت کی میڈونا کے عکس و معکوس کے عقب میں اسماعیل کی ماں اور کنواری مریم کے باپ کی وہ تکالیف چھپی ہوئی ہیں جو خاندانی شکست و ریخت کی گرہ دار جکڑ بندیوں کے جبر کی کہانی کہتی ہیں۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران پروان چڑھنے والے مسلمانوں کی وہ نسل، جسے ہندوستان میں تقسیم کے عمل سے بھی گزرنا پڑا ہے، کسی ذہنی اور فکری موڑ پر ٹھٹھک کر رک گئی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے، جیسے اس کے بیشتر جذبات، احساسات، امیدیں اور ناکامیاں سرخ بتی کے سگنل کا انتظار کرتے کرتے ہر طرح کی روشنی کے بلاوے سے بے نیاز ہو گئی ہیں۔یہاں مسائل ہیں مذہبیت کی یک رخی ترجیحات کے، پدرم سلطان بود کی احمقانہ کہانیوں کے، بنتے اور بگڑتے معاشی اور معاشرتی رشتوں کے، سست الوجود بزرگوں کی باہمی رقابتوں کے اور کچھ مقامات پر دہری شادیوں یا خاندانی نظام سے بھاگ کر بظاہری رہبانیت کی سیدھی ،لیکن اکھڑی ہوئی روش پر بادل نخواستہ سفر طے کرنے کے، یہ پوری نسل عجب طرح کی جانگدازی، خود سپردگی، سماجی چالاکی، ذاتی تضحیک، خود غرضی اور انفرادی رعونت کے جرثومے کی زد میں ہے، جس سے ایک ساختہ ایمانداری اور اصول پرستی کا مرض جنم لیتا ہے اور پھر اردگرد کے لوگ پوچھا کرتے ہیں ’’آپ کی قوت کار کو ایمانداری کا گھن لگ گیا ہے۔ آپ کب اس یک رخی اصول پرستی پر کیڑے مار دوائی کے باقاعدہ استعمال کی طرف راغب ہوں گے؟ یقین مانیے سزا جزا کا فیشن پرانا ہو چکا، شرافت کمزور لوگوں کا ایک دائمی نقاب ہے اسے چہرے سے اتارئیے تاکہ کامیابی آپ کے قدم چومے۔‘‘ناگی کی کہانی کا فریم فرک اسی کش مکش کی اسیری سے تیار ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے ہماری نسل معجزے اور اندیشے کے نفسیاتی وسوسے سے نجات پائے، اسے بزرگوں کے بوسیدہ پیراہن اور چڑیلوں کے بسیرے والے ان مکانوں سے نجات ملے جو نیند اور خواب کے وقفے کے دوران جل کر راکھ ہو جایا کرتے ہیں، ناگی بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ پیراہن کی بوسیدگی کا، وائرس، آخر کار فکر کے، اندرس، کو بھی نقصان ہی پہنچایا کرتا ہے اور چڑیلوں کی کہانیاں انسانی فنٹیسی کا اعتبار چھین کر ڈرائونے خوابوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں۔ اس فضائے دہشت میں زندگی بسر کرنے والے انسان بذات خود آسیب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ان کی مستقل خاموشی ہنستے بستے گھروں میں بے دلی اور بے چارگی کی فصل بو دیتی ہے۔کوئی فکر کی اوڑھنی اوڑھ کر بیٹھے یا ذکر کی تسبیح گھمائے، جنگل بیلوں میں گھومے یا شہروں کی خاک چھانے، سمندروں کے کھارے پانی اور اس کی کڑواہٹ کا تجربہ کرے یا ایک ہی گھاٹ پر بیٹھا بیٹھا زندگی کے دن پورے کرے اس کے لیے بنیادی موسم کبھی تبدیل نہیں ہوتا، تنہائی اور توجہ طلبی کی دہری اذیت اس کی بدمزہ زندگی میں مصالحت کے مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن کوئی تعلق ہوائے تازہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس ادھوری کہانی کے عقب میں بے یقین اور روندے ہوئے چہرے اپنی بے مایہ زندگیوں کی نقاب کشائی میں مصروف رہتے ہیں، عورتیں ہوں تو وہ ظاہرسپردہ کاری کی کامل تصویر بن کر شوہر کو بھگوان کا درجہ دیتی اور اپنے آپ کو اس کی زندگی سے منہا کر لیتی ہیں یا دوسری صورت میں جائے نماز ان کی جائے امان ہے اور وہ اندر ہی اندر کسی صاحب کشف و کرامات کے ورد کی منتظر ہیں، جو ایک دن آئے گا اور انہیں بے تعلقی کے اس گناہ سے نجات دلا کر مقام برزخ تک پہنچا دے گا۔ مرد ہوں تو انہیں وفا کی پتلیوں اور جھگڑالو گرہستنوں سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ وہ کھوئی ہوئی ایلس کی تلاش میں ہیں۔ اسی تلاش کا وسوسہ آخر کار انہیں کسی سبز پری کی زہرنا کی میں مبتلا کرتا ہے اور وہ انجام کار کہیں سے بھی تھوکی ہوئی زندگی اٹھا کر اُسے حرز ِجاں بنا لیتے ہیں۔ ہندوستان کے بالا خانے ایک عرصے تک ہمارے مشرقی مردوں کی زندگی میں اسی ’’ونڈرلینڈ‘‘ کا نظارہ پیش کرتے رہے ہیں۔ ناگی کی سرگزشت کا متشدد اور اصول پسند باپ تیسرے راستے کا مسافر ہے، جسے ناگی ’’سلسلۂ وہاب‘‘ کہتا ہے چونکہ وہ خدا کے بعد صرف اپنی موجودگی پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے خود بھی چھوٹا موٹا خدا ہی ہے، جس کی خدائی کی آماجگاہ اس کا گھر ہے اور اہل خانہ وہ بندگان عاجز ہیں جنہیں ہر حال میں اس کے وضع کردہ قوانین کی پاسداری کرنی ہے۔ اگرچہ ناگی نے لکھا ہے:’’یہ میرا تجربہ ہے کہ انسان کے بارے میں انسان کو کبھی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘لیکن اس کی سرگزشت اسی خوش فہمی کے ادعا کی کہانی ہے کیونکہ اس کے پیچھے توجہ طلبی کا وہی طلسم ہوش ربا چھپا بیٹھا ہے جس کا اسم ناگی کے والد اور ماں فراموش کر بیٹھے۔فرمانبرداری کی اس جارحانہ خواہش نے ناگی کی سرگزشت کے سب کرداروں کو جزوی طور پر انکار اور تضحیک کے راستوں پر چلانے کی کوشش کی ہے۔ خود ناگی کے ہاں مرعوب کر لینے کی یہ خوش خیالی اس کے نسائی کرداروں میں تنافر اور بے یقینی پیدا کرنے کا باعث بنی ہے کیونکہ وہ اپنے نیک والد کی طرح ہر طرح کی بے نیازی کے باوجود نقصان میں نہیں رہنا چاہتا۔اس کے بچپن کی اُستانی وہ ’ڈی لائیلا‘ ہے جس نے سیمسن کے بالوں کی توانائی کا راز پا لیا ہے، مگر ا س اولین محبت کا اعتراف ایک شعوری اور سودمند تجاہل کی انوکھی مثالی ہے۔ ناگی نے لکھا ہے ’’میں نے اس عورت کے بارے میں ایک دو دن سوچا ،لیکن پھر اپنے آپ سے کہا :میری اور اس کی عمر میں کافی فر ق ہے اور میں اس وقت جس سیاق و سباق میں زندگی بسر کر رہا ہوں، ا س میں اس کی کوئی معنویت نہیں، میں نے اپنی یادِ رفتہ کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ۔’’جب ایک دن میں نے اپنے آپ سے بحث کی،تو میںنے محسوس کیا کہ میری زندگی میں عورت کی کمی ہے اور اس کی خواہش نے میرے اندر ایک نراج پیدا کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معاشرے میں ایسی عورت نہیں مل سکتی تھی، جس کا تصور میرے ذہن میں تھا چنانچہ میں اس خواہش سے پیچھے ہٹنے لگا اور اپنے آپ کو اس طرح مصروف رکھتا، جیسے اس خواہش کا وجود ہی نہیں ۔‘‘ناگی کے تصور کی عورت وہ وجودِ غیر ہے، جو اثبات کے اُس درجے پر ہے، جو صرف بے جان اشیاء ہی کو حاصل ہوتا ہے کیونکہ کرسی، میز، سٹول، پنکھا اور اسی قسم کی دوسری اشیاء اختلاف کے عمل سے یکسر عاری ہوتی ہیں۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ عورت ذات کے ساتھ میرا تعلق اتنا زیادہ شخصی نہیں رہا ہے۔( ’’بُک شیلف‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭